آپ نے شاید اسلام پڑھا نہیں، اسلام کے مطابق تو ناموسِ رسول کی خاطر حاملہ عورت اور اس کے پیٹ میں موجود بچے کا قتل بھی جائز ہے۔۔ ملاحظہ کیجئے۔ اپنے علم میں اضافہ کیجئے ۔۔۔
حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ اناعْمَى كَانَتْ لَهُ أُمُّ وَلَدٍ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ فَيَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَيَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ قَالَ فَلَمَّا كَانَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ جَعَلَتْ تَقَعُ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَشْتُمُهُ فَأَخَذَ الْمِغْوَلَ فَوَضَعَهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأَ عَلَيْهَا فَقَتَلَهَا فَوَقَعَ بَيْنَ رِجْلَيْهَا طِفْلٌ فَلَطَّخَتْ مَا هُنَاكَ بِالدَّمِ فَلَمَّا أَصْبَحَ ذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا فَعَلَ مَا فَعَلَ لِي عَلَيْهِ حَقٌّ إِلَّا قَامَ فَقَامَ الْأَعْمَى يَتَخَطَّى النَّاسَ وَهُوَ يَتَزَلْزَلُ حَتَّى قَعَدَ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا صَاحِبُهَا كَانَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ فَأَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَأَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ وَلِي مِنْهَا ابْنَانِ مِثْلُ اللُّؤْلُؤَتَيْنِ وَكَانَتْ بِي رَفِيقَةً فَلَمَّا كَانَ الْبَارِحَةَ جَعَلَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيكَ فَأَخَذْتُ الْمِغْوَلَ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأْتُ عَلَيْهَا حَتَّى قَتَلْتُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ
(ابوداؤد، باب الحکم فی من سب)
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک نابینا کی ام ولد باندی تھی جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شان میں گستاخیاں کرتی تھی، یہ نابینا اسکو روکتا تھا مگر وہ نہ رکتی تھی ۔ یہ اسے ڈانٹتا تھا مگر وہ نہیں مانتی تھی۔ راوی کہتا ہے کہ جب ایک رات پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنی اور گالیں دینی شروع کیں تو اس نابینا نے ہتھیار(خنجر) لیا اور اسکے پیٹ پر رکھا اور اس پر اپنا وزن ڈال کر دبا دیا اور مار ڈالا، عورت کی ٹانگوں کے درمیان بچہ نکل پڑا، جو کچھ وہاں تھا خون آلود ہوا ۔
جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ذکر ہوا۔ آپ نے لوگوں کو جمع کیا ، پھر فرمایا کہ اس آدمی کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے کیا جو کچھ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے
تو نابینا شخص کھڑا ہوا، لوگوں کو پھلانگتا ہوا اس حالت میں آگے بڑا کہ وہ کانپ رہا تھا،حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ
یا رسول اللہ میں ہوں اسے مارنے والا، یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور گستاخیاں کرتی تھی میں اسے روکتا تھا وہ نہ رکتی تھی ، میں دھمکاتا تھا وہ باز نہیں آتی تھی اور اس سے میرے دو بچے ہیں جو موتیوں کی طرح ہیں اور وہ مجھ پر مہربان بھی تھی، لیکن آج رات جب اس نے آپ کو گالیاں دینی اور برا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر لیا اور اسکی پیٹ پر رکھا اور زور لگا کر اسے مار ڈالا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں گواہ رہو اسکا خون بے بدلہ ہے۔ (ابوداؤد، باب الحکم فی من سب)