w-a-n-t-e-d-
Minister (2k+ posts)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان میں صلیبی حواریوں کا کردار۔۔۔۔۔۔۔۔ اےاین پی
عبدالہادی
بشکریہ نوائے افغان جہاد
مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے اندرونی خلفشار اور نااتفاقیوں کی باعث ۲۵ جولائی ١۹۵۷ کو نیشنل عوامی پارٹی (ANP) کی شکل میں اشتراکیوں کا ایک نیا اتحادوجود میں آیا۔ بھاشانی کی سربراہی میں قائم ہونے والے اس اتحاد میں مغربی پاکستان کی بائیں بازو کی جماعتوں کی اکثریت نے شمولیت اختیار کی۔ نیشنل عوامی پارٹی میں ادغام کرنے والی جماعتوں میں پاکستان نیشنل پارٹی (جس میں آزاد پاکستان پارٹی ، سرخ پوش، سندھی و عوامی اور دیگر چھوٹی جماعتیں شامل تھیں) بھی شامل تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی کے نمایاں کرتا دھرتاؤں میں عبدالغفار خان ، عبدالصمد اچکزئی، بھاشانی، شہزادہ عبدالکریم، جی ایم سید شامل تھے۔
اشتراکیت، علاقیت اور دین بیزاری کے اس شتر بے مہار قبیلے کے سرکردہ عبدالغفار خان عرف پاچاخان نے اپنے آپ کو پختونوں کا نجات دہندہ قرار دیتے ہوئے شروع دن سے اس بہادر اور جری قوم کو ایک نئی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی۔ پاچاخان کے مذموم مقاصد میں نمایاں ترین مقصد یہ تھا کہ کسی طرح اس نڈر اور دین اسلام پر مرمٹنے والی قوم کو بزدلی اور دین سے لاتعلقی کا سبق پڑھایا جائے اور دین بیزار اور لامسجد لا الہ کے مکروہ نعرے پر چلنے والی اشترا کی تحریک کی راہ پر چلا دیا جائے ۔ اپنے اسی مکروہ مقصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ۔
ہندستان میں کفار سے مرعوب و مغلوب سرسید احمد نے تہذیبِ مغرب کے شکنجے میں امتِ مسلمہ کو جکڑنے کے لیے علی گڑھ تحریک شروع کی۔ جب کہ باچاخان نے بھی ١۹۲۹ء میں اہل اسلام سے محبت اور مضبوط تعلق کو اپنی زندگی کا جز ولاینفک سمجھنے والے بختونوں کو اسلام کے آفاقی پیغام سے بے زار کرنے اور مدارسِ دینیہ سے دور کرنے کے لیے نام نہاد آزاداسکول کی بنیاد رکھ کر یہ نعرہ لگایا کہ انقلاب کا واحد راستہ عصری تعلیم کا حصول ہے۔
سرحدی گاندھی کے نام سے پہچانا جانے والا باچاخان بظاہر اسٹیبلشمینٹ سے لڑنے کو جزو ایمان خیال کرتا تھا لیکن اندرونِ خانہ حکومتی سیف ہاؤسوں کی راہداریوں میں دکھائی دیتا تھا۔ وہ عوام کے سامنے کشمکش پیہم کو اپنا اعزاز گردانتا تھا حقیقتا غیور پختونوں کو سودے بازی اور سازباز کے انداز و اطور سکھانے میں مگن رہتا تھا۔ اگرچہ وہ بظآہر کفری جمہوریت کا ہی پرچم اٹھائے دِکھتا تھا مگر درپردہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے میل جول بڑھانے اور اس کے عزائم میں رنگ بھرنے لگا رہتا تھا۔ فروری ١۹۷۵ء میں بھٹو نے پی پی پی کے حیات محمد شیر پاؤ کے قتل پر نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کردی۔ پابندی کے بعد نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے نئی جماعت تشکیل دے د گئی۔ ماضی کی طرح یہ بے ذوق سرکس بھی جلد ہی ذاتی مفادات اور اندرونی نا اتفاقیوں کے باعث ختم ہوگئی۔ باچاخان کے بیٹے ولی خان سمیت ۵۲ دیگر افراد پر ملکی بغاوت کا مقدمہ حیدرآباد ٹرپیونل میں چل رہا تھا کہ ضیاءالحق نے مارشل لاء لگا کر اپنی حمایت کو ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ولی خان ایند کمپنی پر عاید تما م مقدمات ختم کردیے اور تمام لوگوں کو حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ دے دیے۔ ١۹۸٦ ء میں ۴ اشتراکیت پسند جماعتوں عوامی تحریک، کسان مزدور اتحاد، ڈیموکریٹک اور پاکستان نیشنل پارٹی نے مل کر ادغام کے بعد عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے نام سے ایک نئی جماعت بنالی۔اے این پی کے کرتا دھرتا باچاخان نے ذاتی مفادات او رہندستان سے اپنے دیرینہ تعلقات کو ہمیشہ ترجیح اوّل میں رکھا۔ اپنی بیماری کے ایام میں بسلسلہ علاج ہندستان کا سفر مارشل لاء ایڈمنسڑیٹر ضیاء الحق کے خصوصی جہاز میں کیا اور اس کی وفات پر راجیوگاندھی خصوصی طور پر پاکستان آیا۔ اپنے آپ کو پختونوں کا حقیقی ترجمان اور ان کے حقوق کی علمبردار کہنے والا شروع قوت سے ہی پاکستان کو سامراج کا ایجنٹ کہ کر دھتکارتا رہا اور بوقت مرگ اس نے افغانستان میں دفن ہونے کی وصیت کی۔
تین دہائیاں قبل ١۹۷۹ء میں سوویت یونین اپنے سرخ درندوں کے ہمراہ افغانستان میں تباہی و بربادی کے لیے آئی تو پختونوں کی خیرخواہ اے این پی کرب و اذیت میں مبتلا افغانی مسلمانوں کے خلاف وقت کے شیطان بزرگ سوویت یونین کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی تھی۔ اے این پی کے کرتا دھرتا دیدے پھاڑنے لگے کہ کب روس کا تسلط ہوتا ہے اور کب سرخ عفریت کا سورج افغانستان میں طلوع ہوتا ہے؟ اے این پی کے بڑوں کی یہ بڑھکیں بھی زمانے بھر نے سنیں کہ ہم اب سرخ ٹینکوں پر بیٹھ کر ہی پاکستان آئیں گے انہی دنوں میں ابن الوقت ولی خان نے کابل کی کٹھ پتلی اشترا کی حکومت کی پناہ میں بیاں داغا کہ دنیا کہ رہی ہے کہ افغانستان میں جنگ ہورہی ہے لیکن یہاں کابل میں تو سوائے امن کے کچھ نہیں ہے۔
کابل کے دین بیزار ، ایما ن فروش حکمرانوں سے اے این پی کا تعلق اس وقت تک جاری رہا، جب تک ان کے زوال کا وقت نہیں آگیا۔ یہاں تک کہ سخت جان مجاہدین اسلام نے سرخ ریچھ اور اس کی کٹھ پتلی حکومت کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کردیا۔
امت مسلمہ کے درد سے آشنا اس کے بہادر اور صف شکن مجاہدین کے ہاتھوں روس کی ذلت آمیز شکست کے بعد اشتراکیت دنیا کے نقشے سے سمیٹتے ہوئے عالمی منظر نامے سے غائب ہوگئی۔ اور ساتھ ہی ساتھ دائیں اور بائیں بازو کی واضح فکری تقسیم اور امتیازات بھی اختتام پذیر ہوئے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد صلیبی امریکہ نے اس کی جگہ لے لی اور دنیا پر صلیب کے تسلط کے لیے امت مسلمہ کے خلاف واضح طور صلیبیی جنگ کا آغآز کیا۔ صلیبی تسلط پرمبنی یک محوری دنیا (uni polar world) میں سبھی صلیبی امریکہ کے در کے غلام بن گئے۔ دنیا کی مختلف قومیں صلیبی غلامی کو اپنی پیشانیوں پر سجانے لگیں، امریکی چاکری میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے لگیں اور شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف مکروہ افعال میں لگ گئیں۔ یہاں تک کہ اشتراکیت کے علم بردار روس اور چین بھی مسلمانوں کے خلاف امریکی ہتھکنڈوں میں شریک ہونے لگے۔
گراوٹ، زوال اور ڈھلوان کا یہ سفر ایک مدت سے جاری ہے اور ملحدانہ اشتراکی نظریات رکھنے والی اے این پی تیزی کے ساتھ پستیوں کی طرف لڑھکتی اپنی منزل مقصود کی طرف گامزن ہے۔ اور یہ سب آناً فاناً نہیں ہوا۔ روس کے خلاف افغان جہاد کے دوران اے این پی کے کرتا دھرتاؤں کو جو افغانستان میں رو پوشی کی زندگی گزار رہے تھے اور کابل کی حکومت کی پناہ میں تھے جب یقین ہوچلا کہ اب مجاہدین کے ہاتھوں اس کے پشتی بانوں کا بھی چل چلاؤ ہے تو انہوں نے افغان جہاد سے متعلق بیانات داغے کہ یہ جنگ امریکی سامراج کی جنگ ہے اور (روسی جارحیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے) مجاہدین امریکی ایجنٹ اور اس کے پھٹو ہیں۔
آج ہی امریکہ دنیائے عالم میں اہل اسلام کے خلاف صلیبی جنگ کا اعلان کرتا ہوا ۴۲ ءدیگر صلیبی ممالک کے ساتھ افغان مسلمانوں کا خون بہانے کے لیے خطہِ جواں مرداں میں موجود ہے تو کل تک امریکہ کو سامراج کہنے والے آج امت ِ مسلمہ کو تہہ تیغ کردینے صلیبی مشن میں اسی صلیبی امریکہ کے ہراول دستے کا کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ جن کی زبانیں انگریز اور امریکی سامراج کے خلاف سینہ سپر رہنے کے دعوے کرتے نہ تھکتی تھیں آج وہی سجدہ ریز ہوئےاسی امریکہ اور اس کے اتحادی انگریزو ں کی خوشنودی کے لیے نئی سے نئی راہیں تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔
بیسویں صدی کے اختتام پر سگ صلیب پرویز مشرف نے جب نام نہاد ریفرینڈم کا اعلام کیا تو اپنے قیام کے اولین دن سے فوج کی مخالفت کے دعوے کرنے والی بائیں بازو کی اس جماعت نے بظاہر غیر جانبداری اور درون خانہ اس کی مکمل حمایت کی۔ ایک بار پھر نام نہاد اصول اور نظریات، زمینی حقیقتوں سامنے ڈھیر ہوگئے۔
