وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ ﴿١﴾ سورة الهمزة
ترجمہ
ہلاکی ہو ہر اشارہ باز، عیب جُو کے لیے
!
الفاظ کی تحقیق اور آیت کی وضاحت
ایک ہی کردار کے دو پہلو: ہَمْزٌ کے معنی اشارہ بازی کرنے اور لَمْزٌ کے معنی عیب لگانے کے ہیں۔ ہُمَزَۃٌ اور لُمَزَۃٌ مبالغہ کے صیغے ہیں اور اسی سورہ میں آگے حُطَمَۃٌ بھی اسی وزن پر آیا ہے۔ ہُمَزَۃٌ کے معنی اشارہ باز اور لُمَزَۃٌ کے معنی عیب جُو اور عیب چیں کے ہیں۔ اشارہ بازی کا تعلق زیادہ تر حرکتوں اور اداؤں سے ہے اور عیب جُوئی کا تعلق زبان سے۔ یہ دونوں ایک ہی کردار کے دو پہلو ہیں۔ جب کسی کا مذاق اڑانا، اس کا ہتک کرنا اور اس کو دوسروں کی نگاہوں سے گرانا مقصود ہو تو اس میں اشارہ بازی سے بھی کام لیتے ہیں اور زبان سے بھی۔ اشارہ بازی سے کسی کی تضحیک و تحقیر کے جو پہلو پیدا کیے جا سکتے ہیں بسا اوقات وہ زبان کی فقرہ بازیوں سے زیادہ کارگر ہوتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ہُمَزَۃٌ کو مقدم رکھا ہے۔
ہمز و لمز کی عادت مہذب اور شائستہ سوسائٹی میں ہمیشہ عیب سمجھی گئی ہے۔ تمام آسمانی مذاہب میں اس کی ممانعت وارد ہے۔ قرآن مجید میں نہایت واضح الفاظ میں اس سے روکا گیا ہے:
وَلَا تَلْمِزُوْآ أَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ (الحجرات 11:49) اور اپنے آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور ایک دوسرے پر پھبتیاں چست نہ کرو۔
دعوت حق کا مقابلہ اوچھے ہتھیاروں سے: لیکن جدید جاہلیت کی طرح قدیم جاہلیت میں بھی اس فن کو بڑا فروغ حاصل رہا ہے۔ اِس زمانے میں جس طرح اخباروں میں مزاحیہ کالم بھی ہوتے ہیں اور کارٹون بھی چھپتے ہیں جو اشاروں کی زبان میں حریفوں کی تضحیک کرتے ہیں اسی طرح قدیم زمانے میں نقال، بھانڈ اور فقرہ باز ہوتے تھے جو اجرت لے کر شریفوں کی پگڑیاں اچھالتے اور اپنے سرپرستوں کا جی خوش کرتے۔ سورۂ قلم میں قریش کے لیڈروں اور ان کے گنڈوں پر قرآن نے جو جامع تبصرہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی مسلمانوں کی تَوَاصِیْ بِالْحَقِّ وَالصَّبْرِ کی دعوت کو اسی حربے سے شکست دینے کی کوشش کی جو حربے اس زمانے کے پیشہ ور لیڈر اپنے حریفوں کو شکست دینے کے لیے اختیار کرتے ہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ان ہتھکنڈوں سے ہوشیار رہنے کی ہدایت فرمائی گئی:
وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ ۵ ہَمَّازٍ مَّشَّاء بِنَمِیْمٍ ۵ مَنَّاعٍ لِّلْخَیْْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ ۵ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِکَ زَنِیْمٍ ۵ أَن کَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِیْنَ (القلم 14-10:68) اور تم ہر لپاٹیے ذلیل کی بات کا دھیان نہ کرو۔ اشارہ باز اور لگانے بجھانے والے کا۔ بھلائی سے روکنے والا، حدود سے تجاوز کرنے والا اور حق کو تلف کرنے والا۔ اجڈ مزید برآں چاپلوس۔ بوجہ اس کے کہ وہ مال و اولاد والا ہوا۔
ترجمہ و تفسیر مولانا امین احسن اصلاحی
ترجمہ
ہلاکی ہو ہر اشارہ باز، عیب جُو کے لیے
!
