ڈاکٹر شکیل آفریدی کی سزا پر امریکیوں نے وہی شدت، وہی کسک محسوس کی جو کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹر غلام نبی فائی کی گرفتاری پر اسلام آباد میں محسوس کی گئی تھی۔ گوکہ دونوں کا کوئی موازنہ نہیں، لیکن دونوں کی گرفتاری پاکستان اور امریکا کے درمیان بڑھتے ہوئے تضادات اور بدلتے ہوئے تصورات کی داستان سنارہی ہے۔ امریکا نے اسے اسامہ بن لادن کے قتل کا ایک سال مکمل ہونے پر پاکستان کا مذاق اور جواب جانا۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو اور شکیل آفریدی کی سزا کا تعلق ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کی تکمیل سے ہو، اسامہ بن لادن کے خاندان سے ہونے والی تحقیقات سے ہو، یا تاخیر کا سبب کسی جلد بازی اور عجلت کے الزام سے بچنا ہو، تحقیق و تفتیش کے کسی پہلو کے تشنہ نہ رہنے سے ہو، امریکا کے ممکنہ جوابی ردعمل کے خوف سے ہو… لیکن دونوں ملکوں میں شکوک کے سائے اس قدر دراز اور گہرے ہوچکے ہیں کہ امریکا نے اسے ایبٹ آباد کمیشن کے بجائے ایبٹ آباد آپریشن کے ایک سال کی ٹائمنگ سے جوڑ دیا، اور اس فیصلے کے ردعمل میں کسی ضدی بچے کی طرح اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی راہ اپنائی۔ پاکستانی عدالت نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو 33 برس قید کی سزا سنائی تو امریکا نے اس سزا کے ہر سال کے بدلے ایک ملین ڈالر کی امداد کاٹتے ہوئے 33 ملین ڈالر کم کردی۔ پاکستان کی امداد میں کٹوتی کی تجویز پیش کرنے والے امریکی سینیٹر نے پاکستان کو شیزو فرینک اتحادی قرار دیا، یعنی دوغلا، پاگل، پراگندہ خیال، دھوکے باز اتحادی… جس کی دوستی کا کوئی اعتبار نہ دشمنی کا کچھ پتا۔ جبکہ اس کے ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا کہ اس سب کے باوجود امریکا کو پاکستان کی اور پاکستان کو امریکا کی ضرورت ہے۔ یہ ’’خوبصورت‘‘ القابات شاید ابھی زیادہ اثرات مرتب نہ کریں، لیکن یہ آنے والے دنوں کی ذہن سازی کررہے ہیں۔ اس کے اثرات اگلے چند برس میں ظاہر ہونے لگیں گے۔ یہ گالیوں پر مبنی تاریخ رقم ہورہی ہے اور تاریخ لمحۂ موجود کے لئے نہیں، آنے والے زمانوں اور آنے والی نسلوں کے لئے رقم کی جاتی ہے، اس کے اثرات کی فصل بھی آنے والی نسلیں کاٹتی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن تک نے اس فیصلے پر تبصرے سے گریز نہیں کیا۔ حالانکہ عدالتیں صرف وہی نہیں ہوتیں جو عافیہ صدیقی کو سزا سنائیں، اور وہ بھی نہیں ہوتیں جو ڈاکٹر غلام نبی فائی کو جیل میں ٹھونس دیں۔ کسی غریب اور انتشار زدہ ملک میں بھی عدالت ہوسکتی ہے۔ وہ بھی اپنے کسی شہری کو کسی جرم میں سزا سناسکتی ہے، چاہے وہ شخص کسی دوسرے ملک کا کتنا ہی چہیتا، کتنا ہی محبوب اور کتنا ہی قیمتی اثاثہ کیوں نہ ہو… لیکن اگر وہ اپنے ملک کے شہری کے طور پر کوئی جرم کرے گا تو کسی دوسری سوسائٹی کا ہیرو ہونے کے باوجود بہرحال اپنی عدالت کے سامنے اس کی حیثیت ایک مجرم کی سی ہوگی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ڈاکٹر فائی دونوں اسی اصول کی زد میں آچکے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک عورت ہونے اور مظلومیت کی تصویر بننے کے ناتے پاکستان کی عورتوں اور بے شمار لوگوں میں آج بھی مقبول ہیں۔ ڈاکٹر غلام نبی فائی پاکستان کے لئے ریاستی سطح پر ایک گراں مایہ اثاثہ ہیں۔ وہ امریکی شہری بھی تھے اور امریکی عدالت نے دونوں کو امریکی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار د ے کر سزائوں کا مستحق گردانا۔ اب امریکا ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اپنا ہیرو قرار دے کر گہرے تضاد کا مظاہرہ کررہا ہے۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی نوعیت اس قدر بگڑ چکی ہے کہ ایک ملک کا ہیرو دوسرے ملک کا غدار اور مجرم قرار پاتا ہے، اور ایک ملک کا مجرم دوسرے ملک کا ہیرو بن رہا ہے۔ اس بھیانک تضاد میں دوستی کہاںہے؟ شراکت داری اور ساجھے داری کہاں ہے؟ یہ وہ کیفیت ہے جس میں پاکستان اور بھارت 64 برس سے مبتلا ہیں۔ اس کیفت کا شکار سرد جنگ کے زمانے میں امریکا اور سوویت یونین کے تعلقات رہے ہیں، جب ماسکو میں لوگ امریکی ایجنٹ ہونے کے الزام میں دھر لئے جاتے تو واشنگٹن میں صفِ ماتم بچھ جاتی، اور جب واشنگٹن میں کوئی شخص سوویت مفادات کے تحفظ کے الزام میں پکڑا جاتا تو ماسکو کی چیخ و پکار دیدنی ہوتی تھی۔ یہ کیفیت قوموں اور ملکوں میں تعلقات کی پیچیدگی اور خرابی کی علامت ہوتی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات اب اسی راہ پر چل پڑے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں، دونوں ایک دوسرے کو مشکوک سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے سے خوف کھانے لگے ہیں۔ دونوں کے دوستی اور دشمنی کے پیمانے یکسر تبدیل ہورہے ہیں۔ دونوں اپنے دکھوں، عارضوں اور مصائب کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دے رہے ہیں۔ ایک کا محبوب دوسرے کے ہاں معتوب قرار پاتا ہے۔ یہ محمد بن قاسم اور راجہ داہر والا معاملہ ہے۔ محمد بن قاسم پاکستان کی تاریخ کی کتابوں کا ہیرو اور راجہ داہر ایک ظالم ہندو راجہ… جبکہ ہندوستان کی تاریخ کی کتابوں میں دونوں کردار الٹ ہیں۔ یہ پرتھوی راج چوہان اور شہاب الدین غوری کا، سومنات اور غزنوی کا معاملہ ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ڈاکٹر فائی تک، اور حسین حقانی سے ڈاکٹر شکیل تک پاک امریکا تعلقات کی تاریخ انہی خوفناک تضادات کی روشنائی سے رقم ہورہی ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے بارے میں عجیب مخمصے کا سامنا ہے۔ امریکا پاکستان کو دوغلا اور پراگندہ خیال اتحادی تصور کرتا ہے، تو پاکستان امریکا کو اس سے چنداں مختلف نہیں سمجھتا۔ امریکا کا خیال ہے کہ پاکستان اچھے اور برے طالبان کی بے مقصد بحث میں الجھا ہوا ہے، جبکہ دوسرے ہی لمحے امریکا خود بھی اچھے اور برے طالبان کے رویّے کا عملی مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ طالبان جو امریکی فورسز پر حملے کرتے ہیں، برے… اور جو پاکستانی فورسز پر حملے کریں، اچھے ہیں۔
ان حالات کی سنگینی اور شدت کو محض غلط فہمی کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
دوطرفہ رویوں اور پالیسیوں میں اُبھرنے والے یہ خوفناک تضادات دونوں ملکوں کو کھلی دشمنی کی انتہا تک پہنچانے کا باعث بن سکتے ہیں۔
بھائی جھنڈے پر کبھی بھی نظر نہیں آئیگا لیکن امریکی جھنڈہ حاملہ ضرور ہے اپ نے الٹرا ساؤنڈ کی تصور لگائی ہے- غلامی کے حمل نظر نہیں اتے اور حرامی کے پیدایش بھی چپکے سے ہوتی ہے پیدایش کے بعد ایدھی سنٹر کے باہر پڑا ہوگا یا شائد گلا گھونٹ دیا جائے گا