شیطان کبیر امریکہ پر گیارہ ستمبر کی مبارک یلغار کے بعد اے این پی کی اسلام بیزاری مزید واضح ہوگئی اور ہمیشہ کی طرح حق و باطل کے اس معرکے میں بھی اس نے شر کی صفوں کا رخ کیا اور باطل کے کیمپوں میں صلیب کے سامنے سجدہ ریزی کے نجس افعال کا تسلسل سے اعادہ کیا۔
لال مسجد کی تحریک شریعت یا شہادت کے موقع پر اور اس کے بعد اللہ کے اس گھر کی بے حرمتی اور حاملین کتاب و سنت کے ساتھ ہونے والے سانحہ عظیم کے موقع پر اے این پی نے کفر کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہوئے سگ امریکہ پرویز کا ساتھ دیا اور پرویزی اقدامات پر تحسین کے ڈنگرے نچھاور کرتے ہوئے کفر سے اپنے دیرینہ تعلقات کودہرایا۔
۳ جولائی ۲۰۰۷ کو فوج کے لال مسجد میں حاملین قرآن و سنت اور اصحابِ صفہ کے ورثا پر آپریشن سائلنس کے بعد جب پوری امت مسلمہ کرب اور اذیت میں مبتلا تھی تو لال مسجد کے سانحے کے موقع پر بھی اے این پی صلیب کا مطلوبہ کردار ادا کرتے ہوئے امت کے زخموں پر نمک پاشی کے عمل نجس میں محو تھی اور فوج کے ان اقدامات پر تحسین کے ڈونگرے پرسا رہی تھی۔
سوات میں دو سال سے جاری فوج گردی کے دوران صلیب کے پجاری فوج کو طالبان مجاہدین کی طرف سے مسلسل ہزیمت کا سامنا رہا۔ مجاہدین کے ہاتھوں اپنی درگت بنتے دیکھ کر فوج نے پینترا بدلہ اور اے این پی کے ذریعے دھوکہ دیتے ہوئے تحریک نفاذ شریعت محمدی ﷺ سے نام نہاد معاہدہ نظام عدل کیا۔ اس معاہدے کے پیچھے مقاصد یہ تھے کہ ایک تو فوج کی شکست خوردگی کے حالات میں کچھ تعطل آجائے گا اور اگر تحریک طالبان نے اس معاہدہ کو تسلیم نہ کیا تو تحریک طالبان اور تحریک نفاذ شریعت محمد ﷺ باہم گتھم گتھا ہوجائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ عوام بھی ان کے خلاف ہو جائیں گے۔ فوج کی ساری منصبہ بندی میں اے این پی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ طالبان مجاہدین نے نظام عدل معاہدہ سے اتفاق نہ رکھتے ہوئے بھی تحریک نفاذ شریعت محمد ﷺ کی مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ نتیجتاً جب فوج کی منصوبی بندی دھری کی دھری رہ گئی تو صلیبی غلام پاکستانی حکومت اور فوج نے تحریک طالبان پر الزام لگا کر ایک بار پھر فوج گردی کا آغاز کردیا۔
صلیبی غلام پاکستانی حکومت کی ظرف سے دھوکہ دہی اور فریب پر مبنی نظام عدل معاہدہ کے بعد سوات اور مالاکنڈ پر ایک بار پھر فوج گردی پر ایک بار پھر اے این پی سرغنہ اسفید یا ر ولی ایک پریس کانفرنس میں فوج کی مکمل طور پر ترجمانی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
ہم سوات آپریشن سے مطمئن ہیں آپریشن کے بارے میں سرحد حکومت کو باخبر رکھا جارہا ہے ۔ مالاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندی کے خاتمے کیلئے فوجی آپریشن مجبوری کے تحت کیا گیا کیونکہ شدت پسندوں نے سوات امن معاہدے کو کامیاب ہونے نہیں دیا اور طاقت کے بل بوتے پر اپنا خود ساختہ ایجنڈا لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔
اسفند ولی مزید کہتا ہے کہ سرحد حکومت نے مالاکنڈ ڈویژن کے عوام کی خواہش پر نظام عدل کے نفاذ کا معاہدہ کیا تھا جس کے جواب میں وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر نظام عدل نافذ کردیا جائے تو امن کی ذمہ داری وہ لیں گے۔ لیکن افسوس شدت پسندوں نے ایسا نہیں کیا اور لاقانونیت کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔
اس نے ایک بار پھر بہروپیے کا روپ دھارتے ہوئے کہا کہ ہم اب بھی ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کے ساتھ نظام عدل کے نفاذ کا وعدہ پورا کرنے کو تیار ہیں کیونکہ ہم عوام کی رائے کو ہمیشہ اولیت دیتے رہے ہیں۔
وزیرستان میں فوج کی حالیہ فوج گردی سے قبل ہی اے این پی اور اس جیسی دیگر جماعتوں کے بیانات آنا شروع ہوگئے کہ سوات کی طرز پر تمام قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن ہونا چاہیے۔ گویا رسی کھنچنے پر غلاموں نے دوبارہ دم ہلانا شروع کردی۔ آپریشن سے تقریباً ایک ماہ قبل پشاور میں اے این پی کے سرغنہ اسفند یار ولی کی صدارت میں منعقد نام نہاد امن جرگے نے وزیرستان سمیت تمام قبائلی علاقوں میں سوات کی طرز پر آپریشن کا مطالبہ کردیا۔ فرنٹیئر ہاوس پشاور میں ہونے والے اس جرگہ کے بعد اسفندولی نے کہا کہ جب تک قبائلی علاقہ جات میں امن قائم نہیں ہوتا اس وقت تک پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔
اسفند ولی نے امریکہ سے واپسی پر نمک کا حق اداد کرتے ہوئے کہا ۔ میں وہاں پختونوں کا مقدمہ لڑنے گیا تھا اور دہشت گردی کی جنگ ہماری اپنی جنگ ہے۔ ابھی تک یہ نہیں بتایا جاسکا کہ امریکہ کے قاضی کے سامنے کون سا مقدمہ پیش کیا گیا؟ کون سی دادرسی چاہی گئی ؟ کیا فیصلہ صادر ہوا؟ امریکہ نے کیا ضمانتیں دیں اور اے این پی کی طرف سے کس کردار کا عہد کیا گیا؟
صلیب کی اس خدمت پر پاکستانی انتظامیہ نے اے این پی کو خصوصی پروٹوکول سے نوازا۔ سگ امریکہ زرداری کے ہمراہ امریکہ میں اپنے خداؤں کی خصوصی سجدہ ریزی کے موقع پر اے این پی کے کرتا دھرتاؤں کو سب سے زیادہ نوازا گیا اور ذلت و پیستی کی ہر تقریب میں اسفند ولی کو زرداری کے ساتھ ساتھ پیش کیا گیا۔ اپنے آقاؤں کے تلوے چاٹنے کے بعد پاکستان پہنچ کر زرداری نے(اپنے خداؤں کی بجا آوری میں) بیان داغا کہ اسفند ولی کو میرے بعد سب سے زیادہ پروٹوکول دیا جائے اور پاکستان میں اس کی حیثیت میرے بعد سب سے معتبر سمجھی جائے۔
موجودہ دور کی اس صلیبی جنگ میں صلیبی قومیں اسلام اور اہل اسلام کو زیر کرنے کے لیے جہاں کھل کر خود سامنے آگئیں ہیں وہاں وہ ہر خطے میں اپنے غلاموں کی قطاریں بنانے میں بھی مصروف ہیں کہ کسی ایک غلام کو تحفظ ملتا رہے۔ (ان شاءاللہ مجاہدین اسلام اللہ کی تائید و نصرت سے دنیائے عالم میں صلیبیوں اور ان کے سجدہ ریزوں کا ہر میدان میں قلع قمع کریں گے اور چہاردانگ عالم میں پرچم اسلام لہرا کر ہی دم لیں گے)۔ صلیبیوں نے اپنے انہیں مذموم مقاصد کے تحت پاکستان میں اپنے غلاموں کی بھرتی کی ہے۔ اور اس صف میں بظاہر ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے والے ایک ہی قطار میں کھڑے رہ کر اپنے آقا کے تلوے چاٹنے پر معمور ہیں۔ چند ٹکڑوں کی خاطر ضمیرو ایمان بیچنے والے اس گروہ میں ایم کیو ایم اور اے این پی بھی اکھٹی کھڑی ہیں جبکہ یہ جماعتیں اپنے قیام کے آغاز ہی سے ایک دوسرے کی مدمقابل اور باہم متصادم ہیں۔ اپنے آقاؤں کے قدموں میں گرنا ان کے لیے زندگی کا سب سے بڑا کرام ٹھہرا ہے اور انسانی لباس میں صلیبی لشکر کے ان درندوں کے خونی پنجوں پہ بو سے دینا انہوں نے اپنے لیے سب سے بڑی سعادت قرار دیا ہے۔ بئسما الشترو بہ انفسھم
پستی اور گراوٹ کے سفر پر گامزن یہ دونوں جماعتیں اپنے سارے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہیں۔ پرویزی ریفنڈم سے لے کر قرآنی احکامات میں تحریف کے نام نہاد حقوق نسواں بل کی منظوری تک لال مسجد کے عظیم سانحہ سے لے کر سوات میں فوج گردی تک غیرت مند قبائل میں فوج کے آپریشن سے لے کر جہاد افغانستان اور پوری دنیا میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ تک کے سفر ارتداد میں اے این پی اور ایم کیو ایم لشکر کفار کے ساتھ کھڑی ہیں ابھی حال میں جب صلیب آقاؤں نے ان جماعتوں سے ارتداد سے بھی آگے قدم اٹھانے کو کہتے ہوئے ڈومور کہا تو اے این پی کی طرف سے یہ آواز بلند کی گئی کہ پاکستان کا نام اسلامی کے بجائے (عوامی جمہوریہ پاکستان) ہونا چاہیے اور کفر و ارتداد کے سفر میں اس کی ہمراہی ایم کیو ایم نے فوراً اس کی تائید میں بیانات داغنے شروع کردیے۔
جس طرح سرخ سویرے کے پجاریوں کو ماضی قریب میں ذلت و شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اللہ تعالی کے فضل وکرم سے مستقبل قریب میں بھی کفر و الحاد کے ان پیرکاروں اسی طرح اپنے زخم چاٹنے ہوں گے فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں شیطان لعین نے ان کے لیے امریکہ کی صورت میں ایک نیا الہٰ تخلیق کرتے ہوئے انہیں اس کی بندگی و عبادت کی طرف راغب کردیا تھا لیکن اب کے یہ صنم اکبر بھی مجاہدین کی ضربوں سے نڈھال و بے حال ہے اور اس کے موت کے ساتھ ہی اس کے کاسہ لیسوں کابوریا بستر بھی ہمیشہ کے لیے گول ہو جائے گا ۔
ان شاءاللہ
اشتراکیت، علاقیت اور دین بیزاری کے اس شتر بے مہار قبیلے کے سرکردہ عبدالغفار خان عرف پاچاخان نے اپنے آپ کو پختونوں کا نجات دہندہ قرار دیتے ہوئے شروع دن سے اس بہادر اور جری قوم کو ایک نئی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی۔ پاچاخان کے مذموم مقاصد میں نمایاں ترین مقصد یہ تھا کہ کسی طرح اس نڈر اور دین اسلام پر مرمٹنے والی قوم کو بزدلی اور دین سے لاتعلقی کا سبق پڑھایا جائے اور دین بیزار اور لامسجد لا الہ کے مکروہ نعرے پر چلنے والی اشترا کی تحریک کی راہ پر چلا دیا جائے ۔ اپنے اسی مکروہ مقصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ۔
ہندستان میں کفار سے مرعوب و مغلوب سرسید احمد نے تہذیبِ مغرب کے شکنجے میں امتِ مسلمہ کو جکڑنے کے لیے علی گڑھ تحریک شروع کی۔ جب کہ باچاخان نے بھی ١۹۲۹ء میں اہل اسلام سے محبت اور مضبوط تعلق کو اپنی زندگی کا جز ولاینفک سمجھنے والے بختونوں کو اسلام کے آفاقی پیغام سے بے زار کرنے اور مدارسِ دینیہ سے دور کرنے کے لیے نام نہاد آزاداسکول کی بنیاد رکھ کر یہ نعرہ لگایا کہ انقلاب کا واحد راستہ عصری تعلیم کا حصول ہے۔
سرحدی گاندھی کے نام سے پہچانا جانے والا باچاخان بظاہر اسٹیبلشمینٹ سے لڑنے کو جزو ایمان خیال کرتا تھا لیکن اندرونِ خانہ حکومتی سیف ہاؤسوں کی راہداریوں میں دکھائی دیتا تھا۔ وہ عوام کے سامنے کشمکش پیہم کو اپنا اعزاز گردانتا تھا حقیقتا غیور پختونوں کو سودے بازی اور سازباز کے انداز و اطور سکھانے میں مگن رہتا تھا۔ اگرچہ وہ بظآہر کفری جمہوریت کا ہی پرچم اٹھائے دِکھتا تھا مگر درپردہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سے میل جول بڑھانے اور اس کے عزائم میں رنگ بھرنے لگا رہتا تھا۔ فروری ١۹۷۵ء میں بھٹو نے پی پی پی کے حیات محمد شیر پاؤ کے قتل پر نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کردی۔ پابندی کے بعد نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے نئی جماعت تشکیل دے د گئی۔ ماضی کی طرح یہ بے ذوق سرکس بھی جلد ہی ذاتی مفادات اور اندرونی نا اتفاقیوں کے باعث ختم ہوگئی۔ باچاخان کے بیٹے ولی خان سمیت ۵۲ دیگر افراد پر ملکی بغاوت کا مقدمہ حیدرآباد ٹرپیونل میں چل رہا تھا کہ ضیاءالحق نے مارشل لاء لگا کر اپنی حمایت کو ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ولی خان ایند کمپنی پر عاید تما م مقدمات ختم کردیے اور تمام لوگوں کو حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ دے دیے۔ ١۹۸٦ ء میں ۴ اشتراکیت پسند جماعتوں عوامی تحریک، کسان مزدور اتحاد، ڈیموکریٹک اور پاکستان نیشنل پارٹی نے مل کر ادغام کے بعد عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے نام سے ایک نئی جماعت بنالی۔اے این پی کے کرتا دھرتا باچاخان نے ذاتی مفادات او رہندستان سے اپنے دیرینہ تعلقات کو ہمیشہ ترجیح اوّل میں رکھا۔ اپنی بیماری کے ایام میں بسلسلہ علاج ہندستان کا سفر مارشل لاء ایڈمنسڑیٹر ضیاء الحق کے خصوصی جہاز میں کیا اور اس کی وفات پر راجیوگاندھی خصوصی طور پر پاکستان آیا۔ اپنے آپ کو پختونوں کا حقیقی ترجمان اور ان کے حقوق کی علمبردار کہنے والا شروع قوت سے ہی پاکستان کو سامراج کا ایجنٹ کہ کر دھتکارتا رہا اور بوقت مرگ اس نے افغانستان میں دفن ہونے کی وصیت کی۔
تین دہائیاں قبل ١۹۷۹ء میں سوویت یونین اپنے سرخ درندوں کے ہمراہ افغانستان میں تباہی و بربادی کے لیے آئی تو پختونوں کی خیرخواہ اے این پی کرب و اذیت میں مبتلا افغانی مسلمانوں کے خلاف وقت کے شیطان بزرگ سوویت یونین کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی تھی۔ اے این پی کے کرتا دھرتا دیدے پھاڑنے لگے کہ کب روس کا تسلط ہوتا ہے اور کب سرخ عفریت کا سورج افغانستان میں طلوع ہوتا ہے؟ اے این پی کے بڑوں کی یہ بڑھکیں بھی زمانے بھر نے سنیں کہ ہم اب سرخ ٹینکوں پر بیٹھ کر ہی پاکستان آئیں گے انہی دنوں میں ابن الوقت ولی خان نے کابل کی کٹھ پتلی اشترا کی حکومت کی پناہ میں بیاں داغا کہ دنیا کہ رہی ہے کہ افغانستان میں جنگ ہورہی ہے لیکن یہاں کابل میں تو سوائے امن کے کچھ نہیں ہے۔
کابل کے دین بیزار ، ایما ن فروش حکمرانوں سے اے این پی کا تعلق اس وقت تک جاری رہا، جب تک ان کے زوال کا وقت نہیں آگیا۔ یہاں تک کہ سخت جان مجاہدین اسلام نے سرخ ریچھ اور اس کی کٹھ پتلی حکومت کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کردیا۔
امت مسلمہ کے درد سے آشنا اس کے بہادر اور صف شکن مجاہدین کے ہاتھوں روس کی ذلت آمیز شکست کے بعد اشتراکیت دنیا کے نقشے سے سمیٹتے ہوئے عالمی منظر نامے سے غائب ہوگئی۔ اور ساتھ ہی ساتھ دائیں اور بائیں بازو کی واضح فکری تقسیم اور امتیازات بھی اختتام پذیر ہوئے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد صلیبی امریکہ نے اس کی جگہ لے لی اور دنیا پر صلیب کے تسلط کے لیے امت مسلمہ کے خلاف واضح طور صلیبیی جنگ کا آغآز کیا۔ صلیبی تسلط پرمبنی یک محوری دنیا (uni polar world) میں سبھی صلیبی امریکہ کے در کے غلام بن گئے۔ دنیا کی مختلف قومیں صلیبی غلامی کو اپنی پیشانیوں پر سجانے لگیں، امریکی چاکری میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے لگیں اور شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف مکروہ افعال میں لگ گئیں۔ یہاں تک کہ اشتراکیت کے علم بردار روس اور چین بھی مسلمانوں کے خلاف امریکی ہتھکنڈوں میں شریک ہونے لگے۔
صلیب اداروں کے ساتھ ساتھ مسلماں ممالک کے حکمرانوں کو بھی ایمان سے ارتداد کی طرف دھکیلتے ہوئے صہیونی فسادی اتحاد کا حصہ بلکہ فرنٹ لائن اتحادی بنا دیا ۔ ایمانی پستی اور بے حمیتی کے اس سفر میں دیگر مسلمان ممالک کی طرح پاکستان نے بھی اپنی ترجیحات کا تعین صلیبی سرغنہ امریکہ کے زیر ہوکر کیا اور یہاں بھی دائیں، بائیں کی تفریق مٹ گئی اور سبھی اسی صنم خانے کے پجاری کے مصداق امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوگئے۔ پاکستانی حکومت، فوج اور اداروں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کی اکثریت امریکی غلامی کا ناپاک لباس زیب تن کر چکی ہے۔ پاکستان میں صلیبیوں کے لیے راہیں ہموار کرنے والوں میں اے این پی نے شروع دن سے ہی کلیدی کردار ادا کیا اور ہر موقع پر یہ ثابت کیا کہ ننگ ملت ضمیر فروشوں کا یہ گروہ ہمیشہ ہی سے اسلام اور اہل اسلام کے مخالفت وزن ڈالنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔
گراوٹ، زوال اور ڈھلوان کا یہ سفر ایک مدت سے جاری ہے اور ملحدانہ اشتراکی نظریات رکھنے والی اے این پی تیزی کے ساتھ پستیوں کی طرف لڑھکتی اپنی منزل مقصود کی طرف گامزن ہے۔ اور یہ سب آناً فاناً نہیں ہوا۔ روس کے خلاف افغان جہاد کے دوران اے این پی کے کرتا دھرتاؤں کو جو افغانستان میں رو پوشی کی زندگی گزار رہے تھے اور کابل کی حکومت کی پناہ میں تھے جب یقین ہوچلا کہ اب مجاہدین کے ہاتھوں اس کے پشتی بانوں کا بھی چل چلاؤ ہے تو انہوں نے افغان جہاد سے متعلق بیانات داغے کہ یہ جنگ امریکی سامراج کی جنگ ہے اور (روسی جارحیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے) مجاہدین امریکی ایجنٹ اور اس کے پھٹو ہیں۔
آج ہی امریکہ دنیائے عالم میں اہل اسلام کے خلاف صلیبی جنگ کا اعلان کرتا ہوا ۴۲ ءدیگر صلیبی ممالک کے ساتھ افغان مسلمانوں کا خون بہانے کے لیے خطہِ جواں مرداں میں موجود ہے تو کل تک امریکہ کو سامراج کہنے والے آج امت ِ مسلمہ کو تہہ تیغ کردینے صلیبی مشن میں اسی صلیبی امریکہ کے ہراول دستے کا کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ جن کی زبانیں انگریز اور امریکی سامراج کے خلاف سینہ سپر رہنے کے دعوے کرتے نہ تھکتی تھیں آج وہی سجدہ ریز ہوئےاسی امریکہ اور اس کے اتحادی انگریزو ں کی خوشنودی کے لیے نئی سے نئی راہیں تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔
بیسویں صدی کے اختتام پر سگ صلیب پرویز مشرف نے جب نام نہاد ریفرینڈم کا اعلام کیا تو اپنے قیام کے اولین دن سے فوج کی مخالفت کے دعوے کرنے والی بائیں بازو کی اس جماعت نے بظاہر غیر جانبداری اور درون خانہ اس کی مکمل حمایت کی۔ ایک بار پھر نام نہاد اصول اور نظریات، زمینی حقیقتوں سامنے ڈھیر ہوگئے۔
