قہقہے لگائے اور کوئی جج آنکھ اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھ بھی نہ سکے؟عرفان صدیق

battery low

Minister (2k+ posts)
8 فروری کے انتخابات سے حیاتِ نو پانے اور 9 مئی کی حدّت بڑی حد تک کم ہوجانے کے باوجود پی۔ٹی۔آئی کو خاصا مشکل لگ رہا تھا کہ وہ اپنے بانی چیئرمین کو اڈیالہ جیل سے باہر کس طرح لائے جن کے مقدمات کے فیصلے بس چند قدم کی دوری پر تھے۔ اس کیلئے ضروری تھا کہ عدلیہ کو بے چہرہ کردینے اور قانون وانصاف کی پوشاک پر سیاہی تھوپنے کا کوئی موقع ہاتھ آ جائے۔ جانے یہ پی۔ٹی۔آئی کی آرزو کا کرشمہ تھا یا کسی ساحر کی معجزہ کاری، عین اُنہی دنوں، جب رمضان المبارک کا عشرۂِ مغفرت شروع ہوچکا تھا، آمدِ بہار کی ایک سہانی صبح، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ معزز جج صاحبان کے دِلوں میں دَرد کی ایک کسک جاگی اور اُن پر منکشف ہوا کہ انتظامیہ اور ایک ایجنسی، مطلوب فیصلوں کے لئے دبائو ڈال رہی ہیں۔

ان جج صاحبان میں سے ہر ایک کی عمر لگ بھگ پچاس برس سے زائد تھی۔ سب نے قواعد کے مطابق کم ازکم دَس برس اعلیٰ عدالتوں میں وکالت کی تھی۔ سب برسوں سے انصاف کی مسندوں پر تشریف فرما تھے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ کسی ایک کو بھی ماضی میں اِس طرح کے دبائو سے پالا نہیں پڑا تھا۔ یہاں تک کہ شوکت عزیز صدیقی کو دَشتِ بے نوا میں دھکیل کر، جنرل فیض حمید کی ’’دوسالہ محنت‘‘ کو عمدگی سے پایۂِ تکمیل تک پہنچانے کا اقدام بھی ان کا رضاکارانہ اور عادلانہ فیصلہ تھا۔ منظر کچھ ایسا تھا جیسے وہ ابھی ابھی عرشِ معلّٰی کے نواح میں واقع، مقرّب فرشتوں کی بارگاۂِ خاص سے کرۂِ ارضی پہ اُترے ہوں۔ سب کی عبائوں سے ابھی تک فرشتوں کے پَروں کی خوشبو آ رہی تھی۔ سو ہر ایک نے ہر دوسرے کو حیرت سے دیکھا اور کہا ۔’’مجھے کچھ معلوم نہیں کہ یہ دبائو کیا ہوتا ہے اور اگر پڑے تو کیا کرنا چاہیے؟

اجتماعی فیصلہ ہوا کہ اپنے بڑوں کو خط لکھ کر پوچھتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ سرحد پہ کھڑا ایک نیم خواندہ سپاہی بھی جانتا ہے کہ کوئی قدم اُس کی مقدس سرزمین پر پڑے تو کیا کرنا ہے؟ وہ مورچہ چھوڑ کر دوڑتا ہوا اپنے ’او۔سی‘ کے پاس نہیں جاتا کہ اب میں کیا کروں؟ وہ غنیم کا سینہ چھلنی کردیتا یا خود شہید ہوجاتا ہے۔ چھ جج صاحبان کے سامنے بھی دو تازہ مثالیں موجود تھیں۔ قاضی فائز عیسٰی نے عدلیہ کی آزادی کی خاطر کمال بہادری سے گروہِ دشمناں کا مقابلہ کیا اور اس کا سینہ چھلنی کردیا۔ شوکت عزیز مردانگی سے لڑتا ہوا شہید ہوگیا۔ لیکن عالی مرتبت چھ نے غنیم کو للکارنے کے بجائے بذریعہ خط رہنمائی لینا زیادہ مناسب خیال کیا۔ یہ خط، عدلیہ پر دبائو کے حوالے سے پی۔ٹی۔آئی کے بیانیے کے حق میں نہایت معتبر ’’بیان حلفی‘‘ کا درجہ اختیار کرگیا۔ شناسائی کی بات کُوبہ کُو پھیلتی چلی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے، سائفر ہی کی طرح اس نامۂِ دِلبراں سے کھیلتے ہوئے تحریکِ انصاف نے سماں باندھ دیا۔ وہ ہمیشہ مقدمات کی حقیقت یا ’میرٹ‘ کو ایک طرف رکھتے ہوئے، جلسوں، جلوسوں، دھرنوں، لانگ مارچوں، وکلاء کی موشگافیوں اور سوشل میڈیا کی کرتب کاریوں سے کام لیتی ہے۔ اسی ہُنر کے سبب وہ سپریم کورٹ کی طرف سے لایعنی اور بے معنی قرار دی گئی پٹیشن کو مقدس صحیفہ بنا کر سرِ میزانِ عدل لے آئی تھی اور سہولت کاروں کی مدد سے پانامہ سے اقامہ کشید کرلیا تھا۔ پی۔ٹی۔آئی کے اس ہُنر کی کرشمہ سامانیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔

کوئی ہے اس وطن عزیز میں جسے پیشی کے لئے عدالت بلائے اور وہ ہزاروں کا جتھہ لئے، سڑک پر کھڑی گاڑی سے نہ اترے اور عدالت خود پیشی بھرنے اس کی خدمت میں حاضر ہوجائے؟ کوئی ہے جو ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہو، اس کے لئے سرشام سب سے بڑی عدالت آراستہ ہو، کہا جائے اُسے مرسڈیز گاڑی میں لائو، ’’گُڈ ٹو سی یو‘‘ کہہ کر اُس کا استقبال کیاجائے، ایک پُرتعیش بنگلہ اس کے لئے مخصوص کردیاجائے اور صدر مملکت انواع واقسام کے کھانوں کے طشت اٹھائے اُس کے ہاں حاضری دیں؟کوئی ہے جو پی۔ٹی۔وی کی رگِ جاں دبوچ کراُسے خاموش کردے لیکن قانون وانصاف کو جھرجھری تک نہ آئے؟ کوئی ہے جو اشتہاری مفرور ہوتے ہوئے کورٹ روم نمبر ایک کی صف اوّل میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے، قہقہے لگائے اور کوئی جج آنکھ اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھ بھی نہ سکے؟ کوئی ہے جسے ایک حرفِ ’’کُن‘‘ کے ذریعے بیسیوں ضمانتیں مل جائیں اور یہ فرمان بھی جاری ہوجائے کہ آئندہ دَس دِن میں یہ جو کچھ بھی کرے، اسے اُس مقدمے میں بھی ضمانت پر سمجھا جائے؟

کوئی ہے جرم وانصاف کی پوری تاریخ میں جو سزا یافتہ قیدی ہو اور جیل انتظامیہ کیساتھ، مساوی حیثیت میں مفاہمت کی یاد داشت پر دستخط کرے؟ کوئی ہے جسے جیل میں لامحدود سہولتیں اور مراعات حاصل ہوں؟ یہ سب کچھ کسی اصول، قاعدے یا قانون کے تحت نہیں، پی۔ٹی۔آئی کی خوئے فتنہ وفساد اور عدلیہ پر ہمہ پہلو دبائو کا نتیجہ ہے۔ چھ جج صاحبان کے خط نے پی۔ٹی۔آئی کو اپنے بانی چیئرمین کے قریب الفیصل مقدمات کے حوالے سے عدلیہ پر دبائو ڈالنے کا سنہری موقع فراہم کردیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ کے دو اجلاس بلائے۔ خط لکھنے والے ججوں کو ایک ایک کرکے بلایا۔ اُن کا موقف سنا۔ وزیراعظم سے مشاورت کی۔ طے پایا کہ جامع تحقیقات کا کام انتہائی نیک نام اور روشن کردارسابق چیف جسٹس، تصدق حسین جیلانی کو سونپ دیا جائے۔ جیلانی صاحب آمادہ بھی ہوگئے۔ چھ ججوں نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا لیکن پی۔ٹی۔آئی نے الزام ودشنام کی ایسی سنگ باری کی کہ وہ مردِ شریف عزتِ سادات بچا کر گوشۂِ عافیت میں جابیٹھا۔

پی۔ٹی۔آئی کے فنِ بارُدوپاشی کا یہ عالم ہے کہ آج پاکستان کا کوئی باعزت شخص اس طرح کی ذمہ داری کے لئے دستیاب نہیں ہوگا۔ اسی دبائو میں سات رکنی بینچ نے (3)184 کی کارروائی شروع کی۔ اسی دبائو کا نتیجہ ہے کہ بات ایک بار پھر فل کورٹ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عدلیہ کو انتظامیہ اور ایجنسیوں کے دبائو سے آزاد کرانے کے’’ مقدس مشن ‘‘کے نام پر، پی۔ٹی۔آئی عدلیہ کے لئے سب سے سنگین دبائو کی سفاک علامت بن چکی ہے۔ برس ہا برس سے اس کا کمالِ فن یہی ہے کہ وہ جب بھی عدالتی کٹہرے میں آئے، پروپیگنڈے کے زور پر عدالت ہی کو کٹہرے میں کھڑا کرلیتی اور خود مسندِ انصاف پر بیٹھ کر احکامات صادر کرنے لگتی ہے۔

