Shah Shatranj
Chief Minister (5k+ posts)
وزیرستان آپریشن سے قبل جب سوات کا فوجی آپریشن ہوا تھا تب پیپلز پارٹی اور اے این پی کی حکومت تھی . دونوں جماعتوں نے انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور اس کے متاثرین کی بحالی میں انتہائی اہم کردار ادا کر کے آپریشن کو کامیابی سے ہمکنار کیا . فوجی کامیابی جھنڈا گاڑنے کی حد تک تو ٹھیک ہوتی ہے لیکن اصل کامیابی تب ہی ہوتی ہے جب پورا نظام کنٹرول میں آتا ہے جو بغیر سیاسی لوگوں کے نا ممکن ہے وہ ہی لوگوں کے نقصانات کا ازالہ کر کے نظام کو بحال کرتے ہیں .
وزیرستان کا آپریشن شروع سے ہی سیاسی ڈسکنیکٹ کا شکار رہا یہاں تک کہ آپریشن شروع کر کے پارلیمنٹ کو بتایا گیا کہ آپریشن شروع ہو گیا ہے . اس پر سونے پر سہاگہ والی بات کہ نون لیگ اور تحریک انصاف کی حکومت تھی جو آپس کے جھگڑوں میں الجھے ہوے تھے . اب فوجی کامیابی تو حاصل ہو گئی لیکن نظام بحال نہ ہو سکا . اب بھی لاکھوں کی تعداد میں لوگ کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور تباہ حال علاقے کی بحالی کا کوئی خاص کام نہیں کیا گیا . نتیجہ یہ بات کسی طرح سے بھی انہونی نہیں کہ تباہ حال لوگوں کا غصہ آپریشن کرنے والوں پر نہ نکلے . جن لوگوں کے گھر برباد ہو گۓ کاروبار تباہ ہو گۓ وہ اس کا ذمہ دار آپریشن کرنے والوں کو ہی گردانیں گے یوں آپریشن کے نتائج الٹ ہوتے چلے جا رہے ہیں اور نوبت ایک اور خانہ جنگی کی آ رہی ہے
وزیرستان وہ ہی علاقہ تھا جس میں فوجیوں کے سر کاٹے جاتے تھے اور یہ علاقہ دہشت گردی کا گڑھ تھا . اب وہ دہشت گرد تو نہیں رہے لیکن جو جمہوری بات کرتے ہیں انہیں بھی بد قسمتی سے غدار قرار دے دیا گیا ہے . اس ملک میں عدالت میں مشرف پر غداری کا مقدمہ چل سکتا ہے تو پی ٹی ایم پر کیوں نہیں چل سکتا . اگر اس تحریک کو بزور طاقت دبانے کی کوشش کریں گے تو نتیجہ وہ ہی نکلے گا جو اکبر خان بگٹی کی شہادت کا نکلا تھا .
ایسے میں سب سے زیادہ اہم کردار ملکی سیاسی قیادت کا ہوتا ہے لیکن اگر قیادت ہی کٹھ پتلی ہو تو ملک کے مسائل بھیانک شکل اختیار کر لیتے ہیں . انتہائ اہم سانحہ پر ملکی حکمران خاموش ہیں گو کہ اس صوبے کا مینڈیٹ اسی پارٹی کو ہے لیکن پھر بھی یہ مسائل حل کرنے میں ناکام ہے . اگر اس سیاسی مسلۓ کا حل غیر سیاسی طاقتوں کو دے دیا گیا اور زور آزمائی کی گئی تو کچھ سال بعد ہم ناراض پشتونوں کو منا رہے ہوں گے . یہ تحریک عوامی تحریک ہے اور یہ طالبان کی طرح مسلط کردہ تحریک نہیں اس پر طاقت کے استعمال سے پہلے سے موجود نیشنلسٹ تحریکیں زور پکڑیں گی اور بنگلہ دیش جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے
وزیرستان کا آپریشن شروع سے ہی سیاسی ڈسکنیکٹ کا شکار رہا یہاں تک کہ آپریشن شروع کر کے پارلیمنٹ کو بتایا گیا کہ آپریشن شروع ہو گیا ہے . اس پر سونے پر سہاگہ والی بات کہ نون لیگ اور تحریک انصاف کی حکومت تھی جو آپس کے جھگڑوں میں الجھے ہوے تھے . اب فوجی کامیابی تو حاصل ہو گئی لیکن نظام بحال نہ ہو سکا . اب بھی لاکھوں کی تعداد میں لوگ کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور تباہ حال علاقے کی بحالی کا کوئی خاص کام نہیں کیا گیا . نتیجہ یہ بات کسی طرح سے بھی انہونی نہیں کہ تباہ حال لوگوں کا غصہ آپریشن کرنے والوں پر نہ نکلے . جن لوگوں کے گھر برباد ہو گۓ کاروبار تباہ ہو گۓ وہ اس کا ذمہ دار آپریشن کرنے والوں کو ہی گردانیں گے یوں آپریشن کے نتائج الٹ ہوتے چلے جا رہے ہیں اور نوبت ایک اور خانہ جنگی کی آ رہی ہے
وزیرستان وہ ہی علاقہ تھا جس میں فوجیوں کے سر کاٹے جاتے تھے اور یہ علاقہ دہشت گردی کا گڑھ تھا . اب وہ دہشت گرد تو نہیں رہے لیکن جو جمہوری بات کرتے ہیں انہیں بھی بد قسمتی سے غدار قرار دے دیا گیا ہے . اس ملک میں عدالت میں مشرف پر غداری کا مقدمہ چل سکتا ہے تو پی ٹی ایم پر کیوں نہیں چل سکتا . اگر اس تحریک کو بزور طاقت دبانے کی کوشش کریں گے تو نتیجہ وہ ہی نکلے گا جو اکبر خان بگٹی کی شہادت کا نکلا تھا .
ایسے میں سب سے زیادہ اہم کردار ملکی سیاسی قیادت کا ہوتا ہے لیکن اگر قیادت ہی کٹھ پتلی ہو تو ملک کے مسائل بھیانک شکل اختیار کر لیتے ہیں . انتہائ اہم سانحہ پر ملکی حکمران خاموش ہیں گو کہ اس صوبے کا مینڈیٹ اسی پارٹی کو ہے لیکن پھر بھی یہ مسائل حل کرنے میں ناکام ہے . اگر اس سیاسی مسلۓ کا حل غیر سیاسی طاقتوں کو دے دیا گیا اور زور آزمائی کی گئی تو کچھ سال بعد ہم ناراض پشتونوں کو منا رہے ہوں گے . یہ تحریک عوامی تحریک ہے اور یہ طالبان کی طرح مسلط کردہ تحریک نہیں اس پر طاقت کے استعمال سے پہلے سے موجود نیشنلسٹ تحریکیں زور پکڑیں گی اور بنگلہ دیش جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے