jigrot
Minister (2k+ posts)
پاکستان کی مسلح افواج وطن عزیز کا فخر ہیں۔ دشمن کے ناپاک ارادوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننا، قدرتی آفات میں عوام کی مدد کرنا، اور ملک کے امن و امان کو برقرار رکھنا، ان کا بنیادی فریضہ ہے۔ ان قربانیوں پر پوری قوم بجا طور پر اپنی افواج پر ناز کرتی ہے۔ مگر ایک اہم نکتہ جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا یہ ہے کہ قوم افواج کے ساتھ ہے، بشرطیکہ یہ افواج آئینی دائرہ کار میں رہیں۔
ایک مہذب، باشعور اور ترقی یافتہ ریاست اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب ہر ادارہ اپنے آئینی حدود میں رہ کر کام کرے۔ جیسے عدلیہ کا کام انصاف دینا ہے، مقننہ قانون بناتی ہے، ویسے ہی افواج کا کام دفاع، سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ جب افواج سیاست، میڈیا یا عوامی بیانیے کی سمت متعین کرنے لگیں تو پھر توازن بگڑ جاتا ہے، جمہوری نظام کمزور ہوتا ہے، اور عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں فوج نے سیاسی میدان میں براہ راست یا بالواسطہ مداخلت کی۔ منتخب حکومتوں کو گرا کر مارشل لا نافذ کیے گئے، اور سیاست دانوں کو ڈرا کر یا خریدا کر اپنی مرضی کا نظام چلایا گیا۔ ان اقدامات سے ملک کو ترقی نہیں، بلکہ بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاست دان اگر خراب ہوں تو ان کا احتساب صرف عوام کر سکتے ہیں — ووٹ کے ذریعے، نہ کہ بندوق یا دباؤ سے۔
جب افواج خود کو سیاست سے دور رکھتی ہیں، اور غیر جانبدار ہو کر صرف اپنی دفاعی ذمہ داریاں ادا کرتی ہیں تو قوم ان پر فخر کرتی ہے، اور ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی رہتی ہے۔ لیکن جب کوئی ادارہ اپنے دائرہ اختیار سے نکل کر دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرے، تو پھر عوامی رائے تقسیم ہو جاتی ہے، جو کسی بھی قوم کے لیے نقصان دہ ہے۔
آج پاکستان کو اتحاد، آئین کی بالادستی، اور جمہوری استحکام کی شدید ضرورت ہے۔ اگر افواج اپنی آئینی حدود میں رہیں، تو قوم ہر حال میں ان کے ساتھ ہے، ان کے ساتھ کھڑی ہے، اور ہمیشہ کھڑی رہے گی۔
افواج پاکستان کی عظمت پر کوئی شک نہیں، لیکن عظمت برقرار رکھنے کے لیے غیر جانبداری، آئینی حدود کی پابندی، اور جمہوریت کا احترام ضروری ہے۔ قوم افواج کے ساتھ ہے، بشرطیکہ یہ افواج آئینی دائرہ کار میں رہیں۔