عمران خان کی سسٹم کیساتھ چھیڑخانی

imranh111.jpg


راشد احمد
زمانہ طالب علمی میں ایک فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا جس میں ایک ہیرو پولیس افسر ہوتا ہے، شروع شروع میں وہ کبھی کسی قحبہ خانے، کسی شراب خانے، کسی گلی کے چور یا معمولی سے غنڈے کو پکڑتا پھر اسکی ہمت بڑھنے لگی اور اس نے بڑے بڑے سمگلرز ، مجرموں پر ہاتھ ڈالنا شروع کردیا۔

اس کے پاس ایک لڑکی کا کیس آیا جس میں ایک نیتا کے بیٹے کا کیس آیا،اس نے نیتا کے بیٹے کو پکڑ کر اندر ڈال دیا، بڑے بڑے لوگوں کی سفارشیں ہوئیں لیکن وہ پولیس افسر ٹس سے مس نہ ہوا، بعد میں نیتا نے لڑکی کے ماں باپ پر دباؤ ڈال کر اور بھاری رقم دیکر لڑکی سے بیان بدلوالیا اور اس طرح نیتا کا بیٹا چھوٹ گیا، عدالت نے اسے وارننگ دی لیکن وہ باز نہ آیا۔

پھر اس نے ایک اور نیتا کے بیٹے کو شراب پی کر ہلڑبازی کرنے اور ایک غریب سائیکل سوار کو ٹکر مارنے پر سب کے سامنے تھپڑ مار کر گرفتار کیا،وہ بھی چھوٹ گیا لیکن وہ باز نہ آیا۔

بعد میں کبھی وہ معطل ہوتا، کبھی اسکا ایک شہر ٹرانسفر، کبھی دوسرے شہر ٹرانسفر۔۔ مارنے کی کوشش ہوتی تو وہ بچ جاتا، ایک تقریب میں اسکی ملاقات ہوم منسٹر سے ہوئی، ہوم منسٹر نے اسکی سب کے سامنے تعریف کی اور پھر اکیلے میں بلالیا اور اسے کہا کہ تم جو مرضی کرو لیکن سسٹم کے ساتھ چھیڑخانی نہ کرنا۔

پھر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یار! میرا کہنے کا مطلب ہے کہ اگر تمہیں ایمانداری کا اتنا کیڑا ہے تو تم چھوٹے موٹے چور پکڑو، جواخانوں پر چھاپے مارو، جسم فروش عورتوں کو گرفتار کرو لیکن کسی بڑے سے پنگا مت لینا ورنہ تم اسی سسٹم کے ہاتھوں مارے جاؤ گے۔

اس ہیرو کا انجام انتہائی دردناک ہوتا ہے، فلم کے ہاتھوں میں ہیرو ایک بزرگ سائل کے ہاتھوں مارا جاتا ہےجو اسے گولی مارتے ہوئے اس سے روتے ہوئے معافیاں مانگتے ہوئے کہتا ہے کہ باؤ جی! معاف کردو میں مجبور تھا۔

عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو اس نے سسٹم کیساتھ چھیڑخانی شروع کردی، بیوروکریسی اس سے تنگ، اپوزیشن اس سے تنگ، اپنے اتحادی اور پارٹی رہنما اس سے تنگ ، میڈیا اس سے تنگ جس کے نتیجے میں عوام بھی اس سے تنگ۔

اگر عمران خان صرف احساس پروگرام، یوٹیلٹی سٹورز پر سبسڈی، بلین ٹری سونامی بیان بازی تک رہتا ، میڈیا کو اسکی مرضی کے مطابق چلنے دیتا تو ٹھیک تھا لیکن احتساب، وزیراعظم سٹیزن پورٹل، اسلاموفوبیا کے خلاف جنگ، بیوروکریسی میں نئی اصلاحات لانے کی کوشش، منی لانڈرنگ کے خلاف عالمی فورمز پر بیانات، بھارت سے تعلقات ختم کرنا، آزادانہ خارجہ پالیسی اسے لے ڈوبی۔

بیوروکریسی کو وزیراعظم سٹینزن پورٹل ناپسند تھا کیونکہ جو شکایت بیوروکریسی بند کرتی تھی وہ حل نہ ہونیکی شکایت پر دوبارہ کھل جاتی تھی۔ اسلاموفوبیا، منی لاندرنگ کے خلاف بیانات مغربی ممالک کو کھٹکتے تھے، احتساب اپوزیشن کے گلے کی ہڈی تھا، وزارتوں میں من مانی نہ کرنے دینے پر اتحادی ناخوش تھے ورنہ وہ آج وہی وزارتیں لیکر خوش ہیں۔

اگر عمران خان میڈیا کی راہ میں نئے آرڈیننس اور قانون سازی متعارف کرواکر روڑے نہ اٹکاتا، اشتہارات بند نہ کرتا ، سیٹھوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا، تو میڈیا اسکے خلاف نہ ہوتا۔اگر پراپرٹی ڈیلرز کو کھلی چھٹی دیتا، انکی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں روڑے نہ اٹکاتا، راوی اربن پراجیکٹ پراپرٹی ڈیلرز کے حوالے کردیتا تو پراپرٹی ڈیلرز بھی خوش رہتے۔

پلوامہ آپریشن کے بعد کی صورتحال عمران خان کے گلے پڑی اور آزاد خارجہ پالیسی سے ایسا تاثرملا کہ عمران خان مقتدر حلقوں پر حاوی ہورہا ہے۔ وہ کسی کی نہیں سن رہا۔ کچھ لوگوں کو ایسا لگ رہا تھا کہ طاقت ان سے نکل کر سویلین حکومت کے پاس جارہی ہے۔

اس سے شکایت یہ تھی کہ وہ کسی کی بات نہیں مانتا، وہ 8 کروڑ صوبے کی آبادی پر انکی مرضی کا حکمران نہیں لارہا، اس نے انڈیا سے تجارت روک دی، اس نے آزادخارجہ پالیسی اپناکر مغربی قوتوں اور امریکہ سمیت بعض عرب ملکوں کو ناراض کردیا۔

عمران خان تو شاید 2020 کے اوائل میں ہی اقتدار سے ہٹ جاتا لیکن اسے کورونا وبا نے بچالیا جو 2 سال سے زائد عرصہ رہی جس میں عمران حکومت کی کارکردگی شاندار رہی۔ عمران حکومت کورونا سے بھی نبٹتی رہی اور کاروبار بھی چلتے رہے۔

لیکن جیسے ہی کورونا وبا ختم ہوئی تو عمران خان کا اقتدار بھی ختم ہوگیا۔ کوئی کہتا ہے کہ عمران خان کو دورہ روس نے ہٹوایا، کوئی کہتا ہے کہ عمران خان فیض حمید کو آرمی چیف بنوانا چاہتا تھا، کوئی کہتا تھا کہ عمران خان 5 سال پورے کرگیا تو اگلے پانچ سال بھی عمران خان کے ہیں۔

لیکن عمران خان کو ہٹوانے میں فرسودہ سسٹم کا ہاتھ ہے جس کے ساتھ چھیڑخانی کرتا رہا لیکن مضبوط بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں اور عالمی قوتوں کے گٹھ جوڑ سے وہ کچھ نہ کرسکا۔

آج شہبازشریف کی حکومت ہے، مہنگائی پہلے سے زیادہ ہے، معیشت کا بھی برا حال ہے، ڈالر کی قیمت 230 کے قریب ہے، پٹرول کی قیمت جو 149 روپے تھی آج 236 روپے ہے۔ سبزیاںِ دالیں، چاول، آٹا سب مہنگا ہے لیکن سسٹم کے عتاب کا شکار عمران خان ہے۔

