khanbahadur
MPA (400+ posts)
سب سے پہلے تو تمام محبِ وطن پاکستانیوں کو مبارک باد کہ آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے تین دفعہ کے چور وزیر اعظم اور سب سے بڑھ کر ایک غدارِ وطن کی طبی بنیادوں پر دائر کی گئی ضمانت کی التجا خارج کر دی، یہ وہی غدارِوطن نواز شریف تھا جو کل تک کہتا تھا کہ اگر مجھے جیل میں ڈالا گیا
تو نہ میں کوئی معافی مانگوں کا نہ کوئی رحم کی اپیل کروں گا بلکہ حالات کا مقابلہ کروں گا۔ ملک سے غداری کرنے والوں نے کیا خاک مقابلہ کرنا ہوتا ہے، اور ویسے بھی اس غدار کو ہمارے سروں پر مسلط کرنے والی بھی ہماری اپنی ہی پاک فوج ہے۔ خیر اس بحث سے قطع نظر کہ ہماری فوج نے ماضی میں کیا کیا شگوفے کھلائیں ہیں مگر موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ فوج نے نے بھی اپنے ماضی کے ایڈونچرازم سے اجتناب کرتے ہوئے اب اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا ارادہ کر لیا ہے۔
میری یہ تحریر لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ آج کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیچھے سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ ہے جو نواز شریف کی ضمانت کے خلاف نیب کی ریو پٹیشن سپریم کورٹ بینچ نے خارج کی تھی۔ کیوںکہ اس تفصیلی فیصلے کے بعد ہی خواجہ حارث نے سزا کے خلاف ضمانت والی پہلی پٹیشن واپس لیکر طبعی بنیادوں پر ضمانت کی اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی تھی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہائی کورٹ کے لیے میرٹ پر ضمانت دینا تقریبا ناممکن ہو گیا تھا اسی لیے آج ہائی کورٹ نے اپیل خارج کرنے میں ہی عافیت جانی، اگر آپ کو یاد ہو تو خواجہ حارٹ اور ثاقب نثار کے درمیان مندرجہ ذیل گفتگو ریو پٹیشن کے دوران سپریم کورٹ میں ہوئی تھی
بینچ کے سربراہ نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت کے فیصلے میں کوئی ایک خامی دکھا دیں جس کے تحت سزا باقی نہ رہ سکتی ہو جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مقدمے کے حقائق پر بات کی ہے اور فریقین کو سنا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جس مقدمے میں ان کے موکل کو سزا دی گئی ہے وہ جائیداد نواز شریف کی ہے ہی نہیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ اثاثے کس کے ہیں جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اثاثے بڑے بیٹے کے ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے دوباہ استفسار کیا کہ بڑے بیٹے کے کیسے اثاثے ہو گئے۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ یہ جائیداد ان کے موکل کی ہے لیکن استغاثہ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ جائیداد میرے موکل کی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب آپ نے مان لیا تو آپ کو ثابت بھی کرنا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پیسے کوئی درختوں پر تو نہیں لٹکے تھے کہ اُنھیں توڑ کر اثاثے بنا لیے
اسلام آباد ہائی کورٹ کے آج کے فیصلے کے بعد اب امید کی جاتی ہے کو غدارِ وطن نواز شریف کم از کم آنے والے ۵، ۱۰ سال اپنی لعنتی زندگی پاکستانی جیلوں یا ہسپتالوں میں ہی گزارنی پڑے گی۔ لیکن ہمیں اس غدار کی جیل یاترا سے زیادہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت سے سروکار ہے حکومتِ وقت کو اس کی واپسی کے لیے بھی عملی اقدامات کرنے چاہیے۔
تو نہ میں کوئی معافی مانگوں کا نہ کوئی رحم کی اپیل کروں گا بلکہ حالات کا مقابلہ کروں گا۔ ملک سے غداری کرنے والوں نے کیا خاک مقابلہ کرنا ہوتا ہے، اور ویسے بھی اس غدار کو ہمارے سروں پر مسلط کرنے والی بھی ہماری اپنی ہی پاک فوج ہے۔ خیر اس بحث سے قطع نظر کہ ہماری فوج نے ماضی میں کیا کیا شگوفے کھلائیں ہیں مگر موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ فوج نے نے بھی اپنے ماضی کے ایڈونچرازم سے اجتناب کرتے ہوئے اب اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا ارادہ کر لیا ہے۔
میری یہ تحریر لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ آج کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیچھے سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ ہے جو نواز شریف کی ضمانت کے خلاف نیب کی ریو پٹیشن سپریم کورٹ بینچ نے خارج کی تھی۔ کیوںکہ اس تفصیلی فیصلے کے بعد ہی خواجہ حارث نے سزا کے خلاف ضمانت والی پہلی پٹیشن واپس لیکر طبعی بنیادوں پر ضمانت کی اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی تھی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہائی کورٹ کے لیے میرٹ پر ضمانت دینا تقریبا ناممکن ہو گیا تھا اسی لیے آج ہائی کورٹ نے اپیل خارج کرنے میں ہی عافیت جانی، اگر آپ کو یاد ہو تو خواجہ حارٹ اور ثاقب نثار کے درمیان مندرجہ ذیل گفتگو ریو پٹیشن کے دوران سپریم کورٹ میں ہوئی تھی
بینچ کے سربراہ نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت کے فیصلے میں کوئی ایک خامی دکھا دیں جس کے تحت سزا باقی نہ رہ سکتی ہو جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مقدمے کے حقائق پر بات کی ہے اور فریقین کو سنا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جس مقدمے میں ان کے موکل کو سزا دی گئی ہے وہ جائیداد نواز شریف کی ہے ہی نہیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ اثاثے کس کے ہیں جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اثاثے بڑے بیٹے کے ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے دوباہ استفسار کیا کہ بڑے بیٹے کے کیسے اثاثے ہو گئے۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ یہ جائیداد ان کے موکل کی ہے لیکن استغاثہ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ جائیداد میرے موکل کی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب آپ نے مان لیا تو آپ کو ثابت بھی کرنا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پیسے کوئی درختوں پر تو نہیں لٹکے تھے کہ اُنھیں توڑ کر اثاثے بنا لیے
اسلام آباد ہائی کورٹ کے آج کے فیصلے کے بعد اب امید کی جاتی ہے کو غدارِ وطن نواز شریف کم از کم آنے والے ۵، ۱۰ سال اپنی لعنتی زندگی پاکستانی جیلوں یا ہسپتالوں میں ہی گزارنی پڑے گی۔ لیکن ہمیں اس غدار کی جیل یاترا سے زیادہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت سے سروکار ہے حکومتِ وقت کو اس کی واپسی کے لیے بھی عملی اقدامات کرنے چاہیے۔
Last edited by a moderator: