ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ کے گیٹ کے باہر ایک سیاہ رنگ کی ویگو گاڑی کافی دیر سے کھڑی تھی۔ اس ڈبل کیبن کے پیچھے ایک سفید رنگ کی کار بھی تھی۔
کچھ ہی دیر میں ڈبل کیبن سے تین افراد باہر نکلے جن کے چہروں پر نقاب تھے۔ رات گیارہ بجکر پانچ منٹ پر ایک شخص جیل کے گیٹ سے باہر قدم رکھتا ہے اور اس کے فورا بعد گیٹ کی دوسری جانب یعنی جیل کے اندر کھڑا پولیس اہلکار جلدی سے جیل کا داخلی دروازہ بند کر دیتا ہے۔
سیاہ ڈبل کیبن کے پاس کھڑے تین افراد میں سے ایک نقاب پوش آگے بڑھتا ہے اور جیل سے باہر آنے والے شخص سے ہاتھ ملاتا ہے۔
وہ دوسرا ہاتھ اُن کے کندھے پر رکھتے ہوئے ویگو کی جانب چلنے کا اشارہ کرتا ہے۔ پھر یہ تمام افراد گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں اور سیاہ ویگو اور اس کے پیچھے کھڑی سفید کار نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہو جاتی ہیں۔
جیل سے نکلنے والے شخص اینکر اور یوٹیوبر عمران ریاض خان تھے جبکہ ویگو اور کار میں کون بیٹھا تھا، یہ گتھی فی الحال الجھی ہوئی ہے اور پنجاب پولیس اور وزارت داخلہ کے عدالت میں دیے گئے بیانات کے مطابق وہ اب تک ان افراد کو ٹریس کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
اوپر بیان کیا گیا منظر اس سی سی ٹی وی فوٹیج کا ہے جو لاہور ہائی کورٹ میں پولیس کی جانب سے جمع کروائی گئی اور یہ تفصیل اس ویڈیو کو دیکھنے والے افراد نے بی بی سی کے ساتھ شیئر کی ہے۔
’میں پانچ منٹ سے زیادہ بات نہیں کر سکتی۔ میری حالت خراب ہے، میں عمران کے متعلق بات کرتے ہوئے رو پڑتی ہوں، ہو سکتا ہے میں آپ کے سوالوں کے جواب نہ دے سکوں۔‘
بی بی سی کو عمران ریاض کی اہلیہ ارباب عمران کا کپکپاتی آواز میں یہ پیغام اس وقت موصول ہوا جب ہم نے ان سے ان کے شوہر کے لاپتہ ہونے سے متعلق بات کرنے کا میسج بھیجا۔ وہ واضح طور پر اپنے شوہر کے لیے فکر مند تھیں جو کئی ہفتوں سے لاپتہ ہیں۔
اگلے دن دوبارہ ان سے رابطہ ہوا تو عمران ریاض خان کی اہلیہ نے خود ہی وضاحت دی: ’رونے کا مطلب یہ نہیں کہ میں کمزور ہوں، مگر پریشان ضرور ہوں۔ کچھ باتیں، حالات اور میری تکلیف ایسی ہے کہ مجھ میں کہنے کی ہمت نہیں ہے۔‘
’آپ سب جانتے ہیں کہ پچھلے کئی مہینوں سے ہمارے کیا حالات تھے۔ اس سے پہلے بھی پولیس کئی بار گھر آئی اور میرے شوہر کے لائسنس یافتہ ہتھیار اور ان کی بلٹ پروف گاڑی لے کر چلے گئے۔ ان کے خلاف 25 ایف آئی آرز تھیں جن کا سامنا انھوں نے بہت بہادری سے کیا۔‘
ارباب عمران نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ عمران ریاض سمیت تمام اہلخانہ کے ویزے دو بار منسوخ کیے گئے اور ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا۔
’ایک بار ہمیں بطور فیملی دبئی جاتے ہوئے جہاز سے اتارا گیا۔ اس کے علاوہ تین بار عمران کو مین سٹریم میڈیا سے آف ایئر کیا گیا۔ اسی طرح تین بار ان کے یوٹیوب اکاونٹ کو ہیک کیا گیا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ان کا خاندان اس وقت ایک تکلیف دہ حالات سے گزر رہا ہے۔ ’ماں باپ کی تکلیف کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ بچے اب روز اپنے باپ کا پوچھتے ہیں۔ آج 23 دن ہو گئے ہیں ہمارا ان سے کوئی رابطہ نہیں۔‘
ان کی اہلیہ نے سوشل میڈیا پر چلنے والی ان افواہوں کی تردید بھی کی کہ اُن کا رابطہ عمران ریاض خان سے کروایا گیا ہے۔ ان کے مطابق 11 مئی کو اُن کی گرفتاری کے بعد ان کے اہلخانہ کا عمران ریاض خان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔
کچھ ہی دیر میں ڈبل کیبن سے تین افراد باہر نکلے جن کے چہروں پر نقاب تھے۔ رات گیارہ بجکر پانچ منٹ پر ایک شخص جیل کے گیٹ سے باہر قدم رکھتا ہے اور اس کے فورا بعد گیٹ کی دوسری جانب یعنی جیل کے اندر کھڑا پولیس اہلکار جلدی سے جیل کا داخلی دروازہ بند کر دیتا ہے۔
سیاہ ڈبل کیبن کے پاس کھڑے تین افراد میں سے ایک نقاب پوش آگے بڑھتا ہے اور جیل سے باہر آنے والے شخص سے ہاتھ ملاتا ہے۔
وہ دوسرا ہاتھ اُن کے کندھے پر رکھتے ہوئے ویگو کی جانب چلنے کا اشارہ کرتا ہے۔ پھر یہ تمام افراد گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں اور سیاہ ویگو اور اس کے پیچھے کھڑی سفید کار نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہو جاتی ہیں۔
جیل سے نکلنے والے شخص اینکر اور یوٹیوبر عمران ریاض خان تھے جبکہ ویگو اور کار میں کون بیٹھا تھا، یہ گتھی فی الحال الجھی ہوئی ہے اور پنجاب پولیس اور وزارت داخلہ کے عدالت میں دیے گئے بیانات کے مطابق وہ اب تک ان افراد کو ٹریس کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
اوپر بیان کیا گیا منظر اس سی سی ٹی وی فوٹیج کا ہے جو لاہور ہائی کورٹ میں پولیس کی جانب سے جمع کروائی گئی اور یہ تفصیل اس ویڈیو کو دیکھنے والے افراد نے بی بی سی کے ساتھ شیئر کی ہے۔
’میں پانچ منٹ سے زیادہ بات نہیں کر سکتی۔ میری حالت خراب ہے، میں عمران کے متعلق بات کرتے ہوئے رو پڑتی ہوں، ہو سکتا ہے میں آپ کے سوالوں کے جواب نہ دے سکوں۔‘
بی بی سی کو عمران ریاض کی اہلیہ ارباب عمران کا کپکپاتی آواز میں یہ پیغام اس وقت موصول ہوا جب ہم نے ان سے ان کے شوہر کے لاپتہ ہونے سے متعلق بات کرنے کا میسج بھیجا۔ وہ واضح طور پر اپنے شوہر کے لیے فکر مند تھیں جو کئی ہفتوں سے لاپتہ ہیں۔
اگلے دن دوبارہ ان سے رابطہ ہوا تو عمران ریاض خان کی اہلیہ نے خود ہی وضاحت دی: ’رونے کا مطلب یہ نہیں کہ میں کمزور ہوں، مگر پریشان ضرور ہوں۔ کچھ باتیں، حالات اور میری تکلیف ایسی ہے کہ مجھ میں کہنے کی ہمت نہیں ہے۔‘
’آپ سب جانتے ہیں کہ پچھلے کئی مہینوں سے ہمارے کیا حالات تھے۔ اس سے پہلے بھی پولیس کئی بار گھر آئی اور میرے شوہر کے لائسنس یافتہ ہتھیار اور ان کی بلٹ پروف گاڑی لے کر چلے گئے۔ ان کے خلاف 25 ایف آئی آرز تھیں جن کا سامنا انھوں نے بہت بہادری سے کیا۔‘
ارباب عمران نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ عمران ریاض سمیت تمام اہلخانہ کے ویزے دو بار منسوخ کیے گئے اور ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا۔
’ایک بار ہمیں بطور فیملی دبئی جاتے ہوئے جہاز سے اتارا گیا۔ اس کے علاوہ تین بار عمران کو مین سٹریم میڈیا سے آف ایئر کیا گیا۔ اسی طرح تین بار ان کے یوٹیوب اکاونٹ کو ہیک کیا گیا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ان کا خاندان اس وقت ایک تکلیف دہ حالات سے گزر رہا ہے۔ ’ماں باپ کی تکلیف کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ بچے اب روز اپنے باپ کا پوچھتے ہیں۔ آج 23 دن ہو گئے ہیں ہمارا ان سے کوئی رابطہ نہیں۔‘
ان کی اہلیہ نے سوشل میڈیا پر چلنے والی ان افواہوں کی تردید بھی کی کہ اُن کا رابطہ عمران ریاض خان سے کروایا گیا ہے۔ ان کے مطابق 11 مئی کو اُن کی گرفتاری کے بعد ان کے اہلخانہ کا عمران ریاض خان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔
عمران ریاض: سیالکوٹ جیل کے دروازے سے سیاہ ویگو میں بیٹھنے والے صحافی کی گمشدگی معمہ کیسے بنی؟ - BBC News اردو
بی بی سی نے عمران ریاض کے اہلخانہ اور ساتھیوں سے بات کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کیا حالات تھے جن کے تحت عمران ریاض خان گرفتار ہوئے اور پولیس کے بیان کے مطابق ان کی رہائی بھی عمل میں آئی مگر جیل سے قدم نکالتے ہی وہ لاپتہ کیسے ہوئے۔
www.bbc.com