Asad Mujtaba
Chief Minister (5k+ posts)
سیاست ڈاٹ پی کے اور پاکستانی نیوز چینلز و جملہ غیر ڈیجیٹل صحافی
سیاست ڈاٹ پی کے پابندیاں لگنے سے پہلے پاکستان کا سب سے بڑا ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم تھا۔ جس دن پابندیاں ختم ہوں گی یہ پلیٹ فارم اپنی سابقہ پوزیشن دوبارہ بحال کرلے گا۔ سیاست ڈاٹ پی کے کی کامیابی پاکستان کے تمام نیوز چینلز ، میڈیا مالکان اینکرز کیساتھ فوج کے لیے بھی ایک سبق ہے۔
پاکستان کے تمام میڈیا ہاوسز سیٹھ کے مفادات کی رکھوالی کرتے ہیں۔ اب چونکہ سیٹھ صاحب پاکستان کی نامی گرامی کاروباری شخصیت ہوتے ہیں اربوں کے مالک ہوتے ہیں مزید کئی ارب کمانا چاہتے ہیں تو کمپنی کی نظروں میں آنا بھی چاہتے ہیں کمپنی سے تحفظ بھی چاہتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں نیوز چینل ان کے لیے پروموشن کا بھی سبب بنتا ہے اور تحفظ کا بھی۔
سیٹھ صاحب جانتے ہیں کہ ریڈ لائن تو دور اگر خاکی لائن کے بھی قریب پھٹکے تو انکے لائسنس ، پرمٹ ، این او سی منسوخ ہونا شروع ہوجائیں گے۔ ان کو “ریاست” کی جو سرپرستی حاصل ہے وہ ختم ہوجائے گی اور ان کا اربوں کا کاروبار مہینوں بلکہ دنوں میں ٹھپ ہوجائے گا۔
سیاست ڈاٹ پی کے کیونکہ کسی سیٹھ کے ہاتھ میں نہیں تھا ، کسی کاروباری کے مفادات کا تحفظ کرنے کو نہیں بنایا گیا تھا ، زیادہ اچھی پی آر مقصد نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے نئی نسل کا ایک آزاد فرد تھا تو اسے نہ اپنی کسی سوسائٹی ، کسی کالج ، کسی بیکری ، کسی کمپنی کو تحفظ دینے کا لالچ تھا نہ کسی کاروبار کے بند ہوجانے کا ڈر۔ یہ چلا اور خوب چلا۔
رجیم چینج کے بعد سے سیاست ڈاٹ پی کے اگر کسی کی خواہش کے مطابق کوئی آزاد سا اردو ہوجاتا تو نہ سیاست ڈاٹ پی کے پر پابندیاں لگتیں نہ اسکی آمدن میں کوئی فرق آتا۔ یہ بھی خوب پھلتا اور پھولتا۔ لیکن جو آزاد سوچ اس کے پیچھے تھی وہ قید ہوجاتی۔
آنے والا دور سیاست ڈاٹ پی کے کا ہے۔ اس جیسے آزاد ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کا ہے۔ ویسے ہی جیسے ٹی وی آنے کے بعد اخبارات کی اہمیت نہ بچی تھی اب ٹی وی چینلز بھی دم توڑ رہے۔ لیکن اس سے وابستہ صحافیوں کو سبق دے کر جارہے ہیں کہ صحافت وہ ہے جو آزاد ذہن سے آزاد سوچ کیساتھ کی جائے۔ کسی سیٹھ کے کاروبار کا تحفظ صحافت نہیں ہے۔
ایک نکتہ درست ہے۔ میڈیا ہاوس کے صحافی کو بھی تنخواہ و آمدن کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کسی بھی دوسرے انسان کو۔ صحافی اگر نوکری نہ کرے گا تو کیا خبر کو کھائے اور چاٹے گا۔ لیکن اب بدلتے دور نے یہ رکاوٹیں بھی ختم کردی ہیں۔ یوٹیوب ، ایکس ، فیس بک سے چند ہزار سے کئی کروڑ ماہانہ کمائے جارہے ہیں۔ اب بھی اگر کوئی سیٹھ کی بندشوں کا غلام رہتا ہے تو اسے پھر اپنی صلاحیت پر ، اپنی خبر پر ، اپنے مواد کے معیار پر شاید بھروسہ نہیں ہے۔
یہی سبق فوج کے لیے بھی ہے۔ کنٹرول کا دور ختم ہوا۔ ایک سیٹھ صاحب پر ایک معمولی نوعیت کا مقدمہ درج ہوا کرتا ، یا انکے کسی کالج کا ایک این او سی منسوخ ہوتا تو وہ فورا لیٹ جاتے۔ آپ نے سیاست ڈاٹ پی کے کو دبانے کی بھرپور کوشش کی۔ اسکی آمدن کروڑوں سے کم ہو کر چند لاکھ تک رہ گئی ہے۔ کیونکہ سیاست ڈاٹ پی کے کے پیچھے بیٹھی آزاد سوچ جانتی ہے کہ کمپنی کا دور ختم ہوا۔ کنٹرول کا دور ختم ہوا۔ اگر چند ماہ یا چند سالوں کے لیے دبانے والوں کی مان لی تو پورا پلیٹ فارم دب جائے گا وہ نہیں کنٹرول ہوا۔ نہ کبھی ہوگا۔
اگر خدانخواستہ کسی بھی طرح سے اسے مینج کر بھی لیا گیا تو پھر بھی سیٹھ کی حکومت کا کمپنی کے کنٹرول کا وقت نہیں آئے گا۔ ایک سے دوسرا ڈیجیٹل پلیٹ فارم بنے گا اور چلے گا۔ جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا۔
