ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے طالبان سے متعلق بیان کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کا ردِعمل
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان وہ شخصیت ہیں جنھیں کئی پاکستانی اسلامی دنیا کا ’مردِ مجاہد‘ پکارتے رہے ہیں لیکن آج اردوغان کے یہی مداح ان سے خفا نظر آتے ہیں۔
حتیٰ کہ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ لوگ جو انھیں ترکی کے مقبول ڈرامے ارطغرل غازی کے ہیرو ’ارطغرل‘ کا لقب دیتے تھے آج انھیں اسی ڈرامے کے ولن اور منگول کمانڈر ’نویان‘ سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔
اردوغان نے ایسا کیا کہہ دیا کہ ان کے حامیوں کے دل اتنے دکھی ہوئے ہیں؟
پیر کے روز ترک صدر طیب اردوغان نے کہا تھا کہ ’طالبان کو اپنے بھائیوں کی سرزمین پر قبضہ ختم کرنا چاہیے اور دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہے۔‘ انھوں نے طالبان کی طرف سے ترک فوجیوں کو کابل کا ہوائی اڈہ نہ چھوڑنے کی صورت میں نتائج کی دھمکی پر ردِعمل دیتے ہوئے یہ بیان دیا تھا۔
خبررساں ادارے رؤٹرز کے مطابق اردوغان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان کا رویہ ویسا نہیں جو مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونا چاہیے۔
یاد رہے گذشتہ ہفتے طالبان نے ترکی کو ان منصوبوں کے خلاف متنبہ کیا تھا کہ کابل کے ہوائی اڈے کو چلانے کے لیے افغانستان میں کچھ فوجی رکھے جائیں، اور اس حکمت عملی کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے نتائج کی دھمکی دی تھی۔
’اردوغان نے طالبان کے خلاف کوئی کارروائی کی تو ہمارے دلوں سے اتر جائیں گے‘
اردوغان کے اس بیان کے بعد بعض پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے کہا وہ ’افغانستان کے اندورنی حالات میں ٹانگ مت اڑائیں۔‘
احمد علی قاضی نے لکھا ’ اشرف غنی اور افغان طالبان دونوں ہی افغان ہیں، قبضہ امریکہ اور نیٹو کا تھا۔اردوغان کی طرف سے اس قسم کا بیان یقیناً ان کی مقبولیت کے گراف کو نیچے گرائے گا۔‘
اعجاز خان نے ان سے پوچھا ’کیا غلط کہا ہے اردوغان نے۔۔۔ وہ ان سے بھائیوں جیسا سلوک کرنے کو کہہ رہے ہیں اورانھیں بات کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ طالبان کو ہوائی اڈہے پر فوجی رکھنے پر راضی کر سکیں۔۔۔ اور وہ وہاں کسی بھی گروپ پر حملہ نہیں کرنے والے۔۔۔‘
اس کے ساتھ ہی انھوں نے لکھا ’ہمیں کیا ہو رہا ہے؟ ہم بہت جذباتی لوگ ہیں۔‘
محمد خالد نے رائے دی ’ترکوں کے ساتھ ہمارے برادرانہ تعلقات ہمیشہ کے لیے قائم رہیں گے لیکن اگر اردوغان نے طالبان کے خلاف کوئی بڑی یا چھوٹی سی بھی کارروائی کی تو اردوغان ہمارے دلوں سے اتر جائیں گے اور یہ ہم نہیں چاہتے۔‘
اسی طرح یوسف صدیقی نے لکھا ’مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ترکی سے پیار کرنے والے پاکستانی اب کدھر جائیں گے۔ ترکی بے نقاب ہو چکا ہے۔ ترکی کے صدر کی مصنوعی اسلام پرستی بھی اسے اب نہیں بچا سکتی۔ وہ عوامی غضب کا نشانہ بنے گا۔ طالبان کی مخالفت اسے مہنگی پڑنے والی ہے۔
کچھ صارفین پریشان ہیں کہ اب اردوغان کے پاکستانی مداحوں کا کیا ہو گا؟حتیٰ کہ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ لوگ جو انھیں ترکی کے مقبول ڈرامے ارطغرل غازی کے ہیرو ’ارطغرل‘ کا لقب دیتے تھے آج انھیں اسی ڈرامے کے ولن اور منگول کمانڈر ’نویان‘ سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔
اردوغان نے ایسا کیا کہہ دیا کہ ان کے حامیوں کے دل اتنے دکھی ہوئے ہیں؟
پیر کے روز ترک صدر طیب اردوغان نے کہا تھا کہ ’طالبان کو اپنے بھائیوں کی سرزمین پر قبضہ ختم کرنا چاہیے اور دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہے۔‘ انھوں نے طالبان کی طرف سے ترک فوجیوں کو کابل کا ہوائی اڈہ نہ چھوڑنے کی صورت میں نتائج کی دھمکی پر ردِعمل دیتے ہوئے یہ بیان دیا تھا۔