عمران خان آج ایک بیان دیتا ہے تواس سے اسکے مخالفین اور سسٹم غداری کا پہلو نکال لیتا ہے، وہ سیشن جج کے خلاف بیان دیتا ہے تو توہین عدالت کیس میں بلالیا جاتا ہے حالانکہ اس سے سخت بیانات تو وہ دے چکے ہیں جو آج برسراقتدار ہیں۔اسکے مخالفین اور پورا سسٹم بیٹھ کر سارا دن اسکے بیانات کا پوسٹمارٹم کرتا ہے کہ کوئی ایسا لفظ نکل آئے جس کو استعمال کرکے اس پر زمین تنگ کی جاسکے۔

چار ماہ پہلے جو اس ملک کا حکمران تھا، چار ماہ بعد وہ غدار، باغی، دہشتگرد، ملک دشمن ٹھہرایا گیا اسکے مخالفین پر جعلی اکاؤنٹس، منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات ہیں لیکن اس پر پہلے توہین مذہب، فرح گوگی، توشہ خانہ جیسے الزامات لگے جس سے بات نہ بنی تو اسے غدار، ملک دشمن ٹھہرانے کی کوشش ہورہی ہے۔

اس کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ سسٹم کیساتھ چھیڑخانی کررہا ہے، سسٹم جیسے چل رہا ہے ویسے چلنے نہیں دے رہا، چپ کرکے بنی گالہ میں نہیں بیٹھ رہا، لندن کی فضاؤں کو انجوائے نہیں کررہا، اسلئے سسٹم کو انہی پرانے چہروں کی ضرورت ہے جو اس سسٹم کی خرابی کے ذمہ دار ہیں۔

پورا سسٹم اور اسکے مخالفین سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح وہ سسٹم سے باہر ہوجائے اور انکا راستہ صاف ہوجائے، کوئی توہین عدالت کیس میں اسکی نااہلی چاہتا ہے، کوئی توشہ خانہ ، ممنوعہ فنڈنگ کیس میں تو کوئی مبینہ بیٹی کے کیس میں اسکی نااہلی چاہتا ہےلیکن اسکے باوجود مخالفین کو خدشہ ہے کہ اگر وہ نااہل ہوبھی گیا تو پھر بھی وہ خطرہ ہے، کچھ ایسا بندوبست کیا جائے کہ ہمیشہ کیلئے راستہ صاف ہوجائے اور وہ کھل کر کھیلیں۔

یہ بندوبست صرف عمران خان کو غدار ، ملک دشمن ثابت کرکے ، توہین مذہب کے کسی کیس میں پھنسا کر ہی ہوسکتا ہے کیونکہ غداری ایسا الزام ہے کہ یہ جس پر لگ جائے اور عوام ماننے لگ جائے تو اسکا خاندان عمر بھر منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔

توہین مذہب بھی بڑا سنگین الزام ہے کیونکہ ہم نماز، روزہ، شرعی احکامات کی پابندی بے شک نہ کریں لیکن جب مذہب کی بات آئے تو مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں ہیں کہ کسی کو گندا کرنے کیلئے اس پرقادیانی ہونے کاالزام لگادیاجائے یا غدار ڈیکلئیر کردیا جائے۔

سسٹم نے سارا میڈیا مینیج کرلیا، کئی لوگ اپنے حق میں کرلئے، سو پچاس فالورز رکھنے والے نوجوانوں سے عمران خان کے خلاف بیانات دلواکر دیکھ لئے، ممنوعہ فنڈنگ، توشہ خانہ کیس، توہین عدالت کیس، توہین الیکشن کمیشن کیس کرکے دیکھ لیالیکن بات نہیں بن رہی۔

سسٹم کی پوری کوشش ہے کہ عمران خان اگر کوئی متنازعہ بات کرے تو اسے وضاحت کا موقع نہ دیا جائے، یہی وجہ ہے کہ پہلے کامران خان کو عمران خان کے انٹرویو سے روکا گیا اور پھر عمران خان کی کل کی تقریر کو میڈیا پر بلیک آؤٹ کردیا گیا اور ساتھ ساتھ یوٹیوب اور انٹرنیٹ بھی ڈاؤن کردیا گیا تاکہ عمران خان کا موقف عوام تک نہ پہنچ سکے لیکن تمام تر کوشش کے باوجود موقف عوام تک پہنچ گیا۔

اسے راستے سے ہٹاکر بھی بات نہیں بنتی کیونکہ ڈر ہے کہ کہیں وہ بھٹو کی طرح زندہ ہی نہ ہوجائے جیسے 1988 میں ہوا کہ تمام تر کوششوں، تمام سیاسی جماعتوں کو ملاکر آئی جے آئی بنوانے، کردارکشی ، ذاتی زندگی پر الزامات ،پیسہ بہانے کے باوجود بے نظیر وزیراعظم بن گئیں۔

عمران خان کے بعد اسکا کوئی وارث نہیں لیکن خطرہ یہ ہے کہ کہیں پوری عوام اسکے سپورٹرز ہی وارث نہ بن جائیں بس یہی پریشانی سسٹم کو ستارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سسٹم نئے انتخابات سے ڈررہا ہے کہیں 17 جولائی والا حال نہ ہوجائے اور دوبارہ نہ آجائے۔
 

samisam

Chief Minister (5k+ posts)
ایک پلان باجوہ اینڈ کمپنی بناتی ہے اور ایک پلان اللہ کی زات بناتی ہے اور
Allah is a best planner
باجوے سے بڑے بڑے فرعون ہزاروں آئے اور مر کھپ گئے آج ان کی ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہیں باجوہ کس کھیت کی مولی ہے
 

rahail

Senator (1k+ posts)
Mein ap ki sirf aik he baat se itifaq karta hon. Khan system kay khilaf jihad kar raha hai. OR HUM ISI SYSTEM KAY KHILAF JIHAD karne wale HAR SHAKS kay saath hain. Ab ya tou yeh system bache ga ya Hum.

ELAN khatam
 

Sar phra Dewanah

Senator (1k+ posts)

پاکستانی عوام ہر بحران میں فوج اور سپریم کورٹ کی طرف دیکھتی تھی . آج ایک خصّی ( نیوٹرل ) اور دوسری اندھی ہو چکی ہے . عوام اپنے حقوق کے لئے اب عمران خان کو اپنا نجات دھندہ سمجھتی ہے اور اس کے اشارے کی منتظر ہے . ایک اشارہ اور پھر سری لنکا ہمارا​

 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
He who is admitting that I was an ISI stooge since 2008 is bringing civilian supremacy. Wow. Funny shit, thanks for the laugh.
You never questioned your Sharif and Zardari mafia stooges of the army when they were fighting for civilian supremacy during Imran Khan govt, hypocrite Bughaz Imrani
 

Zulu67

Senator (1k+ posts)
imranh111.jpg


راشد احمد
زمانہ طالب علمی میں ایک فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا جس میں ایک ہیرو پولیس افسر ہوتا ہے، شروع شروع میں وہ کبھی کسی قحبہ خانے، کسی شراب خانے، کسی گلی کے چور یا معمولی سے غنڈے کو پکڑتا پھر اسکی ہمت بڑھنے لگی اور اس نے بڑے بڑے سمگلرز ، مجرموں پر ہاتھ ڈالنا شروع کردیا۔

اس کے پاس ایک لڑکی کا کیس آیا جس میں ایک نیتا کے بیٹے کا کیس آیا،اس نے نیتا کے بیٹے کو پکڑ کر اندر ڈال دیا، بڑے بڑے لوگوں کی سفارشیں ہوئیں لیکن وہ پولیس افسر ٹس سے مس نہ ہوا، بعد میں نیتا نے لڑکی کے ماں باپ پر دباؤ ڈال کر اور بھاری رقم دیکر لڑکی سے بیان بدلوالیا اور اس طرح نیتا کا بیٹا چھوٹ گیا، عدالت نے اسے وارننگ دی لیکن وہ باز نہ آیا۔

پھر اس نے ایک اور نیتا کے بیٹے کو شراب پی کر ہلڑبازی کرنے اور ایک غریب سائیکل سوار کو ٹکر مارنے پر سب کے سامنے تھپڑ مار کر گرفتار کیا،وہ بھی چھوٹ گیا لیکن وہ باز نہ آیا۔

بعد میں کبھی وہ معطل ہوتا، کبھی اسکا ایک شہر ٹرانسفر، کبھی دوسرے شہر ٹرانسفر۔۔ مارنے کی کوشش ہوتی تو وہ بچ جاتا، ایک تقریب میں اسکی ملاقات ہوم منسٹر سے ہوئی، ہوم منسٹر نے اسکی سب کے سامنے تعریف کی اور پھر اکیلے میں بلالیا اور اسے کہا کہ تم جو مرضی کرو لیکن سسٹم کے ساتھ چھیڑخانی نہ کرنا۔

پھر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ یار! میرا کہنے کا مطلب ہے کہ اگر تمہیں ایمانداری کا اتنا کیڑا ہے تو تم چھوٹے موٹے چور پکڑو، جواخانوں پر چھاپے مارو، جسم فروش عورتوں کو گرفتار کرو لیکن کسی بڑے سے پنگا مت لینا ورنہ تم اسی سسٹم کے ہاتھوں مارے جاؤ گے۔

اس ہیرو کا انجام انتہائی دردناک ہوتا ہے، فلم کے ہاتھوں میں ہیرو ایک بزرگ سائل کے ہاتھوں مارا جاتا ہےجو اسے گولی مارتے ہوئے اس سے روتے ہوئے معافیاں مانگتے ہوئے کہتا ہے کہ باؤ جی! معاف کردو میں مجبور تھا۔

عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو اس نے سسٹم کیساتھ چھیڑخانی شروع کردی، بیوروکریسی اس سے تنگ، اپوزیشن اس سے تنگ، اپنے اتحادی اور پارٹی رہنما اس سے تنگ ، میڈیا اس سے تنگ جس کے نتیجے میں عوام بھی اس سے تنگ۔

اگر عمران خان صرف احساس پروگرام، یوٹیلٹی سٹورز پر سبسڈی، بلین ٹری سونامی بیان بازی تک رہتا ، میڈیا کو اسکی مرضی کے مطابق چلنے دیتا تو ٹھیک تھا لیکن احتساب، وزیراعظم سٹیزن پورٹل، اسلاموفوبیا کے خلاف جنگ، بیوروکریسی میں نئی اصلاحات لانے کی کوشش، منی لانڈرنگ کے خلاف عالمی فورمز پر بیانات، بھارت سے تعلقات ختم کرنا، آزادانہ خارجہ پالیسی اسے لے ڈوبی۔

بیوروکریسی کو وزیراعظم سٹینزن پورٹل ناپسند تھا کیونکہ جو شکایت بیوروکریسی بند کرتی تھی وہ حل نہ ہونیکی شکایت پر دوبارہ کھل جاتی تھی۔ اسلاموفوبیا، منی لاندرنگ کے خلاف بیانات مغربی ممالک کو کھٹکتے تھے، احتساب اپوزیشن کے گلے کی ہڈی تھا، وزارتوں میں من مانی نہ کرنے دینے پر اتحادی ناخوش تھے ورنہ وہ آج وہی وزارتیں لیکر خوش ہیں۔

اگر عمران خان میڈیا کی راہ میں نئے آرڈیننس اور قانون سازی متعارف کرواکر روڑے نہ اٹکاتا، اشتہارات بند نہ کرتا ، سیٹھوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا، تو میڈیا اسکے خلاف نہ ہوتا۔اگر پراپرٹی ڈیلرز کو کھلی چھٹی دیتا، انکی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں روڑے نہ اٹکاتا، راوی اربن پراجیکٹ پراپرٹی ڈیلرز کے حوالے کردیتا تو پراپرٹی ڈیلرز بھی خوش رہتے۔

