دنیا کا اصول ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ چلتی اس کی ہے جس کے پاس طاقت ہے۔ اور طاقت کے حصول کے لیے انگریز کے کتّے نہلانے والوں نے غریب پاکستان پر ایک ملین سائز کی فوج مسلّط کی ہوئی ہے۔ سوچیں کیا یہ ملک اتنی بھاری بھرکم فوجی طاقت کا متحمل ہے؟ کیا اس کے پاس وسائل ہیں جو اس فوج کی شاہ خرچیاں برداشت کر سکے؟ تنخواہوں کے علاوہ انہیں مراعات کتنی ملتی ہیں، جرنیلوں پر نوازشات الگ ہوتی ہیں۔ اور ساری ہڈحرامی کا بوجھ غریب پاکستانی عوام پر۔ یہ کہاں کا انصاف ہوا؟
فوج کی حرام خوریاں برداشت کرنے کے لیے اگر معیشت میں دم نہ ہو تو غیر ملکی قرضے حاصل کیے جاتے ہیں۔ اب ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں۔ قرض ادا نہ ہوپائے تو ملکی خود مختاری اور سلامتی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اس کی اہم ترین مثال موجودہ باجوائی حکومت ہے جس کی کابینہ اور حکومت میں امریکہ و یورپ کے کارندے بھرے ہوئے ہیں۔ یہودی ایجنٹ عمران خان، وزیرخزانہ عبدالحفیظ شیخ، اسٹیٹ بینک کا گورنر رضا باقر، زلفی بخاری، معید یوسف، شہباز گل۔۔تقریباً نصف حکومت غیرپاکستانی عناصر کی ہے۔ ظاہر سی بات ہے آپ گوری چمڑی والے ڈیوڈ اور گولڈ اسمتھ کو تو لا نہیں سکتے تھے۔ آپ نے پاکستان کا تڑکہ لگے ہوئے کالے انگریز ہی لانے تھے، جو آپ لے آئے۔
یہ سب اس لیے ہوا کیوں کہ آپ آزاد اور خود مختار نہیں ہیں۔ آپ اپنے ہاتھ پاؤں کٹوا چکے ہیں۔ اگر آپ امریکہ و یورپ کے ایجنٹوں کو حکومت سے نکالیں گے تو یہ لوگ قرضوں کا تقاضہ کریں گے اور آپ کے اوپر فاٹف جیسے گدھ چھوڑ کر ساری بوٹیاں نوچ لیں گے۔ بے ضمیر اور بے ایمان لوگوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔
اب آتے ہیں بنیادی نکتے پر۔ یہ بات ہر باخبر اور سمجھ دار پاکستانی اور غیر پاکستانی جانتا ہے کہ اس ملک میں لیاقت علی خان کو راستے سے ہٹانے کے بعد سے لے کر آج تک 'کنٹرولڈ جمہوریت' آتی رہی ہے۔ یعنی جمہوریت کا علم فوج کے ایجنٹ بوٹ پالشیوں نے اٹھایا ہوا ہے۔ جمہوریت کے اولین چمپیئن ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر عمران نیازی تک فوجی بنکروں کی پیداوار ہیں۔ 1971 میں جب ایک خالص جمہوری شخص شیخ مجیب الرّحمٰن اقتدار میں آنے لگا تو پاکستان دشمن جرنیلوں سے یہ بات برداشت نہ ہوئی اور کسی کوٹھے کی پیداوار جنرل یحیٰ خان اور فوجیوں کی ناجائز اولاد زیڈ اے بھٹو کے ذریعے پاکستان کو توڑ کر بھٹو کی 'کنٹرولڈ جمہوریت' نازل کی گئی۔
بھٹو نے فوج کی خوب خدمت کی۔ جنرل یحیٰ اور اس کی ٹیم کے حرامی جرنیلوں کو بچا لیا۔ حمودالرّحمٰن کمیشن رپورٹ شائع نہ ہونے دی۔جب تک بھٹو اپنے فوجی باپوں کا وفادار رہا، اقتدار کے ساتھ چمٹا رہا۔ جوں ہی اس نے فوج کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش کی، عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔
فوج نے یہی کمینہ کام نواز شریف اور الطاف حسین کے معاملے میں کیا۔ دونوں نے آگے چل کر چوریاں اور حرام خوریاں کیں۔ فوج کو ایسے لوگ ہی سوٹ کرتے ہیں جن کی کوئی اخلاقی سطح نہ ہو، جو چور ہوں۔ ایسے کمّی کمینوں کو بلیک میل کرکے تابعداری پر مجبور کرنا آسان ہوتا ہے۔ نواز شریف نے جب بھی تابعداری کے حصار سے نکلنے کی کوشش کی، ذلیل ہو کے نکلا۔
