شیر کیلے ہرگز نہیں کھاتا

MariaAli

Banned
اس کتنے ارمانوں سے سو گھروں میں تانک جھانک کے بعد اپنے کلوٹے بیٹے کے لیے چاند سی بہو ڈھونڈھ لاتی ہے اور اگلے ہی روز وہی بہو جب پہلا قدم حجلہِ عروسی سے باہر رکھتی ہے تو ساس کا سنگھاسن ڈولنے لگتا ہے اور پھر فضا میں ایک ضعیف آہ گونجتی ہے ہائے کتنا بڑا دھوکا ہوا، جسے حور پری سمجھ کے لائی وہ تو میرے حق میں ڈائن نکلی۔۔۔

پھر گھر کے برتن ہتھیاروں میں بدل جاتے ہیں اور ایک روز آخری ڈوئی کمر پر ٹوٹنے کے نتیجے میں یا تو ساس باہر ہوتی ہے یا بہو ساس کے بیٹے کو اغوا کرکے علیحدہ ہوجاتی ہے اور کچھ ہی دنوں بعد ساس اپنے چھوٹے کلوے کے لیے ایک اور چاند سی بہو کی تلاش میں نکل پڑتی ہے۔ کسی ساس نے آج تک ریسرچ نہیں کی کہ وہ ہر بار ناکام کیوں ہوتی ہے؟

کسی دیسی ساس کی طرح پاکستانی سویلینز کو بھی ہر تین برس بعد ایک چاند سے چیف آف آرمی سٹاف کی تلاش کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے۔ چار پانچ کو شارٹ لسٹ کیا جاتا ہے۔ ان کے مزاج و نفسیات، خاندانی پس منظر، سروس ریکارڈ، سیاسی و مذہبی جھکاؤ، ظاہری شخصیت سلیقہ، محکمہ جاتی شہرت وغیرہ کی ٹوہ لی جاتی ہے۔ مختلف رسمی و غیر رسمی ذرائع سے چھان پھٹک کروائی جاتی ہے۔ تب جا کے رشتہ بادلِ نخواستہ فائنل ہوتا ہے۔ چند دن ہنسی خوشی گذرتے ہیں اور پھر ڈویم ڈویا شروع ہوجاتا ہے۔

طنز، سازش، روٹھم روٹھی، رونا دھونا، زہریلی مسکراہٹوں کے تبادلے، محتاط گفتگو، گڑے مردے اور آخر میں ایک اعلانیہ جنگ جس میں عموماً ہار سینہ کوب ساس کی ہی ہوتی ہے۔
ان دنوں بڑی بہو سے تھکی ہاری سیاسی ساس کو آئی ایس آئی کے اگلے سربراہ کی شکل میں چھوٹی بہو کی تلاش ہے۔ مشکل یہ ہے کہ چونکہ خاندانی انتظام میں بڑی بہو بھی دخیل ہو چکی ہے لہٰذا اسے نئے بر کی تلاش میں شریک رکھنا ساس کی مجبوری ہے ورنہ ایک اور فساد کھڑا ہوسکتا ہے۔ ساس کی کوشش ہے کہ بہو بھلے قبول صورت ہو پر کام سے کام رکھے، بات بے بات بدتمیزی پے نہ اترے اور بڑی بہو کے ساتھ مل کے ایک اور محاذ نہ کھول دے۔

بڑی بہو اس تاک میں ہے کہ جو بھی چھوٹی بھابھی آئے ایسی ہو کہ اس سے پکا دوستانہ رہے تاکہ ساس کی چکنی چپڑی میں نہ آ جائے۔

اگر اس تمثیلی گفتگو سے ہٹ کر دیکھا جائے تو تمام پاکستانی سویلین حکمرانوں کی مشکل یہ رہی ہے کہ ان کی سیاسی قوت کا محور پارٹی کے بجائے چونکہ ان کی ذات، خاندان اور نو رتنوں کا ٹولہ ہوتا ہے اور وہ پارٹی کے ادارے کو ذاتی جاگیر کے طور پر دیکھتے، برتتے ہیں۔ چنانچہ انہیں لاشعوری طور سے پکا پکا یقین ہوتا ہے کہ باقی اداروں میں بھی جو شخص ٹاپ پر ہوتا ہے وہ اپنے ادارے کا مالکِ کل ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر ان اداروں کا سربراہ کوئی ایسا شخص ہو جس سے ان کی نبھ جائے تو سارے معاملات ٹھیک رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو ایک ادارے کے بجائے ایک وفادار یا آزاد خیال چیف جسٹس ( موافق یا مخالف ) کی شکل میں دیکھتے ہیں۔

فوج کے بارے میں بھی ان کا عقیدہ ہے کہ اگر چیف مرضی کا ہو تو پوری فوج کو سوچ سمیت قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ بس یہی عقیدہ آگے چل کے بدعقیدگی پیدا کرتا ہے۔

یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ ہو کہ فوج، دونوں میں یونٹی آف کمانڈ ہوتی ہے۔ مگر سیاسی سلطانی کلچر کے برعکس چیف جسٹس ہو کہ چیف آف آرمی سٹاف دونوں اپنے اپنے اداروں میں فرسٹ امنگ ایکوئیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس برادر ججز کے بنا اور چیف آف آرمی سٹاف اپنے کور کمانڈرز اور پرنسپل سٹاف افسروں کے تعاون و مشاورت کے بغیر موثر ہو ہی نہیں سکتے۔ دونوں ادارے کسی سیٹھ کی ہٹی نہیں بلکہ انہیں ایک شیئر ہولڈنگ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی طرز پر چلایا جاتا ہے اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ دنیا بھر میں بورڈ روم کی پہلی ترجیح کمپنی کے مفادات و شہرت کا فروغ و استحکام ہے۔

اس تناظر میں کسی ادارے کے لیے چاند سی وفادار بہو کی تلاش ایک بے معنی اور دل کو تسلی دینے والی مشق کے سوا کچھ نہیں۔ اداروں کو اداروں کی طرح چلنے دیا جائے اور ان سے بحیثیت ادارہ ہی معاملات رکھے جائیں۔

شیر کو آپ کتنا بھی سدھا لیں مگر وہ کیلے ہرگز نہیں کھائے گا۔گوشت ہی کھائے گا بھلے کتنا ہی لاغر ہوجائے۔۔۔۔۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/09/140921_baat_se_baat_tk.shtml?ocid=socialflow_facebook

 
Last edited by a moderator:

sensible

Chief Minister (5k+ posts)
یہ بات سوائے نواز شریف کے سبھی کو سمجھ آ جائے گی.
 

Zarb-e-Azb

Minister (2k+ posts)
10646856_724063901019588_50491769196806141_n.jpg
 

Athra

Senator (1k+ posts)
سیاست کے کھلاڑی فوج میں مداخلت کرتے ہیں اور فوج سیاست میں دونوں اگر اپنے اپنے میدان میں کھیلیں تو سکون ہو سکتا ہے لیکن یہ ایک دوسرے کو انگلی کرنے سے باز نہیں آتے اس لیے تماشا بنتے بھی ہیں اور بناتے بھی ہیں
 

Back
Top