آج بھی پی۔ٹی۔آئی اپنی اسی روایت اور مہارت کے مطابق کچھ یوں جنگ آزما ہے جیسے چھ جج صاحبان نے وکالت نامہ اسے تھما رکھا ہو۔ اُدھر عدلیہ کو ہر دبائو سے آزاد رکھنے کے لئے رہنمائی کے متمنّی جج صاحبان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو کہے کہ کوئی جماعت ہمارے عشق میں ہلکان ہوکر اپنے سیاسی مقاصد کیلئے عدلیہ پر دبائو نہ ڈالے۔ سو جوں جوں عمران خان کے سنگین مقدمات، عدالتی فیصلوں کی طرف بڑھ رہے ہیں توں توں ججوں پر پی۔ٹی۔آئی کے دبائو میں اضافہ ہورہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ آج یہ دبائو، حکومتی یا ایجنسیوں کے دبائو سے کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ اسی دبائو کا نمونہ ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل، لاہور ہائی کورٹ میں کھڑا خان صاحب کو حاصل خصوصی مراعات کی طویل فہرست پڑھ رہا ہے اور اسلام آباد کے چھ مکتوب نویسوں میں سے ایک معزز جج ، وکیل سے سوال کررہا ہے۔ ’’اگر جیل سے باہر سیاست پر بات کرنا جرم نہیں، تو جیل کے اندرکسی قیدی پر یہ پابندی کیسے لگائی جاسکتی ہے کہ وہ سیاست پر بات نہ کرے۔‘‘ ہے کوئی افلاطون جو اِس معصوم سے سوال کا جواب دے ؟

Source
 

ranaji

President (40k+ posts)
در لعنت اس گشتی کے بچے پر جو حرام زادہ پچاس روپے کا اسٹام دے کر اپنی ماں چ ۔۔۔ کر بھاگ کر بھگوڑا ہوگیا اور اس حرام زادے گشتی زادے کے چار سال تک پلیٹ لٹس ٹھیک نا ہوئے اور اس وقت تک نا ہوئے جب تک انکا پالتو دونوں بلکہ تینوں چیف نا آگئے اور اس حرام زادے کو بھگوڑا اور مفرور ہونے کے باوجود چند حرام کے نطفوں نے ائیر پورٹ پر اپنی گشتی ماں کے یاروں کو بھیج اس حرام زادے چور فراڈ ئے خنزیری نسل کے کتے حرامئ سزا یافتہ کنجر کی سزا بھی ختم کرادی اور اس گشتی کے بچے کو بے گناہ قرار دلا دیا سزا ختم کرانے والے اور معافی دلانے والے دونوں ہی حرامئ اور گشتئ کی اولاد ہیں اس میں کسی کو شک نہیں
 

3rd_Umpire

Chief Minister (5k+ posts)
8 فروری کے انتخابات سے حیاتِ نو پانے اور 9 مئی کی حدّت بڑی حد تک کم ہوجانے کے باوجود پی۔ٹی۔آئی کو خاصا مشکل لگ رہا تھا کہ وہ اپنے بانی چیئرمین کو اڈیالہ جیل سے باہر کس طرح لائے جن کے مقدمات کے فیصلے بس چند قدم کی دوری پر تھے۔ اس کیلئے ضروری تھا کہ عدلیہ کو بے چہرہ کردینے اور قانون وانصاف کی پوشاک پر سیاہی تھوپنے کا کوئی موقع ہاتھ آ جائے۔ جانے یہ پی۔ٹی۔آئی کی آرزو کا کرشمہ تھا یا کسی ساحر کی معجزہ کاری، عین اُنہی دنوں، جب رمضان المبارک کا عشرۂِ مغفرت شروع ہوچکا تھا، آمدِ بہار کی ایک سہانی صبح، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ معزز جج صاحبان کے دِلوں میں دَرد کی ایک کسک جاگی اور اُن پر منکشف ہوا کہ انتظامیہ اور ایک ایجنسی، مطلوب فیصلوں کے لئے دبائو ڈال رہی ہیں۔

