
وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کیلئے اپوزیشن کو 172 ووٹ درکار ہیں۔ اگر تحریک عدم اعتماد واپس نہیں لی جاتی یا وزیراعظم مستعفی نہیں ہوتے تو پھر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ضرور کرائی جائے گی۔
اگر ووٹنگ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں سب کی نظریں حکومت کی اتحادی جماعتوں پر ٹکی ہیں جن میں پاکستان مسلم لیگ ق، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور بلوچستان عوامی پارٹی شامل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر ان جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین حکومت مخالف اس تحریک کی حمایت کر دیتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟
قومی اسمبلی کے شعبہ قانون سازی کے مطابق اتحادی اگر صرف علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں اور عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہوتی تو وزیراعظم پر استعفیٰ دینا لازم نہیں، اس کے بعد صدر وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا بھی کہہ سکتے ہیں۔
جے یو آئی فی کے بیرسٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ اگر اتحادی ہی حکومت کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر وزیراعظم کو اخلاقی طور پر اب تک استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ جب کہ حکومتی جماعت کے بیرسٹر علی ظفر کے مطابق اب تحریک عدم اعتماد ایوان میں پیش ہو چکی ہے اپوزیشن کو اپنی اکثریت ثابت کرنا ہوگی۔
بیرسٹر علی ظفر کے مطابق صدر کسی بھی وقت کہہ تو سکتے ہیں مگر جب ریکوزیشن آ گئی ہے تو پہلے اس کا فیصلہ ہونا لازمی ہے۔ آئین کی شق 91 کی کلاز 7 کے مطابق اگر صدر کو لگے کہ وزیراعظم ایوان میں اعتماد کھو چکے ہیں تو وہ انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔
مگر ایسا اس صورت میں ہو سکتا ہے اگر تحریک عدم اعتماد پیش نہ کی گئی ہو۔ جب کہ پارلیمانی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک جمع ہونے کے بعد 14 روز کے اندر اندر اسپیکر اجلاس بلا کر ووٹنگ کرانے کے پابندی ہیں۔ اپوزیشن کی ریکوزیشن کے مطابق 22 مارچ تک اجلاس بلانا ضروری ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/peri1i11.jpg