شرعی ڈی این اے

Muslimonly

Senator (1k+ posts)
ڈی این اے کی شہادت: ایک دوسرا پہلو




شاہ دولہ کے سائنسی چوہے اور ڈی این اے کی شہادت

http://sajidqalam.blogspot.com/2013/06/sainci-dolayshah-ky-chohay-aur-DNAtest.html


Shahdola+k+sainci+chohay.jpg


مصنف: غلام اصغر ساجد



نیشنل انسٹیوٹ فار بائیو ٹیکنالوجی اینڈ جینیٹک انجینئرنگ فیصل آباد میں ہمارا تیسرا ماہ شروع ہو چکا تھا، اپنی یونیورسٹی کے ہم چار طلباء و طالبات تھے جو ایک خصوصی اکیڈمک ٹریننگ کے سلسلے میں یہاں مختلف لیبارٹریز میں مختلف قسم کے ٹیسٹ اور تجربات کر رہے تھے، اسی سلسلے کی کڑی میں اب ہم ہیلتھ ڈویژن میں آئے تھے ، ہیلتھ ڈویژن پنجاب بھر میں ایک عرصے سے نبجی کی مقبولیت کا باعث بنا رہا کیونکہ جینیٹک سائنس کے ابتدائی دنوں میں یہاں کا ہیپا ٹائٹس پی سی آر بہت زیادہ معروف تھا۔ یوں ہمارا پہلا پالا ہی یہاں اسی ٹیسٹ سے پڑا۔ ہم چار طلباء و طالبات کو کہا گیا کہ آپ میں کوئی دو افراد اپنے خون کے نمونے دیں تاکہ اس پر پی سی آر تجربہ کیا جائے۔ دو طالبات نے اپنے خون کی قربانی دی اور یوں سارا دن مختلف مراحل کے ساتھ پی سی آر کا عمل چلتا رہا۔ آخر کار نتیجہ خیز مرحلے میں جب ہماری نظر جیل ڈاک سسٹم کی اسکرین پر پڑی تو نتائج حیران کن تھے دو میں سے ایک طالبہ کا رزلٹ پوزیٹو اور ایک کا نیگٹو تھا، فورا سینئر پروفیسر صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ پی سی آر دوبارہ رن کیا جائے۔ اگلے دن دوبارہ عمل دوہرایا گیا لیکن نتائج کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی اور وہ پوری ڈھڈائی کے ساتھ ایک پوزیٹو اور ایک نیگٹو کے ساتھ برقرار رہا۔ لڑکیوں کی نیچر کا تو آپ کو معلوم ہی ہو گا باقی بھی ہم سب پریشان تھے کہ یونہی لیبارٹریز میں سیکھتے سیکھتے مفت میں ایک مریض بنوا بیٹھے ہیں۔ پروفیسر صاحب سے دوبارہ مشورہ کیا تو انہوں نے پی سی آر کٹس کا ایک باکس اٹھا دیا کہ اس پر چیک کر کے دیکھیں اگر اس پر یہی نتائج آئیں تو سمجھیں حاصل یہی ہے۔ کٹ پی سی آر کم وقت لیتا ہے اور جلد نتائج ملتے ہیں اس بار نتائج کچھ زیادہ ہی ہوش اڑا دینے والے تھے ہوا یہ کہ جن محترمہ کا پہلے پوزیٹو تھا ان کا نیگٹو اور نیگٹو والی کا پوزیٹو نتیجہ نکلا۔ کافی غور و فکر اور مشوروں کے بعد فیصلہ ہوا کہ خون کے نمونے دوبارہ لیے جائیں اور دوبارہ ٹیسٹ کیا جائے تیسرے دن کے اختتام پر ہم اس سسنسی خیز تجربے کا بھی اختتام کر چکے تھے اور سب شکر ادا کر رہے تھے کہ اس بار نتیجہ دونوں کا نیگٹو نکلا ہے۔ ان طالبات نے اپنے اطمینان اور تسلی قلب کے لیے بیس کے قریب کٹس پر بار بار ٹیسٹ کیا لیکن نتائج برقرار رہے۔


آج اس سسپنس سے پھرپور واقعے کو ہوئے تیسرا سال گزر رہا ہے اور میں یاسر پیر زادہ کا ایک کالم پڑھ رہا ہوں۔ آج یاسر پیر زادہ صاحب"عالمی جینیاتی سائنسدان" لگ رہے ہیں صاف محسوس ہو رہا ہے کہ انہوں نے یہ حیثیت ہائی اسکول کی سائنس کی کتاب پڑھ کر حاصل کی ہے ۔ اپنی اسی "سائنس دانی" کی بنیاد پر وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اسلامی اور نظریاتی علماء کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑ پڑے ہیں جنہوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کو زنا کے کیسسز میں بنیادی شہادت ماننے سے انکار کر دیا ہے ۔ اس قبیل کے ایک اور "سائنسدان" محمد حنیف صاحب کا ایک "سائنٹفک آرٹیکل" نما بلاگ بھی میرے سامنے موجود ہے جو بی بی سی نامی معروف نیوز ایجنسی نے اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہوئے شائع کیا ہے۔ میں اپنی کم علمی اور نا تجربہ کار معلومات کے باوجود پوری ذمہ داری اور وثوق سے کہتا ہوں کہ موصوف بنیادی طور پر زنا بالرضا کے کیسسز کے وکالت کرتے ہوئے سائنس کے ٹھیکیدار بن رہے ہیں لیکن افسوس اوپر سے انصاف کا راگ بھی الاپے جاتے ہیں اور ان علماء پر غیر منصفی کا الزام بھی دھر رہے ہیں

قرآن و سنت اور اسلامی قانون سے ناواقف ہونا تو خیر اس "روشن خیال تعلیم یافتہ لبرل طبقہ" کے لیے شرمناک نہیں ہے مگر ان کی "سائنس دانی" پانچویں کی سائنس سے آگے نہ بڑھ سکے یہ ضرور ان کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے ڈی این اے ٹیسٹ کس طرح کا عمل ہے اس کا اندازہ تو آپ کو واقعہ بالا سے ہو چکا ہو گا اس کا معیاری ہونے پر کوئی دو رائے نہیں رکھی جا سکتیں کیونکہ ہر انسان جینیاتی طور پر منفرد ہے اوراس کو ڈی این اے ٹیسٹ ہی پڑھ سکتا ہے لیکن یہ ٹیسٹ اسی صورت میں معیاری کہلاتا ہے جب تمام مراحل یوری ذمہ داری اور ایمانداری سے کنڈکٹ کیےجائیں زنا کے کیسسز میں اسلامی قانون سخت سزا دینے کا قائل ہے لہٰذا ڈی این اے ٹیسٹ ایسے میں ایک کمزور شہادت ہے اس پرکلی طور پر اسلامی قانون متفق ہے، غیر ترقی یافتہ سے ترقی پذیر ممالک بہت حد تک اور کسی حد تک خود سائنس بھی متفق ہے آئیے اس کا جائزہ لیں

ڈی این اے ٹیسٹ کا پہلا مرحلہ سیال مادے کے نمونے حاصل کرنا ہوتے ہیں آپ کے ڈی این اے ٹیسٹ کی کامیابی کا انحصار اسی پر ہوتا ہے کہ آپ نے جو نمونہ حاصل کیا اس میں واقعی وہ جنسی جرثومے اپنی اصل حالت میں موجود ہیں جس پر آپ ٹیسٹ کرنے والے ہیں یہ مختلف کیفیات پر منحصر ہے جس میں طریقہ واردات،ذانی کی جسمانی و جنسی صحت، نمونہ حاصل کرنے کا وقت اور نمونہ حاصل کرنے کا طریقہ کار و تجربہ کاری۔ طریقہ واردات کو میں علیحدہ بحث کے لیے رکھ چھوڑتا ہوں اور باقی چیزوں کا سرسری جائزہ لیے چلتے ہیں یہ ممکن ہے کہ ذانی کی جنسی و جسمانی صحت ایسی ہو کہ وہ سیال مادہ تو پیدا کرے مگر اس میں بہت کم جنسی جرثومے ہوں جس پر نمونہ حاصل کرنا مشکل ہو جائے اور بعض صورتوں میں ایسے بھی ممکن ہے کہ کوئی جرثومہ ہی نہ ہو خود یورپی ممالک میں ایسے بہت سے کیسسز سامنے آئے جس میں ظاہری جسمانی جائزہ سے مزنیہ (جس عورت کے ساتھ زنا کیا گیا ہو) پر تشدد اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے شوائد موجود تھے لیکن ڈی این اے ٹیسٹ نیگٹو آ رہا تھا۔ وہیں یہ بات بھی بہت زیادہ اہم ہےکہ مزنیہ زنا کے بعد کتنے وقت میں نمونہ کے لیے پہنچی ہے کیونکہ محدود وقت کے بعد ممکن نہیں کہ نمونہ حاصل کر کےٹیسٹ کیا جائے ایسی ہی صورت حال حالیہ گینگ ریپ کیس انڈیا میں بھی دیکھی گئی جب بوجوہ ڈی این اے ریپ کٹ کی عدم دستیابی کے نمونہ حاصل کر کے محفوط کرنا تین دن تک ممکن نا ہو سکا پاکستان جیسے ملک جہاں مریض ایمبولینس کا انتظار کرتے کرتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا ایمبولینس ان کی میت لیے ہسپتال پہنچتی ہے ایسی صورت حال میں زنا کے بروقت نمونے کا حصول مشکل تر ہے

ڈی این اے ٹیسٹ کا دوسرا مرحلہ حاصل کیے جانے والے نمونے کو لیبارٹری کے عمل سے گزارنا ہے یہاں مختلف اشیاء اثر انداز ہو سکتی ہیں جس میں لیبارٹری عوامل بھی ہیں اور غیر لیبارٹری عوامل بھی۔ لیبارٹری عوامل میں لیبارٹری کی ڈویلپمنٹ اور ٹیکنیشن کی تجربہ کاری کے علاوہ مخصوص کیس اسٹڈی پر منحصر ہے کہ ٹیسٹ پوزیٹو آتا ہے یا نیگیٹو۔ یورپی ممالک کی لیبارٹریز تو بہت حد تک جدید اور ڈویلپڈ ہیں مگر پاکستان میں یہ معقولیت سے کم سطح پر ہوں گی اس سترہ اٹھارہ کروڑ کی آبادی رکھنے والے ملک میں صرف ایک فارینزک لیب ہے اور شور الاپا جا رہا ہے کہ علماء نے ڈی این اے ٹیسٹ کو شرعی شہادت تسلیم نہیں کیا۔ غیر لیبارٹری عوامل کا ٹیسٹ پر اثر انداز ہونا بھی خارج از امکان نہیں ایسی صورت میں ایک جھوٹی ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ کی جرح ہی کیسے ممکن ہے عدالت زیادہ سے زیادہ دوبارہ ٹیسٹ کنڈکٹ کرنے کا حکم جاری کر سکتی ہے جبکہ جھوٹے گواہان کی جرح با آسانی عدالتیں کرتی چلی آ رہی ہیں ایسے میں ڈی این اے ٹیسٹ کو کیسے بنیادی شہادت تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی بتانا بہت ضروری ہے کہ سائنس نہایت بے ثبات علم ہے اس میں ٹھہراؤ نہیں ہے اس کا اقرار خود بدل سائنس بھی کرتی ہے آج جس کو پوجا جا رہا ہے کل ہو سکتا ہے کہ کوئی سائنسدان اٹھے اور سب کچھ بدل کر رکھ دے بشرطیکہ وہ محمد حینف یا یاسر پیرزادہ جیسا "سائنسدان " نہ ہو جو مغرب کی اندھی تقلید کے خوگر ہیں۔ یہاں میڈیکل کے شعبہ میں ایسے کئی ڈایاگونسٹک ٹولز تھے جو اپنے وقت میں نہایت معتبر مانے جاتے تھے پھر ہوا یوں کہ ان کی جگہ نئے اور جدید ٹولز نے لے لی اور وہ پرانے ٹولز معتبر سے غیر معتبر ہو گئے۔ ایسے میں اسلامی قانون ایک سخت سزا کے لیے اس سائنسی ٹول کو بنیادی شہادت کیوں مانے جو بے ثبات ہے اور اگلے ہی دن بدل جانے کی گنجائش رکھتا ہے ۔
اس مباحث کے آخری اور سب سے اہم نقطہ کی جانب بڑھتے ہیں جسے میں دانستہ عارضی طور پر چھوڑ آیا تھا یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جس کی بناء اسلامی قانون میں ڈی این اے ٹیسٹ کو کسی بھی ملک میں بنیادی شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا جی ہاں اسی کی بنیاد پر یہ روشن خیال لبرلز زنا کی وکالت کے درجے پر فائز ہیں اور اسی کی بنیاد پر میں ان کم فہم اسلام پسندوں کے اس سادہ خیال اور خوش فہمی کی نفی کروں گا جو وہ فرما رہے ہیں کہ "اگر کبھی حد کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو شرعی شہادت تسلیم کرلیا گیا تو ہمارے روشن خیال طبقے کی آدھی عوام سنگسار ہوجائے گی اور باقی آدھی کوڑے کھا کر اسپتال میں پڑی ہوگی " حقیقت یہ ہے کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہی یہ روشن خیال لبرل طبقہ اٹھائے گا آئیے پہلے یہ سمجھیں کہ اسلام میں زنا کس چیز کو کہا جاتا ہے؟ نکاح کے بغیر مباشرت کو زنا کہا جاتا ہے چاہے وہ باہمی رضامندی سے کیا جائے یا متعلقہ افراد میں سے کوئی جبر کے ساتھ کرے۔مغرب کے روشن خیال لبرلز میں باہمی رضا مندی سے کیے جانے زنا کو جرم ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ افراد کی ذاتی زندگی اور آزادی کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔لہٰذا ان کے ہاں جرم وہی ہے جس کا کیس خود مزنیہ لے کر عدالت میں پہنچ جائے۔ اسلام جرم کو بغیر کسی لاگ لپٹ کے جرم کہتا ہے اسی لیے زنا چاہے بالرضا ہو یا بالجبر زنا ہی رہے گا چونکہ ان دونوں کے طریقہ واردات میں فرق ہے ۔ میں یہ بات پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں کہ کیا خیال کرتے کہ اس دور میں زیادہ کیسسز کس قسم کے ہوتے ہیں یہ وباء بالرضا پھیل رہی ہے یا بالجبر۔

طریقہ ہائے واردات کی نظر سے دیکھا جائے تو صاف دکھتا ہے کہ باہم رضا مندی سے کیے جانے والے اس گناہ میں کئی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں جس میں جنسی جرثوموں کو مزنیہ کے جسم میں داخل ہونے سے روکنے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے کنڈومز کا استعمال اس کی ایک مثال ہے۔ یہ احتیاط اس لیے ضروری کہ ہمارا معاشرہ نا تو ایسے زنا اور ناحرامی بچوں کو سپورٹ نہیں کرتا ، لبرلز کے ہاں چونکہ اس سب چیزوں کو قبول کیا جاتا ہے لہٰذا وہاں احتیاط ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت ماننے کے بعد یہ احتیاط پہلے سے زیادہ ضروری سمجھی جانے لگے گی ایسے میں کسی انسانی شہادت کی بناء کیس عدالت میں پہنچتا بھی ہے تو ڈی این اے کے لیے شواہد موجود ہی نہیں ہوں گا اور اگر ہوں بھی تو متعلقہ افراد مٹا دینے میں سستی نہیں برتیں گے۔ پھر آپ بیسوں مرتبہ ڈی این ٹیسٹ کر لیں رزلٹ نیگیٹو ہی ملتے رہیں گےیہی یاسر پیرزادہ اور محمد حنیف کی خواہش ہے جو زنا کومعاشرے میں پھیلانے کا موجب ہے۔

ایسے میں اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ فیصلہ قابل تحسین ہے جس میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی شہادت ماننے سے انکار کر کے انسانی شہادت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
یہاں یہ بات سمجھنے کے لائق ہے کہ اسلامی قانون و تعزیرات میں ہمیشہ اس بناء پر سزائیں سنائی جاتی ہیں کہ جرم کا سدباب ہو، جرم کو پھیلنے سے روکا جائے اور جرم کا پرچار نہ کیا جائے ، وہ مجرم کو اس کے جرم کی سزا صرف اس لیے نہیں دیتا کہ اس نے جرم کیا ہے بلکہ وہ معاشرے کے باقی افراد کو پیغام بھی دیتا ہے کہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں۔ زنا کے معاملے میں بھی وہ اسی اصول کو مدنظر رکھتا ہے اسی لیے وہ ایسے تمام کیسسز کا پنڈورا نہیں کھولتا جب تک وہ جرم معاشرے کی نظر میں نہ آ جائے اور چار فرد اسے دیکھ نہ لیں، لیکن روشن خیال لبرلز کے ہاں متعلقہ افراد چاہے وہ زانی ہو یا مزنیہ، اور جرم تو بالجبر ہے جب تک معاشرے میں ننگے نہ ہوں جائیں، بچہ بچہ زنا کے لفظ سے واقف نہ ہو جائے مجرموں کو سزا دینے کا راگ الاپاجاتا ہے
نوٹ: یاسر پیرزادہ صاحب سے کچھ باقی فیصلوں پر بھی اپنی روشن خیال 'تاریکی نظر' فرمائی ہے۔ کچھ دنوں میں ان کا جواب بھی آپ ساجد قلم پر دیکھ سکیں گے

---------------------------------------------

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈی این اے کی شہادت کو قراینی شہادت
(circumstantial evidence)
کے طور پر ابھی بھی قبول کیا جاتا ہے

اگر گواہ موجود ہوں تو حد کی سزا دے جاتی ہے (حد وو سزا ہے جو الله اور اس کے رسول نے مقرر کر دی
...یعنی اگر زانی شادی شدہ ہے تو سنگسار کیا جائے گا
اور غیر شادی شدہ ہے تو سو کوڑے لگائے جائیں گے

لیکن اگر گواہ موجود نہیں اور
قراینی شہادت موجود ہو تو تعزیر کی سزا دے جا سکتی ہے اور حدود آرڈیننس میں موجود ہے
تعزیر وو سزا ہوتی ہے جو حاکم وقت جرم کی نوعیت کے مطابق دینے کا مجاز ہوتا ہے
لہٰذا یہ کہنا کہ گواہ نہ ہوں اور صرف
قراینی شہادت موجود ہو تو مجرم چھوٹ جاتے ہیں سراسر جھوٹ ہے
چونکہ زنا کے جرم کی حد سزا بہت بری ہے لہٰذا اسلام نے سزا کے لیے ثبوت کا معیار بھی سخت رکھا ہے

؛؛
لبرل فاشسٹوں کا مسلہ یہ ہے کہ حدود کے تو انکاری ہیں لیکن ان کے لیے ثبوتوں پر بحث کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں
..



