Pakola Khi
Banned
کا جھوٹا پروپوگنڈا اصل، خبر ملاحظہ فرمایے Mehwish Ali
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کٹھ پتلی عبوری حکومت کا امریکی سینیٹر کو شام کا دورہ کراکے شامی جہادی ثمرات کو چرانے کے لیے کوششیں تیز
خاص رپورٹ: انصار اللہ اردو
شامی جہاد جہاں بشار اسد، ایران اور حزب اللہ کا مقابلہ کررہا ہے، وہاں شامی جہاد کا مقابلہ یہود ونصاری کی ایجنٹ جمہوریت پسند طاقتوں کے ساتھ بھی جاری ہے، جو شام میں اسلامی نظام کو آنے سے روکنے اور جمہوری نظام کو لانے کے لیے کوشاں ہے۔
اس بارے میں مزید تفصیلات جاننے کے لیے انصار اللہ اردو کی نشر کردہ ان مواد کو ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ امریکہ اور مغرب نے شام کیخلاف اپنی جنگ کا آغاز شامی اپوزیشن اتحاد کے ذریعے سے کردیا
http://ansarullah.4p.org/?p=323
۱: ب۔ مجاہدین کا مشرقی شام میں عوام کے معاملات کو چلانے کے لیے حکومتی شرعی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان
http://ansarullah.4p.org/?p=330
۲۔ شامی قومی اتحاد کا سربراہ اخوانی معاذ الخطیب نے اسرائیل سے دشمنی نہ کرنے کا اعلان کردیا
http://ansarullah.4p.org/?p=336
۳۔ امریکہ ومغرب کی سازشوں کو بے نقاب کرنے، النصرہ محاذ کا ساتھ دینے اور ’’شامی قومی اتحاد‘‘ کی اصلیت بیان کرنے کی وجہ سے آزاد شامی فوج کے سربراہ پر قاتلانہ حملہ
http://ansarullah.4p.org/?p=339
۴۔ شامی عوام نے امریکہ کے منہ پر طمانچہ رسید کرتے ہوئے النصرہ محاذ کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کردیا
http://ansarullah.4p.org/?p=342
حزب اختلاف کے جمہوریت پسند سیاستدانوں نے شام سے باہر بیٹھ کر شامی جہاد کے ثمرات چرانے کے لیے امریکہ، مغرب، عرب ممالک اور دوستان شام ممالک کے ساتھ مل کر نئی شامی عبوری حکومت کو تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ مجاہدین نے ان دشمنان اسلام کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے اسلامی حکومت تشکیل دینے کا اعلان کیا جس پر یہ شام سے باہر بیھٹے ہوئے غدار مشتعل ہوگئے اور النصرہ محاذ سمیت اسلامی شریعت کا نفاذ چاہنے والے مجاہدین کیخلاف زبان درازی کرتے ہوئے میڈیا وار کی جنگ شروع کردی۔
امریکہ، مغرب، قطر اور سعودیہ نے شامی قومی اتحاد کی بنائی ہوئی کٹھ پتلی عبوری حکومت کو تسلیم کرکے اس کے سفارتخانوں کو قطر سمیت کئی ممالک میں کھول دیا۔ مگر اس حکومت کو شام میں اثر ونفوذ نہ ہونے کی وجہ سے امریکہ ومغرب نے ہتھیار دینے اور اس کی خاطر شام میں فوجی کارروائی کرکے ان کو اقتدار دلانے کے مطالبے کو پورا کرنے سے انکار کردیا۔
پھر 7 اپریل 2013 کو عبوری حکومت کا سربراہ غسان ہیٹو نے شمالی شام میں ریف ادلب کا اچانک دورہ کیا اور وہاں اپنے ایجنٹ آزاد شامی فوج کے اہلکاروں اور کمانڈروں سے ملاقات کرکے امریکہ ومغرب کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ شامی آزاد فوج کے اوپر عبوری حکومت کا مکمل کنٹرول ہے اور اسی کی سرپرستی میں وہ بشار اسد کیخلاف جنگ لڑرہی ہے۔
جبکہ حقیقت میں تمام آزاد شامی فوج عبوری حکومت کے ماتحت نہیں ہے، خاص کر وہ آزاد شامی فوج کے دستے جو اسلامیت پسند ہیں اور جو بشار اسد اور نصیری ملیشیاؤں سے صف اول میں لڑرہے ہیں اور عبوری حکومت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
بہرحال اب 27 مئی 2013 بروز پیر کو کئی ہفتوں کی منصوبہ بندی کے بعد امریکی سینیٹر جان مکین نے ترکی کے راستے شام کا اچانک خفیہ دورہ کیا اور چند گھنٹے شام میں کٹھ پتلی عبوری حکومت کے رہنماؤں اور امریکہ ومغرب نواز بریگیڈئر جنرل سلیم ادریس سے ملاقات کرکے انہیں بھاری اسلحہ وسیع پیمانے پر دینے کی یقین دہانی کرائی۔
http://im40.gulfup.com/f8bnO.jpg
امریکی حکومت کی طرف سے شامی عبوری حکومت کی خاطر یہ قدم اٹھانا اور عبوری حکومت سے تعلق رکھنے والی آزاد شامی فوج کو مسلح کرنے کا مقصد گرتے ہوئے بشار اسد نظام حکومت کیخلاف جاری مسلح عوامی انقلاب کو یرغمال بناتے ہوئے اپنی ایجنٹ شامی حزب اختلاف کی عبوری حکومت کے پنجے پاؤں میں مضبوط کرنا اور شام کی بھاگ دوڑ ان کے ہاتھ میں دینا تاکہ کل کو یہی عبوری حکومت جہاد ومجاہدین کیخلاف لڑتے ہوئے شام میں اسلامی شریعت کے نفاذ کو روکنے اور اسرائیل کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے سرگرم ہوجائیں۔
دوسری طرف مجاہدین ان سب حالات سے ناواقف اور بے خبر نہیں ہیں۔ شامی عبوری حکومت کے بارے میں جہادی جماعتوں کا موقف بالکل واضح اور عیاں ہے اور انہوں نے اب تک اس حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ لیکن مجاہدین القصیر اور حمص کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے بشار اسد نظام حکومت سے جنگ لڑنے میں مصروف ہیں اور ان کی اولین ترجیح اس نظام حکومت سے مسلمانوں کو آزادی دلانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک مجاہدین نے عبوری حکومت کیخلاف کوئی عسکری قدم نہیں اٹھایا اور اپنی تمام تر توجہ شام میں جاری معرکے پر مبذول کررکھی ہے، نیز شام میں اسلامی شریعت کے قیام کا اعلان کرکے اس کے مستقبل کو بے فکر ہوکر فی الوقت حالات وواقعات پر چھوڑ رکھا ہے کیونکہ شام کی جنگ کی
زمینی طور پر بھاگ دوڑ اور کنٹرول اب تک اسلامیت پسند جہادی جماعتوں کے ہاتھوں میں ہیں۔
