عاشوراء کے روزے کی فضیلت

Status
Not open for further replies.

Amal

Chief Minister (5k+ posts)


بسم الله الرحمن الرحيم

عاشوراء کے روزے کی فضیلت

سوال: میں نے سنا ہے کہ عاشوراء کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، تو کیا یہ صحیح ہے؟ اور کیا اس سے کبیرہ گناہ بھی مٹ جاتے ہیں؟ اور اس دن کی تعظیم کی کیا وجہ ہے؟
الحمد للہ
اول
یوم عاشوراء کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ یومِ عاشوراء کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا . مسلم: 1162
یہ اللہ تعالی کا ہم پر فضل ہے کہ اس نے ہمیں ایک دن کا روزہ رکھنے پر پورے سال کے گناہ معاف ہونے کا بدلہ دیا، اور اللہ تعالی بہت زیادہ فضل والا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم یومِ عاشوراء کی شان کے باعث اس کا روزہ رکھنے کیلئے خصوصی اہتمام کرتے تھے، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنوں میں سے عاشوراء ، اور مہینوں میں سے ماہِ رمضان کے روزوں سے زیادہ کسی دن یا مہینے کے روزے رکھنے کا اہتمام کرتے ہوئے نہیں دیکھا" بخاری: 1867
حدیث کے عربی لفظ: " يتحرى " کا مطلب ہے کہ اس دن کے روزے کے ثواب اور اس کیلئے دلچسپی کی وجہ سے اس کا اہتمام کرتے تھے۔
حضرت علی سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ سے ایک آدمی نے عرض کیا: '' اے اللہ کے رسولؐ! اگر رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں، میں روزے رکھنا چاہوں تو آپؐ کس مہینے کے روزے میرے لئے تجویز فرمائیں گے؟ آپؐ نے فرمایا کہ اگر تو رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں روزے رکھنا چاہے تو محرم کے مہینے میں روزے رکھنا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور ایک قوم کی توبہ (آئندہ بھی) قبول فرمائیں گے۔''
(ترمذی: کتاب الصوم، باب ماجاء فی صوم المحرم ؛ ۷۴۱)

دوم
یوم عاشوراء کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کیوں رکھا، اور لوگوں کو اسکی ترغیب کیوں دلائی
تو اسکا جواب بخاری : (1865) میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، اور یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ [روزہ]کیوں رکھتے ہو؟) تو انہوں نے کہا: "[اس لئے کہ ]یہ خوشی کا دن ہے، اس دن میں اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دلائی تھی، تو موسی [علیہ السلام] نے روزہ رکھا" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں موسی [علیہ السلام ] کیساتھ تم سے زیادہ تعلق رکھتا ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا، اور روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا"
حدیث میں مذکور: " یہ خوشی کا دن ہے" ، اسکی جگہ صحیح مسلم میں ہے کہ: "یہ عظیم دن ہے، اس میں اللہ تعالی نے موسی [علیہ السلام ]اور آپکی قوم کو نجات دی، اور فرعون اور قومِ فرعون کا غرق آب کیا"
حدیث میں مذکور : " تو موسی [علیہ السلام] نے روزہ رکھا " مسلم کی روایت میں اضافہ ہے کہ : "اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا، تو ہم بھی اسی دن روزہ رکھتے ہیں"، اور صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ : "ہم اس دن کا روزہ اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے رکھتے ہیں"
حدیث میں مذکور : " اور روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا " جبکہ بخاری ہی کی ایک اور روایت میں ہے کہ : "تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو کہا کہ تمہارا موسی [علیہ السلام] کیساتھ ان سے زیادہ تعلق ہے، چنانچہ تم بھی روزہ رکھو
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے جب دسویں محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ
''اے اللہ کے رسولؐ! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم و اہمیت دیتے ہیں۔ (یعنی ان کی مراد یہ تھی کہ آپؐ تو ہمیں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیتے ہیں اور یوم عاشوراء کے معاملہ میں تو ان کی موافقت ہورہی ہے۔) تو آپؐ نے فرمایا کہ «فإذا کان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع» آئندہ سال اگر اللہ نے چاہا تو ہم نویں تاریخ کو روزہ رکھیں گے۔ ابن عباسؓ فر ماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے اللہ کے رسولؐ انتقال فرما گئے۔''مسلم؛۱۱۳۴

سوم
عاشوراء کے روزے سے صرف صغیرہ گناہ مٹتے ہیں
جبکہ کبیرہ گناہوں کیلئے خصوصی توبہ کی ضرورت ہوگی۔
چنانچہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں ,عرفہ کے دن کا روزہ تمام چھوٹے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، تو حدیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ: کبیرہ گناہوں کے علاوہ تمام گناہ مٹ جاتے ہیں ,اس کے بعد نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
عرفہ کے دن کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے، جبکہ عاشوراء کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے، اسی طرح جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے تو اسکے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔۔۔ مذکورہ تمام اعمال گناہوں کو مٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور چنانچہ اگر کوئی صغیرہ گناہ موجود ہوا تو وہ مٹ جائے گا، اور اگر صغیرہ یا کبیرہ کوئی بھی گناہ نہ ہوا تو اس کے بدلے میں نیکیاں لکھ دی جائیں گی، اور درجات بلند کر دئیے جائیں گے، ۔۔۔ اور اگر کوئی ایک یا متعدد کبیرہ گناہ ہوئے، لیکن کوئی صغیرہ گناہ نہ پایا گیا ، تو ہمیں امید ہے کہ ان کبیرہ گناہوں میں کچھ تخفیف ہو جائے گی" انتہی
"المجموع شرح المهذب " جلد : 6
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
وضو، نماز، ایسے ہی رمضان ، یوم عرفہ ، اور عاشوراء کے روزے صرف صغیرہ گناہوں کو ہی مٹا سکتے ہیں
"الفتاوى الكبرى" جلد: 5



Fasting%2Bof%2BAshura.jpg


 

khan_sultan

Banned
یوم عاشورا کو روزہ رکھنا زمانہ جاہلیت کے لوگوں کا عمل تھا- بخاری

[FONT=wf_segoe-ui_normal]
[/FONT]
[FONT=wf_segoe-ui_normal]
[/FONT]

[FONT=wf_segoe-ui_normal]

[/FONT]
[FONT=wf_segoe-ui_normal]
[/FONT]



GetAttachmentThumbnail
 

khan_sultan

Banned
در حقیقت روزِعاشورہ کا روزہ بنی امیہ کی وہ بدعت ہے جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر شکرانہ کے طور پر رائج ہوئی.
اِسی حقیقت کی عکاسی کرتے ہوئے
کشّاف الحقائق مصحفِ ناطق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :
ان ال بنی امیۃ و من اعانھم علی قتل الحسین من اھل الشام نذروا نذرا اِن قُتل الحسین علیہ السلام و سلُم من خرج الی الحسین علیہ السلام و صارت الخلافۃ فی ال ابی سفیان اَن یتخذوا ذلک الیوم عیداً لھم و اَن یصوموا فیہ شکرا
یعنی بنی امیہ اور وہ اھل شام جو ان کے ساتھ قتلِ حسین علیہ السلام میں شریک تھے اُنہوں نے نذر مانی کہ *اگر حسین شہید ہو جائیں اور خلافت کی باگ ڈور بنی امیہ کے ہاتھوں میں آ جائے تو روز عاشورہ (یعنی 10 محرم) کو اپنے لیے عید قرار دیں گے اور شکرانہ کے طور پر روزہ رکھیں گے.*
امالی شیخ طوسی ص 677 ب 4 ح 1397
_اسی بدعت کی مخالفت میں دوسری روایت پر غور کیجیئے_
سمعت عبید ابن زرارۃ یسال ابا عبداللہ علیہ السلام عن صوم عاشورا فقال :
من صامہ کان حظہ من صیام ذلک الیوم حظ ابن مرجانۃ و آل زیاد
قال : قلت : وما کان حظھم من ذلک الیوم؟؟؟
قال : النار اعاذنا اللہ من النار و من عمل یقرب من النار
زید نرسی کا بیان ہے کہ میں نے عبید ابن زرارہ سے سنا کہ
*وہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روزِ عاشور کے روزہ کے متعلق سوال کر رہے ہیں تو امام علیہ السلام نے جواب دیا :*
*جو اس دن روزہ رکھے گا اسکا مقدر وہی ہو گا جو ابن مرجانہ اور آل زیاد کا ہو گا.*
عبید نے کہا ان کا مقدر کیا ہو گا؟؟؟؟
*آپ علیہ السلام نے فرمایا :*
*آتش جہنم ۔ خداوند عالم ہمیں جہنم سے محفوظ رکھے اور ہر اس عمل سے جو جہنم سے قریب کرتا ہے.*
الکافی ج 4 ص 147 ح 6
تہذیب ج 4 ص 301 ح 912
الاستبصار ج 2 ص 135
*اہل سنت علماء کے کچھ بیانات*
*ابن جوزی :*
کچھ جاہلوں نے مذہب اہلسنت اپنایا اور یہ قصد کیا کہ رافضیوں کے خلاف کینہ کا اظہار کریں لہذا انہوں نے روز عاشورہ کی فضیلت میں احادیث گھڑنی شروع کر دیں.
الموضوعات ج 2 ص 200.
"بنی اسرائیل پر سال میں ایک دن روز عاشورا کا روزہ فرض کیا گیا اور وہ محرم کی دس تاریخ تھی لہذا اس دن روزہ رکھو۔۔۔۔۔ یہ وہ دن ہے جس دن آدم کی توبہ قبول ہوئی....... یہ وہ دن ہے جس دن نوح علیہ السلام کی کشتی کوہ جودی پر ٹھہری.........

*حدیث بہت طولانی ہے اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے اس حدیث کی حقیقت اہل سنت عالم ابن جوزی کا بیان نقل کرتے ہیں کہ وہ اس بارے کیا لکھتے ہیں ؟؟؟؟:*
ابن جوزی کا بیان :*
"کسی بھی عاقل کو شک نہیں ہو سکتا کہ یہ حدیث جعل کی ہوئی ہے لیکن تعجب ہے کہ لوگ کتنے بے شرم ہیں پردہ اٹھنے کے باوجود اس بدعت سے باز نہیں آئے اور محال باتوں کو ممکن کرنے کی سعی میں ہیں."
[FONT=wf_segoe-ui_normal]الموضوعات ج 2 ص 202.
[/FONT]
 

khan_sultan

Banned
GetAttachmentThumbnail

رسول خدا نے یوم عاشورہ کے روزے کو ترک کیا
[FONT=wf_segoe-ui_normal]
[FONT=wf_segoe-ui_normal]
[/FONT]








[/FONT]

[FONT=wf_segoe-ui_normal]






[/FONT]
 

khan_sultan

Banned
عاشور کا روزہ

تحقیق و تالیف : پیغمبر نوگانوی

جیسے ہی نواسۂ رسول (ص) حضرت امام حسین (ع) کے قیام و شہادت کا مہینہ ،محرم شروع ہوتا ہے ویسے ہی ایک خاص فکر کے لوگ اس یاد اور تذکرے کو کم رنگ کرنے کی کوششیں شروع کردیتے ہیں ، کبھی گریہ ﴿جو سنت رسول (ص) ہے ﴾کی مخالفت کی جاتی ہے تو کبھی عاشور کے روزے کی اتنی تشہیر کی جاتی ہے جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دس محرم 61ہجری کوکوئی حادثہ ہوا ہی نہ تھا بلکہ صرف بنی اسرائیل کی نجات کی خوشی کا دن ہے اور بعض اسلامی ملک تو اس کا اعلان اور تشہیر سرکاری پیمانے پر کرتے ہیں اور دلیل کے طور پر بخاری وغیرہ کی حدیثیں پیش کی جاتی ہیں ، ابھی چند برس پہلے کی بات ہے سعودی عرب کی نیوز ایجنسی نے اپنے ایک بیان میں عبدالعزیز بن عبداللہ بن محمد آل شیخ کی جانب سے اعلان کیا تھا کہ پیغمبر (ص) سے روایت ہوئی ہے کہ:
آنحضرت (ص) عاشوراکے دن روزہ رکھتے تھے اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کی تشویق کرتے تھے ، کیونکہ عاشورا وہ روز ہے جس دن خدا وند عالم نے موسیٰ اور ان کی قوم کو فرعون اور اس کی قوم سے نجات دی تھی لہٰذا ہر مسلمان مرد و عورت پر مستحب ہے کہ دسویں محرم کو خداکا شکرانہ کے طور پر روزہ رکھیں ...

تعجب ہے ! ہم نے سعودی عرب کا کوئی بھی سرکاری بیان حادثۂ عاشورا سے متعلق نہ پڑھا جس میں نواسۂ رسول(ص) کی دلسوز شہادت پر رنج و الم کا اظہار کیا گیا ہو ، نبی ٔ اسلام کی پیروی کا دعوی کرنے کے باوجود بھی اپنے نبی (ص) کے نواسے سے اتنی بے رُخی اور بنی اسرائیل کی نجات کی یادگار سے اتنی دلچسپی ! ؟ اگر نبی (ص) اور اس کی قوم کی نجات پر روزہ رکھنا مستحب ہے تو پھر جس دن جناب ابراہیم(ع) کو خدا نے نار نمرود سے نجات دی اُس دن بھی روزہ رکھنا چاہئے ، جس دن جناب نوح کی کشتی کوہ جودی پر ٹھہری اور انہیں اُن کے ساتھیوں سمیت غرق ہونے سے نجات ملی اُس دن بھی روزہ رکھنا مستحب ہونا چاہئے اور یہ دن وہ تھا جب سورج بُرج حمل میں جاتا ہے جو عیسوی کلینڈر میں 21مارچ کو ہوتا ہے ، رسول(ص) اللہ اگر جناب موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نجات پر شکرانہ کا روزہ رکھیں گے تو پھر دیگر انبیائ کی نجات پر بھی ضرور روزہ رکھا ہوگا ، اگر رکھا ہوگا تو 21مارچ کو روزہ رکھنے کی تشہیر اس پیمانے پر کیوں نہیں کی جاتی ،یہ روزے بھی تو سنت کہلائیں گے ؟

اب آیئے بخاری کی اُن روایتوں پر تحقیقی نگاہ ڈالتے ہیں جن کو بنیاد بنا کر عاشور کے روزے کی تشہیر کی جاتی ہے ، جناب عائشہ(رض) سے بخاری میں ایک روایت اس طرح ہے کہ :
عاشورکے دن زمانہ ٔ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے ، رسول (ص) خدا بھی اس روز﴿عاشور کو﴾روزہ رکھتے تھے اور جس وقت آپ مدینہ تشریف لائے تو عاشور کے روزہ کو اسی طرح باقی رکھا اور دوسروں کو بھی حکم دیا، یہاں تک کہ ماہ رمضان کے روزے واجب ہوگئے ، اس کے بعد آنحضرت (ص) نے عاشور کا روزہ ترک کردیا اور حکم دیا کہ جو چاہے عاشور کے دن ، روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے.

﴿صحیح بخاری ، جلد 2،صفحہ 250، حدیث 2002، کتاب الصوم ، باب 69باب صیام یوم عاشورا، محقق محمد زہیر بن ناصر الناصر ، ناشر دار طوق النجاۃ ، پہلا ایڈیشن 1422ہجری ﴾

مذکورہ روایت کے سلسلہ ٔ سند میں ’’ہشام بن عروہ ‘‘ موجود ہے جس کی وجہ سے سلسلۂ سند میں اشکال پیدا ہوگیا ہے کیونکہ ابن قطان نے ہشام بن عروہ کے بارے میں کہا ہے کہ : یہ ﴿ہشام بن عروہ﴾مطالب کو بدل ڈالتا تھا اور غلط کو صحیح میں مخلوط کردیتا تھا ، علامہ ذہبی نے کہا ہے کہ یہ بعض محفوظ باتوں کو بھول جایا کرتا تھا یا اُس میں شک ہوجاتا تھا .

﴿میزان الاعتدال ، جلد 4، صفحہ301،تحقیق علی محمد البحاوی، ناشر دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر ، بیروت ، لبنان ،1963عیسوی ﴾

اس کے علاوہ یہ روایت بخاری ہی کی دوسری روایتوں سے تناقض رکھتی ہے اور ٹکرا رہی ہے مثلاً صحیح بخاری میں ابن عباس سے ایک روایت ہے کہ :
جب رسول خدا (ص) نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ عاشور کے دن روزہ رکھے ہوئے ہیں تو آپ (ص) نے فرمایا کہ یہ روزہ ﴿انہوں نے﴾ کیوں رکھا ہے ؟ جواب ملا : یہ خوشی کا دن ہے کیوں کہ اِس روز خدا وند عالم نے بنی اسرائیل کو دشمنوں سے نجات دی تھی لہٰذا موسیٰ اور اُن کی قوم اِس روز روزہ رکھتی ہے ، حضرت (ص) نے فرمایا کہ: میں موسیٰ کی پیروی کرنے میں بنی اسرائیل سے زیادہ سزاوار ہوں لہٰذا آنحضرت (ص) نے عاشور کو روزہ رکھا اور حکم دیا کہ ﴿مسلمان بھی ﴾اس روز روزہ رکھیں.

﴿صحیح بخاری ، جلد 2، صفحہ 251، حدیث 2004﴾

پہلی روایت تو یہ کہہ رہی ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) اور قریش زمانہ ٔ جاہلیت سے ہی روز عاشور کو روزہ رکھتے چلے آ رہے ہیں اور ظہور اسلام کے 13سال بعد تک بھی مکہ میں یہ روزہ رکھا اور ہجرت کے بعد مدینہ میں رمضان کے روزے واجب ہوئے اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے مسلمانوں کو اختیار دیا کہ چاہیں تو عاشور کو روزہ رکھ لیں اور چاہیں تو نہ رکھیں ، لیکن بخاری کی مذکورہ دوسری روایت کہتی ہے کہ رسول خدا (ص) نے جس وقت مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تو نہ صرف یہ کہ آپ عاشور کو روزہ نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ کو اس کے بارے میں کوئی اطلاع بھی نہیں تھی اور جب آپ (ص) نے یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو تعجب کے ساتھ اس روزے کے بارے میں سوال کیا ، آپ (ص) نے جواب میں سنا کہ یہود جناب موسیٰ اور بنی اسرائیل کی نجات کی خوشی میں اس دن روزہ رکھتے ہیں ، پس رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ:
اگر ایسا ہے تو میں اپنے آپ کو کفار مکہ کے ہاتھوں سے نجات پانے کی خوشی میں موسیٰ سے زیادہ سزاوار سمجھتا ہوں کہ اس دن روزہ رکھوں ، اس کے بعد سے نہ صرف یہ کہ حضرت (ص) نے خود روزہ رکھا بلکہ دوسروں کو بھی اس کاحکم دیا

ان دونوں روایتوں میں کونسی روایت کو صحیح قرار دیا جائے ؟ دونوں ایک ساتھ صحیح نہیں ہوسکتیں.؟!
بخاری میں ایک اور روایت ابن عمر سے موجود ہے جو مذکورہ اِس دوسری روایت سے بھی تناقض رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ:

رسول خدا عاشورکے دن روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی یہ روزہ رکھنے کا حکم فرماتے تھے ، یہاں تک کہ ماہ رمضان کے روزے واجب ہوگئے ، اس کے بعد سے روز عاشور کا روزہ ترک کردیا گیا اور عبداللہ ابن عمر نے بھی اس دنروزہ نہیں رکھا ، لیکن اگر عاشورا ایسے دن ہوتا تھا جس میں مسلمان روزہ رکھتے ہی تھے جیسے جمعہ کا روز ، توعاشور کو بھی روزہ رکھ لیتے تھے.

﴿ صحیح بخاری ، جلد 2، حدیث 1892،کتاب الصوم ،باب وجوب صوم رمضان ﴾

اس روایت میں عاشور کے روزے کا اختیاری یا اجباری ہونا ذکر نہیں ہے ،بلکہ عاشور کے دن روزہ ترک کرنے کا ذکر ہے ! نیز عبداللہ ابن عمر بھی ماہ رمضان کے روزے واجب ہونے کے بعد عاشور کا روزہ نہیں رکھتے تھے ،اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سنت اتنی اہم تھی تو خلیفہ ثانی کے بیٹے نے اسے کیوں چھوڑ دیا تھا ؟اس کے علاوہ اور بہت سے اہل مدینہ بھی عاشور کے دن روزہ نہیں رکھتے تھے ،ایک روایتکے مطابق معاویہ ابن سفیان کو یہ کہتے ہوئیسنا گیا ہے کہ:
معاویہ ابن ابی سفیان سے عاشورا کے دن منبر پر سنا، انہوں نے کہا کہ اے اہل مدینہ ! تمہارے علمائ کدھر گئے ؟میں نے رسول اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سناکہ یہ عاشورا کا دن ہے ،اس کا روزہ تم پر فرض نہیں ہے لیکن میں روزے سے ہوں اور اب جس کا جی چاہے روزے سے رہے ﴿اور میری سنت پر عمل کرے ﴾اور جس کا جی چاہے نہ رہے .

﴿ صحیح بخاری ، کتاب الصیام ، حدیث 2003﴾

بخاری کی اس روایت میں معاویہ کا انداز خطاب بتا رہا ہے کہ اہل مدینہ بھی عاشور کے دن روزہ نہیں رکھتے تھے !
اس روایت کے بر خلاف مجمع الزوائد میں ہیثمی کی روایت ہے کہ ہیثمی ابو سعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ :

رسول خدا (ص) نے روز عاشور کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا جب کہ آپ نے خود روزہ نہیں رکھا تھا .

﴿ مجمع الزوائد ، جلد ۳ ، صفحہ186، حدیث 5117 ، کتاب الصیام، باب فی صیام عاشورا، تحقیق حسام الدین قدسی، ناشر مکتبۃ القدسی ، قاہرہ 1994عیسوی ﴾

ایسا کبھی ہوا ہی نہیں کہ رسول اسلام (ص) نے مسلمانوں کو کوئی عمل انجام دینے کا حکم دیا ہو اور خود عمل نہ کیا ہو ،اس کے علاوہ ، مذکورہ روایت سے رسول خدا (ص) پر اہل کتاب کی پیروی کا الزام بھی عائد ہوتا ہے جو کہ درست نہیں ہے .
بخاری نے ابن عباس سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جو مذکورہ بالا تمام روایتوں سے تضاد رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ :

رسول خدا(ص) کو یہ بات پسند تھی کہ جن امور میں خدا وند عالم کی جانب سے آپ کے لئے کوئی حکم صادر نہیں ہوا ہے اس میں اہل کتاب کی پیروی کریں ..

﴿ صحیح بخاری ، جلد 4، حدیث3558، کتاب المناقب ﴾

اس کے علاوہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ :
اُن موارد میں جن میں رسول خدا (ص) کے لئے اللہ کا حکم نہیں ہوتا تھا تو آپ (ع) اہل کتاب سے موافقت کر لیتے تھے.

﴿ فتح الباری ، ابن حجر عسقلانی شافعی ، جلد 4، صفحہ245-246، باب صیام عاشورا، ناشر دارالمعرفت ، بیروت، لبنان 1379ہجری﴾

سمجھ میں نہیں آتا! یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے نبی (ص) نے جو افضل ِ انبیائ ہیں ، مفضول اہل کتاب کی پیروی کس طرح کی ہوگی ؟!
غور کرنے کا مقام ہے کہ جب یہود کی مخالفت میں بقول بخاری کے جوتوں سمیت نماز پڑھنے کی اجازت رسول اکرم (ص) نے دے دی.

﴿الطبرانی، المعجم الکبیر ، محقق حمدی بن عبدالمجید السلفی، ناشر مکتبہ ابن تیمیہ ، قاہرہ ، دوسرا ایڈیشن﴾

حالانکہ جوتوں سمیت نماز پڑھنے سے نماز کا تقدس پائمال ہوتا ہے تو پھر یہود کی مواقت میں رسول اکرم (ص) روزہ رکھنے کا حکم کس طرح صادر فرما سکتے ہیں ؟! گویا یہود کی مخالفت اتنی اہم ہے کہ اس کی وجہ سے نماز کے تقدس اور احترام کو بھی نظر اندازکیا جا سکتا ہے ، تو پھر یہود کی موافقت میں آل رسول(ص) کو کس طرح نظراندازکردیا گیا ؟! عاشور کے روز نبی(ص) اکرم کی بہترین سیرت اور سنت یہ ہے کہ ہم امام حسین (ع) کے غم میں مغموم رہیں اور گریہ کریں اور یہی سیرت، ام المومنین حضرت ام سلمیٰ (رض)کی بھی تھی ،بہر حال ان تمام روایتوں سے چند باتیں ثابت ہوتی ہیںاور وہ یہ ہیں کہ:

۱۔ عاشور کا روزہ بنی اسرائیل کی نجات کی خوشی کا روزہ ہے .

۲۔ عاشور کے روزے کا حکم خداوند عالم کی جانب سے نہیں آیاہے.

۳۔ عاشور کے دن روزہ رکھ کر معاذاللہ نبی نے بغیر حکم خدا کے یہود و نصاریٰ

کی موافقت اور پیروی کی ہے، جو کہ مقام رسالت کے منافی ہے .
جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عاشور کو روزہ رکھنے کی کوئی ترجیحی وجہ موجود نہیں ہے ، کیونکہ 61ہجری میں عاشور کے روز اہل بیت پیغمبر(ص) پر غم والم کے پہاڑ توڑے گئے جس کی یاد منانا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے ، نبی کے نواسے نے اسلام کے لئے ہی اتنی عظیم قربانی پیش کی ہے اور اس راہ میں وہ مصائب برداشت کئے ہیں کہ جن کو سن کر ہی کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے ، لہٰذا ایسی عظیم اور اہم یادگار کے ہوتے ہوئے جس نے اسلام کو حیات نو بخشی ہو، بنی اسرائیل کی نجات کی خوشی منانا نہ تو قرین عقل ہے اور نہ ہی اسلامی حمیت کا تقاضہ ہے ، بلکہ ضروری ہے کہ ہر مسلمان کو اپنے نبی کے نواسے کی یاد محرم میں عاشور کے روز منانی چاہئے اور یہ سنت رسول (ص) ہے ،حضرت ام الفضل بنت الحارث (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ، یا رسول اللہ میں نے آج رات ایک بُرا خواب دیکھا ہے ، آپ (ص) نے فرمایا : کیا؟ عرض کیا بہت ہی سخت ہے ﴿بیان سے باہر ہے ﴾ آپ نے پھر فرمایا : کیا دیکھا ہے ؟ عرض کیا : میں نے دیکھا ہے کہ گویا آپ کے جسم اطہر کا ایک ٹکڑا کا ٹ کر میری گود میں ڈال دیا گیا ہے ،آنحضرت (ص) نے فرمایا : تم نے تو بہت اچھا خواب دیکھا ہے اللہ تعالیٰ نے چاہا تو فاطمہ کے لڑکا پیدا ہوگا اور وہ بچہ تمہاری گود میں رہے گا ﴿چنانچہ ایسا ہی ہوا﴾ حضرت فاطمہ (رض) کے یہاں حضرت حسین(رض) کی ولادت ہوئی اور وہ جیسا کہ حضور(ص) نے ارشاد فرمایا تھا میری گود میں آئے ، پھر ایک روز میں ان کو لے کر آنحضرت(ص) کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوئی اور ان کو آپ کی آغوش میں دے دیا، اسی اثنا میں میری توجہ ذرا دیر کے لئے دوسری طرف ہوئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ رسول(ص) کی چشمان مبارک سے آنسو رواں تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر نثار، آپ کو کیا ہوگیا ، فرمایا: جبریل (ع) میرے پاس آئے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ میری امت میرے اس بیٹے کو عنقریب قتل کردے گی ، میں نے عرض کیا ، ان کو ، فرمایا ہاں ! اور مجھے ان کے مقتل کی سرخ ریت بھی لاکر دی ہے.

﴿المستدرک علی الصحیحین للحاکم ، جلد3، صفحہ194،حدیث 4818، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا ، ناشر دارالکتب العلمیہ بیروت ، لبنان ، پہلا ایڈیشن 1990﴾

حضرت رسول اکرم(ص) کا امام حسین (ع) کی خبر شہادت پر گریہ کرنا کیا ایسا عمل نہیں ہے جس کی مسلمان روز عاشور پیروی کریں ؟تو پھر یہود کی پیروی کرتے ہوئے اُن کی نجات کی خوشی میں روزے کیوں رکھے جا تے ہیں ؟! رسول (ص)کے غم پر یہود کی خوشی مقدم! ایسا کیوں ؟

اسی طرح حضرت سلمہ (رض)بیان کرتی ہیں کہ میں ام المومنین حضرت ام سلمیٰ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئی تو دیکھا وہ رو رہی تھیں ، میں نے عرض کیا آپ کیوں روتی ہیں ، فرمانے لگیں :
میں نے رسول(ص) اللہ کو خواب میں اس حالت میں دیکھا ہے کہ آپ کی ریش اور سر مبارک پر خاک پڑی ہوئی تھی ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کو کیا ہو گیا ؟ فرمایا : ابھی ابھی حسین (ع) کو قتل ہوتے دیکھا ہے .

﴿جامع سنن ترمذی ،جلد6، صفحہ 120،حدیث 3771، باب 31مناقب الحسن و الحسین ، محقق بشار عواد معروف، ناشر دارالغرب بیروت، لبنان 1998عیسوی ﴾

بعض لوگ اس حدیث کو مشکوک کرنے کے لئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ام المومنین جناب ام سلمی(رض) کی وفات ، شہادت امام حسین (ع) سے دو سال قبل ہوچکی تھی لہٰذا یہ روایت صحیح نہیں ہے لیکن اہل سنتکے معتبرمورخ علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ:
بعض لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ حضرت ام سلمی (رض) کی وفات 59ہجری میں ہوئی ہے ، یہ بھی ﴿ان کا﴾ وہم ہے ، ظاہر یہ ہے کہ ان کی وفات 61ہجری میں ﴿شہادت امام حسین (ع) کے بعد ﴾ ہوئی ہے .

﴿اعلام النبلائ ، جلد 2صفحہ210، ناشر موسسہ الرسالہ، تیسرا اڈیشن 1985﴾

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہادت امام حسین (ع) کے وقت ام المومنین ام سلمی(رض) حیات تھیں اور انہوں نے امام حسین (ع) کی شہادت سے باخبر ہوکر گریہ کیا اور رنج و غم کا اظہار کیا .
رسول اسلام (ص) اپنی زندگی کے بعد بھی امام حسین (ع) کے غم میں اس قدر رنجیدہ نظر آرہے ہیں اور آپ(ص) کی سنت پر مر مٹنے والا مسلمان بجائے اس کے کہ عاشور کو عزاداری کرے یا غم منائے ،بنی اسرائیل کی نجات کی خوشی میں روزہ رکھتا ہے ، کیا حضور (ص) سے محبت کا یہی تقاضہ ہے ؟

دوسرے یہ کہ جس روزہ کو رکھنے کا حکم خدا وند عالم کی طرف سے نہ آیا ہو اس کے رکھنے پر اتنی تاکید کیوں کی جائے اور نبی کے نواسے کی یاد پر ایسا خوشی کا روزہ رکھنے کی سوائے عداوتِ آل رسول (ص) کے اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

اور تیسرے یہ کہ ہمارے نبی یہود و نصاریٰ کی موافقت نہیں کر سکتے کیونکہ اہل سنت اور شیعہ علمائ کا عقیدہ یہ ہے کہ رسول خدا (ص) بعثت سے پہلے بھی اپنی عبادت وغیرہ میں یہود و نصاریٰ کے آئین و ادیان کی پیروی نہیں کر سکتے ، فخر رازی جو کہ اہل سنت کے بزرگ عالم ہیں اس بارے میں دلیل دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ : رسول اللہ (ص) اگر بعثت سے پہلے کسی ﴿موسیٰ و عیسیٰ ﴾کی شریعت کے مطابق عبادت کر لیتے تو لازم تھا کہ اُن حوادث کے موقعوں پر جو بعثت کے بعد آپ پررونما ہوئے ، اپنے ما قبل شریعتوں کی طرف مراجعہ کر لیتے اور وحی کا انتظار نہ کرتے ،لیکن آنحضرت (ص) نے ایسا نہیں کیا اور اس کی دو دلیلیں ہیں ، ایک یہ کہ : اگر حضور (ص) نے ایسا کیا ہوتا تو ضرور مسلمانوں کے درمیان مشہور ہوجاتا اور دوسرے یہ کہ ایک بار عمر نے توریت کے ایک ورق کا مطالعہ کرلیا تھا بس اسی بات پر رسول خدا (ص) غضبناک ہوگئے اور فرمایا کہ : اگر موسیٰ زندہ ہوتے میری اتباع اور پیروی کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہ ہوتا﴿ پس کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم (ص) نے یہود کی پیروی میں عاشور کے دن خود بھی روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا ؟!﴾ فخر رازی نے اس موضوع پر اور بھی دلیلیں دی ہیں جن کو اُن کی کتاب ﴿المحصول، جلد 3، صفحہ 263-264،تحقیق ڈاکٹر طٰہ جابر فیاض العلوانی ، ناشر موسسۃ الرسالہ ، تیسرا ایڈیشن 1997عیسوی﴾ میں دیکھا جا سکتا ہے.
شرح مشکاۃ میں رسول اللہ (ص) سے روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ :

وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے غیر ،یہود و و نصاریٰ کی شباہت اختیار کرے.

﴿مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ، علی بن سلطان محمد القاری ، صفحہ 22، حدیث 4649، ناشر دالفکر بیروت، لبنان ،2002 عیسوی﴾

یہ کیسے ممکن ہے کہ جس امر کی رسول (ص)اکرم دوسروںکو نہی فرمائیں اسے خود انجام دیں؟!مذکورہ بالا حدیث میں سختی سے یہود و نصاریٰ کی شباہت کو منع فرمایا ہے ، اور مسلمان یہود کی موافقت اور پیروی میں عاشور کو روزہ رکھنے کی نسبت رسول (ص) کی طرف دے رہا ہے؟!
ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ قریش کا کلینڈر ’’قصی ‘‘ تھا اور یہودیوں کا کلینڈر جس کے مطابق وہ اپنے اعمال انجام دیتے تھے وہ ’’ہلال دوم ‘‘﴿Hillel 2﴾ تھا اور ان دونوں میں فرق ہے ، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دونوں کلینڈروں کا عاشورا ایک ہی چیز ہو یا ایک ہی دن ہو لہٰذا یہ کیسے مان لیا گیا کہ یہودیوں کے روزہ رکھنے کی یہ سنت اور رسم ہر سال دسویں محرم کو ہوتی ہو گی اور پیغمبر اسلام (ص) نے عاشور کے روزے کاحکم یہود کی متابعت یا مخالفت میں صادر فرمایا؟اس کے علاوہ اسلامی کلینڈر مذکورہ دونوں کلینڈرسے بالکل مختلف ہے اور چاند کی تاریخ کے حساب سے چلتا ہے بلکہ رسول (ص) کے دور میں تو اسلامی کلینڈر موجود ہی نہیں تھا ، اس کی ابتدا تو رسول (ص) کی وفات کے بہت بعد میں ہوئی اور اس میں ہجرت کے سال کو پہلا سال تسلیم کیا گیا ، اسلامی کلینڈر میں ایک سال میں 355دن ہی ہوتے ہیں اور یہودی کلینڈر میں بھی 355دن ہوتے ہیں ، مگر وہ ہر تیسرے یا چوتھے سال اس میں 10دن کا اضافہ کرکے اسے موجودہ شمسی ﴿عیسوی﴾ سال کے برابر کردیتے ہیں .

اس کے علاوہ 10محرم سن 1ہجری کو رسول ا سلام مدینہ پہنچے ہی نہیں بلکہ مکہ ہی میں تشریف رکھتے تھے ، سبھی مورخین و محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول (ص) اسلام عاشورا، سن 1ہجری کے دو مہینہ بعد یعنی 12ربیع الاول بروز پیر مدینہ میں وارد ہوئے.

﴿تاریخ طبری ، جلد 2، صفحہ392، ناشر دارالتراث بیروت، لبنان ، دوسرا ایڈیشن ، 1387ھ ﴾

لہٰذا مدینہ پہنچ کر حضور (ص) نے یہودیوں کو عاشور کے دن روزہ رکھتے ہوئے کہاں سے دیکھ لیا ؟!
اس تحقیق میں اس نکتہ پر توجہ بہت ضروری ہے کہ جس نے بھی رسول اللہ پر یہ جھوٹ باندھا ہے وہ مدینے سے تعلق نہیںرکھتا تھا بلکہ وہ شامی رہا ہوگا ، کیونکہ اگر حدیث گھڑنے والا مدینہ کا باشندہ ہوتا تو اُسے یہ علم ضرور ہوتا کہ جس دن موسیٰ (ع)کو فتح ہوئی اور فرعون سے نجات ملی اُس دن کو یہودی ’’عید الفصح‘‘ ﴿Passover﴾ کہتے ہیں اور اس دن وہ روزہ نہیں رکھتے ہیں ، آج بھی آپ تحقیق کر سکتے ہیں اور یہودیوں سے معلوم کر سکتے ہیں ،یہودیوں کے یہاں روزوں کی 6قسمیں ہیں ، جن میں عید الفصح یعنی جناب موسیٰ اور بنی اسرائیل کی نجات یا فرعون پر فتح کا دن ان میں شامل نہیں ہے ، اس کی تفصیل آپ انٹر نیٹ پر بھی اس لنک میں دیکھ سکتے ہیں :

http://www.hebrew4christians.com/

Holidays/Fast_Days/fast_days.html
جو لوگ عاشور کے دن روزہ رکھنے والی روایتوں کے حامی ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسی روایت میں موجود’’ عاشور‘‘کا دن یہودیوں کا ’’یوم کیپور‘‘ ﴿یوم الغفران﴾ تھا جو کہ یہودیوں کے کلینڈر کے مطابق ’’تشرین‘‘ مہینے کی 10تاریخ ہوتی ہے ، یعنی یہ محرم کا عاشور نہیں ہے ، اگر ایسا ہے تو پھر محرم کے عاشور کو روزہ رکھنے کی تاکید کیوں کی جاتی ہے اور دوسرے یہ کہ ’’یوم کیپور‘‘ کا موسیٰ (ع) کی فرعون پر فتح سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ، بلکہ ’’یوم کیپور‘‘ یہودیوں کے لئے ’’توبہ کا دن ‘‘ ہے اور اسے ’’عشرۃ التوبۃ‘‘کہا جاتا ہے ، یہودیوں کے نزدیک یوم کیپور توبہ کا آخری موقع ہوتا ہے جس میں یہودی با جماعت ہوکر خدا سے اپنے اعمال کی معافی مانگتے ہیں لہٰذا یہ تو کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ یوم کیپور کو موسیٰ (ع) کی فرعون پر فتح کا دن بنا کر روزہ رکھنے والی روایات گھڑ دی جائیں؟!

اس کے علاوہ یہ بات بھی ثابت ہے کہ اسلامی کلینڈر کے محرم کی 10تاریخ سن 1 ہجری میں یہودیوں کے کلینڈر کے تشرین مہینہ کی 10تاریخ کو نہیں تھی ، انٹر نیٹ پر آپ Gregorian-Hijri Dates Converter کے ذریعہ چیک کرکے دیکھ سکتے ہیں ، بلکہ 25جولائی 622عیسوی تھی اور یہودیوں کی عید 30مارچ 622عیسوی تھی .

اس سے بھی بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ رسول (ص) کی مدنی زندگی میں کبھی بھی یہ مذکورہ دو دن ﴿یعنی اسلامی عاشورۂ محرم اور یہودی یوم کیپور ﴾ ایک ہی دن واقع ہی نہیں ہوئے .

اسلامی اور یہودی کلینڈر کے فرق کے مطابق یہ دونوں دن ﴿یعنی اسلامی عاشورہ ٔ محرم اور یہودی یوم کیپور﴾ رسول (ص) کی مدینہ ہجرت کرنے کے صرف 29سال کے بعد ہی ایک ہی دن کو واقع ہوسکتے ہیں ، جبکہ رسول (ص) اسلام کی وفات 10ہجری میں واقع ہوچکی تھی ، اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول (ص) اسلام نے عاشور کے دن بنی اسرائیل کی نجات کی خوشی میں کوئی روزہ رکھا ہی نہیں اور نہ یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا!

افسو س !بنی امیہ کے پروپیگنڈے سے متاثر لوگ ، عاشور کے دن روزہ رکھنے پر ہی بضد رہتے ہیں اور طرح طرح کی تاویلیں پیش کرتے ہیں جیسے یہ کہ رسول(ص) اسلام، مدینہ ربیع الاول ہی میں تشریف لائے تھے مگر یہودیوں کو انہوں نے بعد کے برسوں میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھا اور مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دے دیا، جبکہ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ رمضان کے روزے 2ہجری میں ہی فرض ہوگئے تھے اور 2ہجری تو کیا رسول(ص) کی تو پوری مدنی زندگی میں بھی اسلامی عاشورۂ محرم اور یہودی یوم کیپور کبھی ایک ساتھ اکٹھا نہیں ہوئے بلکہ 29سال کے بعد پہلی مرتبہ یہ ایک تاریخ کو واقع ہوئے ، تو پھر اسلامی عاشورۂ محرم کو ہر سال روزہ رکھنا کیونکر سنت ہوجائے گا ؟!

عید الفصح ﴿Passover﴾کہ جب یہودیوں کو فرعون سے نجات ملی ، وہ یہودیوں کے مہینے ’’نیسان‘‘ کی 15تاریخ ہے ﴿اس مہینے کی 10تاریخ کو بنی اسرائیل مصر سے روانہ ہوئے اور 15کو انہیں نجات ملی ﴾ سائنٹیفک کیلکولیٹر کے مطابق 1ہجری کا عاشورۂ محرم 25جولائی 622عیسوی کے مطابق ہوتا ہے ، جبکہ اُس سال یہودیوں کی عید الفصح 30مارچ 622عیسوی کو واقع ہوئی ﴿اس کیلکولیشن میں زیادہ سے زیادہ 10دن کا فرق ہو سکتا ہے ﴾ یہ کیلکولیشن آپ انٹر نیٹ پر اس لنک پر کر سکتے ہیں :

http://www.hebcal.com/converter/?hd=10

an&hy=4382&h2g=Convert+&hm=Nis

Hebrew+to+Gregorian+date
اس کے علاوہ یہود کا روزہ غروب آفتاب سے اگلے روز غروب آفتاب تک ہوتا ہے جب کہ اسلام میں ایسے روزے کا کوئی وجود نہیں ہے پس جب اس طرح کا روزہ رکھنا ہی صحیح نہیں ہے تو اس کی اتباع میں ہر سال عاشور کو روزہ رکھنا کہاں سے صحیح ہوجائے گا؟!

یہ ثابت ہوجانے کے بعد کہ عاشورٔ محرم کے دن روزہ رکھنے کا حکم نہ اللہ نے دیا ہے اور نہ اس کے رسول(ص) نے ، ماننا پڑے گا کہ یہ بنی امیہ کی شرارت ہے کہ انہوں نے امام حسین (ع) کے قیام و انقلاب کو کم رنگ کرنے کے لئے اسلامی شخصیات کے نام سے عاشورا کے فضائل اور روزہ رکھنے کی تاکید ات کے بارے میں حدیثیں گھڑ ڈالیں تاکہ اس طرح رائے عامہ کو مقصد امام حسین (ع) سے منحرف کردیا جائے ، لیکن چونکہ یہ انقلاب ،امام حسین (ع) نے خدا کے لئے برپا کیا تھا لہٰذا خدا وند عالم نے اس کی حفاظت کا انتظام کیا ہوا ہے اوریہ خدا ہی کا انتظام ہے کہ خود اہل سنت کے مورخین و محققین نے فضائل عاشورا اور عاشورۂ محرم کا روزہ رکھنے والی روایات کو من گھڑت بتایا ہے ، جن کو ہم اختصار کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں

1۔ عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی(ص)نے فرمایا کہ عاشور کے دن روزہ رکھو اور یہود کی اِس طرح مخالفت کرو کہ اس سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد بھی روزہ رکھو.
یہ روایت حضور (ص) کی نسبت سے بھی سنداً ضعیف اور مُنکَر ہے .﴿ نیل الاوطار، الشوکانی، جلد 4، صفحہ289، تحقیق عصام الدین الصبابطی ، ناشر دارالحدیث مصر ، پہلا ایڈیشن 1993عیسوی ﴾

2۔ جو شخص یوم عاشورا کو اپنے اہل و عیال پر فراخ دلی سے خرچ کرے گا ، اللہ تعالیٰ پورے سال اُس کے ساتھ فراخ دلی کا معاملہ کریں گے .
سعودی عرب کی تنظیم ’’ الجمعیۃ العلمیۃ السّعودیۃ للسُنّۃ و عُلومہا‘‘ کی ویب سائٹ www.sunnah.org.sa پر کسی نے اسی حدیث سے متعلق سوال پوچھا ہے کہ آیا یہ حدیث صحیح یا نہیں ؟ تنظیم نے ویب سائٹ پر تفصیل سے جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ حدیث رسول اللہ سے مروی نہیں ہے ، ویب سائٹ نے امام احمد ، ابن رجب ، عقیلی ، حافظ ابوزرعۃ الرازی ، دارقطنی ، ابن تیمیہ ، ابن عبدالہادی ، ذہبی ، ابن القیم اور البانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ حدیث من گھڑت اور جھوٹی ہے ، مزید تفصیل کے لئے یہ لنک ملاحظہ ہو :

http://www.sunnah.org.sa/ar/sunnah-sciences/

counsel-hadith/87-2010-07-21-12-38-57/

624-2010-08-06-03-18-44

3۔ جس شخص نے یوم عاشورا کا روزہ رکھا ، اللہ تعالیٰ اُس کے لئے ساٹھ سال کے روزے اور اُن کی راتوں کے قیام کی عبادت لکھ دیں گے ، جس نے عاشور ا کے دن روزہ رکھا ، اُسے دس ہزار فرشتوں کے عمل کے برابر اجر ملے گا ، جس نے یوم عاشورا کا روزہ رکھا ، اُسے ایک ہزار حجاج و معتمرین کے عمل کے برابر ثواب حاصل ہوگا ، جس نے عاشورا کے دن روزہ رکھا ، اُسے دس ہزار شہیدوں کا اجر ملے گا ، جس نے یوم عاشورا کا روزہ رکھا ، اللہ تعالیٰ اُس کے لئے سات آسمانوں کا تمام اجر لکھ دیں گے ، جس شخص کے ہاں کسی مومن نے عاشورا کے دن روزہ افطار کیا تو گویا اُس کے ہاں پوری امت محمد نے روزہ افطار کیا ، جس نے یوم عاشورا کو کسی بھوکے کو پیٹ بھر کے کھانا کھلایا تو اُس نے گویا امت محمد کے تمام فقرا کو پیٹ بھر کے کھانا کھلایا ، جس شخص نے ﴿اِس دن ﴾ کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اُس ﴿یتیم ﴾ کے سر کے بال کے برابر اُس کے لئے جنت میں ایک درجہ بلند کیا جائے گا ، اس پر سیدنا عمر نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! بلا شبہ ، عاشور کا دن عطا کرکے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑا ہی نوازا ہے ، آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے آسمانوں ، زمین ، پہاڑوں ، تاروں ، قلم اور لوح کی تخلیق اسی دن کی ہے ، اسی طرح جبریل ، فرشتوں اور آدم کی تخلیق بھی اسی یوم عاشور کو کی ہے ، سیدنا ابراہیم کی ولادت بھی اسی دن ہوئی ہے ، انہیں آگ سے بھی اسی دن بچایا ، سیدنا اسماعیل کو قربان ہوجانے سے بھی اسی دن بچایا ﴿تو پھر مسلمان 10ذی الحجہ کو عید الاضحی کیوں مناتے ہیں ؟﴾فرعون کو بھی اسی دن دریا میں غرق کیا ﴿گزشتہ صفحات میں ہم اس کی تحقیق کر چکے ہیں کہ یہ غلط ہے ﴾ سید نا ادریس کو بھی اسی دن اٹھایا ، اُن کی پیدائش بھی اسی دن ہوئی تھی ، حضرت آدم کی لغزش بھی اسی یوم عاشور کو معاف فرمائی﴿جناب آدم کے زمانے میں تو کوئی کلینڈر ہی نہ تھا؟ ﴾ ، داؤد علیہ السلام کی لغزش بھی اسی دن معاف فرمائی ، حضرت سلیمان کو بادشاہت بھی اسی دن عطا کی تھی ، محمد (ص) کی ولادت بھی یوم عاشور کو ہوئی تھی ﴿ تو پھر 12ربیع الاول کو عید میلاد النبی(ص) کیوں منایا جاتا ہے ؟﴾اللہ اپنے عرش پر بھی اسی دن مستوی ہوا اور قیامت بھی یوم عاشور ہی کو برپا ہوگی .
قارئین دیکھا آپ نے،یوم عاشوراکے لئے بنی امیہ کے درباری حدیث سازوں نے ساری مناسبتیں گھڑ ڈالیں تاکہ نبی (ص) کے چہیتے نواسے حضرت امام حسین (ع) کی دلسوز شہادت اور اس کی تاثیر کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹ جائے اور بنی امیہ بڑے آرام سے حکومت کرتے رہیں ، یہ اتنی منصوبہ بند طویل روایت کسی بھی طرح درایت پر پوری نہیں اترتی ہے ،اسی لئے اس روایت کے بارے میں امام جوزی فرماتے ہیں کہ یہ بلا شبہ من گھڑت روایت ہے ، امام احمد بن حنبل نے اس کے ایک راوی ’’حبیب بن ابی حبیب ‘‘ کو روایت حدیث کے باب میں جھوٹا قرار دیا ہے ، ابن عدی کا اُسی کے بارے میں کہنا ہے کہ وہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا ، ابو حاتم بھی فرماتے ہیں کہ یہ روایت بالکل باطل اور بے بنیاد ہے .

﴿ الموضوعات ، ابن الجوزی ، جلد 2، صفحہ 203، ناشر محمد عبد المحسن، صاحب المکتبۃ السلفیہ مدینہ ، پہلا ایڈیشن 1996عیسوی ﴾

4۔ جس شخص نے محرم کے ابتدائی نو دن کے روزے رکھے اللہ تعالیٰ اُس کے لئے آسمان میں میلوں وسیع و عریض ایک ایسا گنبد بنائیں گے جس کے چار دروازے ہوں گے.
یہ روایت بھی جعلی روایتوں میں سے ہے .﴿ الموضوعات ابن الجوزی ، جلد 2صفحہ 1993﴾

اس کے علاوہ عاشور کی فضیلت سے متعلق اور بھی بہت سی من گھڑت حدیثوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کو ہم اختصار کی وجہ سے نقل نہیں کر رہے ہیں .
خدا وند عالم تمام مسلمانوں کو قرآن و عترت کے دامن سے متمسک رکھے ﴿آمین﴾
 

khan_sultan

Banned
یہودی روزہ اس لیے رکھتے تھے کیونکہ خوشی کا دن تھا اور انکے مطابق موسی ع کو فرعون ملعون سے آزادی ملی تھی اس خوشی میں روزہ رکھتے ہیں
..

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قریش جاہلیت کے زمانے میں عاشورے کے دن کا روزہ رکھا کرتے تھے پھر رسول اللہﷺ نے بھی اس دن کے روزے کا حکم دیا، یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہوئے، اور( اس وقت) آپﷺ نے فرمایا: جس کا جی چاہے وہ عاشورے کا روزہ رکھےجس کا جی چاہے نہ رکھے۔یہ روایت سنی کتاب مسلم باب صوم میں ہے اس طرح سے ہے 2693 - حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، - رضى الله عنها - قَالَتْ كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصُومُ عَاشُورَاءَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَصُومُهُ فَلَمَّا هَاجَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ فَلَمَّا فُرِضَ شَهْرُ رَمَضَانَ قَالَ " مَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ "
مراجع کرام کے فتاوی:
عاشورہ کا روزہ رکھنے کی ممانعت ہے۔ اسی طرح عید الاضحی اور عرفہ کے دن میں شک ہونے کی صورت میں بھی روزہ رکھنے کی ممانعت ہے۔
سنن ابن ماجہ، کتاب خروج المہدی:
عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہو ئے تھے، اتنے میں بنی ہاشم کے چند بچے آئے، جب نبی اکرم ﷺ نے انہیں دیکھا، تو آپ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے، اور آپ کا رنگ زرد پڑ گیا ، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، ہم آپ کے چہرے پر رنج و صدمہ دیکھتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا:''ہم اس گھرانے والے ہیں جن کے لئے اللہ نے دنیاکے مقابلے آخرت پسند کی ہے، میرے بعد بہت جلد ہی میرے اہل بیت مصائب ، سختیاں، اخرا ج اور جلا وطن ہوں گے، یہا ں تک کہ مشرق کی طرف سے کچھ لوگ آئیں گے، جن کے سا تھ سیا ہ جھنڈے ہوں گے، وہ خیر ( خز انہ ) طلب کریں گے، لو گ انہیں نہ دیں گے تو وہ لو گوں سے جنگ کریں گے، اور ( اللہ کی طرف سے) ان کی مدد ہوگی، پھر وہ جو مانگتے تھے وہ انہیں دیا جا ئے گا، ، یہ لو گ اس وقت اپنے لئے حکومت قبول نہ کریں گے یہاں تک کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو یہ خز انہ اور حکو مت سونپ دیں گے، وہ شخص زمین کو اس طرح عدل سے بھرد ے گا جس طرح لو گوں نے اسے ظلم سے بھر دیا تھا، لہٰذ ا تم میں سے جو شخص اس زما نہ کو پائے وہ ان لوگوں کے سا تھ ( لشکر میں) شریک ہو ،اگر چہ اسے گھٹنو ں کے بل برف پر کیوں نہ چلنا پڑے''۔ (صحیح روایت جو سنن ابن ماجہ کے علاوہ مستدرک امام حاکم میں عمر بن قیس ،عن حکم عن ابراہیم کے طریق سے موجود ہے)۔
پہلی روایت: جناب عائشہ سے روایت ہے کہ رسول (ص) زمانہ جاہلیت میں قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ مدینے آئے تو آپ نے پھر عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
دوسری روایت : ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول (ص) ہجرت کر کے مدینے پہنچے تو یہودی عاشورہ کا روزہ رکھے ہوئے تھے، اور ان یہودیوں نے کہا کہ عاشورہ وہ دن ہے جس دن موسی علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی اور فتح حاصل ہوئی۔ اس پر رسول (ص) نے صحابہ سے فرمایا: تم (مسلمانوں) کو حق موسی پر زیادہ ہے کہ موسی علیہ السلام کی فتح کی خوشی مناؤ۔ چنانچہ اس دن روزہ رکھو۔
تحقیق:
1۔ حضرت عائشہ اور جناب عباس والی روایات میں تضاد ہے۔
اول تو اگر یہ دونوں روایات درست ہوتیں تو جناب عائشہ رسول (ص) کی وفات کے کئی سالوں بعد یہ روایت بیان کر رہی ہیں اور انہیں بہت اچھی طرح علم ہونا چاہیے تھا تھا کہ عاشورہ کے روزے کی اہمیت موسی علیہ السلام کی فرعون پر فتح کی وجہ سے ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ مسلمان ہجرت کے بعد 10 سال تک موسی علیہ السلام کی فتح کی وجہ سے روزہ رکھتے رہیں اور جناب عائشہ اس اہم ترین حقیقت کو نظر انداز کر جائیں اور اسے مکہ کے زمانہ جاہلیت کی رسم سے جوڑ دیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ قریش جس کیلنڈر کے مطابق چلتے تھے، وہ تھا "قصی کا کیلنڈر"، جبکہ یہودی جس کیلنڈر کے مطابق چلتے ہیں وہ ہے "ہلال دوم" (Hillel II)، اور ان دونوں میں فرق ہے۔ چنانچہ یہ ناممکن ہے کہ دونوں کیلنڈروں کا "عاشورا" ایک ہی چیز ہو یا ایک ہی دن ہو۔
2) جبکہ اسلامی کیلنڈر ان دونوں سے بالکل مختلف ہے اور چاند کی تاریخ کے مطابق چلتا ہے۔ بلکہ رسول (ص) کے دور میں تو اسلامی کیلنڈر موجود ہی نہیں تھا، بلکہ اسکی ابتدا تو رسول (ص) کی وفات کے بہت بعد میں جا کر علی ابن ابی طالب کے کہنے پر ہوئی اور اس میں ہجرت کے سال کو پہلا سال تسلیم کیا گیا۔
3) اسلامی کیلنڈر میں سال میں 355 دن ہوتے ہیں، جبکہ یہودی کیلنڈر میں بھی 355 دن ہوتے ہیں، مگر وہ ہر تیسرے یا چوتھے سال اس میں 10 دن کا اضافہ کر کے اسے موجودہ شمسی سال (Gregorian Calendar) کے برابر کر دیتے ہیں۔
4) مگر پہلے عاشورہ، یعنی 10 محرم سن 1 ہجری کو رسول (ص) مدینہ پہنچے ہی نہیں تھے، بلکہ مکہ میں موجود تھے۔ سب محققین اس بات پر متفق ہیں کہ رسول (ص) 1 ہجری کے عاشورہ کے بہت بعد میں "ربیع الاول" کے مہینے میں مدینے پہنچے تھے (محرم کے بعد صفر کا مہینہ آتا ہے اور پھر ربیع الاول)۔
صحیح بخاری (کتاب انصار کے مناقب) کی روایت کی مطابق: "۔۔۔ جب رسول (ص) مدینے پہنچے تو تمام مسلمان انکی طرف لپکے اور رسول (ص) کا حرا کے مقام پر استقبال کیا۔ اور یہ پیر کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔"
چنانچہ یہ ناممکن ہے کہ رسول (ص) نے یہودیوں کو اسلامی کیلنڈر کے محرم کی دسویں تاریخ، یعنی عاشورہ کو روزہ رکھتا دیکھا ہو۔ چنانچہ اکیلی یہ بات ہی بلا کسی شک و شبہ کے یہ واضح کر رہی ہے کہ عاشورہ کے روزے والی کہانی گھڑی ہوئی ہے اور بنی امیہ کی شرارت ہے۔
5) مزید برآں، جس نے بھی یہ رسول (ص) پر جھوٹ باندھا، اسے یہ تک پتا نہیں تھا کہ جس دن موسی علیہ السلام کو فتح ہوئی، اس دن کو یہودی 'عید الفصح' (Passover ) کہتے ہیں اور اس دن وہ روزہ نہیں رکھتے ہیں۔ آج بھی آپ یہودیوں سے پوچھ سکتے ہیں اور وہ آپ کو یہ ہی بتلائیں کہ عید الفصح (پاس اوور) والا دن یہودیوں کے لیے روزہ نہیں ہے۔
یہودیوں کے ہاں 6 قسم کے روزے ہیں جن کی تفصیل آپ اس لنک میں پڑھ سکتے ہیں اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عید الفصح (پاس اوور) اس میں شامل نہیں ہے۔
http://www.hebrew4christians.com/Holidays/Fast_Days/fast_days.html
6) اس روایت کی حامی حضرات کی طرف سے اگلا بہانہ یہ پیش کی جاتا ہے کہ اس روایت میں موجود عاشورہ کا دن یہودیوں کا "یوم کیپور" (عربی یوم الغفران) تھا جو کہ یہودیوں کے کیلنڈر کے مطابق 'تشری' مہینے کی 10 تاریخ بنتی ہے۔
یہ بہانہ عجیب و غریب زبردستی پر مبنی ہے۔
کیونکہ 'یوم کیپور' کا موسی علیہ السلام کی فرعون پر فتح سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ 'یوم کیپور' یہودیوں کے لیے "توبہ کا دن" ہے اور اسے "عشرۃ التوبہ" کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کے نزدیک یوم کیپور توبہ کا آخری موقع ہوتا ہے میں یہودی باجماعت ہو کر خدا سے اپنے اعمال کی معافی مانگتے ہیں۔
چنانچہ یہ بہانہ تو کسی طرح ممکن ہی نہیں کہ یوم کیپور کو زبردستی موسی علیہ السلام کی فرعون پر فتح کا دن بنا دیا جائے۔ نیز سائنٹیفک تحقیق سے ثابت ہے کہ تشری مہینے کی 10 تاریخ تو پہلی ہجری سال کے عاشورہ سے کئی مہینے کے فاصلے پر واقع ہوئی تھی۔
آپ کی سہولت کے لیے ذیل میں 2 سائنٹیفک ٹول مہیا کیے جا رہے ہیں۔
Gregorian-Hijri Dates Converter (http://www.islamicfinder.org/dateConversion.php?mode=hij-ger&day=10&month=1&year=0001&date_result=1)
Hebrew Date Converter (http://www.hebcal.com/converter/?hd=10&hm=Tishrei&hy=4382&h2g=Convert+Hebrew+to+Gregorian+date)
* 10th Muharram of 1st Islamic Hijri year is equivalent to 25 July 622 C.E. (+ One day Error)
* 10th of Tishri, 4383 of Jewish Calendar is equivalent to 23 September 622 C.E. (+10 days error)
چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ 1 ہجری کے عاشورہ اور یہودیوں کے تشری مہینے کی 10 تاریخ میں کئی مہینے کا فرق موجود ہے اور ناممکن ہے کہ وہ اس سال اکھٹے واقع ہوئے ہوں۔
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ رسول (ص) کی مدنی زندگی میں کبھی بھی یہ دو دن (یعنی اسلامی عاشورہِ محرم اور یہودی یوم کیپور) ایک ہی تاریخ کو واقع ہی نہیں ہوئے۔
اسلامی اور یہودی کیلنڈر کے فرق کے مطابق یہ دونوں دن (یعنی اسلامی عاشورہِ محرم اور یہودی یوم کیپور) رسول (ص) کی مدینہ ہجرت کرنے کے صرف 29 سال کے بعد جا کر ہی ایک ہی تاریخ کو واقع ہو سکتے ہیں، جبکہ رسول اکرم (ص) کی وفات 10 ہجری میں واقع ہو چکی تھی۔
چنانچہ جیسا مرضی بہانہ کر لیا جائے، مگر ناممکن ہے کہ عاشورہ محرم اور یہودی یوم کیپور کو ایک ہی دن قرار دیا جا سکے۔