 
Last edited:

Muslimonly

Senator (1k+ posts)
Re: شاہ دولہ کے سائنسی چوہے اور ڈی این اے کی شہ&

jm2vVjV.png


44. Criminal Proceedings

Reliability of DNA evidence

Print
44.3 The technical reliability of DNA evidence depends on a number of factors, including the quantity and quality of the sample analysed and the laboratory equipment or technique in analysing the sample.
Sample quantity and quality

44.4 A DNA sample is capable of analysis if there is sufficient quantity and reasonable quality of DNA present in the sample. polymerase chain reaction (PCR) based testing is relatively insensitive to degradation. However, the analysis of poor quality DNA samples may lead to uncertain results requiring substantial interpretation by the forensic scientist, and the potential for human error or varying opinions in the interpretation of the results.[SUP][SUP][3][/SUP][/SUP] For example, where a DNA sample contains a mixture of several persons’ DNA, and the forensic scientist does not account for this, the resulting DNA profile may be incorrect.
44.5 In R v Juric, the Victorian Court of Appeal highlighted the difference between evidence produced from a DNA sample that is:

    • so pure and unadulterated that clear typings can be obtained at a large number of DNA sites, giving rise to statistical improbabilities running into the millions or even billions; and
    • so adulterated and so old, and the testing process of amplification so powerful, that the typings produced are affected by complications which preclude an expert from giving an opinion as to the statistical probabilities.[SUP][SUP][4][/SUP][/SUP]
44.6 The Court of Appeal warned that:
there are cases where the simplicity with which the [expert] opinion is expressed cannot be permitted to obscure the difficulties which have been encountered in the testing process. As in this case, those difficulties will include the poverty of the sample, its mixture with the bodily fluids of others, the age of the sample, the effect of the re-amplification process or the reliability of results and whether—because of or in spite of the encountering of these difficulties—any statistical probability can be pronounced as to the likelihood of other members of the community producing the same ‘match’.[SUP][SUP][5][/SUP][/SUP]
Laboratory performance

44.7 The accuracy of DNA analysis depends on the quality control and quality assurance procedures in the forensic laboratory. Quality control refers to measures to help ensure that each DNA analysis result (and its interpretation) meets a required standard of quality. Quality assurance refers to monitoring, verifying and documenting laboratory performance.[SUP][SUP][6][/SUP][/SUP]
44.8 Laboratory accreditation programs provide an important means of ensuring quality control and assurance in the DNA analysis process, by setting minimum standards and procedures, and providing external oversight of adherence to them. The National Association of Testing Authorities, Australia (NATA) operates a national system of laboratory accreditation for forensic science. In Chapter 41, the Inquiry recommended that the Crimes Act 1914 (Cth) (Crimes Act) should provide that forensic analysis of genetic samples must be conducted only by laboratories accredited by NATA in the field of forensic science. This recommendation is equally important as a means of protecting the integrity of DNA analysis and results. However, laboratory accreditation alone cannot guarantee the integrity of DNA evidence in every instance.
Sample handling

44.9 It has been suggested that sample mishandling, mislabelling or contamination is more likely to compromise a DNA analysis than an error in the analysis.[SUP][SUP][7][/SUP][/SUP] Contamination may occur at any stage of the collection, transport or analysis of a DNA sample. A DNA sample may be contaminated with other human DNA in a number of ways, including:

    • the crime scene sample may contain a mixture of fluids or tissues from different persons due to the nature of the crime;
    • the crime scene sample may be contaminated during sample handling at the crime scene or in the laboratory; or
    • carry-over contamination may occur in PCR-based testing if the amplification products of one test are carried over into the mix for a subsequent PCR test.[SUP][SUP][8][/SUP][/SUP]
44.10 One reported example of sample contamination occurred in New Zealand when the DNA profile of an assault victim on the South Island was entered into the DNA data bank and matched the profiles obtained from two separate homicide scenes on the North Island. The DNA samples collected from each crime scene, including the assault, had been analysed in the same forensic laboratory. Police were satisfied the assault victim had not been at either of the homicide scenes at any time, and was not the offender. An independent inquiry could not find any conclusive explanation for the false positive results. The inquiry identified a number of potential sources of contamination, including bench contamination, instrument contamination, failure to observe certain protocols, and deliberate contamination. It concluded that, on the balance of probabilities, the results were caused by accidental contamination of the crime scenes samples during an early stage of processing at the laboratory.[SUP][SUP][9][/SUP][/SUP]
Alternative explanations for a match