خبررساں ادارے رؤٹرز کے مطابق اردوغان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان کا رویہ ویسا نہیں جو مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ہونا چاہیے۔
یاد رہے گذشتہ ہفتے طالبان نے ترکی کو ان منصوبوں کے خلاف متنبہ کیا تھا کہ کابل کے ہوائی اڈے کو چلانے کے لیے افغانستان میں کچھ فوجی رکھے جائیں، اور اس حکمت عملی کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے نتائج کی دھمکی دی تھی۔
’اردوغان نے طالبان کے خلاف کوئی کارروائی کی تو ہمارے دلوں سے اتر جائیں گے‘
اردوغان کے اس بیان کے بعد بعض پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے کہا وہ ’افغانستان کے اندورنی حالات میں ٹانگ مت اڑائیں۔‘
احمد علی قاضی نے لکھا ’ اشرف غنی اور افغان طالبان دونوں ہی افغان ہیں، قبضہ امریکہ اور نیٹو کا تھا۔اردوغان کی طرف سے اس قسم کا بیان یقیناً ان کی مقبولیت کے گراف کو نیچے گرائے گا۔‘
اعجاز خان نے ان سے پوچھا ’کیا غلط کہا ہے اردوغان نے۔۔۔ وہ ان سے بھائیوں جیسا سلوک کرنے کو کہہ رہے ہیں اورانھیں بات کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ طالبان کو ہوائی اڈہے پر فوجی رکھنے پر راضی کر سکیں۔۔۔ اور وہ وہاں کسی بھی گروپ پر حملہ نہیں کرنے والے۔۔۔‘
اس کے ساتھ ہی انھوں نے لکھا ’ہمیں کیا ہو رہا ہے؟ ہم بہت جذباتی لوگ ہیں۔‘
محمد خالد نے رائے دی ’ترکوں کے ساتھ ہمارے برادرانہ تعلقات ہمیشہ کے لیے قائم رہیں گے لیکن اگر اردوغان نے طالبان کے خلاف کوئی بڑی یا چھوٹی سی بھی کارروائی کی تو اردوغان ہمارے دلوں سے اتر جائیں گے اور یہ ہم نہیں چاہتے۔‘
اسی طرح یوسف صدیقی نے لکھا ’مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ترکی سے پیار کرنے والے پاکستانی اب کدھر جائیں گے۔ ترکی بے نقاب ہو چکا ہے۔ ترکی کے صدر کی مصنوعی اسلام پرستی بھی اسے اب نہیں بچا سکتی۔ وہ عوامی غضب کا نشانہ بنے گا۔ طالبان کی مخالفت اسے مہنگی پڑنے والی ہے۔
یوسف صدیقی نے بھی ایسا ہی سوال کیا’مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ترکی سے پیار کرنے والے پاکستانی اب کدھر جائیں گے۔ ترکی بے نقاب ہو چکا ہے۔ ترکی کے صدر کی مصنوعی اسلام پرستی بھی اسے اب نہیں بچا سکتی۔ وہ عوامی غضب کا نشانہ بنے گا۔ طالبان کی مخالفت اسے مہنگی پڑنے والی ہے۔‘
محسن علی سیف نے لکھا ’جناب طیب اردوغان چلے تھے ارطغرل بننے لیکن منگولوں کے نویان بن گئے۔‘
’ترکی چپ کرکے اپنے ڈرامے چلائے۔ طالبان ڈرامہ نہیں حقیقت میں ارتغرل کا کردار ادا کر رہے ہیں‘
تاہم کچھ افراد کا ماننا ہے کہ ترکی کو سیاست سے دور رہنا چاہیے اور بس اپنے ڈراموں پر توجہ دینی چاہیے۔
شفاعت احمد نے لکھا ’ترکی غیرت کھائے اور اپنے مغربی آقاؤں کو نہ خوش کرے۔ چپ کر کے بس اپنے ڈرامے چلائے۔ طالبان ڈرامہ نہیں بلکہ وہ حقیقت میں ارتغرل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔۔۔۔‘
تاہم کئی افراد صدر اردوغان کو خلافتِ عثمانیہ زندہ کرنے کے حوالے سے طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے مشورے بھی دیتے نظر آئے۔
شفاعت احمد نے لکھا ’ترکی غیرت کھائے اور اپنے مغربی آقاؤں کو نہ خوش کرے۔ چپ کر کے بس اپنے ڈرامے چلائے۔ طالبان ڈرامہ نہیں بلکہ وہ حقیقت میں ارتغرل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔۔۔۔‘
تاہم کئی افراد صدر اردوغان کو خلافتِ عثمانیہ زندہ کرنے کے حوالے سے طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے مشورے بھی دیتے نظر آئے۔
ابو سفوان خان کاکڑ نے لکھا ’ترکی کو چاہئے کہ طالبان کو تسلیم کرتے ہوئے برادرانہ تعلق قائم کرے۔ اردوغان صاحب ہمارے لیے قابل احترام ہیں اگر ان کے ذہن میں خلافت عثمانیہ زندہ کرنے کی تمنا ہے تو دنیائے اسلام میں طالبان ہی اس کے مدد گار و معاون ہوں گے۔‘
سورس
سورس