شیطان کبیر امریکہ پر گیارہ ستمبر کی مبارک یلغار کے بعد اے این پی کی اسلام بیزاری مزید واضح ہوگئی اور ہمیشہ کی طرح حق و باطل کے اس معرکے میں بھی اس نے شر کی صفوں کا رخ کیا اور باطل کے کیمپوں میں صلیب کے سامنے سجدہ ریزی کے نجس افعال کا تسلسل سے اعادہ کیا۔
لال مسجد کی تحریک شریعت یا شہادت کے موقع پر اور اس کے بعد اللہ کے اس گھر کی بے حرمتی اور حاملین کتاب و سنت کے ساتھ ہونے والے سانحہ عظیم کے موقع پر اے این پی نے کفر کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہوئے سگ امریکہ پرویز کا ساتھ دیا اور پرویزی اقدامات پر تحسین کے ڈنگرے نچھاور کرتے ہوئے کفر سے اپنے دیرینہ تعلقات کودہرایا۔
۳ جولائی ۲۰۰۷ کو فوج کے لال مسجد میں حاملین قرآن و سنت اور اصحابِ صفہ کے ورثا پر آپریشن سائلنس کے بعد جب پوری امت مسلمہ کرب اور اذیت میں مبتلا تھی تو لال مسجد کے سانحے کے موقع پر بھی اے این پی صلیب کا مطلوبہ کردار ادا کرتے ہوئے امت کے زخموں پر نمک پاشی کے عمل نجس میں محو تھی اور فوج کے ان اقدامات پر تحسین کے ڈونگرے پرسا رہی تھی۔
سوات میں دو سال سے جاری فوج گردی کے دوران صلیب کے پجاری فوج کو طالبان مجاہدین کی طرف سے مسلسل ہزیمت کا سامنا رہا۔ مجاہدین کے ہاتھوں اپنی درگت بنتے دیکھ کر فوج نے پینترا بدلہ اور اے این پی کے ذریعے دھوکہ دیتے ہوئے تحریک نفاذ شریعت محمدی ﷺ سے نام نہاد معاہدہ نظام عدل کیا۔ اس معاہدے کے پیچھے مقاصد یہ تھے کہ ایک تو فوج کی شکست خوردگی کے حالات میں کچھ تعطل آجائے گا اور اگر تحریک طالبان نے اس معاہدہ کو تسلیم نہ کیا تو تحریک طالبان اور تحریک نفاذ شریعت محمد ﷺ باہم گتھم گتھا ہوجائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ عوام بھی ان کے خلاف ہو جائیں گے۔ فوج کی ساری منصبہ بندی میں اے این پی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ طالبان مجاہدین نے نظام عدل معاہدہ سے اتفاق نہ رکھتے ہوئے بھی تحریک نفاذ شریعت محمد ﷺ کی مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ نتیجتاً جب فوج کی منصوبی بندی دھری کی دھری رہ گئی تو صلیبی غلام پاکستانی حکومت اور فوج نے تحریک طالبان پر الزام لگا کر ایک بار پھر فوج گردی کا آغاز کردیا۔
صلیبی غلام پاکستانی حکومت کی ظرف سے دھوکہ دہی اور فریب پر مبنی نظام عدل معاہدہ کے بعد سوات اور مالاکنڈ پر ایک بار پھر فوج گردی پر ایک بار پھر اے این پی سرغنہ اسفید یا ر ولی ایک پریس کانفرنس میں فوج کی مکمل طور پر ترجمانی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
ہم سوات آپریشن سے مطمئن ہیں آپریشن کے بارے میں سرحد حکومت کو باخبر رکھا جارہا ہے ۔ مالاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندی کے خاتمے کیلئے فوجی آپریشن مجبوری کے تحت کیا گیا کیونکہ شدت پسندوں نے سوات امن معاہدے کو کامیاب ہونے نہیں دیا اور طاقت کے بل بوتے پر اپنا خود ساختہ ایجنڈا لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔
اسفند ولی مزید کہتا ہے کہ سرحد حکومت نے مالاکنڈ ڈویژن کے عوام کی خواہش پر نظام عدل کے نفاذ کا معاہدہ کیا تھا جس کے جواب میں وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر نظام عدل نافذ کردیا جائے تو امن کی ذمہ داری وہ لیں گے۔ لیکن افسوس شدت پسندوں نے ایسا نہیں کیا اور لاقانونیت کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔
اس نے ایک بار پھر بہروپیے کا روپ دھارتے ہوئے کہا کہ ہم اب بھی ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کے ساتھ نظام عدل کے نفاذ کا وعدہ پورا کرنے کو تیار ہیں کیونکہ ہم عوام کی رائے کو ہمیشہ اولیت دیتے رہے ہیں۔
وزیرستان میں فوج کی حالیہ فوج گردی سے قبل ہی اے این پی اور اس جیسی دیگر جماعتوں کے بیانات آنا شروع ہوگئے کہ سوات کی طرز پر تمام قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن ہونا چاہیے۔ گویا رسی کھنچنے پر غلاموں نے دوبارہ دم ہلانا شروع کردی۔ آپریشن سے تقریباً ایک ماہ قبل پشاور میں اے این پی کے سرغنہ اسفند یار ولی کی صدارت میں منعقد نام نہاد امن جرگے نے وزیرستان سمیت تمام قبائلی علاقوں میں سوات کی طرز پر آپریشن کا مطالبہ کردیا۔ فرنٹیئر ہاوس پشاور میں ہونے والے اس جرگہ کے بعد اسفندولی نے کہا کہ جب تک قبائلی علاقہ جات میں امن قائم نہیں ہوتا اس وقت تک پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔
اسفند ولی نے امریکہ سے واپسی پر نمک کا حق اداد کرتے ہوئے کہا ۔ میں وہاں پختونوں کا مقدمہ لڑنے گیا تھا اور دہشت گردی کی جنگ ہماری اپنی جنگ ہے۔ ابھی تک یہ نہیں بتایا جاسکا کہ امریکہ کے قاضی کے سامنے کون سا مقدمہ پیش کیا گیا؟ کون سی دادرسی چاہی گئی ؟ کیا فیصلہ صادر ہوا؟ امریکہ نے کیا ضمانتیں دیں اور اے این پی کی طرف سے کس کردار کا عہد کیا گیا؟
صلیب کی اس خدمت پر پاکستانی انتظامیہ نے اے این پی کو خصوصی پروٹوکول سے نوازا۔ سگ امریکہ زرداری کے ہمراہ امریکہ میں اپنے خداؤں کی خصوصی سجدہ ریزی کے موقع پر اے این پی کے کرتا دھرتاؤں کو سب سے زیادہ نوازا گیا اور ذلت و پیستی کی ہر تقریب میں اسفند ولی کو زرداری کے ساتھ ساتھ پیش کیا گیا۔ اپنے آقاؤں کے تلوے چاٹنے کے بعد پاکستان پہنچ کر زرداری نے(اپنے خداؤں کی بجا آوری میں) بیان داغا کہ اسفند ولی کو میرے بعد سب سے زیادہ پروٹوکول دیا جائے اور پاکستان میں اس کی حیثیت میرے بعد سب سے معتبر سمجھی جائے۔
موجودہ دور کی اس صلیبی جنگ میں صلیبی قومیں اسلام اور اہل اسلام کو زیر کرنے کے لیے جہاں کھل کر خود سامنے آگئیں ہیں وہاں وہ ہر خطے میں اپنے غلاموں کی قطاریں بنانے میں بھی مصروف ہیں کہ کسی ایک غلام کو تحفظ ملتا رہے۔ (ان شاءاللہ مجاہدین اسلام اللہ کی تائید و نصرت سے دنیائے عالم میں صلیبیوں اور ان کے سجدہ ریزوں کا ہر میدان میں قلع قمع کریں گے اور چہاردانگ عالم میں پرچم اسلام لہرا کر ہی دم لیں گے)۔ صلیبیوں نے اپنے انہیں مذموم مقاصد کے تحت پاکستان میں اپنے غلاموں کی بھرتی کی ہے۔ اور اس صف میں بظاہر ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے والے ایک ہی قطار میں کھڑے رہ کر اپنے آقا کے تلوے چاٹنے پر معمور ہیں۔ چند ٹکڑوں کی خاطر ضمیرو ایمان بیچنے والے اس گروہ میں ایم کیو ایم اور اے این پی بھی اکھٹی کھڑی ہیں جبکہ یہ جماعتیں اپنے قیام کے آغاز ہی سے ایک دوسرے کی مدمقابل اور باہم متصادم ہیں۔ اپنے آقاؤں کے قدموں میں گرنا ان کے لیے زندگی کا سب سے بڑا کرام ٹھہرا ہے اور انسانی لباس میں صلیبی لشکر کے ان درندوں کے خونی پنجوں پہ بو سے دینا انہوں نے اپنے لیے سب سے بڑی سعادت قرار دیا ہے۔ بئسما الشترو بہ انفسھم
پستی اور گراوٹ کے سفر پر گامزن یہ دونوں جماعتیں اپنے سارے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہیں۔ پرویزی ریفنڈم سے لے کر قرآنی احکامات میں تحریف کے نام نہاد حقوق نسواں بل کی منظوری تک لال مسجد کے عظیم سانحہ سے لے کر سوات میں فوج گردی تک غیرت مند قبائل میں فوج کے آپریشن سے لے کر جہاد افغانستان اور پوری دنیا میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ تک کے سفر ارتداد میں اے این پی اور ایم کیو ایم لشکر کفار کے ساتھ کھڑی ہیں ابھی حال میں جب صلیب آقاؤں نے ان جماعتوں سے ارتداد سے بھی آگے قدم اٹھانے کو کہتے ہوئے ڈومور کہا تو اے این پی کی طرف سے یہ آواز بلند کی گئی کہ پاکستان کا نام اسلامی کے بجائے (عوامی جمہوریہ پاکستان) ہونا چاہیے اور کفر و ارتداد کے سفر میں اس کی ہمراہی ایم کیو ایم نے فوراً اس کی تائید میں بیانات داغنے شروع کردیے۔
جس طرح سرخ سویرے کے پجاریوں کو ماضی قریب میں ذلت و شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اللہ تعالی کے فضل وکرم سے مستقبل قریب میں بھی کفر و الحاد کے ان پیرکاروں اسی طرح اپنے زخم چاٹنے ہوں گے فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں شیطان لعین نے ان کے لیے امریکہ کی صورت میں ایک نیا الہٰ تخلیق کرتے ہوئے انہیں اس کی بندگی و عبادت کی طرف راغب کردیا تھا لیکن اب کے یہ صنم اکبر بھی مجاہدین کی ضربوں سے نڈھال و بے حال ہے اور اس کے موت کے ساتھ ہی اس کے کاسہ لیسوں کابوریا بستر بھی ہمیشہ کے لیے گول ہو جائے گا ۔
ان شاءاللہ