Afraheem
Senator (1k+ posts)
لالٹین
ایک قصہ مگر سبق آموز
ایک رات میں نے لالٹین سے پوچھا:کیوں بی! تم کو رات بھر جلنے سے کچھ تکلیف تو نہیں ہوتی؟
...
بولی:آپ کا خطاب کس سے ہے؟بتی سے ، تیل سے ، ٹین کی ڈبیہ سے ، کانچ کی چمنی سے یا پیتل کے اس تار سے
جس کو ہاتھ میں لے کر لالٹین کو لٹکائے پھرتے ہیں۔ میں تو بہت سے اجزاء کا مجموعہ ہوں۔
لالٹین کے اس جواب سے دل پر ایک چوٹ لگی ۔ یہ میری بھول تھی۔ اگر میں اپنے وجود کی لالٹین پر غور کرلیتا تو
ٹین اور کانچ کے پنجرے سے یہ سوال نہ کرتا۔
میں حیران ہوگیا کہ اگر لالٹین کے کسی جزو کو لالٹین کہوں تو یہ درست نہ ہوگا اور اگر تمام اجزاء کو ملا کر لالٹین
کہوں تب بھی موزوں نہ ٹھہرے گا، کیونکہ لالٹین کا دم روشنی سے ہے۔ روشنی نہ ہو تو اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔
مگر دن کے وقت جب لالٹین روشن نہیں ہوتی ، اس وقت بھی اس کا نام لالٹین ہی رہتا ہے۔ تو پھر کس کو لالٹین کہوں۔
جب میری سمجھ میں کچھ نہ آیا ، تو مجبورا لالٹین ہی سے پوچھا:
میں خاکی انسان نہیں جانتا کہ تیرے کس جزو کو مخاطب کروں اور کس کو لالٹین سمجھوں۔
یہ سن کر لالٹین کی روشنی لرزی ، ہلی، کپکپائی۔
گویا وہ میری ناآشنائی و نادانی پر بےاختیار کھلکھلا کر ہنسی اور کہا:
اے ، آدم زاد ! سن، لالٹین اس روشنی کا نام ہء جو بتی کے سر پر رات بھر آرا چلایا کرتی ہے۔ لالٹین اس شعلے کو
کہتے ہیں جس کی خوراک تیل ہے اور جو اپنے دشمن تاریکی سے تمام شب لڑتا بھڑتا رہتا ہے۔ دن کے وقت اگرچہ یہ
روشنی موجود نہیں ہوتی لیکن کانچ اور ٹین کا پنجرہ رات بھر ، اس کی ہم نشینی کے سبب لالٹین کہلانے لگتا ہے ۔
تیرے اندر بھی ایک روشنی ہے۔ اگر تو اس کی قدر جانے اور اس کو پہچانے تو سب لوگ تجھ کو روشنی کہنے لگیں
گے ، خاک کا پتلا کوئی نہیں کہے گا۔
دیکھو ،خدا اسلاف کو جو اپنے پروودگار کی نزدیکی و قربت کی خواہش میں تمام رات کھڑے کھڑے گزار دیتے تھے،
تو پہلے چمنی صاف کر۔ یعنی لباسِ ظاہری کو گندگی اور نجاست سے آلودہ نہ ہونے دے۔ اس کے بعد ڈبیا میں صاف تیل
بھر۔ یعنی حلال کی روزی کھا، اور پھر دوسرے کے گھر کے اندھیرے کے لئے اپنی ہستی کو جلا جلا کر مٹا دے۔ اس
وقت تو بھی قندیلِ حقیقت اور فانوسِ ربانی بن جائے گا۔
آمین

ایک قصہ مگر سبق آموز
ایک رات میں نے لالٹین سے پوچھا:کیوں بی! تم کو رات بھر جلنے سے کچھ تکلیف تو نہیں ہوتی؟
...
بولی:آپ کا خطاب کس سے ہے؟بتی سے ، تیل سے ، ٹین کی ڈبیہ سے ، کانچ کی چمنی سے یا پیتل کے اس تار سے
جس کو ہاتھ میں لے کر لالٹین کو لٹکائے پھرتے ہیں۔ میں تو بہت سے اجزاء کا مجموعہ ہوں۔
لالٹین کے اس جواب سے دل پر ایک چوٹ لگی ۔ یہ میری بھول تھی۔ اگر میں اپنے وجود کی لالٹین پر غور کرلیتا تو
ٹین اور کانچ کے پنجرے سے یہ سوال نہ کرتا۔
میں حیران ہوگیا کہ اگر لالٹین کے کسی جزو کو لالٹین کہوں تو یہ درست نہ ہوگا اور اگر تمام اجزاء کو ملا کر لالٹین
کہوں تب بھی موزوں نہ ٹھہرے گا، کیونکہ لالٹین کا دم روشنی سے ہے۔ روشنی نہ ہو تو اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔
مگر دن کے وقت جب لالٹین روشن نہیں ہوتی ، اس وقت بھی اس کا نام لالٹین ہی رہتا ہے۔ تو پھر کس کو لالٹین کہوں۔
جب میری سمجھ میں کچھ نہ آیا ، تو مجبورا لالٹین ہی سے پوچھا:
میں خاکی انسان نہیں جانتا کہ تیرے کس جزو کو مخاطب کروں اور کس کو لالٹین سمجھوں۔
یہ سن کر لالٹین کی روشنی لرزی ، ہلی، کپکپائی۔
گویا وہ میری ناآشنائی و نادانی پر بےاختیار کھلکھلا کر ہنسی اور کہا:
اے ، آدم زاد ! سن، لالٹین اس روشنی کا نام ہء جو بتی کے سر پر رات بھر آرا چلایا کرتی ہے۔ لالٹین اس شعلے کو
کہتے ہیں جس کی خوراک تیل ہے اور جو اپنے دشمن تاریکی سے تمام شب لڑتا بھڑتا رہتا ہے۔ دن کے وقت اگرچہ یہ
روشنی موجود نہیں ہوتی لیکن کانچ اور ٹین کا پنجرہ رات بھر ، اس کی ہم نشینی کے سبب لالٹین کہلانے لگتا ہے ۔
تیرے اندر بھی ایک روشنی ہے۔ اگر تو اس کی قدر جانے اور اس کو پہچانے تو سب لوگ تجھ کو روشنی کہنے لگیں
گے ، خاک کا پتلا کوئی نہیں کہے گا۔
دیکھو ،خدا اسلاف کو جو اپنے پروودگار کی نزدیکی و قربت کی خواہش میں تمام رات کھڑے کھڑے گزار دیتے تھے،
تو پہلے چمنی صاف کر۔ یعنی لباسِ ظاہری کو گندگی اور نجاست سے آلودہ نہ ہونے دے۔ اس کے بعد ڈبیا میں صاف تیل
بھر۔ یعنی حلال کی روزی کھا، اور پھر دوسرے کے گھر کے اندھیرے کے لئے اپنی ہستی کو جلا جلا کر مٹا دے۔ اس
وقت تو بھی قندیلِ حقیقت اور فانوسِ ربانی بن جائے گا۔
آمین
Last edited by a moderator: