قوم سے شوگر پر تلخ مذاق

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
قوم سے شوگر پر تلخ مذاق


ڈاکٹر مفتاح اسماعیل

چند دن پہلے شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ منظرِ عام پر آئی۔ چاہے کمیشن کی تشکیل کا باعث پی ٹی آئی کی صفوں میں ہونے والی اندرونی لڑائی ہو، کسی کو تحفظ دینا اور کسی کو بدنام کرنا مقصود ہو، کمیشن کو تشکیل دینے اور رپورٹ کو منظر ِعام پر لانے پر پی ٹی آئی کو سراہا جانا چاہئے۔

2016میں مہتاب امپیکس کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ حکومت سے مراد وزیرِاعظم اور وفاقی وزرا ہوتے ہیں، وزرا یا کابینہ کمیٹی کے ’’فیصلوں‘‘ کو صرف سفارشات سمجھا جاتا ہے تاوقتیکہ وزیرِاعظم کی قیادت میں پوری کابینہ اُن کی منظوری دے دے۔

تاہم مذکورہ کمیشن نے کسی وجہ سے ای سی سی کی سطح پر جا کر تحقیق کی کہ ماہرین نے اجازت دی تھی یا نہیں۔ اس نے کابینہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا جس کے پاس تمام اتھارٹی تھی۔ اگر کمیشن وزیرِاعظم صاحب سے سوالات کرتا تو ہمیں پتا چلتا کہ کیا وہ فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہیں یا کابینہ کی تیار کردہ سمری دیکھ کر منظوری دے دیتے ہیں؟

اگر وزیرِاعظم بغیر پڑھے سمری پر دستخط کر دیتے ہیں تو کیا وہ دی گئی منظوری کے ذمہ دار نہیں؟ کمیشن کی تشکیل کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پی ٹی آئی حکومت میں چینی کی قیمتیں آسمان کو کیوں چھونے لگیں؟


لیکن کمیشن نے گزشتہ چند برسوں کے دوران چینی کی برآمد اور دی گئی امدادی قیمت کو ہی دیکھا۔ جب جون 2013میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو چینی کی قیمت 53روپے فی کلو تھی۔ جب یہ اپنے پانچ سال مکمل کرکے رخصت ہوئی تو قیمت ابھی تک 55روپے تھی۔

2015-16 میں پاکستان میں چینی کی پیدوار اپنے بلند ترین حجم 7.1ملین ٹن تک پہنچ گئی۔ اگلے سال بھی پیداوار 6.6 ملین ٹن تھی۔

جس دوران پاکستانی خوشحال ہونے لگے اور قیمتوں میں استحکام رہا، ہماری چینی کی کھپت میں اضافہ ہوا لیکن یہ کھپت پانچ ملین ٹن کے قریب تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ برآمد کے لیے اضافی چینی دستیاب تھی۔

درحقیقت مسلم لیگ ن نے قیمت مستحکم رکھنے کے لیے تھوڑی مقدار میں برآمد کی اجازت دی۔ برآمد پر سبسڈی اُس وقت دی جب مقامی پیداواری لاگت عالمی قیمتوں سے زیادہ تھی۔ اگست 2018میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے دو ماہ کے اندر ایک ملین ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی۔ اُس وقت تک حکومت آئندہ سیزن میں گنے یا چینی کی پیداوار کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ ایک وزیر نے کمیشن کو بتایا کہ اتنی بڑی مقدار میں برآمد کی اجازت اس لیے دی گئی کہ ملک کو زر ِمبادلہ کی ضرورت تھی۔

اس کے دو ماہ بعد دسمبر میں حکومت نے ایک بار پھر ایک لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی۔ اس کی وجہ، جیسا کہ ایک وزیر کا کہنا تھا، مل مالکان کی’’دھمکی‘‘ تھی۔

خیر میں تو سوچ رہا تھا کہ پی ٹی آئی کی بےخوف اور انتہائی ذہین قیادت کسی مافیا وغیرہ سے ڈرنے والی نہیں۔ خیر یہ دھمکی ناقابلِ فہم تھی کیونکہ پنجاب کی نصف شوگر انڈسٹری تو کابینہ میں بیٹھی ہے۔ پی ٹی آئی نے شوگر انڈسٹر ی کو ہر قسم کی رعایت دی لیکن چینی کی پیداوار گزشتہ تین برس میں کم ترین ہوئی۔ صرف 5.3ملین ٹن سے بھی کم۔ گویا یہ مقامی ضروریات کے بھی ناکافی تھی۔

