فرانس میں الجزائر اور مراکش سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی پولیس فائرنگ سے ہلاکت کے بعد ہونے والے فسادات تیسرے روز بھی جاری ہیں،بڑے شہروں میں بدامنی پھیلنے کے بعد حکام نےبتایا ہے کہ فرانس بھر میں 400 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
فسادات کے دوران نعرے لگاتے ہوئے مظاہرین نے گاڑیاں نذر آتش کیں، سڑکوں پررکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئےپولیس پر میزائل بھی پھینکے۔
مقامی میڈیا کے مطابق جمعہ کی صبح ساڑھے تین بجے تک 420 افراد کو گرفتارکیا گیا جبکہ ملک بھر میں 40 ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے جو بدھ کے روز جمع کی گئی تعداد سے تقریبا چار گنا زیادہ ہے۔
روئٹرز کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی جانب سے حالات پر قابو پانے کیلئے 40 ہزار پولیس افسران کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے، جوواضح نشانی ہے کہ حکومت کی جانب سے پرتشدد مظاہرے روکنے کی اپیلیں ناکام ہو گئی ہیں۔
ننترے میں ناہیل کی والدہ کی قیادت میں پرامن احتجاج اور مارچ کے بعد مظاہرین نے گاڑیوں کو آگ لگا دی، سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں اور پولیس پر میزائل پھینکے۔
مظاہرین نے عمارتوں میں ’ناہیل کے لیے انتقام‘ کے نعرے لگائے اور رات ہوتے ہی بینک کو آگ لگا دی گئی جس کے بعد فائر فائٹرز نے اسے بجھا دیا اور ایلیٹ پولیس یونٹ نے ایک بکتر بند گاڑی تعینات کی۔ساتھ ہی، تولوز، مارسیل، لیون، پاؤ اور مونٹ پیلیئر میں بھی فسادیوں اور پولیس کے درمیان پرتشدد جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
وسطی پیرس میں نائیکی اور زارا اسٹورز میں توڑ پھوڑ کی گئی اور لوٹ مار کی گئی اس دوران 14 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ مشہور رو ڈی ریوولی شاپنگ اسٹریٹ کے ساتھ دکان کی کھڑکیاں توڑنے کے بعد مزید گرفتاریاں کی گئیں۔
مشرقی مضافاتی علاقے مونٹریول میں سیکڑوں نوجوانوں نے ایک فارمیسی اور میک ڈونلڈز سمیت دکانوں پر حملہ کیا جبکہ ٹاؤن ہال کے باہر ڈبوں کو آگ لگا دی گئی۔ پولیس نے جوابی کارروائی میں آنسو گیس کے گولے داغے۔ لی پیرسین کی رپورٹ کے مطابق مغربی شہر نانٹس میں ایک کار کو ڈل اسٹور کی دھاتی رکاوٹوں سے گزرتے ہوئے روکا گیا جسے بعد میں لوٹ لیا گیا۔
مشرقی شہر لیون کے مضافاتی علاقے والکس این ویلن میں نوجوانوں نے پولیس پر آتش بازی کا سلسلہ جاری رکھا جبکہ پیرس کے شمال مشرق میں واقع سیورن میں ایک درجن کاروں کو آگ لگا دی گئی۔سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں ملک بھر میں آگ لگنے کے متعدد واقعات دکھائے گئے ہیں جن میں پیرس کے شمال میں ایک مضافاتی علاقے میں ایک بس ڈپو اور لیون میں ایک ٹرام بھی شامل ہے۔
فرانس کے دوسرے شہر مارسیل میں پولیس نے سیاحتی مقام لی ویکس پورٹ میں نوجوانوں کے ساتھ جھڑپوں کے دوران آنسو گیس کا استعمال کیا۔
برسلز کے دو علاقوں میں ہونے والے فسادات کے بعد کم از کم 10 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
فرانسیس صدر میکرون کا کہنا ہے کہ ’فائرنگ ناقابل معافی ہے‘ انہوں نے فائرنگ کے بعد پھیلنے والی بدامنی کی مذمت کی۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر منظم نسل پرستی کا الزام عائد کرتی ہیں لیکن میکرون اس الزام کی تردید کرچکے ہیں۔
نوجوان کی موت کیسے ہوئی؟
ناہیل ایم نامی نوجوان کو منگل (27 جون) کی صبح ٹریفک اشارے پررکنے میں ناکامی پر گولی مار کرہلاک کردیا گیا تھا۔
مرسیڈیز اے ایم جی پر سوار ناہیل نے اشارے کے باوجود گاڑی آگے بڑھائی تو ایک پولیس اہلکارنے ڈرائیور سائیڈ پر فائرنگ کی، جس کے بعد بائیں بازو اور سینے میں لگنے والی گولی سے ناھیل کی موت ہو گئی۔
وسطی پیرس کے مغرب میں واقع مضافاتی علاقے نانٹیرے میں 17 سالہ ناہیل ایم کو گولی مار کر ہلاک کرنے والے ملزم افسر کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے نوجوان کے اہل خانہ سے معافی مانگ لی ہے۔
38 سالہ افسر کو جمعرات کے روز رضاکارانہ قتل کے الزام میں باضابطہ تحقیقات کے دائرے میں رکھا گیا تھا، جو اینگلو سیکسن کے دائرہ اختیار میں فرد جرم عائد کرنے کے مساوی ہے۔
نانترے کے پبلک پراسیکیوٹر پاسکل پرچے نے جمعرات کو کہا کہ پولیس کی جانب سے روکے جانے کے بعد گاڑی چلاتے ہوئے ناہیل کے بائیں بازو اور سینے میں گولی لگنے سے ان کی موت واقع ہو ئی۔ پراچے کے مطابق، افسر نے کہا کہ اس نے گولی اس لیے چلائی کیونکہ اسے ڈر تھا کہ وہ اور اس کا ساتھی یا کوئی اور کار سے ٹکرا سکتے ہیں
فرانس میں مظاہرے ملک بھر میں پھیل گئے، 400 گرفتار
مظاہرے پولیس فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے
www.aaj.tv