عمران خان کے لئے مفت مشورہ
عرفان حسین
06 ستمبر 2012
عمران خان صاحب کا ایک مقبول ِ عام دعویٰ ہے.... اور اُن کے مداحوںکے نزدیک یہ ایک تاریخی کارنامہ ہے ....کہ وہ نو یا نوےّ دنوں میں (دنوں کی تعداد کا انحصار آپ کے حسن ِ سماعت پر ہے)ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کردیںگے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ بہت جلد ملک کو گندگی سے پاک کر دیںگے ۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے وہ ایوب خان، یحییٰ خاں، ضیاالحق اور مشرف کے طبقہ اشرافیہ میں شامل ہو گئے ہیں ۔ یہ بات سب جانتے ہیںکہ ان سب جری جوانوںنے سسٹم کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اُٹھایا تھا۔
تاہم مجھے خاں صاحب کی نیت پر شک نہیںہے اور نہ ہی اس مستحسن کاوش مَیں اُن کو ناکامی سے ہمکنار ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں ۔ سچی بات یہ ہے کہ بطور ایک پاکستانی مجھے اپنے وطن کو بدعنوانی سے پاک دیکھنے سے زیادہ عزیز کوئی اور چیز نہیںہے۔ تاہم پوری زندگی سرکاری ملازمت میں گزارنے کے بعد میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں ہمارا پورانظام جس طرح کی آلودگی کا شکار ہو چکا ہے، کسی حکمران ، چاہے اُس کی نیت کتنی ہی نیک اور ارادے کتنے ہی قوی کیوںنہ ہوں، کے لئے اس کے ہر شعبے میں سرائیت کرجانے والی بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ایک دنیاوی عمر کافی نہیں ہو گی۔ یہ بات کہتے ہوئے میں کسی قنوطیت کا مظاہر ہ نہیںکر رہا، بلکہ یہ ایک سابقہ سرکاری افسر کی حقیقت پسندی ہے۔
میں جانتا ہوںکہ عمران خان صاحب کو بہت سے ذہین مشیران ِ باتدبیر کی خدمات حاصل ہیں تاہم اس کالم کے ذریعے میں بھی خان صاحب کو ایک مفت مشورہ دینے کا ارادہ رکھتا ہوں اور امید ہے کہ وہ اپنی موجودہ پالیسیاں بناتے (جاری رکھتے ) ہوئے اس کو ملحوظ ِ خاطر رکھیںگے۔ پہلے میں اپنا ایک تجربہ بیان کرتا ہوں.... میں سول سروس سے قبل از وقت ریٹائرڈ ہوا تاکہ کراچی کے مضافات میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ، جس کا ایک خوبصور ت کیمپس زیر ِ تعمیر تھا، کا ڈین بن سکوں۔ ایک دن کیمپس میں بجلی کا کام کرنے والے ٹھیکیدار نے شکایت کی کہ ایک صوبائی محکمے کا انسپکٹر بجلی حاصل کرنے کے لئے درکار سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لئے رشوت طلب کر رہا ہے.... اور ا س کاغذ کے ٹکرے کے بغیر ہم بجلی حاصل نہیںکر سکتے تھے۔ میری ایک جاننے والی خاتون صوبائی وزیر تھیں، چنانچہ میں نے اُن سے اس کی شکایت کی۔ دو دن بعد انہوںنے مجھے فون کر کے بتایا کہ اس بدعنوان انسپکٹر کا ٹھٹھہ تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ مَیں نے یہ خوشخبری ٹھیکیدارکو سنائی۔ اگلے دن وہ ٹھیکیدار بہت پریشانی کے عالم میں میرے پاس آیا اور کہا کہ مَیں اس انسپکٹر کا تبادلہ منسوخ کرادوں۔ جب میںنے وجہ پوچھی تو اُس نے جواب دیا کہ نیا انسپکٹر اور اُس کے دوست جو دیگر محکموں میں ہیں اور ایک مافیا کی طرح کام کر رہے ہیں ، اُس کا اس علاقے میںکام کرنا ناممکن بنا دیںگے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک مگر مچھ پر ہاتھ ڈالیں تو ان کا پورا غول آپ پر جھپٹ پڑے گا۔ بہرحال میںنے د وبارہ اُس خاتون وزیر کو فون نہیں کیا اور مجھے نہیں پتا کہ اُس ٹھیکیدار کا کیا حشر ہوا ۔ ایک اور واقعہ سنیں.... جب 80ءکی دھائی میںمیںنے اکاﺅنٹینٹ جنرل سندھ کا عہدہ سنبھالا تو مجھے احساس تھا کہ اس محکمے میں کتنی خرابی ہے اور خاص طور پر پنشن کے شعبے میں تو بدعنوانی اور خورد برد کی انتہا تھی۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد میںنے تمام سٹاف کو تبدیل کیا اور اعلان کیا کہ ایک ذمہ دار افسر ہر روز گیارہ سے بارہ بجے تک سائلین کی شکایات کی سماعت کرے گا۔اکثر میںبھی وقت نکال کر اس افسر کے ساتھ شکایت کے کاﺅنٹر پر بیٹھتا ۔ ایک ماہ گزرگیا ،مگر کسی نے کوئی شکایت نہ کی۔ مَیں حیران تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے ۔ جب دفتر کے ایک ساتھی سے بات کی تو اس نے مجھے سمجھایا جیسے کسی بچے کو سمجھایا جاتا ہے.... کہ لوگ اتنے ناسمجھ نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیںکہ کسی ایک سرکاری کارندے کے خلاف شکایت کرتے ہوئے وہ پورے محکمے کو اپنا دشمن بنا لیںگے اور جب میری مدت ِ ملازمت ختم ہوجائے گی تو وہ ان کے رحم وکرم پر ہوںگے۔
ہمارے ملک کے رگ وپے کو اپنے پنجوں میں جکڑ لینے والی بدعنوانی کی یہ ایک دو مثالیں ہیں اور ان سے دفتر کے دفتر سیاہ کئے جا سکتے ہیں ۔ ہمارے کاروباری افراد اپنے دفاتر یا گھروں میں بیٹھ کر ان سرکاری افسران کو بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں، مگر وہ اس بات کا ذکر نہیں کرتے کہ وہ اپنے ناجائز فائدے کے لئے رشوت دیتے ہیں ۔ اس طرح وہ بھی اس برائی میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ بدعنوانی صرف سرکاری دفاتر تک ہی محدود نہیں ہے ۔ بڑی بڑی فرموں کے مالکان جانتے ہیںکہ ان کا عملہ کس طرح خریدوفروخت میںسے رقم نکالتاہے، بنک منیجر جب قرضہ جاری کرتے ہیں تو صارف سے اپنا حصہ وصول کرنا نہیں بھولتے، بڑے بڑے کلبوںکے منتخب شدہ ممبران کلب کا ٹھیکہ دیتے ہوئے اپنا فائدہ ضرور سوچتے ہیں، جہاں تک سیاسی میدان میںہونے والی بدعنوانی کا تعلق ہے، تو وزرا کو رقوم کی وصولی کے لئے ماتحت سرکاری افسران کو ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ اگر کوئی وزیر بدعنوانی کرنا چاہتا ہے تو وہ اس بات کو یقینی بنائے گاکہ اس کے محکمے میں بدعنوان افسران ہوں جو خود بھی مال کھائیں اوراُس کی جیب بھی بھریں۔یہ بدعنوانی ہمارے محکموں میں جاگزیں ہے اور قہر یہ ہے کہ معاشرہ بھی اسے تسلیم کر تے ہوئے اس کے ساتھ سمجھوتہ کر چکا ہے۔ اکٹو پس کی طرح پنجے پھیلائے ہوئے اس بدعنوانی کو ختم کرنے کا اگر عمران خان دعوی کرتے ہیں (اور وہ بھی چند دنوں میں ) تو کیا اُن کو یقین ہے کہ اُن کی جماعت مرکز اور چاروں صوبوں میں بیک وقت کامیابی حاصل کرتے ہوئے تنہا حکومت بنا لے گی؟شاید خان صاحب کو علم نہیںہے کہ اب زیادہ تر سرکاری محکمے مرکز کی بجائے صوبوں کے کنٹرول میں ہیں۔
عمران خان اور اُس کی ٹیم جس مسئلے کی تفہیم سے قاصر ہے وہ یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں نچلی سطح پر کم تنخواہیں بدعنوانی کا ایک بڑا سبب ہیں۔ اگر میں دوران ِ ملازمت ایماندار تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ میں رشوت کی پیش کش کوآسانی سے ٹھکرا سکتا تھا.... میرا ایک بچہ تھا، میرے والدین کو میری طرف سے مالی خدمت کی ضرورت نہ تھی اور پھر لکھنے سے بھی میں کچھ پیسے کما لیتا تھا۔ زیادہ تر سرکاری ملازمین کو یہ سہولتےں حاصل نہیں ہوتیں۔ اس کا یہ مطلب نہیںہے کہ معاشرے سے بدعنوانی کاخاتمہ ناممکن ہے ۔ تاہم یہ راتوں رات نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے طویل اور مسلسل کوشش درکار ہے .... صرف نعرے لگانے سے بھی کچھ نہیںہوگا، کیونکہ کئی سال سے نعرے سنتے سنتے قوم کے کان پک چکے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کا آغاز افسر شاہی کے حجم کو کم کرکے کیا جائے۔ ہمیں اتنی بھاری بھرکم بیوروکریسی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی تنخواہوںکو ریاستی آمدنی اور ضرورت کے تناظر میں طے کیا جائے۔ ایک اور بات، یہ تسلیم کرنے میںکوئی تامل نہیں ہونا چاہئے کہ بدعنوانی تیسری دنیا کے تمام ممالک کا مسئلہ ہے.... ہم اس حمام میں دوسروںسے مختلف نہیںہیں۔ حتی کہ مغربی ممالک کوبھی استثنا حاصل نہیںہے، چنانچہ اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے ثابت قدمی، نہ کہ جذباتی نعرے ، درکار ہیں۔ ٭
عرفان حسین

06 ستمبر 2012
عمران خان صاحب کا ایک مقبول ِ عام دعویٰ ہے.... اور اُن کے مداحوںکے نزدیک یہ ایک تاریخی کارنامہ ہے ....کہ وہ نو یا نوےّ دنوں میں (دنوں کی تعداد کا انحصار آپ کے حسن ِ سماعت پر ہے)ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ کردیںگے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ بہت جلد ملک کو گندگی سے پاک کر دیںگے ۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے وہ ایوب خان، یحییٰ خاں، ضیاالحق اور مشرف کے طبقہ اشرافیہ میں شامل ہو گئے ہیں ۔ یہ بات سب جانتے ہیںکہ ان سب جری جوانوںنے سسٹم کو ٹھیک کرنے کا بیڑا اُٹھایا تھا۔
تاہم مجھے خاں صاحب کی نیت پر شک نہیںہے اور نہ ہی اس مستحسن کاوش مَیں اُن کو ناکامی سے ہمکنار ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں ۔ سچی بات یہ ہے کہ بطور ایک پاکستانی مجھے اپنے وطن کو بدعنوانی سے پاک دیکھنے سے زیادہ عزیز کوئی اور چیز نہیںہے۔ تاہم پوری زندگی سرکاری ملازمت میں گزارنے کے بعد میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں ہمارا پورانظام جس طرح کی آلودگی کا شکار ہو چکا ہے، کسی حکمران ، چاہے اُس کی نیت کتنی ہی نیک اور ارادے کتنے ہی قوی کیوںنہ ہوں، کے لئے اس کے ہر شعبے میں سرائیت کرجانے والی بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ایک دنیاوی عمر کافی نہیں ہو گی۔ یہ بات کہتے ہوئے میں کسی قنوطیت کا مظاہر ہ نہیںکر رہا، بلکہ یہ ایک سابقہ سرکاری افسر کی حقیقت پسندی ہے۔
میں جانتا ہوںکہ عمران خان صاحب کو بہت سے ذہین مشیران ِ باتدبیر کی خدمات حاصل ہیں تاہم اس کالم کے ذریعے میں بھی خان صاحب کو ایک مفت مشورہ دینے کا ارادہ رکھتا ہوں اور امید ہے کہ وہ اپنی موجودہ پالیسیاں بناتے (جاری رکھتے ) ہوئے اس کو ملحوظ ِ خاطر رکھیںگے۔ پہلے میں اپنا ایک تجربہ بیان کرتا ہوں.... میں سول سروس سے قبل از وقت ریٹائرڈ ہوا تاکہ کراچی کے مضافات میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ، جس کا ایک خوبصور ت کیمپس زیر ِ تعمیر تھا، کا ڈین بن سکوں۔ ایک دن کیمپس میں بجلی کا کام کرنے والے ٹھیکیدار نے شکایت کی کہ ایک صوبائی محکمے کا انسپکٹر بجلی حاصل کرنے کے لئے درکار سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لئے رشوت طلب کر رہا ہے.... اور ا س کاغذ کے ٹکرے کے بغیر ہم بجلی حاصل نہیںکر سکتے تھے۔ میری ایک جاننے والی خاتون صوبائی وزیر تھیں، چنانچہ میں نے اُن سے اس کی شکایت کی۔ دو دن بعد انہوںنے مجھے فون کر کے بتایا کہ اس بدعنوان انسپکٹر کا ٹھٹھہ تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ مَیں نے یہ خوشخبری ٹھیکیدارکو سنائی۔ اگلے دن وہ ٹھیکیدار بہت پریشانی کے عالم میں میرے پاس آیا اور کہا کہ مَیں اس انسپکٹر کا تبادلہ منسوخ کرادوں۔ جب میںنے وجہ پوچھی تو اُس نے جواب دیا کہ نیا انسپکٹر اور اُس کے دوست جو دیگر محکموں میں ہیں اور ایک مافیا کی طرح کام کر رہے ہیں ، اُس کا اس علاقے میںکام کرنا ناممکن بنا دیںگے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک مگر مچھ پر ہاتھ ڈالیں تو ان کا پورا غول آپ پر جھپٹ پڑے گا۔ بہرحال میںنے د وبارہ اُس خاتون وزیر کو فون نہیں کیا اور مجھے نہیں پتا کہ اُس ٹھیکیدار کا کیا حشر ہوا ۔ ایک اور واقعہ سنیں.... جب 80ءکی دھائی میںمیںنے اکاﺅنٹینٹ جنرل سندھ کا عہدہ سنبھالا تو مجھے احساس تھا کہ اس محکمے میں کتنی خرابی ہے اور خاص طور پر پنشن کے شعبے میں تو بدعنوانی اور خورد برد کی انتہا تھی۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد میںنے تمام سٹاف کو تبدیل کیا اور اعلان کیا کہ ایک ذمہ دار افسر ہر روز گیارہ سے بارہ بجے تک سائلین کی شکایات کی سماعت کرے گا۔اکثر میںبھی وقت نکال کر اس افسر کے ساتھ شکایت کے کاﺅنٹر پر بیٹھتا ۔ ایک ماہ گزرگیا ،مگر کسی نے کوئی شکایت نہ کی۔ مَیں حیران تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے ۔ جب دفتر کے ایک ساتھی سے بات کی تو اس نے مجھے سمجھایا جیسے کسی بچے کو سمجھایا جاتا ہے.... کہ لوگ اتنے ناسمجھ نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیںکہ کسی ایک سرکاری کارندے کے خلاف شکایت کرتے ہوئے وہ پورے محکمے کو اپنا دشمن بنا لیںگے اور جب میری مدت ِ ملازمت ختم ہوجائے گی تو وہ ان کے رحم وکرم پر ہوںگے۔