مزید یہ کہ پی ٹی آئی حکومت کی دی گئی سبسڈی اور برآمد کی اجازت سے چینی کی قیمت چھ ماہ کے اندر ستائیس فیصد بڑھ کر 71روپے فی کلو ہو گئی۔ اُس وقت تمام کابینہ جانتی تھی کہ چینی کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے لیکن کابینہ اور ای سی سی نے 2019میں اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی کی زحمت نہ کی یہاں تک کہ مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت 90روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔

ایک مرتبہ جب وفاقی حکومت نے منظوری دے دی تو وفاقی حکومت میں سے کسی نے زبانی طور پر پنجاب حکومت کو بھی بتا دیا ہوگا کہ چینی برآمد کرنے والوں کو سبسڈی دینی ہے۔

پنجاب حکومت نے اس پر مطلق دیر نہ لگائی حالانکہ فنانس سیکرٹری حامد یعقوب شیخ اور وزیر برائے مالیاتی امور ہاشم جواں بخت کی سفارش اس کے برعکس تھی۔ تاہم کابینہ کے اجلا س سے بھی پہلے وزیرِاعلیٰ کی صدارت میں ہونے والی میٹنگ میں چینی کے صنعت کاروں کو تین بلین روپے کا تحفہ دینے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ زبانی احکامات کی تاثیر تحریر سے بھی زیادہ تھی۔

سیاسی بیانیے کو حیرت انگیز موڑ دیتے ہوئے اب پی ٹی آئی اپنے دور میں چینی کے بحران کو بھی مسلم لیگ ن کا قصور ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔ وزرا کی طرف سے پریس کانفرنسز کا تانتا بندھا ہوا ہے۔

وہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں کہ مسلم لیگ ن نے اپنے دور میں امدادی قیمت دے کر غلطی کی تھی۔ وہ بھول جاتے ہیں اُس دور میں ملک میں گنے اور چینی کی بھاری پیداوار ہوتی تھی۔ اس کی وجہ سے مقامی قیمتیں مستحکم تھیں۔ سبسڈی صرف اُس وقت دی جاتی تھی جب مقامی پیداواری لاگت عالمی قیمت سے بڑھ جاتی تھی ۔ اس وقت گنے کی قیمت 1.7ڈالر (180روپے) فی من تھی جبکہ ڈالر کا نرخ 105روپے تھا۔

مقامی صنعت کے لیے چینی برآمد کرنا مشکل تھا۔ نیز سبسڈی کو یکساں نہیں رکھا جاتا تھا۔ جب عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمت بڑھ جاتی تو سبسڈی کم کردی جاتی۔ اس کے مقابلے میں گزشتہ سال عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں استحکام تھا جبکہ روپے کی قدر گرا دی گئی تھی گنے کی امداد ی قیمت کم ہوکر 1.36 ڈالر (190 روپے) فی من ہو گئی تھی اور مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت بڑھ رہی تھی۔

اس منافع خوری کے نتیجے میں گزشتہ دو سال کے دوران پاکستانی صارف کی جیب سے 100بلین روپے نکل کر شوگر انڈسٹری کی تجوریوں میں جا چکے۔ ضروری ہے کہ حکومت ذرا اپنا پرغرور سر نیچے کرلے۔

ادویات سے لے کر آٹے کی قیمت میں ہوشربا اضافہ، پولیو سے لے کر تافتان، پشاور میٹرو، غیرمعمولی زیرِگردشی قرضے، بجٹ کا بے پناہ خسارہ، اور اس پر کوویڈ 19پالیسی پر ابہام۔ پاکستان کو یقیناً بہتری کی ضرورت تھی لیکن چلیں، کچھ انکساری ہی سیکھ لیں۔

 

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
وفاقی وزیر کے مطابق حکومت شوگر مل مالکان کی دھمکی سے ڈر گئی اور مزید چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دی
 

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
کمیشن چار پانچ روپے فی کلو ایکسپورٹ سبسڈی پر تو تحقیق کرتا رہا مگر چالیس روپے فی کلو کے ڈاکے پر ناقابل فہم طور پر خاموش رہا
 

zaheer2003

Chief Minister (5k+ posts)
تاہم مذکورہ کمیشن نے کسی وجہ سے ای سی سی کی سطح پر جا کر تحقیق کی کہ ماہرین نے اجازت دی تھی یا نہیں۔ اس نے کابینہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا جس کے پاس تمام اتھارٹی تھی۔ اگر کمیشن وزیرِاعظم صاحب سے سوالات کرتا تو ہمیں پتا چلتا کہ کیا وہ فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہیں یا کابینہ کی تیار کردہ سمری دیکھ کر منظوری دے دیتے ہیں؟