https://twitter.com/x/status/1817462343120400813
سیاست ڈاٹ پی کے پابندیاں لگنے سے پہلے پاکستان کا سب سے بڑا ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم تھا۔ جس دن پابندیاں ختم ہوں گی یہ پلیٹ فارم اپنی سابقہ پوزیشن دوبارہ بحال کرلے گا۔ سیاست ڈاٹ پی کے کی کامیابی پاکستان کے تمام نیوز چینلز ، میڈیا مالکان اینکرز کیساتھ فوج کے لیے بھی ایک سبق ہے۔
پاکستان کے تمام میڈیا ہاوسز سیٹھ کے مفادات کی رکھوالی کرتے ہیں۔ اب چونکہ سیٹھ صاحب پاکستان کی نامی گرامی کاروباری شخصیت ہوتے ہیں اربوں کے مالک ہوتے ہیں مزید کئی ارب کمانا چاہتے ہیں تو کمپنی کی نظروں میں آنا بھی چاہتے ہیں کمپنی سے تحفظ بھی چاہتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں نیوز چینل ان کے لیے پروموشن کا بھی سبب بنتا ہے اور تحفظ کا بھی۔
سیٹھ صاحب جانتے ہیں کہ ریڈ لائن تو دور اگر خاکی لائن کے بھی قریب پھٹکے تو انکے لائسنس ، پرمٹ ، این او سی منسوخ ہونا شروع ہوجائیں گے۔ ان کو “ریاست” کی جو سرپرستی حاصل ہے وہ ختم ہوجائے گی اور ان کا اربوں کا کاروبار مہینوں بلکہ دنوں میں ٹھپ ہوجائے گا۔
سیاست ڈاٹ پی کے کیونکہ کسی سیٹھ کے ہاتھ میں نہیں تھا ، کسی کاروباری کے مفادات کا تحفظ کرنے کو نہیں بنایا گیا تھا ، زیادہ اچھی پی آر مقصد نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے نئی نسل کا ایک آزاد فرد تھا تو اسے نہ اپنی کسی سوسائٹی ، کسی کالج ، کسی بیکری ، کسی کمپنی کو تحفظ دینے کا لالچ تھا نہ کسی کاروبار کے بند ہوجانے کا ڈر۔ یہ چلا اور خوب چلا۔
رجیم چینج کے بعد سے سیاست ڈاٹ پی کے اگر کسی کی خواہش کے مطابق کوئی آزاد سا اردو ہوجاتا تو نہ سیاست ڈاٹ پی کے پر پابندیاں لگتیں نہ اسکی آمدن میں کوئی فرق آتا۔ یہ بھی خوب پھلتا اور پھولتا۔ لیکن جو آزاد سوچ اس کے پیچھے تھی وہ قید ہوجاتی۔
آنے والا دور سیاست ڈاٹ پی کے کا ہے۔ اس جیسے آزاد ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کا ہے۔ ویسے ہی جیسے ٹی وی آنے کے بعد اخبارات کی اہمیت نہ بچی تھی اب ٹی وی چینلز بھی دم توڑ رہے۔ لیکن اس سے وابستہ صحافیوں کو سبق دے کر جارہے ہیں کہ صحافت وہ ہے جو آزاد ذہن سے آزاد سوچ کیساتھ کی جائے۔ کسی سیٹھ کے کاروبار کا تحفظ صحافت نہیں ہے۔
ایک نکتہ درست ہے۔ میڈیا ہاوس کے صحافی کو بھی تنخواہ و آمدن کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کسی بھی دوسرے انسان کو۔ صحافی اگر نوکری نہ کرے گا تو کیا خبر کو کھائے اور چاٹے گا۔ لیکن اب بدلتے دور نے یہ رکاوٹیں بھی ختم کردی ہیں۔ یوٹیوب ، ایکس ، فیس بک سے چند ہزار سے کئی کروڑ ماہانہ کمائے جارہے ہیں۔ اب بھی اگر کوئی سیٹھ کی بندشوں کا غلام رہتا ہے تو اسے پھر اپنی صلاحیت پر ، اپنی خبر پر ، اپنے مواد کے معیار پر شاید بھروسہ نہیں ہے۔
یہی سبق فوج کے لیے بھی ہے۔ کنٹرول کا دور ختم ہوا۔ ایک سیٹھ صاحب پر ایک معمولی نوعیت کا مقدمہ درج ہوا کرتا ، یا انکے کسی کالج کا ایک این او سی منسوخ ہوتا تو وہ فورا لیٹ جاتے۔ آپ نے سیاست ڈاٹ پی کے کو دبانے کی بھرپور کوشش کی۔ اسکی آمدن کروڑوں سے کم ہو کر چند لاکھ تک رہ گئی ہے۔ کیونکہ سیاست ڈاٹ پی کے کے پیچھے بیٹھی آزاد سوچ جانتی ہے کہ کمپنی کا دور ختم ہوا۔ کنٹرول کا دور ختم ہوا۔ اگر چند ماہ یا چند سالوں کے لیے دبانے والوں کی مان لی تو پورا پلیٹ فارم دب جائے گا وہ نہیں کنٹرول ہوا۔ نہ کبھی ہوگا۔
اگر خدانخواستہ کسی بھی طرح سے اسے مینج کر بھی لیا گیا تو پھر بھی سیٹھ کی حکومت کا کمپنی کے کنٹرول کا وقت نہیں آئے گا۔ ایک سے دوسرا ڈیجیٹل پلیٹ فارم بنے گا اور چلے گا۔ جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا۔