TruthWillOut
Senator (1k+ posts)
اور آج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں
اپنے شعروں کی حرمت سے ہوں منفعل
اپنے فن کے تقاضوں سے شرمندہ ہوں
پابہ زنجیر یاروں سے نادم ہوں میں
اپنےدل گیر پیاروں سےشرمندہ ہوں
جب کبھی مری دل ذرہ خاک پر
سایہ غیر یا دست دشمن پڑا
جب بھی قاتل مقابل صف آرا ہوئے
سرحدوں پر میری جب کبھی رن پڑا
میراخون جگر تھا کہ حرف ہنر
نذر میں نے کیا مجھ سے جو بن پڑا
آنسوؤں سے تمھیں الوداعیں کہیں
رزم گاہوں نے جب بھی پکارا تمھیں
تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتے
ہار نے بھی نہ جی سے اتارا تمھیں
تم نے جاں کے عوض آبرو بیچ دی
ہم نے پھر بھی کیا ہےگوارا تمھیں
سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے
جن کا خوں منہ پہ ملنے کو تم آئے تھے
مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے
یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے
ان کی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
ان کی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے
اس کا انجام جو کچھ ہوا سو ہوا
شب گئی خواب تم سے پریشاں گئے
کس جلال و رعونت سے وارد ہوئے
کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے
تیغ در دست و کف در وہاں آئے تھے
طوق در گردن و پابجولاں گئے
پھر بھی میں نے تمھیں بے خطا ہی کہا
خلقت شہر کی دل دہی کے لئے
گو میرے شعر زخموں کے مرہم نہ تھے
پھر بھی ایک سعی چارہ گری کے لئے
اپنے بے آس لوگوں کے جی کے لئے
یاد ہوں گے تمھیں پھر وہ ایام بھی
تم اسیری سے جب لوٹ کر آئے تھے
ہم دریدہ جگر راستوں میں کھڑے
اپنے دل اپنی آنکھوں میں بھر لائے تھے
اپنی تحقیر کی تلخیاں بھول کر
تم پہ توقیر کے پھول برسائے تھے
کیا خبر تھی کہ تم سے شکستہ انا
اپنے زخموں کو بس چاٹنے آئیں گے
جنکے جبڑوں کو اپنوں کا خوں لگ گیا
ظلم کی سب حدیں پاٹنے آئیں گے
قتل بنگال کے بعد مہران میں
شہریوں کے گلے کاٹنے آئیں گے
ٓاب پشاور سے لاہور و مہران تک
تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو؟
کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے؟
کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو؟
کس کے ایما پہ ہے اتنی غارت گری؟
کس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیو؟
جیسے برطانوی راج میں گورکھے
باغیوں پہ ستم عام ان کے بھی تھے
جیسے سفاک گورے تھے ویت نام میں
حق پرستوں پہ الزام ان کے بھی تھے
آج تم ان سے کچھ مختلف تو نہیں
رائفلیں وردیاں نام ان کے بھی تھے
کیا خبر تھی کہ اے شپرک زادگاں
تم ملامت بنو گے شب تار کی
کل بھی غاصب کے تم تخت پردار تھے
آج بھی پاسداری ہے دربار کی
ایک آمر کی دستار کے واسطے
سب کی شہ رگ پہ ہے نوک تلوار کی
تم نے دیکھے ہیں جمہور کے قافلے
ان کے ہاتھوں میں پرچم بغاوت کے ہیں
پپڑیوں پر جمی پپڑیاں خون کی
کہہ رہی ہیں یہ منظر قیامت کے ہیں
کل تمھارے لیئے پیار سینوں میں تھا
اب جو شعلے اٹھے ہیں وہ نفرت کے ہیں
آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے
اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں
خول اترا تمہارا تو ثابت ہوا
پیشہ ور قاتلو! تم سپاہی نہیں
اب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہیئے
اب فقط مسئلہ تاج شاہی نہیں۔
(احمد فراز )
Last edited by a moderator: