
تحریک انصاف کے حقیقی آزادی مارچ کی کوریج کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے کنٹینر تلے آکر جاں بحق ہونے والی خاتون صحافی صدف نعیم کی موت تو ہو گئی مگر پیچھے کئی سوال کھڑے ہو گئے، آیا ان کی موت دھکا دینے سے ہوئی؟ پاؤں پھسلا؟ یا یہ محض حادثہ تھا؟
سوشل میڈیا پر تو جیسے قیاس آرائیوں کی بہار آ گئی، ہر کوئی اپنی ہی کہی بات کو حقیقت کا رنگ دینے کے درپے ہے، کوئی صدف کی وفات کو حادثاتی موت قرار دے رہا ہے تو کہیں پی ٹی آئی کی مخالف سیاسی جماعتیں اسے کوئی اور ہی رنگ دے رہی ہیں۔
صدف نعیم بھٹی کی موت پر یہ بھی کہا گیا کہ کنٹینر ڈرائیور کی ڈرائیونگ بے ترتیب تھی جس کے باعث حادثہ پیش آیا اور پی ٹی آئی کا قافلہ انہیں روندتا ہوا آگے چلا گیا۔ بعض جگہ یہ افواہ بھی سامنے آئی کہ صحافیوں کے دھکم پیل کے باعث صدف نعیم کنٹینر کے نیچے جا گریں۔
سوشل میڈیا پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ عمران خان کے سیکیورٹی گارڈ نے صدف نعیم کو دھکا دیا جس کے باعث وہ کنٹینر کے نیچے آکر کچلی گئیں، اور اس کے بعد بھی سیکیورٹی گارڈز نے ویڈیو بنانے والے افراد پر تشدد کیا اور کنٹینر روکنے سے بھی انکار کیا۔
حکومت کی جانب سے بھی اس حادثے کو شک کی نظر سے دیکھا گیا،وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ صحافی صدف نعیم کی موت کی تحقیقات کرائی جائیں۔ موقع پر موجود صحافیوں کے انکشافات کے بعد معاملہ مشکوک ہو گیا ہے۔
تاہم صدف کے شوہر نعیم بھٹی نے قیاس آرائیوں اور الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان کی موت کو حادثہ قرار دیا ہے۔ کامونکی کے تھانہ صدر میں دائر درخواست میں بھی نعیم بھٹی نے لاش کا پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کیا ہے۔
مگر یہ سب جانتے ہیں کہ حقیقت وہی ہو گی جو موقع پر موجود افراد نے بطور عینی شاہد دیکھا ہوگا۔ اس حوالے سے نجی چینل کے نمائندے میاں شعیب کا کہنا ہے کہ رپورٹرز کو مرحلہ وار کنیٹنر پر بلایا جاتا تھا اور انہیں عمران خان اور دیگر رہنماؤں سے انٹرویوز کرنے کا موقع دیا جاتا۔
لانگ مارچ کے پہلے دن صدف نعیم نے کنیٹرز پر انٹرویوز کیے اور تیسرے روز پھر اسی تگ و دو میں تھیں کہ کسی طرح کنٹینر پر چڑھنے میں کامیاب ہو جائیں۔ سادھوکی کے قریب صدف نعیم مسلسل کنٹینر کے ساتھ بھاگتی رہی، اس دوران سیکورٹی گارڈز بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
میاں شعیب نے بتایا کہ وہ بھی اپنی باری کے وقت کنیٹنر کے ساتھ ساتھ چلتے تھے، اس دوران کنیٹنر اور سڑک کے درمیان موجود ڈیوائیڈر میں زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا اور ان کا پاوں ٹائر کے ساتھ بھی لگ جاتا اور وہ ایک بار زخمی بھی ہوئے۔
میاں شعیب نے صدف کے شوہر کے بیان کہ وہ ڈیوائیڈر کے اوپر تھیں اور گر پڑیں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صدف نعیم کا ڈیوائیڈر پر چڑھنا ناممکن تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود ایک دراز قد شخص ہیں اور ان کے لیے بھی ڈیوائیڈر پر چڑھنا ممکن نہیں اور دوسرا اس پر اتنی جگہ نہیں کہ کوئی شخص چل سکے۔
میاں شعیب کا کہنا ہے کہ حادثے کے وقت چیئرمین تحریک انصاف عمران خان ایک نجی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے کہ اچانک کنیٹنر رک گیا، اس وقت کنٹینر سے نیچے کوئی زیادہ دھکم پیل والا بھی ماحول نہیں تھا، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا ہوا؟ جس پر انہیں حادثے بارے آگاہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ صدف نعیم کی موت اس وقت ہوئی جب وہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی کوریج کر رہی تھیں۔ اتوار اور پیر کی درمیانی شب کی ان کی نماز جنازہ لاہور کے علاقے اچھرہ میں ادا کی گئی اور انہیں میانی صاحب قبرستان سپرد خاک کیا گیا ۔ انہوں نے پسماندگان میں ایک بیٹے اور بیٹی کو چھوڑا ہے۔