عمران خان کیلئے خطرہ ابھی ٹلا نہیں،حبیب اکرم

khatrii1i121.jpg


اپنے ویڈیوکالم میں حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ عمران خان حکومت اپنی بے انتہاء نالائقی کے باوجود تین سال اور پانچ ماہ پورے کر چکی ہے۔ اس حکومت کے پشتیبانوں نے پہلی بار اکتوبر 2019 میں تقریباً فیصلہ کر لیا تھا کہ اب اس حکومت کو گھر چلے جانا چاہیے لیکن پھر کورونا آگیا تو تبدیلی کا عمل بہت پیچھے رہ گیا۔

حبیب اکرم کا مزید کہنا تھا کہ عدم اعتماد کی باتیں، اسمبلی توڑنے کی تجویز پر غور، مائنس ون ، تحریک انصاف کے اندر سے نئی قیادت پیدا ہونے کے امکانات وغیرہ محض افواہیں نہیں بلکہ وہ شرائط ہیں جو میرے خیال میں لندن اور پاکستان میں بیٹھے کچھ لوگ دوبارہ بہتر تعلقات کیلئے ایک دوسرے کے سامنے رکھتے رہے ہیں۔ غالبا حبیب اکرم کا اشارہ ڈیل کی خبروں کی طرف تھا

کالم نگار کا مزید کہنا تھا کہ کہ عمران خان اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ اقتدار سے نکل کر میں آپ کیلئے اور بھی خطرناک ہو جاؤں گا تو یہ یہ پیغام ہر اس شخص کیلئے ہے جو جمہوریت کی آڑ میں غیر جمہوری اور غیر سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر کچھ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سازش اگر آشکار ہو جائے تو پھر دم توڑ جاتی ہے مگر پاکستان میں سازش اگر کھل جائے تو قومی مفاد کی شکل اختیار کر لیتی ہےیعنی اب یہ کہا جائے گا کہ عمران خان کی وجہ سے ملک معاشی گرداب میں پھنس چکا ہے اس لیے انہیں اقتدار چھوڑ کر گھر چلے جانا چاہئے۔


حبیب اکرم کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں بہت سوں کو پتا ہے کہ لندن سے آنے والوں میں کون مسافر ہے اور کون قاصد۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ بلاول زرداری جب اسمبلیوں سے استعفے نہ دینے اور عدم اعتماد کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے۔

حبیب اکرم نے وضاحت کی پیپلزپارٹی قومی اسمبلی کے اندر تبدیلی کے بعد ایک ڈیڑھ سال کیلئے وزارت عظمیٰ کی خواہش مند ہے اور نواز شریف وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے تین مہینے بعد الیکشن کا مطالبہ نہ کریں۔

آخر میں حبیب اکرم کہتے ہیں کہ اس کھیل کے اہم ترین فریق نوازشریف کو نہیں بھولنا چاہیے کہ انہوں نے گزشتہ ڈیڑھ سال سے جو اندازِ سیاست اختیار کیا تھا اس میں انتہا پسندی جھلکتی تھی، ان سے توقع یہ تھی کہ وہ اعتدال پیدا کریں گے۔ اعتدال کا مطلب آلۂ کار بننا نہیں ہوتا۔ نواز شریف صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ آلۂ کار کو کبھی عزت نہیں ملتی۔
 

hello

Chief Minister (5k+ posts)
یہی تو وہ کہتا ہے خطرہ ٹلا نہیں یعنی چیلنج موجود ہے یار رہے عمران خان کا فلسفہ ہی یہ ہے چیلنج سے انسان چارج ہوتا ہے چیلنج ہی انسان کو آگے لے کر جاتا ہے جس کے سامنے چیلنج نہیں وہ کچھ نہیں کر سکتا عمران خان اکثر یہ مثالیں دیا کرتے ہیں میرے ساتھ بڑے نامور کھلاڑی تھے میدان کے سکندر بڑا نام تھے ریٹائر ہوئے زندگی میں آرام آ گیا یعنی چیلنج ختم ہو گیا اور وہ کوئی کسی تو کوئی کسی بیماری کا شکار ہو گیا زندگی میں مردانہ وار جینے کے لیے چیلنج ضروری ہے ہیدار چلاک تیز ترار دشمن یعنی مد مقابل کو زندہ رکھتا ہے جناب وہ کہتا ہے چیلنج دو میں تمہیں کرکے دیکھاؤ ں گا
اسے کہا گیا تم کرکٹر نہیںبن سکتے اس نے بن کر دیکھایا
اسے کہا گیا سپنر سے تم فاسٹ بولر نہیں بن سکتے اس نے بن کر دیکھایا
اسے گیا تم شوکت خانم نہیں بنا سکتے بن گیا تو چلا نہیں سکتے اس نے بنایا بھی اور چلا کر دیکھایا بھی
اسے کہا گیا تم سیاست میں ناکام ہو جاؤ گے ایک کھلاڑی سیاست میں کامیاب نہیں ہو تا اس نے بن کر دکھایا
اسے کہا گیا تم دو پارٹی سسٹم نہین توڑ سکتے اس نے توڑا اور دنیا کو ان دو پارتی والو کا حقیقی چہرہ بھی دیکھا دیا
اسے کہا گیا ایک دیہاتی علاقہ میں انٹرنیشنل یو نیوسٹی نہیں بن سکتی اس نے بنا کر دیکھائی
اس نے کے پی کے کی حکومت بنائی تو سارے کہتے اسے صرف ایک بار حکومت ملی ہے ان کی تاریخ ہے یہ دوبارہ پٹھان حکومت نہیں دہراتے اس نے دو تہائی سے دوبارہ وہاں حکومت بنا کر دیکھائی
اسے کہا گیا اس کے ہاتھ میں وزیراعظم کی لکیر نہیں اس نے وزیراعظ بن کر دیکھایا
اب اسے کہا جا رہا ہے وہ انہیں یعنی دو پارٹی والوں کو مٹا نہیں سکے گا یہ بھی تمھاری بھول ہے اللہ سے ڈر کے عاجزی کے ساتھ کہتے ہیں وہ تمہیں بتا پتا دے گا
دیکھی نہیں اپنی حالت ان پی ڈی ایم والوں نے

 

Back
Top