44.11 A match between the crime scene profile and a defendant’s profile does not prove that the defendant committed the particular offence. There may be several alternative explanations for a match, including the possibility that laboratory error resulted in a false positive; the sample was ‘planted’ at the crime scene, or was innocently left at the crime scene before, during or immediately after the offence; the sample originated from a close relative of the suspect; or that it originated from an unrelated person who, by coincidence, has the same DNA profile as the suspect.[SUP][SUP][10][/SUP][/SUP]
Error

44.12 Laboratory staff could make errors in conducting DNA analysis, in interpreting or reporting the results of the analysis, or in entering the resulting DNA profile into a DNA database system. This might result from a failure to comply with an established procedure, misjudgement by the scientist, or some other mistake.[SUP][SUP][11][/SUP][/SUP] While protocols and precautions can be introduced to minimise the opportunity for error dur-ing analysis or interpretation, the potential for human error cannot be fully eliminated.
44.13 For example, a clerical error at a Las Vegas forensic laboratory led to an innocent man being charged in relation to two separate sexual assaults in 2001. The man was being held in a detention centre for an immigration law violation when another inmate accused the man of raping him. DNA samples were taken from both men and their profiles were entered into the state DNA database. The man’s profile matched two unsolved sexual assaults, and he was charged with these offences. A DNA expert who examined the laboratory’s records found that the man’s name had been accidentally switched with his cellmate’s name when the profiles were entered into the database, resulting in the false match.[SUP][SUP][12][/SUP][/SUP]
44.14 Misconduct by a forensic scientist could also lead to a false result. In the Queensland case of R v Fitzherbert, the appellant argued that he had been convicted as a result of deliberate fraud on the part of staff at the forensic laboratory that had con-ducted the DNA analysis for the prosecution. The Supreme Court of Queensland dis-missed the appeal on the grounds that there was no evidence to support the allegation.[SUP][SUP][13][/SUP][/SUP]
Kinship

44.15 Close genetic relatives have more genes in common than unrelated persons.[SUP][SUP][14][/SUP][/SUP] Therefore, it is possible that an innocent person’s DNA profile could match the profile obtained from a crime scene, where the offender was in fact that person’s sibling or other close relative.[SUP][SUP][15][/SUP][/SUP] However, the chance of such a coincidence will decrease inversely as the number of loci examined along the DNA molecule increases.
Tampering

44.16 A suspect’s DNA profile might match the profile found at a crime scene as a result of tampering with the crime scene, or subsequent substitution of DNA samples. This might occur where the actual offender, a police investigator, or another person deliberately leaves a suspect’s genetic sample at the crime scene. Alternatively, it is possible that a suspect’s sample might later be substituted for the actual crime scene sample to falsely implicate the suspect in the offence.
44.17 In the New South Wales case of R v Lisoff, the defendant alleged that DNA evidence implicating him in an assault had been planted on his clothes by police investigators after they took them into custody. The defence expert witness suggested that the blood found on the clothes appeared to be post-transfusion blood from the victim, which must have been deposited on the clothing after it was taken into police custody. The victim’s blood sample had been stored in the same police exhibit room as the accused’s clothing.[SUP][SUP][16][/SUP][/SUP]
44.18 While practices and procedures for the collection of crime scene samples, and the handling of those samples during transfer to the laboratory, and at the laboratory itself, may seek to minimise the opportunity for tampering, it cannot be eliminated altogether.
Coincidence

44.19 As a DNA profile contains only a very small section of a person’s DNA, it is possible that two persons might have the same DNA profile, by coincidence. This is particularly the case where the profile represents only a small number of loci along the DNA molecule. A widely reported example of a coincidental match occurred in Britain in 1999. A man was charged with burglary as a result of a ‘cold hit’ between his DNA profile and a crime scene profile on the United Kingdom’s national DNA database. The profiles matched at six loci along the DNA molecule, but there was no match upon subsequent comparison at ten loci. The match probability had been reported as one in 37 million.[SUP][SUP][17][/SUP][/SUP]
44.20 At the time this incident was reported, the custodian of the national DNA database admitted that, in light of the number of profiles then stored on the database, testing at six loci would produce several hundred chance matches.[SUP][SUP][18][/SUP][/SUP]
[SUP][3][/SUP] D Kaye and G Sensabaugh Jr, ‘Reference Guide on DNA Evidence’ in Federal Judicial Center (ed), Reference Manual on Scientific Evidence (2000) Washington DC, 485, 505–506, 508.

[SUP][4][/SUP] R v Juric (Unreported, Supreme Court of Victoria, Court of Appeal, Winneke P; Charles and Chernov JJA, 29 May 2002) [20].

[SUP][5][/SUP] Ibid [20].

[SUP][6][/SUP] D Kaye and G Sensabaugh Jr, ‘Reference Guide on DNA Evidence’ in Federal Judicial Center (ed), Reference Manual on Scientific Evidence (2000) Washington DC, 485, 509.

[SUP][7][/SUP] Ibid, 512.

[SUP][8][/SUP] Ibid, 514–515.

[SUP][9][/SUP] Rt Hon Sir Thomas Eichelbaum and Sir John Scott, Report on DNA Anomalies (1999), Auckland. The report commented that while there was no direct evidence of contamination, they had eliminated all other hypotheses: [8.3].

[SUP][10][/SUP] See generally, D Kaye and G Sensabaugh Jr, ‘Reference Guide on DNA Evidence’ in Federal Judicial Center (ed), Reference Manual on Scientific Evidence (2000) Washington DC, 485, 520. See also Legislative Council Standing Committee on Law and Justice, Review of the Crimes (Forensic Procedures) Act 2000, Report No 18 (2002), Parliament of NSW, Sydney [3.54].

[SUP][11][/SUP] D Kaye and G Sensabaugh Jr, ‘Reference Guide on DNA Evidence’ in Federal Judicial Center (ed), Reference Manual on Scientific Evidence (2000) Washington DC, 485, 510.

[SUP][12][/SUP] G Puit, ‘DNA Evidence: Officials Admit Error, Dismiss Case’, Las Vegas Review-Journal, 18 April 2002.

[SUP][13][/SUP] R v Fitzherbert (Unreported, Supreme Court of Queensland, Pincus, Davies JJA and Moynihan J, 30 June 2000).

[SUP][14][/SUP] D Kaye and G Sensabaugh Jr, ‘Reference Guide on DNA Evidence’ in Federal Judicial Center (ed), Reference Manual on Scientific Evidence (2000) Washington DC, 485, 522–523.

[SUP][15][/SUP] For example, see R v Watters, (Unreported, Court of Appeal Criminal Division, Kay LJ; Silber J; Mellor HHJ, 19 October 2000).

[SUP][16][/SUP] R v Lisoff (Unreported, NSW Court of Criminal Appeal, Spigelman CJ, Newman and Sully JJ, 22 November 1999) [56]. See also G Urbas, ‘DNA Evidence in Criminal Appeals and Post-Conviction Inquiries: Are New Forms of Review Required?’ (2002) 2 Macquarie Law Journal 141, 156.

[SUP][17][/SUP] L Lee, ‘England Man to Sue Police Over DNA Mistake’, Newsbytes (Minneapolis), 18 February 2000. The man had an alibi, lived 200 miles from the crime scene, and was suffering from Parkinson’s disease. There was no other evidence linking him to the crime.

[SUP][18][/SUP] See M Goode, ‘Some Observations on Evidence of DNA Frequency’ (2002) 23 Adelaide Law Review 45, 57.
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
Re: ڈی این اے کی شہادت: ایک دوسرا پہلو

جس قوم میں ویکسین بنانے کی بجاۓ لگانے والوں کو ما را جاتا ہو
وہاں کے خود ساختہ عالم ، سائنس دانوں کو اسی نام سے پکاریں گے

ہمارے ہاں علم و عقل کا کوئی وجود نہی ، شاید پتھر کا زمان آ گیا ہے​
 

Kochi

MPA (400+ posts)
Re: ڈی این اے کی شہادت: ایک دوسرا پہلو

میں ڈی این اے اور زنا بالجبر کے بحث میں نہیں پڑنا چاہتا ۔ میرا تو ایک سوال ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین مولانا محمد خان شیرانی ، جس کی سربراہی میں یہ متنازع فیصلہ ہوا ، نے کس اسلامی مدرسے ، کس یونیورسٹی ، اور کس تعلیمی ادارے سے اسلامی یا عصری تعلیم حاصل کی ہے ۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ شیرانی صاحب کی مدرسے سے کوئی سند فارغت یا یونیورسٹی کی کوئی ڈگری پیش کی جائے ۔ کیا اس شخص کا اس اعلی منصب پر تقرر کرنے اور اس منصب پر برقرار رکھنے والے نہیں جانتے کہ یہ لیویز میں دفعدار تھا پھر جمعیت میں شمولیت اختیار کرلی اور سیاسی رشوتوں میں مناصب حاصل کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل تک پہنچا ۔ ایک لیویز دفعدار جب زنابالجبر میں ڈی این اے کو بطور شہادت لینے یا نہ لینے کے فیصلے کرے گا تو یہ تو ہونا ہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان باقی ساری زندگی مساجد تعمیر کرتے رہے پھر بھی اس کے نامہ اعمال میں یہی گناہ کافی ہے کہ اس نے اسلامی قوانین کی تشریح اور نفاذ جیسے مقدس کام کے لیے ایک لیویز دفعدار کا انتخاب کیا
 