پلوامہ آپریشن کے بعد کی صورتحال عمران خان کے گلے پڑی اور آزاد خارجہ پالیسی سے ایسا تاثرملا کہ عمران خان مقتدر حلقوں پر حاوی ہورہا ہے۔ وہ کسی کی نہیں سن رہا۔ کچھ لوگوں کو ایسا لگ رہا تھا کہ طاقت ان سے نکل کر سویلین حکومت کے پاس جارہی ہے۔

اس سے شکایت یہ تھی کہ وہ کسی کی بات نہیں مانتا، وہ 8 کروڑ صوبے کی آبادی پر انکی مرضی کا حکمران نہیں لارہا، اس نے انڈیا سے تجارت روک دی، اس نے آزادخارجہ پالیسی اپناکر مغربی قوتوں اور امریکہ سمیت بعض عرب ملکوں کو ناراض کردیا۔

عمران خان تو شاید 2020 کے اوائل میں ہی اقتدار سے ہٹ جاتا لیکن اسے کورونا وبا نے بچالیا جو 2 سال سے زائد عرصہ رہی جس میں عمران حکومت کی کارکردگی شاندار رہی۔ عمران حکومت کورونا سے بھی نبٹتی رہی اور کاروبار بھی چلتے رہے۔

لیکن جیسے ہی کورونا وبا ختم ہوئی تو عمران خان کا اقتدار بھی ختم ہوگیا۔ کوئی کہتا ہے کہ عمران خان کو دورہ روس نے ہٹوایا، کوئی کہتا ہے کہ عمران خان فیض حمید کو آرمی چیف بنوانا چاہتا تھا، کوئی کہتا تھا کہ عمران خان 5 سال پورے کرگیا تو اگلے پانچ سال بھی عمران خان کے ہیں۔

لیکن عمران خان کو ہٹوانے میں فرسودہ سسٹم کا ہاتھ ہے جس کے ساتھ چھیڑخانی کرتا رہا لیکن مضبوط بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں اور عالمی قوتوں کے گٹھ جوڑ سے وہ کچھ نہ کرسکا۔

آج شہبازشریف کی حکومت ہے، مہنگائی پہلے سے زیادہ ہے، معیشت کا بھی برا حال ہے، ڈالر کی قیمت 230 کے قریب ہے، پٹرول کی قیمت جو 149 روپے تھی آج 236 روپے ہے۔ سبزیاںِ دالیں، چاول، آٹا سب مہنگا ہے لیکن سسٹم کے عتاب کا شکار عمران خان ہے۔

عمران خان آج ایک بیان دیتا ہے تواس سے اسکے مخالفین اور سسٹم غداری کا پہلو نکال لیتا ہے، وہ سیشن جج کے خلاف بیان دیتا ہے تو توہین عدالت کیس میں بلالیا جاتا ہے حالانکہ اس سے سخت بیانات تو وہ دے چکے ہیں جو آج برسراقتدار ہیں۔اسکے مخالفین اور پورا سسٹم بیٹھ کر سارا دن اسکے بیانات کا پوسٹمارٹم کرتا ہے کہ کوئی ایسا لفظ نکل آئے جس کو استعمال کرکے اس پر زمین تنگ کی جاسکے۔

چار ماہ پہلے جو اس ملک کا حکمران تھا، چار ماہ بعد وہ غدار، باغی، دہشتگرد، ملک دشمن ٹھہرایا گیا اسکے مخالفین پر جعلی اکاؤنٹس، منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات ہیں لیکن اس پر پہلے توہین مذہب، فرح گوگی، توشہ خانہ جیسے الزامات لگے جس سے بات نہ بنی تو اسے غدار، ملک دشمن ٹھہرانے کی کوشش ہورہی ہے۔

اس کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ سسٹم کیساتھ چھیڑخانی کررہا ہے، سسٹم جیسے چل رہا ہے ویسے چلنے نہیں دے رہا، چپ کرکے بنی گالہ میں نہیں بیٹھ رہا، لندن کی فضاؤں کو انجوائے نہیں کررہا، اسلئے سسٹم کو انہی پرانے چہروں کی ضرورت ہے جو اس سسٹم کی خرابی کے ذمہ دار ہیں۔

پورا سسٹم اور اسکے مخالفین سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح وہ سسٹم سے باہر ہوجائے اور انکا راستہ صاف ہوجائے، کوئی توہین عدالت کیس میں اسکی نااہلی چاہتا ہے، کوئی توشہ خانہ ، ممنوعہ فنڈنگ کیس میں تو کوئی مبینہ بیٹی کے کیس میں اسکی نااہلی چاہتا ہےلیکن اسکے باوجود مخالفین کو خدشہ ہے کہ اگر وہ نااہل ہوبھی گیا تو پھر بھی وہ خطرہ ہے، کچھ ایسا بندوبست کیا جائے کہ ہمیشہ کیلئے راستہ صاف ہوجائے اور وہ کھل کر کھیلیں۔

یہ بندوبست صرف عمران خان کو غدار ، ملک دشمن ثابت کرکے ، توہین مذہب کے کسی کیس میں پھنسا کر ہی ہوسکتا ہے کیونکہ غداری ایسا الزام ہے کہ یہ جس پر لگ جائے اور عوام ماننے لگ جائے تو اسکا خاندان عمر بھر منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔

توہین مذہب بھی بڑا سنگین الزام ہے کیونکہ ہم نماز، روزہ، شرعی احکامات کی پابندی بے شک نہ کریں لیکن جب مذہب کی بات آئے تو مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں ہیں کہ کسی کو گندا کرنے کیلئے اس پرقادیانی ہونے کاالزام لگادیاجائے یا غدار ڈیکلئیر کردیا جائے۔

سسٹم نے سارا میڈیا مینیج کرلیا، کئی لوگ اپنے حق میں کرلئے، سو پچاس فالورز رکھنے والے نوجوانوں سے عمران خان کے خلاف بیانات دلواکر دیکھ لئے، ممنوعہ فنڈنگ، توشہ خانہ کیس، توہین عدالت کیس، توہین الیکشن کمیشن کیس کرکے دیکھ لیالیکن بات نہیں بن رہی۔

سسٹم کی پوری کوشش ہے کہ عمران خان اگر کوئی متنازعہ بات کرے تو اسے وضاحت کا موقع نہ دیا جائے، یہی وجہ ہے کہ پہلے کامران خان کو عمران خان کے انٹرویو سے روکا گیا اور پھر عمران خان کی کل کی تقریر کو میڈیا پر بلیک آؤٹ کردیا گیا اور ساتھ ساتھ یوٹیوب اور انٹرنیٹ بھی ڈاؤن کردیا گیا تاکہ عمران خان کا موقف عوام تک نہ پہنچ سکے لیکن تمام تر کوشش کے باوجود موقف عوام تک پہنچ گیا۔

اسے راستے سے ہٹاکر بھی بات نہیں بنتی کیونکہ ڈر ہے کہ کہیں وہ بھٹو کی طرح زندہ ہی نہ ہوجائے جیسے 1988 میں ہوا کہ تمام تر کوششوں، تمام سیاسی جماعتوں کو ملاکر آئی جے آئی بنوانے، کردارکشی ، ذاتی زندگی پر الزامات ،پیسہ بہانے کے باوجود بے نظیر وزیراعظم بن گئیں۔

عمران خان کے بعد اسکا کوئی وارث نہیں لیکن خطرہ یہ ہے کہ کہیں پوری عوام اسکے سپورٹرز ہی وارث نہ بن جائیں بس یہی پریشانی سسٹم کو ستارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سسٹم نئے انتخابات سے ڈررہا ہے کہیں 17 جولائی والا حال نہ ہوجائے اور دوبارہ نہ آجائے۔
And you are a moderator? Long winded gibberish by a supporter of Modi Nawaz from Bombay Lahore? Urrayy wah. Gay Hind.