الفاظ کی تحقیق اور آیت کی وضاحت
ایک ہی کردار کے دو پہلو: ہَمْزٌ کے معنی اشارہ بازی کرنے اور لَمْزٌ کے معنی عیب لگانے کے ہیں۔ ہُمَزَۃٌ اور لُمَزَۃٌ مبالغہ کے صیغے ہیں اور اسی سورہ میں آگے حُطَمَۃٌ بھی اسی وزن پر آیا ہے۔ ہُمَزَۃٌ کے معنی اشارہ باز اور لُمَزَۃٌ کے معنی عیب جُو اور عیب چیں کے ہیں۔ اشارہ بازی کا تعلق زیادہ تر حرکتوں اور اداؤں سے ہے اور عیب جُوئی کا تعلق زبان سے۔ یہ دونوں ایک ہی کردار کے دو پہلو ہیں۔ جب کسی کا مذاق اڑانا، اس کا ہتک کرنا اور اس کو دوسروں کی نگاہوں سے گرانا مقصود ہو تو اس میں اشارہ بازی سے بھی کام لیتے ہیں اور زبان سے بھی۔ اشارہ بازی سے کسی کی تضحیک و تحقیر کے جو پہلو پیدا کیے جا سکتے ہیں بسا اوقات وہ زبان کی فقرہ بازیوں سے زیادہ کارگر ہوتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ہُمَزَۃٌ کو مقدم رکھا ہے۔
ہمز و لمز کی عادت مہذب اور شائستہ سوسائٹی میں ہمیشہ عیب سمجھی گئی ہے۔ تمام آسمانی مذاہب میں اس کی ممانعت وارد ہے۔ قرآن مجید میں نہایت واضح الفاظ میں اس سے روکا گیا ہے:
وَلَا تَلْمِزُوْآ أَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ (الحجرات 11:49) اور اپنے آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور ایک دوسرے پر پھبتیاں چست نہ کرو۔
دعوت حق کا مقابلہ اوچھے ہتھیاروں سے: لیکن جدید جاہلیت کی طرح قدیم جاہلیت میں بھی اس فن کو بڑا فروغ حاصل رہا ہے۔ اِس زمانے میں جس طرح اخباروں میں مزاحیہ کالم بھی ہوتے ہیں اور کارٹون بھی چھپتے ہیں جو اشاروں کی زبان میں حریفوں کی تضحیک کرتے ہیں اسی طرح قدیم زمانے میں نقال، بھانڈ اور فقرہ باز ہوتے تھے جو اجرت لے کر شریفوں کی پگڑیاں اچھالتے اور اپنے سرپرستوں کا جی خوش کرتے۔ سورۂ قلم میں قریش کے لیڈروں اور ان کے گنڈوں پر قرآن نے جو جامع تبصرہ کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی مسلمانوں کی تَوَاصِیْ بِالْحَقِّ وَالصَّبْرِ کی دعوت کو اسی حربے سے شکست دینے کی کوشش کی جو حربے اس زمانے کے پیشہ ور لیڈر اپنے حریفوں کو شکست دینے کے لیے اختیار کرتے ہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ان ہتھکنڈوں سے ہوشیار رہنے کی ہدایت فرمائی گئی:
وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ ۵ ہَمَّازٍ مَّشَّاء بِنَمِیْمٍ ۵ مَنَّاعٍ لِّلْخَیْْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ ۵ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِکَ زَنِیْمٍ ۵ أَن کَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِیْنَ (القلم 14-10:68) اور تم ہر لپاٹیے ذلیل کی بات کا دھیان نہ کرو۔ اشارہ باز اور لگانے بجھانے والے کا۔ بھلائی سے روکنے والا، حدود سے تجاوز کرنے والا اور حق کو تلف کرنے والا۔ اجڈ مزید برآں چاپلوس۔ بوجہ اس کے کہ وہ مال و اولاد والا ہوا۔
ترجمہ و تفسیر مولانا امین احسن اصلاحی
- Featured Thumbs
- http://www.siasat.pk/forum/images/avatars/0-islam-symbol.jpg