jigrot
Minister (2k+ posts)
یہ نعرہ اس وقت رٹ لگا کر گونج رہا ہے جب قوم کے مقدر کے فیصلے پر شک ہو، اور وہی لوگ جنہیں عوام نے سچا ٹھہرانے کے لیے ووٹ دیا تھا، دراصل غیر ملکی اور مقامی “گندا پور اِستبلشمنٹ” کے ایما و اشارے پر کام کر رہے ہوں۔ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت پر اعتماد ٹوٹ چکا ہے کیونکہ علی محمد خان یا وہ دیگر چہیتے، جنہیں کبھی اپنا سمجھا، آج انہی استحصالی طاقتوں کے مہرے بنے نظر آتے ہیں۔
عمران خان کی بہن پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ یقیناً اس میں بھی ایک “سرپرائز” چھپا ہے، کیونکہ جب استحصالی نیٹ ورک مقامی ڈھانچے میں گھس جائے تو چاہے بھائی ہوں یا بہن، ہر رشتہ اس کی رسوائی کی حدوں میں گھِرا ہوا نظر آتا ہے۔ لوگ جو ایک “قائد” کے خلاف سازش کر رہے ہیں، وہ نہ صرف بے حد طاقتور ہیں بلکہ بین الاقوامی استحصالی نظام کا بھی حصہ ہیں وہی نیٹ ورک جو ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتی ہے اور عوامی خودمختاری کو پامال کرنے کے لیے اپنی کالی حکمتِ عملی ترتیب دیتی ہے۔
آج جب ہم کہتے ہیں یہ محض لفظوں کا کھیل نہیں، بلکہ ایک جنگِ شعور ہے۔ اس جنگ میں ہر وہ فرد، ہر وہ ادارہ، اور ہر وہ طاقت ور عنصر، جو عوام کے حقیقی مطالبات کو پس پشت ڈالتا ہے، اسی “غدار” کی فہرست میں شامل ہے۔ جب ہم پی ٹی آئی کی قیادت سے پوچھتے ہیں کہ “کیوں خاموش ہو؟ کن اصولوں پر ڈٹے ہو؟” تو جواب میں صرف گونج ہوتی ہے وہی گونج جو “گندا پور استبلشمنٹ” کے کمروں میں پہلے سے لکھے گئے خطوط کی بازگشت ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ عوام اپنی آنکھیں کھول کر دیکھیں: جو لوگ عمران خان کے خلاف مہم چلاتے ہیں، وہ دراصل اپنے لیڈروں کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں، اور وہ لیڈر وہی ہیں جو بین الاقوامی اور مقامی استحصالی قوتوں کے زیر تسلط ہیں۔ اب وقت ہے کہ “غدار” کی ٹوپی ان کے سر سے کھسک جائے اور وہ نقاب اتار کر بے نقاب ہوں۔ کیونکہ جب تک “غدار” کا اصل چہرہ سامنے نہیں آتا، عوامی حقِ خودارادیت کا خواب محض ایک افسانہ ہی رہے گا۔
عمران خان کی بہن پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ یقیناً اس میں بھی ایک “سرپرائز” چھپا ہے، کیونکہ جب استحصالی نیٹ ورک مقامی ڈھانچے میں گھس جائے تو چاہے بھائی ہوں یا بہن، ہر رشتہ اس کی رسوائی کی حدوں میں گھِرا ہوا نظر آتا ہے۔ لوگ جو ایک “قائد” کے خلاف سازش کر رہے ہیں، وہ نہ صرف بے حد طاقتور ہیں بلکہ بین الاقوامی استحصالی نظام کا بھی حصہ ہیں وہی نیٹ ورک جو ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتی ہے اور عوامی خودمختاری کو پامال کرنے کے لیے اپنی کالی حکمتِ عملی ترتیب دیتی ہے۔
آج جب ہم کہتے ہیں یہ محض لفظوں کا کھیل نہیں، بلکہ ایک جنگِ شعور ہے۔ اس جنگ میں ہر وہ فرد، ہر وہ ادارہ، اور ہر وہ طاقت ور عنصر، جو عوام کے حقیقی مطالبات کو پس پشت ڈالتا ہے، اسی “غدار” کی فہرست میں شامل ہے۔ جب ہم پی ٹی آئی کی قیادت سے پوچھتے ہیں کہ “کیوں خاموش ہو؟ کن اصولوں پر ڈٹے ہو؟” تو جواب میں صرف گونج ہوتی ہے وہی گونج جو “گندا پور استبلشمنٹ” کے کمروں میں پہلے سے لکھے گئے خطوط کی بازگشت ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ عوام اپنی آنکھیں کھول کر دیکھیں: جو لوگ عمران خان کے خلاف مہم چلاتے ہیں، وہ دراصل اپنے لیڈروں کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں، اور وہ لیڈر وہی ہیں جو بین الاقوامی اور مقامی استحصالی قوتوں کے زیر تسلط ہیں۔ اب وقت ہے کہ “غدار” کی ٹوپی ان کے سر سے کھسک جائے اور وہ نقاب اتار کر بے نقاب ہوں۔ کیونکہ جب تک “غدار” کا اصل چہرہ سامنے نہیں آتا، عوامی حقِ خودارادیت کا خواب محض ایک افسانہ ہی رہے گا۔