ایک ذمہ دار شخص کا غیرذمہ دارانہ بیان
-------------------------------------------
آج صبح ترکش چینل "ٹی آر ٹی انٹرنیشنل" پر افغان شورش سے متعلق ایک براہ راست پروگرام سن رہا تھا جس میں اے این پی کے سینئر راہنما افراسیاب خٹک بھی مدعو تھے- طالبان پر پاکستان کے تعلقات ودباؤ پر خٹک صاحب نے پہلے تو طالبان کو خوب جلی کٹی سنائیں، درجن بھر صلواتیں سنانے کے بعد پاکستانی ریاست پر وہی الزامات دہرانے لگے جو امریکہ، ہندوستان اور افغانستان کی ٹرائیکا ہمیشہ سے عائد کرتی آئی ہے- لگی لپٹی رکھے بغیر پاکستان کو طالبان کا پشت پناہ، اور پاکستان سرزمین کو ان کی محفوظ پناہ گاہیں قرار دے دیا- اپنے محبان کی محبت وحمایت میں ایک قدم آگے بڑھتے ہوۓ یہ بھی دعویٰ کردیا کہ افغانستان سے روزانہ کی بنیاد پر پاکستانی مدرسہ-گان کے درجنوں جنازے لاۓ جا رہے ہیں- اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنی زہریلی گفتگو میں انہوں نے طالبان کو وحشی، قاتل اور عرب کلچر (شائد اسلامی تہذیب مراد تھی) کا دلدادہ قرار دیا
افراسیاب خٹک کی افغان حکومت سے ہمدردی اور نظریاتی لگاؤ اپنی جگہ، مگر زمینی حقائق کا یکسر انکار ان کی انتہائی جانبداری، تعصب، اور ریاستی مفادات کو پسِ پشت ڈالنے پر دلالت کرتی ہے-
مدرسہ گان کی مزاحمتی تحریک اگر مقامی
(indigenous)
نہ ہوتی اور اسے اسی سرزمین سے حمایت حاصل نہ ہوتی تو کیا 20 سال تک وہ عالمی افواج کے اکٹھ اور جدید مہلک اسلحے کا مقابلہ کرپاتے؟ حملہ آوروں نے سواۓ ایٹمی بم کے کونسا اسلحہ آزمایا نہیں- حتیٰ کہ "مدر آف آل بمز" بھی گرا کر دیکھ لیا- اگر مدرسہ گان غیرمقامی، جارح، اور ظالم ہوتے تو تین لاکھ نفوس پر مشتمل نام نہاد افغانی فوج یوں ریت کی دیوار ثابت نہ ہوتی، ہزاروں ڈالر جھونکنے کے بعد مغربی صلیبی سورما یوں اپنے لنگوٹ نہ چھڑا کر فرار ہوتے
یہ تحریک اسی سرزمین کی پیداوار ہے اور اس کا حل بھی اسی زمین کے دیگر فریقوں کے پاس ہے- جب تک کٹھ پتلی حکومت اور وار لارڈز اپنے بیرونی سہولت کاروں پر سے انحصار ختم کرکے مدرسہ گان کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کی کوشش کر نہیں لیتے، انہیں اس ہزیمت وشکست خوردگی کا سامنا رہے گا
رہی بات افراسیاب خٹک وہمنواؤں کی، تو ان کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے
-------------------------------------------
آج صبح ترکش چینل "ٹی آر ٹی انٹرنیشنل" پر افغان شورش سے متعلق ایک براہ راست پروگرام سن رہا تھا جس میں اے این پی کے سینئر راہنما افراسیاب خٹک بھی مدعو تھے- طالبان پر پاکستان کے تعلقات ودباؤ پر خٹک صاحب نے پہلے تو طالبان کو خوب جلی کٹی سنائیں، درجن بھر صلواتیں سنانے کے بعد پاکستانی ریاست پر وہی الزامات دہرانے لگے جو امریکہ، ہندوستان اور افغانستان کی ٹرائیکا ہمیشہ سے عائد کرتی آئی ہے- لگی لپٹی رکھے بغیر پاکستان کو طالبان کا پشت پناہ، اور پاکستان سرزمین کو ان کی محفوظ پناہ گاہیں قرار دے دیا- اپنے محبان کی محبت وحمایت میں ایک قدم آگے بڑھتے ہوۓ یہ بھی دعویٰ کردیا کہ افغانستان سے روزانہ کی بنیاد پر پاکستانی مدرسہ-گان کے درجنوں جنازے لاۓ جا رہے ہیں- اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنی زہریلی گفتگو میں انہوں نے طالبان کو وحشی، قاتل اور عرب کلچر (شائد اسلامی تہذیب مراد تھی) کا دلدادہ قرار دیا
افراسیاب خٹک کی افغان حکومت سے ہمدردی اور نظریاتی لگاؤ اپنی جگہ، مگر زمینی حقائق کا یکسر انکار ان کی انتہائی جانبداری، تعصب، اور ریاستی مفادات کو پسِ پشت ڈالنے پر دلالت کرتی ہے-
مدرسہ گان کی مزاحمتی تحریک اگر مقامی
(indigenous)
نہ ہوتی اور اسے اسی سرزمین سے حمایت حاصل نہ ہوتی تو کیا 20 سال تک وہ عالمی افواج کے اکٹھ اور جدید مہلک اسلحے کا مقابلہ کرپاتے؟ حملہ آوروں نے سواۓ ایٹمی بم کے کونسا اسلحہ آزمایا نہیں- حتیٰ کہ "مدر آف آل بمز" بھی گرا کر دیکھ لیا- اگر مدرسہ گان غیرمقامی، جارح، اور ظالم ہوتے تو تین لاکھ نفوس پر مشتمل نام نہاد افغانی فوج یوں ریت کی دیوار ثابت نہ ہوتی، ہزاروں ڈالر جھونکنے کے بعد مغربی صلیبی سورما یوں اپنے لنگوٹ نہ چھڑا کر فرار ہوتے
یہ تحریک اسی سرزمین کی پیداوار ہے اور اس کا حل بھی اسی زمین کے دیگر فریقوں کے پاس ہے- جب تک کٹھ پتلی حکومت اور وار لارڈز اپنے بیرونی سہولت کاروں پر سے انحصار ختم کرکے مدرسہ گان کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کی کوشش کر نہیں لیتے، انہیں اس ہزیمت وشکست خوردگی کا سامنا رہے گا
رہی بات افراسیاب خٹک وہمنواؤں کی، تو ان کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے