عرفان صدیقی کا ایک اور درباری کالم

Goldfinger

MPA (400+ posts)
260228_10151394215326766_1037082019_n.jpg

وزیراعظم کو پی ٹی وی سے علم ہوا کہ پاکستان نے طالبان حکومت کو تسلیم کر لیا ہے

عرفان صدیقی
تازہ ترین موضوع تو افغانستان ہی ہے۔

لیکن اس حوالے سے میں، بلغاریہ نژاد امریکی خاتون جولیانہ کی کہانی کچھ دن بعد سناﺅں گا۔ سفید فام لیکن امریکیوں سے کچھ مختلف نظر آنے والی خوش مزاج سی جولیانیہ نے واشنگٹن میں ویت نام اور کوریا کی جنگوں کا ایندھن بن جانے والوں کی خوبصورت یادگاروں کے بیچوں بیچ، محمود شام سمیت جنوبی ایشیا کے پانچ جید صحافیوں کی موجودگی میں میرے کندھے پہ اپنا ہاتھ مارتے ہوئے کہا تھا


”Mr. Siddiqui, you will certainly fall into a big trouble some day.“

”مسٹرصدیقی! تم ضرور کسی دن، کسی بڑی مصیبت میں پھنس جاؤ گے۔“

اُس وقت شام گہری ہو رہی تھی۔ یادگاروں میں ایستادہ مجسمے سیاہ پڑنے لگے تھے۔ جولیانہ انہیں ”شہدا“ کی یادگاریں قرار دے رہی تھی۔ دونوں بے مصرف جنگوں کی نذر ہو جانے والے امریکیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ شاداب قطعوں میں بنی مرصع اور مسجع یادگاروں کو دیکھتے ہوئے میرا دھیان افغانستان کی طرف چلا گیا جہاں نائن الیون کے بعد سے امریکی سپاہ طالبان کو نیست ونابود کرنے میں جُت چکی تھی۔ واشنگٹن کی اس دل گرفتہ سی شام کو آج پورے اٹھارہ برس ہوچلے ہیں۔ میں نے جولیانہ سے بڑی سنجیدگی کے ساتھ ایک معصومانہ سا سوال پوچھاتھا۔

”جولیانہ! کیا پاس پڑوس میں کوئی ایسا ہی سرسبز وشاداب قطع اور بھی ہے؟“

اُس نے بڑی بڑی غلافی آنکھیں سکیڑتے ہوئے پوچھا ”کیوں؟“

میں نے کہا۔” مجھے لگتا ہے کہ تمہیں، ویت نام اور کوریا کے بعد افغانستان سے آئے ”شہیدوں“ کے لئے بھی ایک یادگار بنانا پڑے گی۔“

میرے رفقا نے دبادبا سا قہقہہ لگایا۔ جولیانہ کی بھی ہنسی چھوٹ گئی۔ اُس نے براہ راست میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے، میرے بائیں کندھے پہ ہاتھ مارتے ہوئے وہ جملہ کہا جس کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا ہے۔

واشنگٹن کے ”جانبازوں“ کی یادگاروں، اٹھارہ سالوں پہ محیط زمانے کی کروٹوں، میرے معصومانہ سے سوال اور جولیانہ کی دوستانہ سی سرزنش کو یہیں چھوڑتے ہوئے، میں آج اپنے مرنجاں مرنج ہمدم دیرینہ، سینیٹر مشاہد حسین سیّد کے ایک تروتازہ شگوفے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو کابل پر طالبان کے قبضے اور مینارپاکستان کے واقعے کے باعث میڈیا میں زیادہ جگہ نہیں پاسکا۔ یوں بھی، اپنی تاریخ سے ہمارا کوئی خاص رشتہ و پیوند نہیں۔ گزشت آنچہ گزشت، جو ہوا سو ہوا، رات گئی بات گئی ہمارا قومی لائحہ عمل ہے جس کو ہم نے ”مٹی پاﺅ“ کے دو لفظی مرکب میں سمودیا ہے۔ سو جب ہم پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں تو سارے حادثے، سارے سانحے، ساری وارداتیں، ساری انہونیاں ”مٹی پاو“ کے انباروں تلے دبی ملتی ہیں۔ کسی قبر کے سرہانے کوئی کتبہ بھی نہیں کہ منوں مٹی تلے سوئے تاریخ کے کسی باب کا اتہ پتہ ہی چل سکے اور اس کے سرہانے فاتحہ ہی کہہ لی جائے۔ ”مٹی پاﺅ“ کو نصب العین بنا لینے کے بعد احساس زیاں بھی گہری نیند سو چکا ہے۔

دانے دنکے کی تلاش میں عمریں بسر کر دینے والے چالیس فیصد سے زائد غریب غربا ماضی سے بے نیاز اور مستقبل سے لاتعلق ہیں۔ اُن کی زندگی کا محور صرف ایک دن ہوتا ہے۔ ایک دن، جس کی صبح کو شام کرنا، اُن کے لئے جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ آسودہ حال طبقے کے لئے سب سے بڑی ترجیح اپنی آسودہ حالی کا تحفظ اور اُسے خوش حالی میں بدلنا ہے۔ دولت مندوں کو اپنی تجوریاں فربہ کرنے کا جنوں ہے۔ میڈیا کو بناﺅ سنگھار کے لئے ہر روز اچھا خاصا سامان آرائش میسرآجاتا ہے۔ تھکے ہارے اہل سیاست نے پتوار پھینک کر خود کو سرکش موجوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ جان لیوا حبس کے باوجود کسی کو بہ آواز بلند دعا مانگنے کا یارا بھی نہیں۔

سینیٹر مشاہد حسین سیّد نے دو تین دن قبل ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا کہ ”یہ ماضی کی بات ہے۔ میں وزیراطلاعات تھا جب طالبان نے کابل پہ قبضہ کر لیا اور پاکستان اُن کی حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا۔ اس کی خبر پی۔ٹی۔وی پہ 9 بجے آئی تو چونکہ میں وزیر اطلاعات تھا تو مجھے وزیراعظم نوازشریف کا ٹیلی فون آیا کہ آپ نے ابھی خبر چلائی ہے کہ پاکستان نے طالبان حکومت کوتسلیم کر لیا ہے تو آپ کو یہ خبر کس نے دی ہے۔ میں نے کہا کہ ہمیں خبر تو فارن آفس نے دی ہے۔ وزیراعظم نے کہا_ ”اچھا مجھے تو اس کا کوئی پتہ نہیں۔“ جب پتہ کیا تو فارن آفس نے بتایا کہ ہمیں ایک ادارے کی طرف سے کہاگیا کہ طالبان حکومت تسلیم کرنے کا اعلان کریں۔ اب ہمیں اس طرح کے بے ہنگم فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔“

میں بھی اس ہوشربا کہانی کے پیچ وخم سے کسی قدر آگاہ تھا لیکن آگاہی رکھنے والے بہت سے دوسروں کی طرح چونچ پروں میں دابے بیٹھا تھا۔ اب جب کہ ایک نہایت معتبر اور بڑی حد تک محتاط رہنے والے سلطانی گواہ نے ڈنکے کی چوٹ پہ یہ راز فاش کردیا ہے تو مجھے بھی حوصلہ ملا کہ تاریخ کے اس ورق سے مزید نقاب سرکا دیا جائے

شکست خوردہ روسی افواج کے انخلا کے بعد بننے والی مجاھدین کی حکومتیں ان عزائم کوعملی جامہ نہ پہنا سکیں جو غیرملکی جارحیت سے نبردآزما نوجوانوں کے دل ودماغ میں رچے بسے تھے۔ ہمہ گیر مایوسی بڑھی تو مختلف جہادی تنظیموں سے وابستہ طلبا، ملاعمر کی قیادت میں جمع ہوئے۔ قندھار میں پہلا باضابطہ اجلاس کرنے والے ان طلبہ کی تعداد پچاس کے لگ بھگ تھی۔ چمن کے قریب پاک افغان سرحد کی ایک اہم چوکی سپین بولدک سے شروع ہونے والی تحریک نے سب سے پہلے قندھار ائیر پورٹ اور پھر قندھار پر قبضہ جمایا۔ پھر یہ قافلہ پھیلتا اور آگے بڑھتا گیا۔ ستمبر 1996 میں طالبان نے کابل میں قدم رکھے اور یوں پورا افغانستان اُن کے زیرنگیں آگیا۔ تب پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ پھر نگران انتظامیہ آ گئی۔ فروری 1997 میں نوازشریف کی وزارت عظمی کا دوسرا دور شروع ہوا۔ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے وہ نفع ونقصان کے زائچے بنانے میں مصروف تھے۔ دوست ممالک سے اُن کا رابطہ تھا۔ طالبان کے حوالے سے وہ بھی نرم گوشہ رکھتے تھے۔ امریکہ اور مغرب کے متوقع ردعمل کو بھی بھانپ رہے تھے۔

یہ 25 مئی 1997 کا ذکر ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اپنی اقامت گاہ کے ایک کمرے میں بیٹھے پی۔ٹی۔وی پر رات 9 بجے کا خبرنامہ دیکھ رہے تھے۔ شہ سرخی تھی کہ پاکستان نے امارات اسلامی افغانستان (طالبان) کی حکومت کو تسلیم کرلیا ہے۔ میاں صاحب کو دھکچا لگا کہ یہ کب، کیسے، کیوں کر، کس کے حکم سے ہوگیا ہے؟ ”میں پاکستان کا وزیراعظم ہوں۔ بے تحاشہ عالمی الجھنیں رکھنے والے، قومی اہمیت کے حامل اتنے بڑے فیصلے کا علم مجھے پی۔ٹی۔وی کے خبر نامے کے ذریعے ہو رہا ہے؟“ حیرت زدگی کی کیفیت میں انہوں نے مشاہد حسین سیّد سے رابطہ کیا۔ وزیراطلاعات نے بتایا کہ جی ہاں میں نے بھی یہ خبر سنی ہے۔ میں معلوم کرتا ہوں کہ یہ کہاں سے آئی اور کیسے چلی؟

کچھ دیر بعد مشاہد صاحب نے وزیراعظم کو بتایا کہ یہ خبر وزارت خارجہ سے آئی تھی۔ ایم ڈی پی۔ٹی۔وی کی یہ وضاحت درست ہے۔ میں نے خود بھی وزارت خارجہ سے اس کی تصدیق کی ہے۔“ میاں صاحب نے مشاہد حسین کے ذمے لگایا کہ وہ وزیرخارجہ گوہرایوب خان سے پوچھیں کہ اس خبر کا ماخد کیا ہے؟ شاہ جی کے استفسار پر وزیرخارجہ نے بتایا کہ ”یہ خبر ایک اہم ایجنسی کی طرف سے آئی۔ ایک اعلی منصب پر فائز اہل کار نے خود مجھ سے بات کی اور یہ خبر چلانے کے لئے کہا۔“ وزیراعظم کی برہمی مزید بڑھ گئی کہ وزیرخارجہ میری کابینہ کا رکن ہے اور جس ایجنسی کا نام لیا جا رہا ہے وہ بھی براہ راست میرے ماتحت ہے۔ پھر مجھ سے بالا بالا یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟ انہوں نے اپنے پرنسپل سیکریٹری انور زاہد سے کہا کہ وہ وزیرخارجہ سے مل کر تفصیلات پوچھیں۔ تفصیلات کیا آنا تھیں۔ اس بات کی تصدیق ہو گئی جو مشاہد حسین سیّد پہلے بتا چکے تھے۔

ابھی نوازشریف کو دوسری بار وزارت عظمی کامنصب سنبھالے بہ مشکل تین ماہ ہوئے تھے۔ آغاز سفر میں ہی ملک کے منتخب چیف ایگزیکٹو کو اپنی ”حدوں“ میں رکھنے کی اس واردات نے میاں صاحب کو برہم کر دیا۔ چیف آف دی آرمی سٹاف، جنرل جہانگیر کرامت سے بات کی گئی تو انہوں نے ذمہ داری متعلقہ ایجنسی پر ڈال دی۔ ایجنسی کے سربراہ سے پوچھا گیا تو ملبہ ماتحت کے سر ڈال دیا گیا۔ وزیر خارجہ سے وضاحت چاہی گئی تو اس نے وہی کہانی سنا دی۔ میاں صاحب نے اگلے ہی دن قریبی رفقا کا ایک مشاورتی اجلاس بلایا۔ ساری صورت حال اُن کے سامنے رکھی۔ تقریباً وہی تمہید باندھی جو وزارت عظمٰی کے ہر دور میں متعدد مواقع پر باندھتے رہے۔

انہوں نے فیصلہ سنایا کہ ”اس معاملے کی پوری چھان بین ہونی چاہیے لیکن ایک بات اہم ہے کہ وزیر خارجہ کا رویہ ناقابل برداشت ہے۔ گوہرایوب صاحب کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ایسا کوئی باضابطہ فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ اگر کسی نے کہا بھی تھا تو وہ بتا دیتے کہ اتنی بڑی بات میں وزیراعظم کی منظوری کے بغیر نہیں کہہ سکتا۔“ میاں صاحب نے کہا کہ ”اس کے بعد انہیں اپنے منصب پر برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔“ شرکا کی اکثریت نے رائے دی کہ ”اس معاملے کا تعلق محض داخلی بدانتظامی، دفتر خارجہ کی نااہلی، کسی وزیر کی خودسری یا ادارہ جاتی کشمکش سے نہیں، اس کا تعلق امور خارجہ کی حساسیت سے ہے۔ پیغام یہ جائے گا کہ وزیراعظم نوازشریف، طالبان حکومت تسلیم کرنے کے خلاف تھے لہذا انہوں نے وزیر خارجہ کو معزول کر دیا تو اس کا فوری اثر پاک افغان تعلقات پر پڑے گا۔ طالبان کے ساتھ کشیدگی پیدا ہو جائے گی۔ اپوزیشن کو بھی پراپگنڈے کا موقع ہاتھ آجائے گا۔ روایتی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک نیا محاذ کھل جائے گا۔ سو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مصلحت غالب آگئی۔ وقتی طورپر گوہر ایوب خان کے خلاف کارروائی ٹل گئی _ لیکن کچھ عرصہ بعد اُنہیں وزارتِ خارجہ سے ہٹا کر پانی اور بجلی کی وزارت سونپ دی گئی۔ وزارت خارجہ سرتاج عزیز کے حصے میں آ گئی۔

ہماری بیاض سیاست کے کسی صفحے پہ رقم یہ چھوٹی سی کہانی، بس کہانی ہی رہے گی۔ یہ پس پردہ تھی تو بھی قوم کا کچھ زیاں نہیں ہو رہا تھا اور اب منظر عام پہ آ گئی ہے تو بھی کوئی بھونچال نہیں آئے گا۔ ”مٹی پاﺅ“ کلچر کے سبب جہاں سقوط ڈھاکہ جیسا پہاڑ جتنا سانحہ، گورستانِ ماضی میں گم ہوگیا ہے وہاں اس نومولود انکشاف کی ننھی منی قبر کس کھاتے میں آتی ہے؟

تاہم ممکن ہے کہ اس کہانی سے کچھ سوالوں کی گنجلک گرہیں کھل سکیں۔ مثلاً یہ کہ نوازشریف کی ”اسٹیبلشمنٹ“ سے کیوں نہیں بنتی؟ ہر بار اس کا جھگڑا کیوں ہو جاتا ہے؟ کیا توتکار کا آغاز اس کی طرف سے ہوتا ہے یا پہلا تیر کسی اور کمین گاہ سے آتا ہے؟ وہ ”ریاست بالائے ریاست“ کا گِلہ کیوں کرتا ہے؟ ممکن ہے اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں
بھی کچھ مدد مل سکے کہ وہ وزیر خارجہ تعینات کرنے کے بجائے، وزارت خارجہ کا قلم دان اپنے پاس رکھنا کیوں پسند کرتا ہے؟
سورس
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
‏‎جب حکمران چور، ڈاکو، غدار اور دین و مُلک فروش ہوں تو پھر احکامات کہیں اور سے ہی آتے ہیں۰
https://twitter.com/x/status/1428407846765572097

بے شرم درباری کتنے فخر سے یہ سب کچھ بتا رہا ہے

آسان الفاظ میں اس کا کہنا ہے کہ..... لوکو آؤ ویکھو، او پئی جے نواز شریف دی وزیر اعظمی تے اودی دو تہائی اکثریت
 

Haha

Minister (2k+ posts)
اس کا مطلب ہے کہ اس کو کیونکہ جنرل ضیا نے اپنے پالتو کتے کی حیثیت سے پال کر حکومت دی تھی تو اس کے بعد آنے والے جرنیلوں نے بھی اس نطفہ حرام چور فراڈئے بے غیرت لعنتی منی لانڈر کی اوقات سے واقفیت کی وجہ سے اس امرتسری رام گلی کے چکلے والے دلے ہاراں والے کی اولاد کو اس کی اصل اوقات کے مطابق کتے کی طرح ہی رکھا اور جو دو دو تہائی اکثریت بھی اس نطفہ حرام اور مودی کے پالتو نواز شریف کو دلاتے رہے وہ اکثریت اسی کے پچھواڑے میں گھس جاتی تھی جب یہ بھونکنا شروع کرتا تھا تو
معلوم تو تھا کہ اس نطفہ حرام کی اوّقات جنرل جیلانی اور جنرل ضیا کے ایک پالتو کتےسے زیادہ نہیں ہے مگر یہ نہی معلوم تھا کہ اس نطفہ حرام کو ہر آنے والا جرنیل ایک آ وارہ اور گلی کے کتے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا
اس جاہل ساجھے ماجھے کے آئی کیو اور گھٹیا نیچ بے غیرت خاندان کی وجہ سے چلو آج اس کے ایڈوائزر عرفان صدیقی المعروف شیطان زندیقی نے خود بتا دیا کہ اسکی اوقات جرنیلوں کے کتے سے زیادہ نہیں تھی
 

Eyeaan

Chief Minister (5k+ posts)
‏‎جب حکمران چور، ڈاکو، غدار اور دین و مُلک فروش ہوں تو پھر احکامات کہیں اور سے ہی آتے ہیں۰
https://twitter.com/x/status/1428407846765572097
نواز کی عمر جھوٹ بولتے اور بھولا بنتے گزر گئی ہے ، جب بھی زاتی مفاد نظر آتا ہے جھوٹ بولتا ہے اول و آخر کاروباری انسان ہے ۔ اسکے بہکاوے میں نہ آئیں سب مغربی ممالک سے مفاد حاصل کرنے یا الزام تراشی کر کے دھمکانے کا حربہ ہے

۔ گارگل وار بارےبریفنگ میں شرکت سے پہلے یکسر مکر گیا تھا کونسی بریفنگ بولا تھا ۔۔ پھر جب گوہر ایوب نے تمام و اقعہ سنایا ۔ڈاکومنٹ سامنے آیا ۔ تو بولا مجھے سمجھ نہیں آئی تھی مجھے پورا نہیں بتایا تھا، دھوکہ ہو گیا۔ ۔
۔۔پھر جدہ جانے کے تحریری معاہدے سے منکر رہا ، وہاں جانے والے اپنی پارٹی کے لوگوں سے قسم کھا کر کہتا رہا کوئی مہاہدہ نہیں ۔ پھر قوم کے سامنے بھی جھوٹی قسم کھا ئی یہ تو صرف دو واقعات ہیں جو عام معلوم دیکارڈ پر موجود ہیں ۔۔ مگر مسلم لیگ کے اپنے لوگوں سے ابتدا ہی سے قسمیں کھا کر جھوٹ بولنے کا بارہا لکھا گیا ہے ۔۔ اس گنجے اور اسکے حواریوں کی باتوں میں مت آئیں

ہمارا ایک دوسرا وزیر اعظم زوالفقار بھٹو بھی تھوڑا بہت جھوٹا تھا ۔۔ اسکی جتنی بائیوگرافی(اسکے بچپن سمیت ) ان میں اسکی اس عادت کا ذکر کسی نہ کسی حوالے سے موجود ہے ۔۔ ورنہ اسکے اقتدار کر پہلے اور بعد کی تقاریر اور تحریر کتابوں میںبھت ہے جو دستاویزات سے غلط ثابت ہوتا ہے ۔ اسکا زبان سے بولا بھی قابل اعتبار نہیں پہلے تصدیق ضروری ہے۔
اب عرفان صدیقی سچ بول رہا ہے یا نہیں۔ شاید نہیں مگر نواز ذمہ داری سے ممکنہ بچاو کیلئے کچھ بھی جھوٹ بول سکتا، یہ بیان بھی خلاف واقعہ ہے مگر جو لوگ اس میں انوالو تھے وہی جواب دیں یا شاید اس اشو کو مذید نہ بڑھانا چاہیں کہ نواز سمجھے دبا لیا ہے ۔۔ ، نواز اور اسکا باپ بد نسل کے کاروباری تھے جنہیں اس قوم نے بھگتا ہے ۔۔

۔۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی گرائے گئے امریکی طیارے کے ٹکڑوں کےحوالے جو ۔۔قومی راز افشا کیا تھا کتنا بھدا اور ان سائینٹیفک تھا ۔ عقل سے بھی پیدل ہے کہ الزام تو اچھے سے لگائے۔۔
 
Last edited:

Eyeaan

Chief Minister (5k+ posts)
پاکستانی تاریخ بلکہ پاکستان کا المیہ یہی ہے کہ وہ سیاسی لیڈروں کے وقتی مفاد کیلئے دیئے بیانات اور جرنلسٹون کی ذاتی خوہشات یا مقاصد کو کسی طور گھما پھرا بیان کرنے پر مبنی ہے ۔۔ کسی نے بھی تاریخی دعوا کرنا ہے وہ دستاویزات یا دستاویزات پر مبنی گواہی لائے ورنہ ایسی بیان کو کھڑکی باہر پھینک دیا جائے کیا ہم صحافت اور سیاست کی خصلت سے واقف نہیں ۔۔۔
ابھی چند ماہ پہلے نواز نے جنرل راحیل کے(کئی بار؟) ایکسٹنشن مانگنے کی بات کی ہے ، جنرل راحیل نے کہا ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ اسنے پہت پہلے خود بلا کر صحافی کو ایکسٹنشن نہ لینے پر بیان اخبارات کو دیا تھا کہ جھگرا نہ بنے۔۔
بعد میں بحث ہوئی تو سامنے آیا کہ نواز نے ریٹائرڈ برگیڈیئر نیاز سے مشورہ کیا جو دونوں کا واقف کار تھا ، اسنے نواز کو ایکسٹنشن کی رائے دی ، نواز نے اپنی کیبنٹ سے مشورہ کیا معلوم نہیں کیا الفاظ بول کر، صحافیوں کو بھی بتاتا پھرا ، صحافی اس بات کو چار پانچ طریقوں سے مرچ مصالحہ لگا کر اندرونی خبر سناتے رہے ، نواز کے دیئے رائے مشورے کو کیا سے کیا بنا دیا کہ کہلوایا گیا تھا
 
Last edited:

Visionartist

Chief Minister (5k+ posts)
dushman ko waqt per mukka marna bhool jayen to baad meyn woh mukka apney moon per maar leyna chahiye-Irfan siddiquee sahib ap merey Fsc key ustad heyn Apsey yeh tawaqoh nahiyn thee.
 

Zainsha

Chief Minister (5k+ posts)
نواز شریف کو پی ٹی وی سے پتا چلا کہ وہ عدالت کو چونا لگا کے لندن پہنچ گیا ہے۔۔

حرامی پاکستان میں مرنے والا ہوا وا تھا۔۔ لندن میں کنجر پولو کے میچ دیکھ رہا ہے۔۔
 

Resilient

Minister (2k+ posts)
ابھی کل ہی آرمی چیف نے وزیر خارجہ کے اس بیان کو اٹھا کر ردی پھینک دیا ہے کہ ابھی ہم دیکھیں گے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہے آرمی چیف نے ان سے وعدے پورے کرنے کی امیدیں بھی باندھ لی ہیں ، اس سب میں وزیر اعظم کہاں ہے؟؟
 

Eyeaan

Chief Minister (5k+ posts)
ابھی کل ہی آرمی چیف نے وزیر خارجہ کے اس بیان کو اٹھا کر ردی پھینک دیا ہے کہ ابھی ہم دیکھیں گے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہے آرمی چیف نے ان سے وعدے پورے کرنے کی امیدیں بھی باندھ لی ہیں ، اس سب میں وزیر اعظم کہاں ہے؟؟
وزیر اعظم دونوں کے سر پر بیٹھا ہے اور تینوں آپ کے دماغ پر سوار ہیں ،
جن کے دماغ اندر بھوسا اور نیئت میں فتنہ بھرا ہے تو وہم اور تاریخ تراشی کا کیا علاج، لگے رہیں ۔۔
میڈیا ، یو ٹیوبر اور پندہ بیس دانشوڑ ہیں جو روزانہ خارجہ پالیسی بنا رہے ہیں، عرفان بلبلا رہا ہے ، انگلش میڈیا دبلا ہوا پڑا ہے ، لگتا ہے بھارتی ھزیمت اور پاک پالسی کی کامیابی نے انہیں ہلا کر رکھ دیا ہے،کم از کم آپ ہی بے چین حماقت سے باز رہیں،اور منتخب حکومت کو کام کرنے دیں
 

Back
Top