 

khan_sultan

Banned
یومِ عاشور کا روزہ قاتلانِ امام حسین علیہ السلام کی بدعت ہے۔ امام حاکم نیشاپوری​
امام حاکم کہتے ہیں کہ میں جوبیر سے خدا کی جانب سے بیزاری چاہتا ہوں۔ یومِ عاشورہ پورے دن کا روزہ رکھنا رسول اللہ ص سے بلکل ثابت نہیں بلکہ یہ تو قاتلانِ امام حسین کی بدعت ہے جس کو انھوں نے شروع کیا تھا۔
امام ابن الجوزی کتاب الموضوعات جز الثانی ص ۲۰۴۔

0btoV9L.png
 

Amal

Chief Minister (5k+ posts)

یہ روزہ سنت رسول ﷺ ہے اور قرآن و سنت ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے
غم حسین رضی اللہ عنہ اسی طرح منایا جانا ہے جس طرح غم منانے کا حکم رسول اللہ ﷺ حسین رضی اللہ تعالی کے نانا نے دیا
کیا ہم اپنی مرضی دین میں شامل کر سکتے ہیں؟
 
Last edited:

khan_sultan

Banned

یہ روزہ سنت رسول ﷺ ہے اور قرآن و سنت ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے
غم حسین رضی اللہ عنہ اسی طرح منایا جانا ہے جس طرح غم منانے کا حکم رسول اللہ ﷺ حسین رضی اللہ تعالی کے نانا نے دیاکیا ہم اپنی مرضی دین میں شامل کر سکتے ہیں
محترمہ آپ نے پوسٹ ایڈیٹ کی ہے تو پھر دوبارہ قوٹ کر کے بتا رہا ہوں ہمارا سارا عمل رسول خدا pbuh[FONT=&amp] اور ان کے اہلبیت کے فرمان پر ہی مبنی ہے کیوں کے قران اور اہلبیت ساتھ ساتھ ہیں اور حوض کوثر پر رسول[/FONT]pbuh خدا کو ملیں گے یہ فرمان رسول پاک​pbuh ہے میرے حوالے فارسی یا فرینچ میں نہیں اردو میں ہیں اس لیے اس طرح کے بہانے مت کریں یہ روزہ آپ کی ہی کتب سے بدعت ثابت ہو چکا ہے

پوسٹ نمبر چھ اور آٹھ کو ضرور دیکھیں
 
Last edited by a moderator:

Amal

Chief Minister (5k+ posts)
بی بی آپ اس روز بھی دوڑ گئی تھیں جب میں نے احادیث دکھائی تھیں غم حسین کے حوالے سے اور یہاں تو میرے تمام حوالے آپ کی ہی کتب سے ہی ہوتے ہیں محترمہ آپ ادھر کینڈا میں ہی رہتی ہیں کسی بھی یہودی مرکز جایے گا اگر مشکل ہو تو مجھ سے مدد لے لیجیے گا میں آپ کو ان سے ملوا دوں گا پرانا ساتھ ہے آپ لوگوں کا ان سے پوچھیے گا کے روزہ آج ہے یا نہیں ؟



محترم میں دوڑی نہیں تھی ۔ جواب نہ دے سکنے وجہ تھریڈ کا بند ہونا تھا

حضرت عمر رضی اللہ تعالی کی شان ہے کے آپ کے کئی اقوال کو اللہ سبحانہ نے قرآن کریم میں موافقت
کی، ایسے شان نزول سے وابستہ یعنی حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہ کی موافقت رکھنے والی آیات متعدد ہیں، کم وبیش تیس مواقع ایسے ہیں کہ رب کائنات ذوالجلال نے اپنے بندہ عمر فاروق، اپنے رسول پاک کے وزیرِ دنیوی کے خیالات اور اقوال کے مطابق آیات قرآنی نازل فرمائیں جن کو محدثین ومورخین کی اصطلاح اور حقیقت پر مبنی کلمات کے بموجب موافقات عمر رضی الله عنہ کہا جاتا ہے، تفصیلات حدیث کی کتابوں موجود ہیں۔

1. مقام ابراہیم کے قریب نماز پڑھنے کی رائے ۔ الله تعالیٰ نے ﴿واتخذو امن مقام ابراہیم مصلے﴾ کہہ کر موافقت فرمائی۔
2. بعض وقت منھ سے نکلے الفاظ جوں کے توں یا کچھ اضافے کے ساتھ نازل ہوئے ازواج مطہرات کو پردہ کا حکم اور پھر نساء العالمین کے لیے ہدایت۔ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
3. سر کار دو عالم سے خانگی خرچ کا مطالبہ ہوا تو حضرت عمر کے قول کے مطابق آیت اتر آئی، آج ( خدا کا) عذاب الہٰی نازل ہوتا تو عمر کے علاوہ کوئی نہ بچتا۔ اور پھر مشیت خداوندی ہی غالب آئی۔
4. شراب ( ام الخبائث) کی نفرت دل میں تھی، اس کی حرمت کا مشورہ دیا۔ حق تعالیٰ نے قبول فرمایا اور حرمت قرآن پاک میں نازل ہوئی۔
5. واقعہ افک میں حضرت ام المؤمنین پر منافقین کی جھوٹی تہمت پر مشورہ مانگا تو قرآن پاک میں آنے والی آیت آپ کی زبان سے جاری ہو گئی ﴿سبحانک ھذا بہتان عظیم﴾․
6. منافقوں کے سردار کی نماز جنازہ پڑھانے پر حضرت عمر کے خیال کے مطابق تائید ہوئی۔
7. حق تعالیٰ نے تخلیق انسانی کے مدارج بیان کیے زبان سے نکلا فتبارک الله احسن الخالقین۔ آگے یہی آیت آپ علیہ السلام نے پڑھی، یعنی قرآن پاک کا حصہ بنی۔
8. یہودی حضرت جبرئیل کو دشمن سمجھتے تھے، آپ رضی الله عنہ سے ایک یہودی نے جب ان کو دشمن کہا تو حضرت عمر کے منھ سے نکلامن کان عدواًلله وملئکتہ ورسلہ وجبریل ومیکال فان الله عدو للکافرین بس ٹھیک یہی الفاظ قرآن کریم میں نازل ہو گئے۔
9. گھر میں آنے کے لیے اجازت چاہنا۔ ایک دن آپ سور ہے تھے کہ ان کا غلام بے دھڑک گھر میں گھس آیا، آپ رضی الله عنہ نے دعا کہ اے الله! بغیر اجازت کے گھر میں آنا حرام کر دے، چناں چہ آیت استیذان نازل ہوگئی۔ آپ کا یہ فرمانا تھا کہ قوم یہود مبہوت قوم ہے او راس کے موافق آیت قرآنی کا نازل ہو جانا۔
10. کامل ابن عدی میں ایک روایت حضرت ابن عمر سے آئی ہے کہ

کلمات اذان کی تکمیل
اول اول جب حضرت بلال رضی الله عنہ اذان دیا کرتے تھے تو اشھد أن لا الہ الا الله کے بعد حی علی الصلوة کہا کرتے تھے ۔ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے ان سے کہا کہ تم اشھدان لا الہ الا الله کے بعد اشھد ان محمد رسول الله کہا کرو۔ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے تائید فرمائی اورحضرت بلال سے موافقت کو کہا کہ جس طرح عمر کہتے ہیں اسی طرح کہو۔

نماز تراویح نبی ﷺ نے ادا کی اس لئے سنت ہے اور طلاق کا مسلہ عین قرآن اور نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق ہونا چاہئے

محترم کبھی آپ اور آپ کے دوستوں نے اس بات پر بھی غور کیا کہ میں آپ لوگوں کے تھریڈز پر نہیں آتی ، آپ لوگوں کی طرح میں بھی مخالفت ، بدزبانی اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں کر سکتی ہوں لیکن اللہ سبحانہ اور نبی ﷺ نے امت کو منا فرمایا ہے اس فعل سے ، اس لئے میں کبھی یہ کام نہیں کروں گی اگر آپ کو قرآن اور سنت نہیں گوارہ اپنی مرضی کے آگے ، تو آپ لوگ بس اپنی پوسٹ بنائیں اور اپنے دین کی اشعات کریں ہماری پوسٹز پر آنے کی زحمت کیوں کرتے ہیں ۔ برائے مہربانی مہذب طریقہ اپنائیں


