قر ة العین صبا
کبھی پاکستان کے مقابل کسی اور ٹیم کا کڑا میچ ہو اور ساری قوم کی نظریں اس پہ لگی ہوئی ہوں تو ہم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو شروع سے ہی مخالف ٹیم کی حمایت کا بیڑا اٹھا لیتے ہیں اور کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی ٹیم کے بارے میں اپنے منفی اور ذاتی نظریات پیش کرنے لگتے ہیں جیسے ارے یہ لوگ کہاں جیتے ہیں ،سب سٹے باز ہیں ،سب پیسے کے لیں کھیلتے ہیں وغیرہ وغیرہ چاہے دل میں مستقل اپنی ٹیم کی کامیابی کی دعائیں مانگ رہے ہوں دل ہی دل میں قرانی آیات پڑھ پڑھ کر چشم تصوّر میں کھلاڑیوں پہ پھونک رہے ہوں لیکن زبان سے اقرار نہیں کرتے یہ وہ کمزور دل حضرات اور خواتین ہوتے ہیں جو آس پاس والوں کو بھی اور اپنے کمزور دلوں کو بھی مخالف ٹیم کی جیت کا بار بار یقین دلاتے رہتے ہیں تاکہ اگر ٹیم ہار بھی جائے تو دل ناتواں یہ جھٹکا آسانی سے سہ سکے اور انکا قول بھی اونچا رہے اور چاہے دل کی حالت جو بھی ہو یہ کہہ سکیں کہدیکھا ہم نہ کہتے تھے اور .یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو جیتنے کی صورت میں سب سے پہلے جھنڈے لےکر جیت کا جشن منانے سڑکوں پہ نکل آتے ہیں ۔
ملک میں تبدیلی کی بات آتی ہے تو عمران خان کا نام آتا ہے ،یہ نام ہر آدمی کے لیے امید کی کرن اور تبدیلی کا نشان بن گیا ہے لیکن بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر بحث مباحثے میں کہتے نظر آتے ہیں ارے اسنے کیا کرنا ہے ،سب ایک جیسے ہوتے ہیں ،عمران خان بھی آ کے کھائے گا،پہلے سب وعدے کرتے ہیں پھر مکر جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ ،اسی قسم کے لوگ کبھی اسکے پیچھے اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ ہونے کی خبر دیتے ہیں (جسکا مطلب ہمیں تو آج تک نہی سمجھ آیا) کبھی لمبی چوری فلسفیانہ گفتگو کے بعد عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے .مجھے ان سب لوگوں کی آراءبا لکل انہی کمزور دل لوگوں کی آواز محسوس ہوتی ہے جو دل سے تو جیت کے منتظر ہیں ،کامیابی اور ترقی بھی چاہتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی ٹیم کی مخالفت میں ہی بولتے ہیں.یہ لوگ بھی تبدیلی کے منتظر ہیں انہیں امید بھی عمران خان کی شکل میں نظر آتی ہے ،یہ اسکی مقبولیت پہ بھی خوش ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اس خدشے کے ڈر سے کہ اگر خان صاحب کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی کچھ نہ بدلا تو کیا ہوگا یہ زبان سے حمایت نہیں کرنا چاہتے۔
میں عمران خان کو نہ آخری امید سمجھتی ہوں اور نہ ہی کوئی نجات دہندہ لیکن میرا ان تمام لوگوں سے صرف یہ سوال ہے کہ اگر عمران خان نہیں تو پھر کون؟؟؟کیا ہمارے پاس کوئی اور آپشن ہے؟؟ کیا کوئی پلان بی موجود ہے؟؟اگر عمران خان نہیں تو کیا وہ دوبارہ اسی حکومت کو اقتدار میں لانا چاہیںگے جس کے دور کے چار سال پاکستان کی تاریخ کے بد ترین سال کہلائے،جسنے عوام کو بھوک اور پیٹ کی فکر میں ایسا الجھایا کہ انھیں سوچ اور فکر سے بے بہر ہ کر دیا ،بنیادی ضروریات چھینے کے ساتھ ساتھ افی ڈرین کی صورت میں قوم کو نشے کا تحفہ عطا کیا ، چلیں انہیں نہ سہی کیا انھیں صاحب ا اقتدار بنانا چاہیں گے جو الیکشن کی قربت کا سوچ کے نوجوانوں میں لیپ ٹا پ بانٹنے میں مصروف ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی جیب بھی کھلے عام بھر رہے ہیں یہ نادان یہ نہیں جانتے کہ پودوں کی آبیاری کے لیں انکی جڑ کو پانی دیا جاتا ہے پتوں کو سیراب کرنے سے درخت گھنے نہیں ہوا کرتے ،یہ لیپ ٹا پ کی بندر بانٹ سے نوجوانوں کو ٹیکنا لو جی سے مستفید تو کر رہے ہیں لیکن اتناپیسہ ملک کا تعلیمی نظام بہتر بنانے اور سرکاری سکولوں کو ا علیٰ مقام پہ لانے میں استعمال کرتے تو شاید لیپ ٹاپ باٹنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ،چلیں انہیں بھی نہ سہی تو پھرکیا انکو صاحب ا قتدار بنانا چاہیںگے جنکے پیروکاروں کی ضرورت صرف اسوقت پیش آتی ہے جب کسی کومروانا ہو ، دھمکانا ہو ،بھتہ وصول کرنا ہو،کہیں قبضہ کروانا ہو ، کسی کا گھر خالی کروانا ہو یا کسی کو پٹوانا ہو ،جنکے پیر لندن میں بیٹھ کر پریسس کانفرنس کرتے ہیں تو اس پہ کسی نوٹنکی کا گمان ہونے لگتا ہے ،انکے گانے اور حرکات اللہ معاف کرے کسی ذہنی طور پہ عاقل اور بالغ آدمی کی نہیں لگتیں ،پان اور گٹکا چباتے طبقے کے علاوہ کچھ پڑھے لکھے لوگ بھی انکی عقیدت کا شکار ہیں اور مجھے ان لوگوں پہ حیرت ہوتی ہے قصہ مختصر ایک طویل فہرست ہے کچھ آزمائے ہوئے ہیں اور کچھ بار بار آزمائے ہوئے ہیں ۔
مایوسی گناہ اور ناامیدی کفر ہے ،ہم سب تبدیلی اور ترقی چاہتے ہیں اور یہ خدشہ بھی بجا ہے کہ ایسا نہ ہوا تو کیا ہوگا ،لیکن عمران خان کیوں نہیں؟ اک ایسا لیڈر کیوں نہیں جو جب بین الا قومی سطح پہ قوم کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے تو قوم کے لئے شرمندگی کا سامان نہیں کرتا ، بھیگی بلّی نہیں بنتا ،آنکھیں نہیں چراتا ،کسی خاتون کا ہاتھ پکڑ کے اسکے حسن کے قصیدے نہیں پڑتا نہ گلے لگنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے ،پریسس کانفرنس کے دوران بے ڈھنگی طرز پہ گانے گا گا کر خود کو ٹن ثابت نہیں کرتا ، سیاسی نظریات اور وعدے ایک طرف شوکت خانم اور نمل یونی ورسٹی پاکستانی عوام کے لئے وہ دو تحفے ہیں جو اقتدار میں آنے سے پہلے کے ہیں اور اگر اقتدار حاصل کرنے کے لئے بھی ہیں تو بھی کیا برائی ہے؟
،عوام میں سے عمران خان کے ساتھ مل جانے والے لوگوں میں بڑی تعداد اس پڑھے لکھے طبقے کی ہے جو پہلے کبھی سیاسی جلسوں کے لئے اپنے گھر سے نہیں نکلا ،یہ سب لوگ پر امید ہیں ،اپنے حصّے کا چراغ جلانے نکلے ہیں اور اگر خدانخواستہ خان صاحب کے وعدے پورے نہ بھی ہوئے تو یہ چراغ آگ کی صورت بھڑک بھی سکتے ہیں ،انقلاب لیڈر سے نہیں آتے انقلاب قوموں سے آتے ہیں عوام کے نکل کھڑے ہونے سے آتے ہیں ،اور یہ عوام اب نکل کھڑی ہوئی ہے، یہ سب خان صاحب کے حامی ہیں اور وفادار بھی اور وفادار وفاداری بھی کرتے ہیں اور تابعداری بھی اور نتیجہ نہ پانے کی صورت میں یہی وفادار بغاوت بھی کیا کرتے ہیں، سو دل مضبوط کیجئے ،اپنے زور بازو پہ بھروسہ کیجئے اور پر امید رہیے کہ ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے
ملّت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
کبھی پاکستان کے مقابل کسی اور ٹیم کا کڑا میچ ہو اور ساری قوم کی نظریں اس پہ لگی ہوئی ہوں تو ہم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو شروع سے ہی مخالف ٹیم کی حمایت کا بیڑا اٹھا لیتے ہیں اور کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی ٹیم کے بارے میں اپنے منفی اور ذاتی نظریات پیش کرنے لگتے ہیں جیسے ارے یہ لوگ کہاں جیتے ہیں ،سب سٹے باز ہیں ،سب پیسے کے لیں کھیلتے ہیں وغیرہ وغیرہ چاہے دل میں مستقل اپنی ٹیم کی کامیابی کی دعائیں مانگ رہے ہوں دل ہی دل میں قرانی آیات پڑھ پڑھ کر چشم تصوّر میں کھلاڑیوں پہ پھونک رہے ہوں لیکن زبان سے اقرار نہیں کرتے یہ وہ کمزور دل حضرات اور خواتین ہوتے ہیں جو آس پاس والوں کو بھی اور اپنے کمزور دلوں کو بھی مخالف ٹیم کی جیت کا بار بار یقین دلاتے رہتے ہیں تاکہ اگر ٹیم ہار بھی جائے تو دل ناتواں یہ جھٹکا آسانی سے سہ سکے اور انکا قول بھی اونچا رہے اور چاہے دل کی حالت جو بھی ہو یہ کہہ سکیں کہدیکھا ہم نہ کہتے تھے اور .یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو جیتنے کی صورت میں سب سے پہلے جھنڈے لےکر جیت کا جشن منانے سڑکوں پہ نکل آتے ہیں ۔
ملک میں تبدیلی کی بات آتی ہے تو عمران خان کا نام آتا ہے ،یہ نام ہر آدمی کے لیے امید کی کرن اور تبدیلی کا نشان بن گیا ہے لیکن بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر بحث مباحثے میں کہتے نظر آتے ہیں ارے اسنے کیا کرنا ہے ،سب ایک جیسے ہوتے ہیں ،عمران خان بھی آ کے کھائے گا،پہلے سب وعدے کرتے ہیں پھر مکر جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ ،اسی قسم کے لوگ کبھی اسکے پیچھے اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ ہونے کی خبر دیتے ہیں (جسکا مطلب ہمیں تو آج تک نہی سمجھ آیا) کبھی لمبی چوری فلسفیانہ گفتگو کے بعد عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے .مجھے ان سب لوگوں کی آراءبا لکل انہی کمزور دل لوگوں کی آواز محسوس ہوتی ہے جو دل سے تو جیت کے منتظر ہیں ،کامیابی اور ترقی بھی چاہتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی ٹیم کی مخالفت میں ہی بولتے ہیں.یہ لوگ بھی تبدیلی کے منتظر ہیں انہیں امید بھی عمران خان کی شکل میں نظر آتی ہے ،یہ اسکی مقبولیت پہ بھی خوش ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اس خدشے کے ڈر سے کہ اگر خان صاحب کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی کچھ نہ بدلا تو کیا ہوگا یہ زبان سے حمایت نہیں کرنا چاہتے۔
میں عمران خان کو نہ آخری امید سمجھتی ہوں اور نہ ہی کوئی نجات دہندہ لیکن میرا ان تمام لوگوں سے صرف یہ سوال ہے کہ اگر عمران خان نہیں تو پھر کون؟؟؟کیا ہمارے پاس کوئی اور آپشن ہے؟؟ کیا کوئی پلان بی موجود ہے؟؟اگر عمران خان نہیں تو کیا وہ دوبارہ اسی حکومت کو اقتدار میں لانا چاہیںگے جس کے دور کے چار سال پاکستان کی تاریخ کے بد ترین سال کہلائے،جسنے عوام کو بھوک اور پیٹ کی فکر میں ایسا الجھایا کہ انھیں سوچ اور فکر سے بے بہر ہ کر دیا ،بنیادی ضروریات چھینے کے ساتھ ساتھ افی ڈرین کی صورت میں قوم کو نشے کا تحفہ عطا کیا ، چلیں انہیں نہ سہی کیا انھیں صاحب ا اقتدار بنانا چاہیں گے جو الیکشن کی قربت کا سوچ کے نوجوانوں میں لیپ ٹا پ بانٹنے میں مصروف ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی جیب بھی کھلے عام بھر رہے ہیں یہ نادان یہ نہیں جانتے کہ پودوں کی آبیاری کے لیں انکی جڑ کو پانی دیا جاتا ہے پتوں کو سیراب کرنے سے درخت گھنے نہیں ہوا کرتے ،یہ لیپ ٹا پ کی بندر بانٹ سے نوجوانوں کو ٹیکنا لو جی سے مستفید تو کر رہے ہیں لیکن اتناپیسہ ملک کا تعلیمی نظام بہتر بنانے اور سرکاری سکولوں کو ا علیٰ مقام پہ لانے میں استعمال کرتے تو شاید لیپ ٹاپ باٹنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ،چلیں انہیں بھی نہ سہی تو پھرکیا انکو صاحب ا قتدار بنانا چاہیںگے جنکے پیروکاروں کی ضرورت صرف اسوقت پیش آتی ہے جب کسی کومروانا ہو ، دھمکانا ہو ،بھتہ وصول کرنا ہو،کہیں قبضہ کروانا ہو ، کسی کا گھر خالی کروانا ہو یا کسی کو پٹوانا ہو ،جنکے پیر لندن میں بیٹھ کر پریسس کانفرنس کرتے ہیں تو اس پہ کسی نوٹنکی کا گمان ہونے لگتا ہے ،انکے گانے اور حرکات اللہ معاف کرے کسی ذہنی طور پہ عاقل اور بالغ آدمی کی نہیں لگتیں ،پان اور گٹکا چباتے طبقے کے علاوہ کچھ پڑھے لکھے لوگ بھی انکی عقیدت کا شکار ہیں اور مجھے ان لوگوں پہ حیرت ہوتی ہے قصہ مختصر ایک طویل فہرست ہے کچھ آزمائے ہوئے ہیں اور کچھ بار بار آزمائے ہوئے ہیں ۔
مایوسی گناہ اور ناامیدی کفر ہے ،ہم سب تبدیلی اور ترقی چاہتے ہیں اور یہ خدشہ بھی بجا ہے کہ ایسا نہ ہوا تو کیا ہوگا ،لیکن عمران خان کیوں نہیں؟ اک ایسا لیڈر کیوں نہیں جو جب بین الا قومی سطح پہ قوم کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے تو قوم کے لئے شرمندگی کا سامان نہیں کرتا ، بھیگی بلّی نہیں بنتا ،آنکھیں نہیں چراتا ،کسی خاتون کا ہاتھ پکڑ کے اسکے حسن کے قصیدے نہیں پڑتا نہ گلے لگنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے ،پریسس کانفرنس کے دوران بے ڈھنگی طرز پہ گانے گا گا کر خود کو ٹن ثابت نہیں کرتا ، سیاسی نظریات اور وعدے ایک طرف شوکت خانم اور نمل یونی ورسٹی پاکستانی عوام کے لئے وہ دو تحفے ہیں جو اقتدار میں آنے سے پہلے کے ہیں اور اگر اقتدار حاصل کرنے کے لئے بھی ہیں تو بھی کیا برائی ہے؟
،عوام میں سے عمران خان کے ساتھ مل جانے والے لوگوں میں بڑی تعداد اس پڑھے لکھے طبقے کی ہے جو پہلے کبھی سیاسی جلسوں کے لئے اپنے گھر سے نہیں نکلا ،یہ سب لوگ پر امید ہیں ،اپنے حصّے کا چراغ جلانے نکلے ہیں اور اگر خدانخواستہ خان صاحب کے وعدے پورے نہ بھی ہوئے تو یہ چراغ آگ کی صورت بھڑک بھی سکتے ہیں ،انقلاب لیڈر سے نہیں آتے انقلاب قوموں سے آتے ہیں عوام کے نکل کھڑے ہونے سے آتے ہیں ،اور یہ عوام اب نکل کھڑی ہوئی ہے، یہ سب خان صاحب کے حامی ہیں اور وفادار بھی اور وفادار وفاداری بھی کرتے ہیں اور تابعداری بھی اور نتیجہ نہ پانے کی صورت میں یہی وفادار بغاوت بھی کیا کرتے ہیں، سو دل مضبوط کیجئے ،اپنے زور بازو پہ بھروسہ کیجئے اور پر امید رہیے کہ ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے
ملّت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