ان جج صاحبان میں سے ہر ایک کی عمر لگ بھگ پچاس برس سے زائد تھی۔ سب نے قواعد کے مطابق کم ازکم دَس برس اعلیٰ عدالتوں میں وکالت کی تھی۔ سب برسوں سے انصاف کی مسندوں پر تشریف فرما تھے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ کسی ایک کو بھی ماضی میں اِس طرح کے دبائو سے پالا نہیں پڑا تھا۔ یہاں تک کہ شوکت عزیز صدیقی کو دَشتِ بے نوا میں دھکیل کر، جنرل فیض حمید کی ’’دوسالہ محنت‘‘ کو عمدگی سے پایۂِ تکمیل تک پہنچانے کا اقدام بھی ان کا رضاکارانہ اور عادلانہ فیصلہ تھا۔ منظر کچھ ایسا تھا جیسے وہ ابھی ابھی عرشِ معلّٰی کے نواح میں واقع، مقرّب فرشتوں کی بارگاۂِ خاص سے کرۂِ ارضی پہ اُترے ہوں۔ سب کی عبائوں سے ابھی تک فرشتوں کے پَروں کی خوشبو آ رہی تھی۔ سو ہر ایک نے ہر دوسرے کو حیرت سے دیکھا اور کہا ۔’’مجھے کچھ معلوم نہیں کہ یہ دبائو کیا ہوتا ہے اور اگر پڑے تو کیا کرنا چاہیے؟

اجتماعی فیصلہ ہوا کہ اپنے بڑوں کو خط لکھ کر پوچھتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ سرحد پہ کھڑا ایک نیم خواندہ سپاہی بھی جانتا ہے کہ کوئی قدم اُس کی مقدس سرزمین پر پڑے تو کیا کرنا ہے؟ وہ مورچہ چھوڑ کر دوڑتا ہوا اپنے ’او۔سی‘ کے پاس نہیں جاتا کہ اب میں کیا کروں؟ وہ غنیم کا سینہ چھلنی کردیتا یا خود شہید ہوجاتا ہے۔ چھ جج صاحبان کے سامنے بھی دو تازہ مثالیں موجود تھیں۔ قاضی فائز عیسٰی نے عدلیہ کی آزادی کی خاطر کمال بہادری سے گروہِ دشمناں کا مقابلہ کیا اور اس کا سینہ چھلنی کردیا۔ شوکت عزیز مردانگی سے لڑتا ہوا شہید ہوگیا۔ لیکن عالی مرتبت چھ نے غنیم کو للکارنے کے بجائے بذریعہ خط رہنمائی لینا زیادہ مناسب خیال کیا۔ یہ خط، عدلیہ پر دبائو کے حوالے سے پی۔ٹی۔آئی کے بیانیے کے حق میں نہایت معتبر ’’بیان حلفی‘‘ کا درجہ اختیار کرگیا۔ شناسائی کی بات کُوبہ کُو پھیلتی چلی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے، سائفر ہی کی طرح اس نامۂِ دِلبراں سے کھیلتے ہوئے تحریکِ انصاف نے سماں باندھ دیا۔ وہ ہمیشہ مقدمات کی حقیقت یا ’میرٹ‘ کو ایک طرف رکھتے ہوئے، جلسوں، جلوسوں، دھرنوں، لانگ مارچوں، وکلاء کی موشگافیوں اور سوشل میڈیا کی کرتب کاریوں سے کام لیتی ہے۔ اسی ہُنر کے سبب وہ سپریم کورٹ کی طرف سے لایعنی اور بے معنی قرار دی گئی پٹیشن کو مقدس صحیفہ بنا کر سرِ میزانِ عدل لے آئی تھی اور سہولت کاروں کی مدد سے پانامہ سے اقامہ کشید کرلیا تھا۔ پی۔ٹی۔آئی کے اس ہُنر کی کرشمہ سامانیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔

کوئی ہے اس وطن عزیز میں جسے پیشی کے لئے عدالت بلائے اور وہ ہزاروں کا جتھہ لئے، سڑک پر کھڑی گاڑی سے نہ اترے اور عدالت خود پیشی بھرنے اس کی خدمت میں حاضر ہوجائے؟ کوئی ہے جو ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہو، اس کے لئے سرشام سب سے بڑی عدالت آراستہ ہو، کہا جائے اُسے مرسڈیز گاڑی میں لائو، ’’گُڈ ٹو سی یو‘‘ کہہ کر اُس کا استقبال کیاجائے، ایک پُرتعیش بنگلہ اس کے لئے مخصوص کردیاجائے اور صدر مملکت انواع واقسام کے کھانوں کے طشت اٹھائے اُس کے ہاں حاضری دیں؟کوئی ہے جو پی۔ٹی۔وی کی رگِ جاں دبوچ کراُسے خاموش کردے لیکن قانون وانصاف کو جھرجھری تک نہ آئے؟ کوئی ہے جو اشتہاری مفرور ہوتے ہوئے کورٹ روم نمبر ایک کی صف اوّل میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے، قہقہے لگائے اور کوئی جج آنکھ اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھ بھی نہ سکے؟ کوئی ہے جسے ایک حرفِ ’’کُن‘‘ کے ذریعے بیسیوں ضمانتیں مل جائیں اور یہ فرمان بھی جاری ہوجائے کہ آئندہ دَس دِن میں یہ جو کچھ بھی کرے، اسے اُس مقدمے میں بھی ضمانت پر سمجھا جائے؟

کوئی ہے جرم وانصاف کی پوری تاریخ میں جو سزا یافتہ قیدی ہو اور جیل انتظامیہ کیساتھ، مساوی حیثیت میں مفاہمت کی یاد داشت پر دستخط کرے؟ کوئی ہے جسے جیل میں لامحدود سہولتیں اور مراعات حاصل ہوں؟ یہ سب کچھ کسی اصول، قاعدے یا قانون کے تحت نہیں، پی۔ٹی۔آئی کی خوئے فتنہ وفساد اور عدلیہ پر ہمہ پہلو دبائو کا نتیجہ ہے۔ چھ جج صاحبان کے خط نے پی۔ٹی۔آئی کو اپنے بانی چیئرمین کے قریب الفیصل مقدمات کے حوالے سے عدلیہ پر دبائو ڈالنے کا سنہری موقع فراہم کردیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ کے دو اجلاس بلائے۔ خط لکھنے والے ججوں کو ایک ایک کرکے بلایا۔ اُن کا موقف سنا۔ وزیراعظم سے مشاورت کی۔ طے پایا کہ جامع تحقیقات کا کام انتہائی نیک نام اور روشن کردارسابق چیف جسٹس، تصدق حسین جیلانی کو سونپ دیا جائے۔ جیلانی صاحب آمادہ بھی ہوگئے۔ چھ ججوں نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا لیکن پی۔ٹی۔آئی نے الزام ودشنام کی ایسی سنگ باری کی کہ وہ مردِ شریف عزتِ سادات بچا کر گوشۂِ عافیت میں جابیٹھا۔

پی۔ٹی۔آئی کے فنِ بارُدوپاشی کا یہ عالم ہے کہ آج پاکستان کا کوئی باعزت شخص اس طرح کی ذمہ داری کے لئے دستیاب نہیں ہوگا۔ اسی دبائو میں سات رکنی بینچ نے (3)184 کی کارروائی شروع کی۔ اسی دبائو کا نتیجہ ہے کہ بات ایک بار پھر فل کورٹ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عدلیہ کو انتظامیہ اور ایجنسیوں کے دبائو سے آزاد کرانے کے’’ مقدس مشن ‘‘کے نام پر، پی۔ٹی۔آئی عدلیہ کے لئے سب سے سنگین دبائو کی سفاک علامت بن چکی ہے۔ برس ہا برس سے اس کا کمالِ فن یہی ہے کہ وہ جب بھی عدالتی کٹہرے میں آئے، پروپیگنڈے کے زور پر عدالت ہی کو کٹہرے میں کھڑا کرلیتی اور خود مسندِ انصاف پر بیٹھ کر احکامات صادر کرنے لگتی ہے۔

آج بھی پی۔ٹی۔آئی اپنی اسی روایت اور مہارت کے مطابق کچھ یوں جنگ آزما ہے جیسے چھ جج صاحبان نے وکالت نامہ اسے تھما رکھا ہو۔ اُدھر عدلیہ کو ہر دبائو سے آزاد رکھنے کے لئے رہنمائی کے متمنّی جج صاحبان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو کہے کہ کوئی جماعت ہمارے عشق میں ہلکان ہوکر اپنے سیاسی مقاصد کیلئے عدلیہ پر دبائو نہ ڈالے۔ سو جوں جوں عمران خان کے سنگین مقدمات، عدالتی فیصلوں کی طرف بڑھ رہے ہیں توں توں ججوں پر پی۔ٹی۔آئی کے دبائو میں اضافہ ہورہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ آج یہ دبائو، حکومتی یا ایجنسیوں کے دبائو سے کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ اسی دبائو کا نمونہ ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل، لاہور ہائی کورٹ میں کھڑا خان صاحب کو حاصل خصوصی مراعات کی طویل فہرست پڑھ رہا ہے اور اسلام آباد کے چھ مکتوب نویسوں میں سے ایک معزز جج ، وکیل سے سوال کررہا ہے۔ ’’اگر جیل سے باہر سیاست پر بات کرنا جرم نہیں، تو جیل کے اندرکسی قیدی پر یہ پابندی کیسے لگائی جاسکتی ہے کہ وہ سیاست پر بات نہ کرے۔‘‘ ہے کوئی افلاطون جو اِس معصوم سے سوال کا جواب دے ؟