ہمارے ملک کے رگ وپے کو اپنے پنجوں میں جکڑ لینے والی بدعنوانی کی یہ ایک دو مثالیں ہیں اور ان سے دفتر کے دفتر سیاہ کئے جا سکتے ہیں ۔ ہمارے کاروباری افراد اپنے دفاتر یا گھروں میں بیٹھ کر ان سرکاری افسران کو بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں، مگر وہ اس بات کا ذکر نہیں کرتے کہ وہ اپنے ناجائز فائدے کے لئے رشوت دیتے ہیں ۔ اس طرح وہ بھی اس برائی میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ بدعنوانی صرف سرکاری دفاتر تک ہی محدود نہیں ہے ۔ بڑی بڑی فرموں کے مالکان جانتے ہیںکہ ان کا عملہ کس طرح خریدوفروخت میںسے رقم نکالتاہے، بنک منیجر جب قرضہ جاری کرتے ہیں تو صارف سے اپنا حصہ وصول کرنا نہیں بھولتے، بڑے بڑے کلبوںکے منتخب شدہ ممبران کلب کا ٹھیکہ دیتے ہوئے اپنا فائدہ ضرور سوچتے ہیں، جہاں تک سیاسی میدان میںہونے والی بدعنوانی کا تعلق ہے، تو وزرا کو رقوم کی وصولی کے لئے ماتحت سرکاری افسران کو ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ اگر کوئی وزیر بدعنوانی کرنا چاہتا ہے تو وہ اس بات کو یقینی بنائے گاکہ اس کے محکمے میں بدعنوان افسران ہوں جو خود بھی مال کھائیں اوراُس کی جیب بھی بھریں۔یہ بدعنوانی ہمارے محکموں میں جاگزیں ہے اور قہر یہ ہے کہ معاشرہ بھی اسے تسلیم کر تے ہوئے اس کے ساتھ سمجھوتہ کر چکا ہے۔ اکٹو پس کی طرح پنجے پھیلائے ہوئے اس بدعنوانی کو ختم کرنے کا اگر عمران خان دعوی کرتے ہیں (اور وہ بھی چند دنوں میں ) تو کیا اُن کو یقین ہے کہ اُن کی جماعت مرکز اور چاروں صوبوں میں بیک وقت کامیابی حاصل کرتے ہوئے تنہا حکومت بنا لے گی؟شاید خان صاحب کو علم نہیںہے کہ اب زیادہ تر سرکاری محکمے مرکز کی بجائے صوبوں کے کنٹرول میں ہیں۔
عمران خان اور اُس کی ٹیم جس مسئلے کی تفہیم سے قاصر ہے وہ یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں نچلی سطح پر کم تنخواہیں بدعنوانی کا ایک بڑا سبب ہیں۔ اگر میں دوران ِ ملازمت ایماندار تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ میں رشوت کی پیش کش کوآسانی سے ٹھکرا سکتا تھا.... میرا ایک بچہ تھا، میرے والدین کو میری طرف سے مالی خدمت کی ضرورت نہ تھی اور پھر لکھنے سے بھی میں کچھ پیسے کما لیتا تھا۔ زیادہ تر سرکاری ملازمین کو یہ سہولتےں حاصل نہیں ہوتیں۔ اس کا یہ مطلب نہیںہے کہ معاشرے سے بدعنوانی کاخاتمہ ناممکن ہے ۔ تاہم یہ راتوں رات نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے طویل اور مسلسل کوشش درکار ہے .... صرف نعرے لگانے سے بھی کچھ نہیںہوگا، کیونکہ کئی سال سے نعرے سنتے سنتے قوم کے کان پک چکے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کا آغاز افسر شاہی کے حجم کو کم کرکے کیا جائے۔ ہمیں اتنی بھاری بھرکم بیوروکریسی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی تنخواہوںکو ریاستی آمدنی اور ضرورت کے تناظر میں طے کیا جائے۔ ایک اور بات، یہ تسلیم کرنے میںکوئی تامل نہیں ہونا چاہئے کہ بدعنوانی تیسری دنیا کے تمام ممالک کا مسئلہ ہے.... ہم اس حمام میں دوسروںسے مختلف نہیںہیں۔ حتی کہ مغربی ممالک کوبھی استثنا حاصل نہیںہے، چنانچہ اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے ثابت قدمی، نہ کہ جذباتی نعرے ، درکار ہیں۔ ٭