اور اب عمران نیازی جیسا شخص فوج کی چوائس ہے، جس کا ماضی داغ دار ہے۔ یہ شخص جمائمہ یہودن کے حوالے سے یہودی ایجنٹ مشہور ہے۔ ریحام خان کے حوالے سے زانی ، چرسی اور لونڈے باز مشہور ہے۔ اپنی بہن علیمہ خان کے حوالے سے زکوٰۃ چور مشہور ہے۔ جہانگیر ترین کے حوالے سے شوگر مافیا کا حمایتی مشہور ہے۔ غیر ملکی معاونین خصوصی کے حوالے سے غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ اس بیک گراؤنڈ اور گری ہوئی ساکھ کے ساتھ عمران خان کے اندر اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ فوج کی تابعداری سے باہر نکلنے کا سوچ بھی سکے۔
لب لباب یہ ہوا کہ فوج ایسے بدنام زمانہ لوگوں کے حوالے اقتدار کیوں کرتی ہے؟ اپنی لونڈی الیکشن کمیشن کے ذریعے جعلی انتخابات میں ایسے بدکرداروں کو کیوں لے کر آتی ہے۔
تو اس سوال کا جواب سیدھا اور صاف ہے۔
اگر پاکستان میں صاف ستھرے اور ایمان دار لوگوں کی حکومت آگئی تو وہ فوج کے بجائے اللہ سے ڈرنے والے ہوں گے۔ وہ پھر ان جرنیلوں سے ان کی شاہ خرچیوں کا حساب مانگیں گے۔ وہ خارجہ اور دفاعی پالیسی اپنے ہاتھ میں لیں گے۔ فیصلہ سازی میں جی ایچ کیو کی ڈکٹیشن پر لات مار کر صرف اپنا دماغ استعمال کریں گے۔ فوج کا سائز اور فوجی بجٹ کم کر کے وہ پیسہ عوام کی تعلیم، صحت اور معاشی ترقی پر صرف کریں گے۔ مگر ایسے لوگ ان جرنیلوں کو سوٹ تو نہیں کریں گے ناں؟
ان حرامی جرنیلوں کو ایسا وزیراعظم چاہیے ہوتا ہے جو ارشد ملک جیسے خنزیر کے حوالے پی آئی اے کر دے۔ ایئر فورس کے نااہل لوگوں کو پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی سے نکالنے کے بجائے غلام سرور خان جیسے بوٹ پالشیے کے ذریعے پوری پی آئی اے کو دنیا میں ذلیل کروا دے، اور ایئر فورس کے نااہل بے غیرتوں کو بچالے۔ ان جرنیلوں کو ایسا وزیراعظم چاہیے جو کراچی سے 14 نشستیں چوری کرنے کے باوجود کراچی پر تھوکنا بھی پسند نہ کرے۔ برسات میں کراچی کو کچرے، غلاظت میں ڈبو کر سندھی قوم پرستوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے، اور بارش کے ایک ہفتے بعد میڈیا پر آکر بھونک مارے کہ کراچی کی صفائی کے لیے فوج کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔
فوج کی حرام خوریاں برداشت کرنے کے لیے اگر معیشت میں دم نہ ہو تو غیر ملکی قرضے حاصل کیے جاتے ہیں۔ اب ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لیے جاتے ہیں۔ قرض ادا نہ ہوپائے تو ملکی خود مختاری اور سلامتی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اس کی اہم ترین مثال موجودہ باجوائی حکومت ہے جس کی کابینہ اور حکومت میں امریکہ و یورپ کے کارندے بھرے ہوئے ہیں۔ یہودی ایجنٹ عمران خان، وزیرخزانہ عبدالحفیظ شیخ، اسٹیٹ بینک کا گورنر رضا باقر، زلفی بخاری، معید یوسف، شہباز گل۔۔تقریباً نصف حکومت غیرپاکستانی عناصر کی ہے۔ ظاہر سی بات ہے آپ گوری چمڑی والے ڈیوڈ اور گولڈ اسمتھ کو تو لا نہیں سکتے تھے۔ آپ نے پاکستان کا تڑکہ لگے ہوئے کالے انگریز ہی لانے تھے، جو آپ لے آئے۔
یہ سب اس لیے ہوا کیوں کہ آپ آزاد اور خود مختار نہیں ہیں۔ آپ اپنے ہاتھ پاؤں کٹوا چکے ہیں۔ اگر آپ امریکہ و یورپ کے ایجنٹوں کو حکومت سے نکالیں گے تو یہ لوگ قرضوں کا تقاضہ کریں گے اور آپ کے اوپر فاٹف جیسے گدھ چھوڑ کر ساری بوٹیاں نوچ لیں گے۔ بے ضمیر اور بے ایمان لوگوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔
اب آتے ہیں بنیادی نکتے پر۔ یہ بات ہر باخبر اور سمجھ دار پاکستانی اور غیر پاکستانی جانتا ہے کہ اس ملک میں لیاقت علی خان کو راستے سے ہٹانے کے بعد سے لے کر آج تک 'کنٹرولڈ جمہوریت' آتی رہی ہے۔ یعنی جمہوریت کا علم فوج کے ایجنٹ بوٹ پالشیوں نے اٹھایا ہوا ہے۔ جمہوریت کے اولین چمپیئن ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر عمران نیازی تک فوجی بنکروں کی پیداوار ہیں۔ 1971 میں جب ایک خالص جمہوری شخص شیخ مجیب الرّحمٰن اقتدار میں آنے لگا تو پاکستان دشمن جرنیلوں سے یہ بات برداشت نہ ہوئی اور کسی کوٹھے کی پیداوار جنرل یحیٰ خان اور فوجیوں کی ناجائز اولاد زیڈ اے بھٹو کے ذریعے پاکستان کو توڑ کر بھٹو کی 'کنٹرولڈ جمہوریت' نازل کی گئی۔
بھٹو نے فوج کی خوب خدمت کی۔ جنرل یحیٰ اور اس کی ٹیم کے حرامی جرنیلوں کو بچا لیا۔ حمودالرّحمٰن کمیشن رپورٹ شائع نہ ہونے دی۔جب تک بھٹو اپنے فوجی باپوں کا وفادار رہا، اقتدار کے ساتھ چمٹا رہا۔ جوں ہی اس نے فوج کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش کی، عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔
فوج نے یہی کمینہ کام نواز شریف اور الطاف حسین کے معاملے میں کیا۔ دونوں نے آگے چل کر چوریاں اور حرام خوریاں کیں۔ فوج کو ایسے لوگ ہی سوٹ کرتے ہیں جن کی کوئی اخلاقی سطح نہ ہو، جو چور ہوں۔ ایسے کمّی کمینوں کو بلیک میل کرکے تابعداری پر مجبور کرنا آسان ہوتا ہے۔ نواز شریف نے جب بھی تابعداری کے حصار سے نکلنے کی کوشش کی، ذلیل ہو کے نکلا۔
اور اب عمران نیازی جیسا شخص فوج کی چوائس ہے، جس کا ماضی داغ دار ہے۔ یہ شخص جمائمہ یہودن کے حوالے سے یہودی ایجنٹ مشہور ہے۔ ریحام خان کے حوالے سے زانی ، چرسی اور لونڈے باز مشہور ہے۔ اپنی بہن علیمہ خان کے حوالے سے زکوٰۃ چور مشہور ہے۔ جہانگیر ترین کے حوالے سے شوگر مافیا کا حمایتی مشہور ہے۔ غیر ملکی معاونین خصوصی کے حوالے سے غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ اس بیک گراؤنڈ اور گری ہوئی ساکھ کے ساتھ عمران خان کے اندر اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ فوج کی تابعداری سے باہر نکلنے کا سوچ بھی سکے۔
لب لباب یہ ہوا کہ فوج ایسے بدنام زمانہ لوگوں کے حوالے اقتدار کیوں کرتی ہے؟ اپنی لونڈی الیکشن کمیشن کے ذریعے جعلی انتخابات میں ایسے بدکرداروں کو کیوں لے کر آتی ہے۔
تو اس سوال کا جواب سیدھا اور صاف ہے۔
اگر پاکستان میں صاف ستھرے اور ایمان دار لوگوں کی حکومت آگئی تو وہ فوج کے بجائے اللہ سے ڈرنے والے ہوں گے۔ وہ پھر ان جرنیلوں سے ان کی شاہ خرچیوں کا حساب مانگیں گے۔ وہ خارجہ اور دفاعی پالیسی اپنے ہاتھ میں لیں گے۔ فیصلہ سازی میں جی ایچ کیو کی ڈکٹیشن پر لات مار کر صرف اپنا دماغ استعمال کریں گے۔ فوج کا سائز اور فوجی بجٹ کم کر کے وہ پیسہ عوام کی تعلیم، صحت اور معاشی ترقی پر صرف کریں گے۔ مگر ایسے لوگ ان جرنیلوں کو سوٹ تو نہیں کریں گے ناں؟
ان حرامی جرنیلوں کو ایسا وزیراعظم چاہیے ہوتا ہے جو ارشد ملک جیسے خنزیر کے حوالے پی آئی اے کر دے۔ ایئر فورس کے نااہل لوگوں کو پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی سے نکالنے کے بجائے غلام سرور خان جیسے بوٹ پالشیے کے ذریعے پوری پی آئی اے کو دنیا میں ذلیل کروا دے، اور ایئر فورس کے نااہل بے غیرتوں کو بچالے۔ ان جرنیلوں کو ایسا وزیراعظم چاہیے جو کراچی سے 14 نشستیں چوری کرنے کے باوجود کراچی پر تھوکنا بھی پسند نہ کرے۔ برسات میں کراچی کو کچرے، غلاظت میں ڈبو کر سندھی قوم پرستوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے، اور بارش کے ایک ہفتے بعد میڈیا پر آکر بھونک مارے کہ کراچی کی صفائی کے لیے فوج کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