ذاکر حسین
چیف جسٹس کے بروقت سوموٹو ایکشن، سپریم کورٹ کے فوری فیصلے، اور پلانٹڈ انٹرویوکے بعد قرآن پاک کے سائے تلے ایک اور پریس کانفرنس کا انجام وہی ہوگا جو پہلی کانفرنس کا ہوا تھا۔گو کہ ملک ریاض کا سیاسی قد ذوالفقار مرزا والا نہیں، لیکن ملک کی پوری سیاسی قیادت ماسوائے چند ایک کے، اُن کے سامنے ننگی ہے، اس لیے بعید نہیں کہ یہ پراپرٹی ٹائی ٹینک اپنے ساتھ اور بھی بہت ساروں کو ڈبو دے۔ نہ صرف سیاسی اور فوجی لیڈرشپ کو، بلکہ میڈیا کے ٹائیکونوں سمیت دیگر بہت سارے سورمائوںکو بھی۔ گو کہ اس وقت اتنی دھند ہے کہ کچھ نظر نہیںآرہا، کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ ملک ریاض کی باتیں سنیں تو لگتا ہے کہ ان سے زیادہ مظلوم کوئی ہے ہی نہیں۔ جتنا ظلم ان پر سپریم کورٹ نے کیا ہے شاید کسی دشمن ملک کی عدالت بھی نہ کرتی۔ دوسری طرف وہ کسی تحقیقاتی کمیشن تک کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یعنی انہیں بھی ڈوگر کورٹ چاہیے،کیونکہ موصوف کے مطابق یہاں ہر چیز خریدی جاتی ہے۔ ارسلان کی آڑ میں چیف جسٹس کی ذات اور عہدے کو متنازع بناکر بھی کہہ رہے ہیں کہ انہیں چیف جسٹس اور عدلیہ کے باقی ججوں پر اعتماد ہے، لیکن کل یہ بھی کہہ سکتے ہیں: چونکہ چیف جسٹس اور ان کے درمیان معاملات ٹھیک نہیں تھے اس لیے وہ عدلیہ کے دیگر ججوں پر بھی اثرانداز ہوئے ہیں۔ یعنی پورے ادارے کو ہی متنازع بناکر اس کی ساکھ ختم کررہے ہیں۔ چاہے سول بیوروکریسی ہو یا سیاسی لیڈرشپ ، حاضر سروس جنرل ہوں یا ریٹائرڈ… پہلے ہی دولت کے زور پر ان کے ساتھ تھے اور اب تو میڈیا کے بھی ایک بڑے اور بااثرحلقے کو ملک ریاض اپنا ہم نوا بناچکے ہیں۔ صرف سپریم کورٹ بچی تھی جس کو گستاخی کی سزا مل رہی ہے۔ اس سزا کی اصل وجہ وہ ہو ہی نہیں سکتی جو یہ بتارہے ہیں۔ اس کے پیچھے کہانی کچھ اور ہے۔ شاید اصل حقیقت جاننے کے لیے ہمیں پھر کسی وکی لیکس کا انتظار کرنا پڑے گا۔ ہوسکتا ہے کہ ملک ریاض بھی استعمال ہوئے ہوں یا ہورہے ہوں، کیونکہ پرویزمشرف کی طرح یہ حکومت بھی انتخابات سے پہلے چیف جسٹس کو ہٹانے کی کوشش کرے گی۔ پھر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ سپریم کورٹ نے ان مقتدر قوتوں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا ہے جو کسی کو جوابدہ نہیں تھیں، بلکہ حکومتیں بناتی اور گراتی تھیں، جنھوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی تھی۔ بھلا ایسا چیف جسٹس کیسے انہیں قبول ہوسکتا ہے جو کمزوروں کو بھی انصاف دینے کی بات کرتا ہو بلکہ دلاتا بھی ہو! یعنی چیف جسٹس کو ایک اور ریفرنس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سمندر میں رہ کر اتنے سارے مگرمچھوں سے بیک وقت لڑنے کا انجام یہی ہوسکتا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہی ہمارا مقدر ہے؟ کیا عام شہری اسی طرح کسی نہ کسی کا یرغمال بنا رہے گا؟ دیکھنے میں آیا ہے کہ چاہے سیاست دان ہوں یا کوئی اور… سمجھتے ہیں کہ عوام اتنے بیوقوف ہیں کہ جو ہم کہیں گے وہ مان لیں گے۔ ملک ریاض کی دولت کو دیکھتے ہوئے 34کروڑ کوئی بڑی رقم نہیں تھی اُن کے لیے۔ اس سے کئی گنا زیادہ تو وہ سیاست دانوں پر انویسٹ کرتے رہتے تھے۔ جو معمولی ٹھیکیدار سے کھرب پتی بن سکتا ہے، وہ اتنا بھولا بھالا نہیں ہوسکتا کہ ارسلان اسے بلیک میل کرسکے۔ جس کے جرنیلوں سے لے کر صدر اور وزیراعظم تک سے تعلقات ہوں وہ اتنا بے بس نہیں کہ ارسلان اس کا کچھ بگاڑ سکے۔ تو پھر ملک ریاض کو یہ سب ٹوپی ڈراما کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ سب سے بڑا نقصان ہوا ہے اِس ملک کے 98 فیصد عام لوگوں کا، جن کا آخری سہارا، آخری اُمید تھی سپریم کورٹ… لیکن افسوس کہ اس کو بھی متنازع بنادیا گیا۔ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ ملک ان کا بھی ہے، صرف مقتدر قوتوں کا نہیں۔ بلکہ مقتدر قوتیں تو صرف اسے لوٹتی ہیں اور لوٹ کھسوٹ کا پیسہ یورپ و امریکا پہنچا دیتی ہیں، جبکہ غریب کو یہیں جینا ہے اور یہیں دفن ہونا ہے۔ غریب کی آخری اُمید کو بجھنا نہیں چاہیے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ معاملہ ہی اور ہے۔ شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہے۔ چاہے عدلیہ کے خلاف سازش ہو، یا بیٹے کے بدلے بیٹے کا انتقام ہو، یا دولت کے بل بوتے پر انصاف خریدنے کی کوشش یا نگراں وزیراعظم بننے کی تمنا، یا وہ سب سچ ہو جو ملک ریاض کہہ رہے ہیں، لیکن ہدف چیف جسٹس صاحب ہیں نہ کہ ارسلان۔ اب تک چونکہ کوئی بھی ایسی خبر نہیں جس کی وجہ سے چیف جسٹس کی ذات پر کوئی حرف آتا ہو بلکہ عدلیہ کا کوئی بھی جج اس میں ملوث ہو، اس لیے اُمید ہے کہ عدلیہ اور چیف جسٹس کا وقار تو برقرار رہے گا لیکن ملک ریاض اینڈ کمپنی کا انجام اگر ذوالفقار مرزا جیسا نہ بھی ہوا تو زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔ کیونکہ اکثر الٹ جاتی ہیں تدبیریں۔ چیف جسٹس کو معزول کرنے سے پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ جنرل پرویزمشرف کا انجام ایسا ہوگا۔ ملک ریاض انتہائی دولت مند بااثر شخص سہی لیکن اختیارات اور طاقت میں پرویزمشرف سے زیادہ نہیں۔ ان کی دولت حسنی مبارک، قذافی اور زین العابدین سے بھی زیادہ نہیں۔ کون ڈوبتا ہے کون رہتا ہے، یہ بعد کی بات ہے۔ لیکن اس اسکینڈل میں اپنے ہی بیٹے کے خلاف سوموٹو ایکشن نے چیف جسٹس کو ایک بار پھر عوام کے سامنے سرخرو کردیا ہے۔ چند ماہ پہلے وزیراعظم کے بیٹے پر بھی الزام لگا تھا لیکن گیلانی صاحب نے چیف جسٹس صاحب کے بالکل برخلاف کیا تھا۔ انہوں نے بیٹے کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے اے این ایف کے سب افسران ہی تبدیل کردیے تھے۔ کتنا اچھا ہوتا اگر گیلانی صاحب بھی چیف جسٹس صاحب کی طرح کیس پر اثرانداز نہ ہوتے۔ اگر ارسلان مجرم ثابت ہوجاتے ہیں اور انہیں عدالت سے سزا بھی ہوجاتی ہے تو یہ ایک نئے پاکستان کی بنیاد ہوگی۔ اس سے قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔ سول سوسائٹی کے لیے اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے موجودہ تعفن زدہ ماحول میں کہ کسی بڑے کا بیٹا بھی قانون کی گرفت میں آسکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر بڑوں کے بیٹے بھی سوچیں گے کہ وہ قانون سے بالاتر نہیں ہیں، کبھی نہ کبھی وہ بھی قانون کی گرفت میں آسکتے ہیں۔ ایک عام شہری بھی کسی بڑے کے خلاف عدالت میں جاسکتا ہے کہ انصاف صرف بڑوں کے لیے نہیں، بلکہ ان کو بھی مل سکتا ہے۔ صرف گیلانی صاحب ہی نہیں، چوہدری برادران بھی اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے اُس جماعت سے بغل گیر ہوگئے جس کی نفرت کی بنیاد پر ہی سیاست کررہے تھے۔ یہ نفرت کوئی دو چار مہینوں یا برسوں کی نہیں تھی بلکہ چوہدری ظہور الٰہی بھٹو کے بدترین مخالفین میں سے تھے۔ اسی نفرت کے سبب ہی انہوں نے وہ قلم ضیاء الحق سے مانگا تھا جس سے بھٹو کی پھانسی کے پروانے پر دستخط کیے گئے تھے۔ اس نفرت کا اظہار گزشتہ الیکشن میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ الیکشن سے پہلے پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف پرویز الٰہی کی تقریریں اور اشتہارات ابھی بھی عوام کے ذہنوں میں ہیں، لیکن بیٹے کو چھڑوانے کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت کو کندھا پیش کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر پاکستان ٹوٹنے کی بنیاد ایوب دور میں پڑی تھی تو پاکستان کی ترقی کی بنیاد بھی اسی کے دور میں پڑی۔ لیکن اس بات کی بھی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ایوب کی نیک نامی پر پہلا داغ ان کے ہی بیٹے گوہر ایوب کی وجہ سے لگا تھا۔ کاش اگر اُس وقت ایوب بطور صدر، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرح اپنے صاحبزادے کی حرکتوں کا نوٹس لے کر اسے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کروا دیتے تو آج ہم دنیا کی بدعنوان ترین قوموں میں سے ایک نہ ہوتے، اور نہ ہی قانون حکمرانوں، امیروں اور طاقتوروں کے گھر کی لونڈی بنتا۔ گو کہ فی الحال کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، لیکن اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ شاید ایک لمبی لڑائی کے نتیجے میں ایک نئے پاکستان کی بنیاد پڑے، اسی راستے سے گزرکر ہمیں قائداعظم کا پاکستان ملے… ایک جدید مسلم ویلفیئر اسٹیٹ، جہاں جرنیلوں، وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، ڈانوںکی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی ہو۔ جہاں سول سوسائٹی طاقتور ہو۔ جہاں ہر ایک کی جان اور مال محفوظ ہو، اور غریب کو بھی سستا اور فوری انصاف ملے۔