Source
عرفان صدیقی کی مثال اُس بوڑھے، یا سڑک پر گاڑی کے ٹکر سے معذور ہونے والے اُس خارشی کتّے کی مانند ہے،جو اپنی ٹانگوں، اور جسم کو گھسیٹ گھسیٹ کر وڈے دلّے کے بد ہضمی کے دستوں تک جا پہنچتا ہے، اور اُسے چاٹنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں
 

ranaji

President (40k+ posts)
ابے گنجے حرام زادے گشتی کے بچے کسی چکلے کی طوایف کے زنا کی حرامی اور گنجی نشانی نطفہ حرام فراڈئے کسی خارش زدہ کتیا کی اولاد جب حرام زادے چور فراڈئے منی لانڈر
کنجر گشتی زادے امرتسر رام گلی کے چکلے والے گشتی سپلائر دلے ہاراں والے کنجر کی اوّلاد نواز شریف بٹ کو سزا ہوئی تھی تو اس حرام زادے گشتی زادے کی اپنی حکومت تھی اپنا وزیر اعظم تھا اپنی کابینہ تھی تو گنجے شیطان گشتی بچے اس وقت اپنی ماں چ ۔۔۔ کر منی ٹریل دے دیتا یہ حرام زادہ فراڈیا اس وقت تو یہ تیرے جیسا گشتی کا بچہ منی ٹریل دے دیتا اپنی ماں کے یاروں کو اس وقت تو یہ حرام زادہ بھونکتا تھا کہ حظور یہ ہیں وہ زرائع پھر وہ زرائع تیری بے بے ۔۔۔ میں وڑ گہے تھے یا اس حرام زادے کی بے بے کے ۔۔۔ میں
 

Husaink

Prime Minister (20k+ posts)
8 فروری کے انتخابات سے حیاتِ نو پانے اور 9 مئی کی حدّت بڑی حد تک کم ہوجانے کے باوجود پی۔ٹی۔آئی کو خاصا مشکل لگ رہا تھا کہ وہ اپنے بانی چیئرمین کو اڈیالہ جیل سے باہر کس طرح لائے جن کے مقدمات کے فیصلے بس چند قدم کی دوری پر تھے۔ اس کیلئے ضروری تھا کہ عدلیہ کو بے چہرہ کردینے اور قانون وانصاف کی پوشاک پر سیاہی تھوپنے کا کوئی موقع ہاتھ آ جائے۔ جانے یہ پی۔ٹی۔آئی کی آرزو کا کرشمہ تھا یا کسی ساحر کی معجزہ کاری، عین اُنہی دنوں، جب رمضان المبارک کا عشرۂِ مغفرت شروع ہوچکا تھا، آمدِ بہار کی ایک سہانی صبح، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ معزز جج صاحبان کے دِلوں میں دَرد کی ایک کسک جاگی اور اُن پر منکشف ہوا کہ انتظامیہ اور ایک ایجنسی، مطلوب فیصلوں کے لئے دبائو ڈال رہی ہیں۔

ان جج صاحبان میں سے ہر ایک کی عمر لگ بھگ پچاس برس سے زائد تھی۔ سب نے قواعد کے مطابق کم ازکم دَس برس اعلیٰ عدالتوں میں وکالت کی تھی۔ سب برسوں سے انصاف کی مسندوں پر تشریف فرما تھے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ کسی ایک کو بھی ماضی میں اِس طرح کے دبائو سے پالا نہیں پڑا تھا۔ یہاں تک کہ شوکت عزیز صدیقی کو دَشتِ بے نوا میں دھکیل کر، جنرل فیض حمید کی ’’دوسالہ محنت‘‘ کو عمدگی سے پایۂِ تکمیل تک پہنچانے کا اقدام بھی ان کا رضاکارانہ اور عادلانہ فیصلہ تھا۔ منظر کچھ ایسا تھا جیسے وہ ابھی ابھی عرشِ معلّٰی کے نواح میں واقع، مقرّب فرشتوں کی بارگاۂِ خاص سے کرۂِ ارضی پہ اُترے ہوں۔ سب کی عبائوں سے ابھی تک فرشتوں کے پَروں کی خوشبو آ رہی تھی۔ سو ہر ایک نے ہر دوسرے کو حیرت سے دیکھا اور کہا ۔’’مجھے کچھ معلوم نہیں کہ یہ دبائو کیا ہوتا ہے اور اگر پڑے تو کیا کرنا چاہیے؟

اجتماعی فیصلہ ہوا کہ اپنے بڑوں کو خط لکھ کر پوچھتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ سرحد پہ کھڑا ایک نیم خواندہ سپاہی بھی جانتا ہے کہ کوئی قدم اُس کی مقدس سرزمین پر پڑے تو کیا کرنا ہے؟ وہ مورچہ چھوڑ کر دوڑتا ہوا اپنے ’او۔سی‘ کے پاس نہیں جاتا کہ اب میں کیا کروں؟ وہ غنیم کا سینہ چھلنی کردیتا یا خود شہید ہوجاتا ہے۔ چھ جج صاحبان کے سامنے بھی دو تازہ مثالیں موجود تھیں۔ قاضی فائز عیسٰی نے عدلیہ کی آزادی کی خاطر کمال بہادری سے گروہِ دشمناں کا مقابلہ کیا اور اس کا سینہ چھلنی کردیا۔ شوکت عزیز مردانگی سے لڑتا ہوا شہید ہوگیا۔ لیکن عالی مرتبت چھ نے غنیم کو للکارنے کے بجائے بذریعہ خط رہنمائی لینا زیادہ مناسب خیال کیا۔ یہ خط، عدلیہ پر دبائو کے حوالے سے پی۔ٹی۔آئی کے بیانیے کے حق میں نہایت معتبر ’’بیان حلفی‘‘ کا درجہ اختیار کرگیا۔ شناسائی کی بات کُوبہ کُو پھیلتی چلی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے، سائفر ہی کی طرح اس نامۂِ دِلبراں سے کھیلتے ہوئے تحریکِ انصاف نے سماں باندھ دیا۔ وہ ہمیشہ مقدمات کی حقیقت یا ’میرٹ‘ کو ایک طرف رکھتے ہوئے، جلسوں، جلوسوں، دھرنوں، لانگ مارچوں، وکلاء کی موشگافیوں اور سوشل میڈیا کی کرتب کاریوں سے کام لیتی ہے۔ اسی ہُنر کے سبب وہ سپریم کورٹ کی طرف سے لایعنی اور بے معنی قرار دی گئی پٹیشن کو مقدس صحیفہ بنا کر سرِ میزانِ عدل لے آئی تھی اور سہولت کاروں کی مدد سے پانامہ سے اقامہ کشید کرلیا تھا۔ پی۔ٹی۔آئی کے اس ہُنر کی کرشمہ سامانیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔

کوئی ہے اس وطن عزیز میں جسے پیشی کے لئے عدالت بلائے اور وہ ہزاروں کا جتھہ لئے، سڑک پر کھڑی گاڑی سے نہ اترے اور عدالت خود پیشی بھرنے اس کی خدمت میں حاضر ہوجائے؟ کوئی ہے جو ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہو، اس کے لئے سرشام سب سے بڑی عدالت آراستہ ہو، کہا جائے اُسے مرسڈیز گاڑی میں لائو، ’’گُڈ ٹو سی یو‘‘ کہہ کر اُس کا استقبال کیاجائے، ایک پُرتعیش بنگلہ اس کے لئے مخصوص کردیاجائے اور صدر مملکت انواع واقسام کے کھانوں کے طشت اٹھائے اُس کے ہاں حاضری دیں؟کوئی ہے جو پی۔ٹی۔وی کی رگِ جاں دبوچ کراُسے خاموش کردے لیکن قانون وانصاف کو جھرجھری تک نہ آئے؟ کوئی ہے جو اشتہاری مفرور ہوتے ہوئے کورٹ روم نمبر ایک کی صف اوّل میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے، قہقہے لگائے اور کوئی جج آنکھ اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھ بھی نہ سکے؟ کوئی ہے جسے ایک حرفِ ’’کُن‘‘ کے ذریعے بیسیوں ضمانتیں مل جائیں اور یہ فرمان بھی جاری ہوجائے کہ آئندہ دَس دِن میں یہ جو کچھ بھی کرے، اسے اُس مقدمے میں بھی ضمانت پر سمجھا جائے؟

کوئی ہے جرم وانصاف کی پوری تاریخ میں جو سزا یافتہ قیدی ہو اور جیل انتظامیہ کیساتھ، مساوی حیثیت میں مفاہمت کی یاد داشت پر دستخط کرے؟ کوئی ہے جسے جیل میں لامحدود سہولتیں اور مراعات حاصل ہوں؟ یہ سب کچھ کسی اصول، قاعدے یا قانون کے تحت نہیں، پی۔ٹی۔آئی کی خوئے فتنہ وفساد اور عدلیہ پر ہمہ پہلو دبائو کا نتیجہ ہے۔ چھ جج صاحبان کے خط نے پی۔ٹی۔آئی کو اپنے بانی چیئرمین کے قریب الفیصل مقدمات کے حوالے سے عدلیہ پر دبائو ڈالنے کا سنہری موقع فراہم کردیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ کے دو اجلاس بلائے۔ خط لکھنے والے ججوں کو ایک ایک کرکے بلایا۔ اُن کا موقف سنا۔ وزیراعظم سے مشاورت کی۔ طے پایا کہ جامع تحقیقات کا کام انتہائی نیک نام اور روشن کردارسابق چیف جسٹس، تصدق حسین جیلانی کو سونپ دیا جائے۔ جیلانی صاحب آمادہ بھی ہوگئے۔ چھ ججوں نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا لیکن پی۔ٹی۔آئی نے الزام ودشنام کی ایسی سنگ باری کی کہ وہ مردِ شریف عزتِ سادات بچا کر گوشۂِ عافیت میں جابیٹھا۔

پی۔ٹی۔آئی کے فنِ بارُدوپاشی کا یہ عالم ہے کہ آج پاکستان کا کوئی باعزت شخص اس طرح کی ذمہ داری کے لئے دستیاب نہیں ہوگا۔ اسی دبائو میں سات رکنی بینچ نے (3)184 کی کارروائی شروع کی۔ اسی دبائو کا نتیجہ ہے کہ بات ایک بار پھر فل کورٹ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عدلیہ کو انتظامیہ اور ایجنسیوں کے دبائو سے آزاد کرانے کے’’ مقدس مشن ‘‘کے نام پر، پی۔ٹی۔آئی عدلیہ کے لئے سب سے سنگین دبائو کی سفاک علامت بن چکی ہے۔ برس ہا برس سے اس کا کمالِ فن یہی ہے کہ وہ جب بھی عدالتی کٹہرے میں آئے، پروپیگنڈے کے زور پر عدالت ہی کو کٹہرے میں کھڑا کرلیتی اور خود مسندِ انصاف پر بیٹھ کر احکامات صادر کرنے لگتی ہے۔

آج بھی پی۔ٹی۔آئی اپنی اسی روایت اور مہارت کے مطابق کچھ یوں جنگ آزما ہے جیسے چھ جج صاحبان نے وکالت نامہ اسے تھما رکھا ہو۔ اُدھر عدلیہ کو ہر دبائو سے آزاد رکھنے کے لئے رہنمائی کے متمنّی جج صاحبان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو کہے کہ کوئی جماعت ہمارے عشق میں ہلکان ہوکر اپنے سیاسی مقاصد کیلئے عدلیہ پر دبائو نہ ڈالے۔ سو جوں جوں عمران خان کے سنگین مقدمات، عدالتی فیصلوں کی طرف بڑھ رہے ہیں توں توں ججوں پر پی۔ٹی۔آئی کے دبائو میں اضافہ ہورہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ آج یہ دبائو، حکومتی یا ایجنسیوں کے دبائو سے کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ اسی دبائو کا نمونہ ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل، لاہور ہائی کورٹ میں کھڑا خان صاحب کو حاصل خصوصی مراعات کی طویل فہرست پڑھ رہا ہے اور اسلام آباد کے چھ مکتوب نویسوں میں سے ایک معزز جج ، وکیل سے سوال کررہا ہے۔ ’’اگر جیل سے باہر سیاست پر بات کرنا جرم نہیں، تو جیل کے اندرکسی قیدی پر یہ پابندی کیسے لگائی جاسکتی ہے کہ وہ سیاست پر بات نہ کرے۔‘‘ ہے کوئی افلاطون جو اِس معصوم سے سوال کا جواب دے ؟


Source
قلم فروش بھڑوے اردو میں فارسی ملا کر کالم لکھ لینے سے ڈوم کمی کمین کنجر صحافی نہیں بنتا