 

khan_sultan

Banned
محترم میں دوڑی نہیں تھی ۔ جواب نہ دے سکنے وجہ تھریڈ کا بند ہونا تھا

حضرت عمر رضی اللہ تعالی کی شان ہے کے آپ کے کئی اقوال کو اللہ سبحانہ نے قرآن کریم میں موافقت کی، ایسے شان نزول سے وابستہ یعنی حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہ کی موافقت رکھنے والی آیات متعدد ہیں، کم وبیش تیس مواقع ایسے ہیں کہ رب کائنات ذوالجلال نے اپنے بندہ عمر فاروق، اپنے رسول پاک کے وزیرِ دنیوی کے خیالات اور اقوال کے مطابق آیات قرآنی نازل فرمائیں جن کو محدثین ومورخین کی اصطلاح اور حقیقت پر مبنی کلمات کے بموجب موافقات عمر رضی الله عنہ کہا جاتا ہے، تفصیلات حدیث کی کتابوں موجود ہیں۔

1. مقام ابراہیم کے قریب نماز پڑھنے کی رائے ۔ الله تعالیٰ نے ﴿واتخذو امن مقام ابراہیم مصلے﴾ کہہ کر موافقت فرمائی۔
2. بعض وقت منھ سے نکلے الفاظ جوں کے توں یا کچھ اضافے کے ساتھ نازل ہوئے ازواج مطہرات کو پردہ کا حکم اور پھر نساء العالمین کے لیے ہدایت۔ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
3. سر کار دو عالم سے خانگی خرچ کا مطالبہ ہوا تو حضرت عمر کے قول کے مطابق آیت اتر آئی، آج ( خدا کا) عذاب الہٰی نازل ہوتا تو عمر کے علاوہ کوئی نہ بچتا۔ اور پھر مشیت خداوندی ہی غالب آئی۔
4. شراب ( ام الخبائث) کی نفرت دل میں تھی، اس کی حرمت کا مشورہ دیا۔ حق تعالیٰ نے قبول فرمایا اور حرمت قرآن پاک میں نازل ہوئی۔
5. واقعہ افک میں حضرت ام المؤمنین پر منافقین کی جھوٹی تہمت پر مشورہ مانگا تو قرآن پاک میں آنے والی آیت آپ کی زبان سے جاری ہو گئی ﴿سبحانک ھذا بہتان عظیم﴾․
6. منافقوں کے سردار کی نماز جنازہ پڑھانے پر حضرت عمر کے خیال کے مطابق تائید ہوئی۔
7. حق تعالیٰ نے تخلیق انسانی کے مدارج بیان کیے زبان سے نکلا فتبارک الله احسن الخالقین۔ آگے یہی آیت آپ علیہ السلام نے پڑھی، یعنی قرآن پاک کا حصہ بنی۔
8. یہودی حضرت جبرئیل کو دشمن سمجھتے تھے، آپ رضی الله عنہ سے ایک یہودی نے جب ان کو دشمن کہا تو حضرت عمر کے منھ سے نکلامن کان عدواًلله وملئکتہ ورسلہ وجبریل ومیکال فان الله عدو للکافرین بس ٹھیک یہی الفاظ قرآن کریم میں نازل ہو گئے۔
9. گھر میں آنے کے لیے اجازت چاہنا۔ ایک دن آپ سور ہے تھے کہ ان کا غلام بے دھڑک گھر میں گھس آیا، آپ رضی الله عنہ نے دعا کہ اے الله! بغیر اجازت کے گھر میں آنا حرام کر دے، چناں چہ آیت استیذان نازل ہوگئی۔ آپ کا یہ فرمانا تھا کہ قوم یہود مبہوت قوم ہے او راس کے موافق آیت قرآنی کا نازل ہو جانا۔
10. کامل ابن عدی میں ایک روایت حضرت ابن عمر سے آئی ہے کہ

کلمات اذان کی تکمیل
اول اول جب حضرت بلال رضی الله عنہ اذان دیا کرتے تھے تو اشھد أن لا الہ الا الله کے بعد حی علی الصلوة کہا کرتے تھے ۔ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے ان سے کہا کہ تم اشھدان لا الہ الا الله کے بعد اشھد ان محمد رسول الله کہا کرو۔ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے تائید فرمائی اورحضرت بلال سے موافقت کو کہا کہ جس طرح عمر کہتے ہیں اسی طرح کہو۔

نماز تراویح نبی ﷺ نے ادا کی اس لئے سنت ہے اور طلاق کا مسلہ عین قرآن اور نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق ہونا چاہئے

محترم کبھی آپ اور آپ کے دوستوں نے اس بات پر بھی غور کیا کہ میں آپ لوگوں کے تھریڈز پر نہیں آتی ، آپ لوگوں کی طرح میں بھی مخالفت ، بدزبانی اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں کر سکتی ہوں لیکن اللہ سبحانہ اور نبی ﷺ نے امت کو منا فرمایا ہے اس فعل سے ، اس لئے میں کبھی یہ کام نہیں کروں گی اگر آپ کو قرآن اور سنت نہیں گوارہ اپنی مرضی کے آگے ، تو آپ لوگ بس اپنی پوسٹ بنائیں اور اپنے دین کی اشعات کریں ہماری پوسٹز پر آنے کی زحمت کیوں کرتے ہیں ۔ برائے مہربانی مہذب طریقہ اپنائیں



پہلی بات تو یہ ہے کے میں نے کونسی بداخلاقی کی ہے محترمہ آپ خاتون ہو کر بھی بات کو سمجھ نہیں سکی ہیں پچھلا آپ کا تھریڈ جو کے شیعوں کی عزاداری کے آرے تھا اس مفتی سعودیہ کی زبانی جس کا پول ادھر کھول دوں جس کی ویڈیو پوری دنیا نے دیکھی کے کس طرح وہ ایک خاتون کے ساتھ نازیبہ حرکتیں کرتا ہوا پکڑا گیا اس کی ویڈیو خود سرچ کر لیجیے گا
دوسری بات آپ کے تھریڈ کا نشانہ جو لوگ ہوتے ہیں وہ ہم ہی ہوتے ہیں آپ اتنی بھولی مت بنیں اور یہ فورم آپ کا واٹس ایپ کا گروپ نہیں ہے ادھر آپ نے جو آج تھریڈ بنایا ہے عاشورے کے روزے والا اس پر میرے تمام حوالاجات موجود ہیں انکا رد کر سکتی ہیں تو بات کریں ورنہ مجھے معلوم ہے کے آپ کے پاس ہمیشہ کی طرح کوئی دلیل نہیں ہے اور کاپی پیسٹ ضرور جڑیں پر جو ہائی لائٹ کر رہا ہوں کیا یہ موضوع ہے استھریڈ کا ؟ اگر نہیں تو پھر ٹرولنگ مت کریں اور کوئی تھریڈ اور کھول لیں اور جو بھی حوالے دیں ان کا سکین لگائیں
 
Last edited:

khan_sultan

Banned
محترم میں دوڑی نہیں تھی ۔ جواب نہ دے سکنے وجہ تھریڈ کا بند ہونا تھا

حضرت عمر رضی اللہ تعالی کی شان ہے کے آپ کے کئی اقوال کو اللہ سبحانہ نے قرآن کریم میں موافقت
کی، ایسے شان نزول سے وابستہ یعنی حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہ کی موافقت رکھنے والی آیات متعدد ہیں، کم وبیش تیس مواقع ایسے ہیں کہ رب کائنات ذوالجلال نے اپنے بندہ عمر فاروق، اپنے رسول پاک کے وزیرِ دنیوی کے خیالات اور اقوال کے مطابق آیات قرآنی نازل فرمائیں جن کو محدثین ومورخین کی اصطلاح اور حقیقت پر مبنی کلمات کے بموجب موافقات عمر رضی الله عنہ کہا جاتا ہے، تفصیلات حدیث کی کتابوں موجود ہیں۔

1. مقام ابراہیم کے قریب نماز پڑھنے کی رائے ۔ الله تعالیٰ نے ﴿واتخذو امن مقام ابراہیم مصلے﴾ کہہ کر موافقت فرمائی۔
2. بعض وقت منھ سے نکلے الفاظ جوں کے توں یا کچھ اضافے کے ساتھ نازل ہوئے ازواج مطہرات کو پردہ کا حکم اور پھر نساء العالمین کے لیے ہدایت۔ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
3. سر کار دو عالم سے خانگی خرچ کا مطالبہ ہوا تو حضرت عمر کے قول کے مطابق آیت اتر آئی، آج ( خدا کا) عذاب الہٰی نازل ہوتا تو عمر کے علاوہ کوئی نہ بچتا۔ اور پھر مشیت خداوندی ہی غالب آئی۔
4. شراب ( ام الخبائث) کی نفرت دل میں تھی، اس کی حرمت کا مشورہ دیا۔ حق تعالیٰ نے قبول فرمایا اور حرمت قرآن پاک میں نازل ہوئی۔
5. واقعہ افک میں حضرت ام المؤمنین پر منافقین کی جھوٹی تہمت پر مشورہ مانگا تو قرآن پاک میں آنے والی آیت آپ کی زبان سے جاری ہو گئی ﴿سبحانک ھذا بہتان عظیم﴾․
6. منافقوں کے سردار کی نماز جنازہ پڑھانے پر حضرت عمر کے خیال کے مطابق تائید ہوئی۔
7. حق تعالیٰ نے تخلیق انسانی کے مدارج بیان کیے زبان سے نکلا فتبارک الله احسن الخالقین۔ آگے یہی آیت آپ علیہ السلام نے پڑھی، یعنی قرآن پاک کا حصہ بنی۔
8. یہودی حضرت جبرئیل کو دشمن سمجھتے تھے، آپ رضی الله عنہ سے ایک یہودی نے جب ان کو دشمن کہا تو حضرت عمر کے منھ سے نکلامن کان عدواًلله وملئکتہ ورسلہ وجبریل ومیکال فان الله عدو للکافرین بس ٹھیک یہی الفاظ قرآن کریم میں نازل ہو گئے۔
9. گھر میں آنے کے لیے اجازت چاہنا۔ ایک دن آپ سور ہے تھے کہ ان کا غلام بے دھڑک گھر میں گھس آیا، آپ رضی الله عنہ نے دعا کہ اے الله! بغیر اجازت کے گھر میں آنا حرام کر دے، چناں چہ آیت استیذان نازل ہوگئی۔ آپ کا یہ فرمانا تھا کہ قوم یہود مبہوت قوم ہے او راس کے موافق آیت قرآنی کا نازل ہو جانا۔
10. کامل ابن عدی میں ایک روایت حضرت ابن عمر سے آئی ہے کہ

کلمات اذان کی تکمیل
اول اول جب حضرت بلال رضی الله عنہ اذان دیا کرتے تھے تو اشھد أن لا الہ الا الله کے بعد حی علی الصلوة کہا کرتے تھے ۔ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے ان سے کہا کہ تم اشھدان لا الہ الا الله کے بعد اشھد ان محمد رسول الله کہا کرو۔ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے تائید فرمائی اورحضرت بلال سے موافقت کو کہا کہ جس طرح عمر کہتے ہیں اسی طرح کہو۔

نماز تراویح نبی ﷺ نے ادا کی اس لئے سنت ہے اور طلاق کا مسلہ عین قرآن اور نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق ہونا چاہئے

محترم کبھی آپ اور آپ کے دوستوں نے اس بات پر بھی غور کیا کہ میں آپ لوگوں کے تھریڈز پر نہیں آتی ، آپ لوگوں کی طرح میں بھی مخالفت ، بدزبانی اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں کر سکتی ہوں لیکن اللہ سبحانہ اور نبی ﷺ نے امت کو منا فرمایا ہے اس فعل سے ، اس لئے میں کبھی یہ کام نہیں کروں گی اگر آپ کو قرآن اور سنت نہیں گوارہ اپنی مرضی کے آگے ، تو آپ لوگ بس اپنی پوسٹ بنائیں اور اپنے دین کی اشعات کریں ہماری پوسٹز پر آنے کی زحمت کیوں کرتے ہیں ۔ برائے مہربانی مہذب طریقہ اپنائیں


محترمہ میری ساری پوسٹیں اعاشورہ کے روزے پر مبنی تھیں پر جب انصاری نے آکر ٹرولنگ کی اور اس تھریڈ کا رخ موڑا عاشورہ کے روزے کی بجاے گھوڑے کی پوجا اور آگ پر نماز کا ذکر چھیڑا تو آپ نے اس کو تو کچھ نہیں کہا ؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے ؟ میں نے آپ سے ٹاپک کے اندر رہتے ہوے بات کی ہے اور کوئی بھی اخلاقیات سے گری بات نہیں کی اور جب دوسرے ممبر نے غلط بات کی تو آپ کا فرض بنتا تھا کے اس کو روکتیں کیوں نہیں روکا ؟
 
Last edited:
ڈئیر ایڈمن! ایک نقطہ بنیادی بھی ہے اور قابل غور بھی کہ بحث فرقہ وارانہ نہیں بلکہ تھریڈز فرقہ وارانہ ہوتے ہیں۔
اگر مسلمہ متنازعہ امور پر مبنی فرقہ وارانہ تھریڈز بنتے رہیں گے تو ان پر بحث بھی فرقہ وارانہ ہی ہوگی نا؟
مثلاً یہی تھریڈ دیکھ لیں۔ یہ تھریڈ ہی فرقہ واریت پر مبنی ہے تو بحث بھی اسی ذیل میں ہو رہی ہے۔ اگر آپ ایسے تھریڈز بنانے کے سلسلے کو کنٹرول کریں تو کافی بہتری آ سکتی ہے۔

یوم عاشورہ پر قتل اولاد رسول کے شکرانے کے روزے رکھنے کی ترغیب دی جا رہی ہو تو جوابات بھی اسی نوعیت کے ہوں گے۔ اب یوم عاشورہ کے روزے والے تھریڈ پر اقتصادیات اور کھیلوں کی خبریں تو ڈسکس نہیں ہوں گی۔

ویسے، اس تھریڈ سٹارٹر نے عجیب طریقہ واردات اختیار کیا ہوا ہے۔ تھریڈ کا عنوان "محبت بھرا پیغام" اور تھریڈ میں اہل تشیع اور عزاداری سید الشہدا کیخلاف بکواسیات بھری ہوتی ہیں۔ گذشتہ سال بھی اس عورت نے امام حسین سے محبت بھرے عنوان لگا کر اندر یزیدیت کی پلیدیت بھری ہوئی تھی۔

سوچیں! اگر ہم بھی سنیوں کو نماز تراویح، ہاتھ باندھ کر نمازیں پڑھنے اور غلط نکاح پڑھانے، طلاقیں دینے جیسی بدعات اور دوسرے غلط کاموں سے روکنے کیلئے تھریڈز بنا کر محبت بھرے تبلیغی پیغامات بھیجیں تو براشت کرو گے؟
 

khan_sultan

Banned
بھائی اس کی وجہ یہ ہے کے رسول خدا کا فرمان ہے کے میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قران دوسرے میرے اہلبیت اور یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے ان دونوں سے تمسک ضروری ہے اب آپ دیکھیں قران پاک کا جو ترجمہ ہے اس کو آپ حجت نہیں بنا سکتےہیں کیوں ؟ اس لیے کے وہ ترجمہ ہے وہ لکھنے والے کی سوچ کی عکاسی نہیں کرتا ہے اسی طرح تفسیر جو ہے وہ اس بیان کی تشریح تو ہوتی ہے پر پھر بھی حجت نہیں ہے مثال کے طور پر غالب نے کوئی اشعارکہے تو ہمیں نہیں معلوم کے وہ ان اشعار کو کس بنا پر کہ رہا ہے یہ مسلہ اس وقت حل ہو گا کے اس وقت کوئی اس کے ساتھ بیٹھا ہو اور وہ اسے پوچھے کے نوشا میاں آپ نے یہ اشعار کس مقصد کے لیے کہا جب غالب اس کا مقصد بیان کرے گا تو وہ حجت ہو جاے گی اب قران کو سمجھنا ہے تو ان سے رجوع کرو جو کے اس کے ساتھ ساتھ ہیں جو الله کی حجت ہیں جب تک آپ ان سے تمسک نہیں کرو گے اصل مقصد نہیں پاؤ گے اور جب فرما دیا کے ان سے تمسک کرو تو پھر فلاح بھی اسی وقت ملے گی جب ان کےقریب ہوں گے میرے حوالے ان کی ہی کتب سے ہیں پر خاتون پھر بھی اصرار کچھ اور کر رہی ہیں یا تو میں نے فارسی فرینچ میں حوالے لگاے ہیں یا پھر ؟
 
Last edited by a moderator:

Amal

Chief Minister (5k+ posts)
محترمہ میری ساری پوسٹیں اعاشورہ کے روزے پر مبنی تھیں پر جب انصاری نے آکر ٹرولنگ کی اور اس تھریڈ کا رخ موڑا عاشورہ کے روزے کی بجاے گھڑے کی پوجا اور آگ پر نماز کا ذکر چھیڑا تو آپ نے اس کو تو کچھ نہیں کہا ؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے ؟ میں نے آپ سے ٹاپک کے اندر رہتے ہوے بات کی ہے اور کوئی بھی اخلاقیات سے گری بات نہیں کی اور جب دوسرے ممبر نے غلط بات کی تو آپ کا فرض بنتا تھا کے اس کو روکتیں کیوں نہیں روکا ؟



"محمد رسول اللہ کا فرمان "میرا پیغام لوگوں کو پہنچاو ! اگرچہ ایک آیت ہو


مجھے دین کا علم پہنچانے کا حکم ہے جو انشا اللہ پہنچاتی رہوں گی آپ کو نہیں روکتی ، آپ الگ اپنا کام کرتے رہیں ، لیکن بحث میں پڑنے کے بجائے مہذب طریقہ اپنائیں جو آپ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے !! رہی بات دل آزاری کی تو وہ کسی کو بھی کسی کی نہیں کرنی چاہئے اور میں صرف اپنے فعل کی زمہ دار ہوں
 

tariisb

Chief Minister (5k+ posts)

"محمد رسول اللہ کا فرمان "میرا پیغام لوگوں کو پہنچاو ! اگرچہ ایک آیت ہو


مجھے دین کا علم پہنچانے کا حکم ہے جو انشا اللہ پہنچاتی رہوں گی آپ کو نہیں روکتی ، آپ الگ اپنا کام کرتے رہیں ، لیکن بحث میں پڑنے کے بجائے مہذب طریقہ اپنائیں جو آپ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے !! رہی بات دل آزاری کی تو وہ کسی کو بھی کسی کی نہیں کرنی چاہئے اور میں صرف اپنے فعل کی زمہ دار ہوں


:jazak:آپ صرف ، اپنا پیغام پوسٹ کر دیا کریں ، بحث میں مت الجھا کریں ، جاہلوں سے بحث کا حکم نہیں ، قالو سلاما کی نصیحت ہے
 

محترم کبھی آپ اور آپ کے دوستوں نے اس بات پر بھی غور کیا کہ میں آپ لوگوں کے تھریڈز پر نہیں آتی ، آپ لوگوں کی طرح میں بھی مخالفت ، بدزبانی اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں کر سکتی ہوں لیکن اللہ سبحانہ اور نبی ﷺ نے امت کو منا فرمایا ہے اس فعل سے ، اس لئے میں کبھی یہ کام نہیں کروں گی اگر آپ کو قرآن اور سنت نہیں گوارہ اپنی مرضی کے آگے ، تو آپ لوگ بس اپنی پوسٹ بنائیں اور اپنے دین کی اشعات کریں ہماری پوسٹز پر آنے کی زحمت کیوں کرتے ہیں ۔ برائے مہربانی مہذب طریقہ اپنائیں
پہلی بات تو یہ سمجھ لو کہ یہ ایک اوپن فورم ہے یعنی پبلک فورم ہے کوئی پرائیویٹ کلب نہیں جہاں بلا روک ٹوک تم جو چاہو اودھم مچاؤ۔ یہ کونسی تقسیم کر رہی ہو . . . تیرا تھریڈ . . . . . میرا تھریڈ؟
فورم قوانین میں کہاں لکھا ہے کہ اس فورم پر فلاں حصہ تمہارے لیے مخصوص ہے جہاں تم اپنے الگ تھریڈز بناؤ گی اور اس تھریڈ کو فلاں فلاں ممبرز ہی وزٹ کر سکیں گے اور فلاں فلاں نہیں؟

یہ تو وہ ہی بات ہوئی، گڑ کھانا لیکن گلگلوں سے پرہیز۔
دیدہ دلیری اور غنڈہ گردی تو دیکھو ذرا۔ ایک پاکستانی فورم پر تھریڈز بنانے یذیدیت کی محبت اور حسینیت کی مذمت میں مگر امید سے رہنا کہ ملت اسلامیہ تمہاری غیر اسلامی حرکتوں کو ناجائز غصے کی طرح پی جائے؟


باقی باتیں پوسٹ نمبر اٹھائیس پر لکھ دی ہیں اگر بوجوہ وہاں تک نہ جا سکو اس لنک پر کلک کر کے پڑھ لو۔



 

khan_sultan

Banned

"محمد رسول اللہ
pbuh کا فرمان "میرا پیغام لوگوں کو پہنچاو ! اگرچہ ایک آیت ہو

مجھے دین کا علم پہنچانے کا حکم ہے جو انشا اللہ پہنچاتی رہوں گی آپ کو نہیں روکتی ، آپ الگ اپنا کام کرتے رہیں ، لیکن بحث میں پڑنے کے بجائے مہذب طریقہ اپنائیں جو آپ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے !! رہی بات دل آزاری کی تو وہ کسی کو بھی کسی کی نہیں کرنی چاہئے اور میں صرف اپنے فعل کی زمہ دار ہوں



محترمہ آپ مجھ پر اس جرم کا الزام لگا رہی ہیں جو میں نے کیا ہی نہیں ہے میرے تمام قوٹ عاشورہ کے روزے کے رد پر مبنی تھے اور یہ پبلک فورم ہے آپ کس طرح مجھے روک سکتی ہیں کے میں ان تھریڈز پر نہ آوں ؟ جب کے میں آپ کو اسلام کے قریب لانا چاہتا ہوں آپ کو کئی بار بتایا کے اسلام کو حاصل کرنا ہے تو ولایت کو پڑھیں سمجھیں غدیر کا پیغام دیکھیں کیا دعوت زل عشیرہ کے واقعہ کو پڑھا ہے ؟ کیا یہ حدیث نہیں آپ کے سامنے گزری کے قران اور اہلبیت سے تمسک حاصل کرو ؟ ذکر علیؑ عبادت ہے ؟ علیؑ سب کے مولا ہیں آقا ہیں پھر کیوں آپ اسے تھریڈ بناتی ہیں ؟ یہی تھریڈ لے لیں جس روز نواسہ رسولﷺذبح کر دیا گیا ہو اس روز آپ خوشی منائیں کیا مولانا طارق جمیل یا طاہر القادری کو نہیں سنا آپpbuh کو فرشتے نے پہلے ہی بتا دیا تھا آپpbuh نے اس پر گریہ کیا آپ اس روز کس طرح سے خوشی منا سکتی ہیں کیا اس روز یہودی روزہ رکھتے ہیں ؟ کسی یہودی کو پوچھیے ادھر ٹورنٹو مسی ساگا میں بہت آباد ہیں کبھی ریسرچ کریں بغیر اہلبیت کے نہ تو قران سمجھ میں اے گا نہ ہی حقیقی اسلام
 
Last edited by a moderator:
Status
Not open for further replies.

Back
Top