Abbasi the PM would be held under it ?
https://twitter.com/x/status/1264548906106576897
 

zaheer2003

Chief Minister (5k+ posts)
وفاقی وزیر کے مطابق حکومت شوگر مل مالکان کی دھمکی سے ڈر گئی اور مزید چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دی

Same happened in Every subsidy scheme. Did you read report ?


Observations: (2015-2016 scheme)
182. Right before the start of the crushing season, the PSMA started pressurizing the Government to allow the export of sugar along with the subsidy. The Government, under pressure for commencing the crushing season, allowed the export along with the subsidy. The practice of the previous year on relying on the figures provided by the PSMA and without any independent evaluation of calculation of cost of production
and availability of stocks was followed
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
میری سمجھ سے باہر ہے کہ جو تحقیق ہو چکی ہے اس کی بنیاد پر سزا دینے کی بجائے انیس سو پچاسی تک جانے کی کیا ضرورت ہے
 

zaheer2003

Chief Minister (5k+ posts)
اس منافع خوری کے نتیجے میں گزشتہ دو سال کے دوران پاکستانی صارف کی جیب سے 100بلین روپے نکل کر شوگر انڈسٹری کی تجوریوں میں جا چکے۔ ضروری ہے کہ حکومت ذرا اپنا پرغرور سر نیچے کرلے۔

ایک اور جھوٹ یہ چالیس بلین ہے کمیشن کے مطابق

236.
The exporters of sugar gained benefit in two ways: firstly, they were
able to gain subsidy and secondly, they made profit from the increasing
sugar prices in the local market. There was no shortage of the sugar in
the market but still the price increased from Rs. 55 per kg In December
2018 to Rs. 71.44 per kg in June 2019 although the GST increase was
implemented from 1.5` July 2019. In the same period, the ex-mill price
increased from Rs. 51.64 kg In December 2018 to Rs. 67.42 per kg in
November 2019. The mills were making reasonable profits at the ex-mill
price of Rs. 51.64 per kg in December 2018. With the in rease in prices
due to export, hoarding and market manipulation, the sugar sector
earned n extra profit of Rs. 40.57 billion, as shown in the table
 

zaheer2003

Chief Minister (5k+ posts)
میری سمجھ سے باہر ہے کہ جو تحقیق ہو چکی ہے اس کی بنیاد پر سزا دینے کی بجائے انیس سو پچاسی تک جانے کی کیا ضرورت ہے

مافیا کا مکمل مکو ٹھپنا ہے کورٹ میں ورنہ جج تو پیسا دیکھے گا
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
مافیا کا مکمل مکو ٹھپنا ہے کورٹ میں ورنہ جج تو پیسا دیکھے گا
کیوں بھئی ؟
خان کے دور میں تین ارب کی سبسڈی کے کیس کا فیصلہ پہلے آنا چاہیے ، اگر اس کا فیصلہ آ جائے تو پھر باقیوں کی بھی باری آئے
خان صاحب نے خود فرمایا تھا کہ احتساب مجھ سے شروع ہو گا
 

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
6.5 billion subsidy were given in 2016 to 2017 but still prices were 79 rupee (50 Rs per KG extra)
https://twitter.com/x/status/877148363052900352

جیو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر بہت غلطیاں کرتا ہے

EZpFfy0WkAASxzb
 

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
ایک اور جھوٹ یہ چالیس بلین ہے کمیشن کے مطابق

236.
The exporters of sugar gained benefit in two ways: firstly, they were
able to gain subsidy and secondly, they made profit from the increasing
sugar prices in the local market. There was no shortage of the sugar in
the market but still the price increased from Rs. 55 per kg In December
2018 to Rs. 71.44 per kg in June 2019 although the GST increase was
implemented from 1.5` July 2019. In the same period, the ex-mill price
increased from Rs. 51.64 kg In December 2018 to Rs. 67.42 per kg in
November 2019. The mills were making reasonable profits at the ex-mill
price of Rs. 51.64 per kg in December 2018. With the in rease in prices
due to export, hoarding and market manipulation, the sugar sector
earned n extra profit of Rs. 40.57 billion, as shown in the table