Last edited:

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
Re: ڈی این اے کی شہادت: ایک دوسرا پہلو

میں ڈی این اے اور زنا بالجبر کے بحث میں نہیں پڑنا چاہتا ۔ میرا تو ایک سوال ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین مولانا محمد خان شیرانی ، جس کی سربراہی میں یہ متنازع فیصلہ ہوا ، نے کس اسلامی مدرسے ، کس یونیورسٹی ، اور کس تعلیمی ادارے سے اسلامی یا عصری تعلیم حاصل کی ہے ۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ شیرانی صاحب کی مدرسے سے کوئی سند فارغت یا یونیورسٹی کی کوئی ڈگری پیش کی جائے ۔ کیا اس شخص کا اس اعلی منصب پر تقرر کرنے اور اس منصب پر برقرار رکھنے والے نہیں جانتے کہ یہ لیویز میں دفعدار تھا پھر جمعیت میں شمولیت اختیار کرلی اور سیاسی رشوتوں میں مناصب حاصل کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل تک پہنچا ۔ ایک لیویز دفعدار جب زنابالجبر میں ڈی این اے کو بطور شہادت لینے یا نہ لینے کے فیصلے کرے گا تو یہ تو ہونا ہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان باقی ساری زندگی مساجد تعمیر کرتے رہے پھر بھی اس کے نامہ اعمال میں یہی گناہ کافی ہے کہ اس نے اسلامی قوانین کی تشریح اور نفاذ جیسے مقدس کام کے لیے ایک لیویز دفعدار کا انتخاب کیا

بھائی ، تم یہ کہتے ہو
ان کے مولوی مودودی کی تعلیم پوچھو کیا ہے

تبھی تو یہ ساری جماعت اسلامی ساری کی سری جہالت کی پیداوار ہے

دو ٹکے کا منشی تھا ، جس کو یہ مولانا کہتے ہیں ، عالم دین کھلاتے ہیں موصوف
اور بدمعاشی ہی ان وصف ہے

یہی بات میں کل بھی کر رہا تھا کہ جب مولانا مرنے لگتے ہیں تو علاج کے لئے امریکہ بھاگتے ہیں

کیا وہاں علاج بہتر ہوتا تھا ؟؟؟

نہ اقبال گئے وہاں ، نہ جناح اپنے آخری وقت میں

اس کا ایمان تو سب سے کمزور نکلا

یہ جو لوگ جاہلانہ باتیں کرتے ہیں ، یہ جہالت کی ہی پیداوار ہیں

ان کی نیت میں فتور ہے ، ورنہ یہ رو رہی ہوتے اور سوچتے کہ ہم اتنے لوگوں کو انصاف کیسے فراہم کریں

یہ ایسے تھریڈ لگا کر چسکے لیتے ہیں​
 

saifmcs

Politcal Worker (100+ posts)
Re: ڈی این اے کی شہادت: ایک دوسرا پہلو

Prophet Muhammad(SAW) was Ummi(no degree from any university). Aristotle ne b kahi se degree nhi le thi...there are too many examples. tw kia yeah sb loogo ka ilm sirf is waja se fail hai kaih un logo kay paas koi degree nhi thi???
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
Re: ڈی این اے کی شہادت: ایک دوسرا پہلو

بھائی ، تم یہ کہتے ہو
ان کے مولوی مودودی کی تعلیم پوچھو کیا ہے

تبھی تو یہ ساری جماعت اسلامی ساری کی سری جہالت کی پیداوار ہے

دو ٹکے کا منشی تھا ، جس کو یہ مولانا کہتے ہیں ، عالم دین کھلاتے ہیں موصوف
اور بدمعاشی ہی ان وصف ہے

یہی بات میں کل بھی کر رہا تھا کہ جب مولانا مرنے لگتے ہیں تو علاج کے لئے امریکہ بھاگتے ہیں

کیا وہاں علاج بہتر ہوتا تھا ؟؟؟

نہ اقبال گئے وہاں ، نہ جناح اپنے آخری وقت میں

اس کا ایمان تو سب سے کمزور نکلا

یہ جو لوگ جاہلانہ باتیں کرتے ہیں ، یہ جہالت کی ہی پیداوار ہیں

ان کی نیت میں فتور ہے ، ورنہ یہ رو رہی ہوتے اور سوچتے کہ ہم اتنے لوگوں کو انصاف کیسے فراہم کریں

یہ ایسے تھریڈ لگا کر چسکے لیتے ہیں​

تمہاری بےچینی زیادہ ہوتی جا رہی ہے ،اب تم سے ہمدردی ہونے لگی ہے کہیں نفسیاتی بیمار نہ ہو جاؤ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟''

 

Back
Top