کمیشن کے اس جھوٹ کو بھی جھٹلایا جا سکتا ہے ، آپ کے شہزاد اکبر کے مطابق پروڈکشن کاسٹ باون روپے ہے لیکن مارکیٹ پرائس نوے روپے ہے ، کمیشن نے ڈنڈی مارتے ہوۓ مارکیٹ پرائس بہتر روپے بتائی ، پھر پانچ ملین ٹن یا پانچ کروڑ کلو چینی ایکسپورٹ کے بعد بیچی گئی اگر اس پر بیس روپے ناجائز منافع لگایا جائے تو کتنے پیسے بنتے ہیں جبکہ میرے حساب سے چالیس روپے فی کلو ناجائز منافع کمایا گیا ، اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ کمیشن نے بہت ڈنڈی ماری
 

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
Same happened in Every subsidy scheme. Did you read report ?


Observations: (2015-2016 scheme)
182. Right before the start of the crushing season, the PSMA started pressurizing the Government to allow the export of sugar along with the subsidy. The Government, under pressure for commencing the crushing season, allowed the export along with the subsidy. The practice of the previous year on relying on the figures provided by the PSMA and without any independent evaluation of calculation of cost of production
and availability of stocks was followed

کین کمشنر اور منسٹری آف انڈسٹری اینڈ پروڈکشن ہر مہینے یہ اعداد و شمار جاری کرتی ہے اور ادارہ برائے شماریات بھی سالانہ اس کو شائع کرتا ہے ، جب حکومتی ادارے کام کررہے ہوں تو پھر ادھر ادھر کی پارٹیوں کو ہر بات کیلئے پیسے کیوں دیں ، حکومتی ملازموں کو بھی پیسے دیں اور پرائویٹ فرموں کو بھی پیسے دیں؟؟ دوسرے جب نون لیگ نے ایکسپورٹ کی اجازت دی تو عالمی مارکیٹ میں قیمتیں زیادہ تھیں ، جب آپ نے سبسڈی دی عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کم تھیں اور امپورٹ کرنے میں زیادہ فائدہ تھا اگر بغیر سبسڈی کے ایکسپورٹ کی اجازت دی جاتی تو بھی انہوں نے ایکسپورٹ کردینی تھی ، جیسے سندھ حکومت نے کیا اور انہوں نے اسی عرصے میں بغیر سبسڈی کے اپنا فالتو سٹاک ایکسپورٹ کردیا

EZpIB9DWkAE_89J
 

zaheer2003

Chief Minister (5k+ posts)

کمیشن کے اس جھوٹ کو بھی جھٹلایا جا سکتا ہے ، آپ کے شہزاد اکبر کے مطابق پروڈکشن کاسٹ باون روپے ہے لیکن مارکیٹ پرائس نوے روپے ہے ، کمیشن نے ڈنڈی مارتے ہوۓ مارکیٹ پرائس بہتر روپے بتائی ، پھر پانچ ملین ٹن یا پانچ کروڑ کلو چینی ایکسپورٹ کے بعد بیچی گئی اگر اس پر بیس روپے ناجائز منافع لگایا جائے تو کتنے پیسے بنتے ہیں جبکہ میرے حساب سے چالیس روپے فی کلو ناجائز منافع کمایا گیا ، اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ کمیشن نے بہت ڈنڈی ماری

Commission report is on a data and ur calculation is off ur thinking
 

zaheer2003

Chief Minister (5k+ posts)

کیوں بھئی ؟
خان کے دور میں تین ارب کی سبسڈی کے کیس کا فیصلہ پہلے آنا چاہیے ، اگر اس کا فیصلہ آ جائے تو پھر باقیوں کی بھی باری آئے
خان صاحب نے خود فرمایا تھا کہ احتساب مجھ سے شروع ہو گا

مافیا کے پاس بھی کیس کو لٹکانے کا مواد ہو گا سو اور مضبوط کاروائی میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔جہاں سالوں پتہ نہیں تھا انتظار کیا اب تھوڑا اور کر لو
 

mhafeez

Chief Minister (5k+ posts)
میری سمجھ سے باہر ہے کہ جو تحقیق ہو چکی ہے اس کی بنیاد پر سزا دینے کی بجائے انیس سو پچاسی تک جانے کی کیا ضرورت ہے

اگلی بار 1973 تک جائیں گے ، پھر ١1947 تک