mubarak-ho
Senator (1k+ posts)
سیاست پی کے ایک ریاست
اس انجمن کے باسیوں کو آپکے ہم بزم کا سلام
میں جانتا ہوں کہ جو کچھ میں آپکے گوش گزار کرنے جا رہا ہوں اس سے آپکی رواں دواں زندگیوں میں نہ تو کوئی انقلاب آنے والا ہے اور نہ ہی کوئی سونامی آپکی عقل سلیم کے ساحل پہ جوار بھاٹا اٹھانے کی سعی لاحاصل میں سر پٹکے گی - کچھ چاہنے والے واہ واہ کریں گے اور کچھ زیر عتاب رہنے والے "راہ لے اور نکل" سے میری تواضح کریں گے مگر
حال دل سوز جگر نہ بن جاۓ اس لئے زیر لب بڑبڑانے سے بہتر کہ الاعلان بھڑاس نکال کر اپنے نکالے جانے کی راہ استوار کر لی جائے
یوں تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ریاست سیاست پی کے کی نیشنلٹی حاصل کئے ہوئے مگر مسافر کی حیثیت سے میرایہاں آنا جانا کوئی تین برسوں سے ہے- ان تین برسوں میں یہاں کس کس پر کیا کیا بیتا سب نظروں سے گزرا- کون کس کے عتاب کا شکار ہو کر فرار ٹھہرا اور کس کس کے دل ناداں کو اس پر قرار ٹھہرا - کس کے طائر لاہوتی کا نشیمن موڈز کا گنبد ہوا اور کون تھا جو جو یہاں راندہ درگاہ ٹھہرا- سب دیکھا مگر کبھی میدان میں کودنے کی ہمت نہ جتا پایا کہ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی اور مجھ میں ابن بطوطہ سا طویل مسافت کا حوصلہ نہ تھا
اس تمہید میں آپکا تفریحی وقت برباد کرنے کا مقصود یہ تھا کہ جو مشاہدات میں آپ کے حضور پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں وہ طویل المدت ہیں
میں اس فورم کو ایک ریاست کی طرح دیکھتا ہوں کہ جہاں جہاں پناہ بھی ہیں پولیس بھی ہے اشرافیہ بھی اور رعایا بھی
جہاں پناہ سے شروع کرتے ہیں ان کی امان کی پناہ مانگتے ہوئے کہ غداری کے الزام میں اپنے پرکھوں کی طرح میں بھی بنا مقدمہ چلائے تہہ تیغ نہ کر دیا جاؤں
جہاں پناہ کی اس ریاست سے بے پناہ محبت کا اندازہ نظم و ضبط کے قیام کیلئے بنائی گئی موڈز کی فوج دیکھ کر کیا جا سکتا ہے کہ ان کی غیرموجودگی میں یہ ریاست ایمازون کے کسی جنگلی قبیلے کا منظر پیش کر رہی ہوتی اور رعایا جینگا لا لا ہش کا راگ الاپتی وہ بھی پتے باندھ کر - یہ جہاں پناہ کی ہی شب و روز کاوشوں کا شاخسانہ ہے کہ ہمیں تہذیب کے دائرہ کار میں رکھنے کیلئے موڈز کو مجسٹریٹ درجہ اول تک کے اختیارات دے رکھے ہیں کہ آن دی سپاٹ جسٹس فراہم کریں اور چونکہ ریاست میں تعداد اہم ہوتی ہے نہ کہ افراد لہذا جہاں پناہ اپنے دل پر پتھر رکھ کر کسی بھاری بھرکم ہتھوڑے کی کاری ضرب سے توڑنے کا کامیاب مظاہرہ تو کر سکتے ہیں مگر کسی ایرے غیرے اور نتھو خیرے کیلئے ریاستی اصولوں کی خلاف ورزی ہرگزھرگز برداشت نہیں کرسکتے- اللہ ان کی اس سوہنی دھرتی کو سلامت رکھے کہ جس کے دم سے اس کے باسیوں کا وجود ہے ورنہ، میرے منہ میں خاک، ہم اس تاروں کے جہاں میں خاک چھانتے پھرتے اور کوئی پرسان حال نہ ہوتا
ہم ایک معاشرے میں رہنے والے لوگوں میں یکسانیت پیدا نہیں کر سکتے- اسی اصول کے تحت ہمیں چھری تلے آنے کے بعد موڈز کے موڈ کو مورد الزام ٹھہرانے سے قبل ہوش کے ناخن چبانے چاہیں- کیا ہوا جو وہ پولیس میں ہیں --- ہیں تو آخر انسان- کیا ہوا جو انسان ہیں ---- ریاست کے تحفظ اور جہاں پناہ کی محبت میں ڈیولز ایڈووکیٹ کا روپ بھی دھارنا پڑے تو اپنا تن من دھن تیاگ کر مشن امپاسیبل کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر تمغہ شجاعت پاتے ہیں کہ ریاست میں تعداد اہم ہے افراد نہیں
موڈز میں سے بعض تو ایسے مورچہ بند ہیں کہ ریاست یا ریاست کی اشرافیہ کے خلاف بغاوت کی بو سونگھتے ہی انکاونٹر جیسا خطرناک مشن لے کر نکلتے ہیں اور "آو بین کریں" کی شوٹنگ کر کے ہی دم لیتے ہیں- ان کی تعریف کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں - ایسے فرض شناس اور جذبہ ایثار سے لبریز ہیں کہ خود چاہے فاقوں مر جائیں مگر جہاں پناہ کو مکھن کی ترسیل تواتر سے کریں گے اور کیوں نہ کریں کہ خدمت خلق کیلئے درکار طاقت اور اختیار کی راہ انہی کے دم سے ہموار ہے
اب ایسا بھی نہیں کہ موڈز کی مزید اقسام نہیں ہوتی
کچھ ایسے ہیں کہ عوام اور خواص دونوں کو ریاستی اور سیاستی بے رہ روی کا شکار پا کر گوشۂ تنہائی اختیار کرتے ہیں اور لڑی جاؤ تے مری جاؤ کے اصول پر رعایا کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں مگر پھر بھی ہوتے وہ ڈیوٹی پر ہیں
اس ریاست کی اشرافیہ کرۂ انٹرنیٹ پر وہ واحد مخلوق ہے جو اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائز ہے اور کسی بھی شودری مباحثے میں مہمان خصوصی کی نشست کو بھی اپنے لئے قابل توہین گردانتی ہے - ان کے اقوال زریں کم و بیش ہر تھریڈ میں برکت کیلئے شامل ہوتے ہیں تا کہ جاہل، لوزر اور برگر عوام کے نجس و ناپاک خیالات ان کی جدت پسند گنگا میں اشنان کر کے علم کے عرش بریں کی قدم بوسی کے قابل ہو سکیں - مگر عوام اور رعایا تو صاحب شتر بے مہار ہوتی ہے بو ترابی جیسی، تاری جیسی، عاطف جیسی، برسا جیسی، حکایت جنوں جیسی اور مجھ جیسی اجڈھ - سر تسلیم خم کرنے کی بجائےبحث کرنے کی جسارت کرتی ہے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر یقین بھی رکھتی ہے - اب آپ ہی بتائیں کہ کیا یہ اشرف المخلوقات کی توہین نہیں؟ اور کیا یہ قابل گرفت جرم نہیں؟ آن کی آن موڈز اپنی ریاست کے اس اہم ستون کی حفاظت کیلئے نمودار ہوتے ہیں اور----- پھر چراغ کے چراغ گل ہو جاتے ہیں کہ نہ ایف آئی آر کٹتی ہے اور نہ کیس سنا جاتا ہے- نہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ شیرا کس نے لگایا اور ردعمل کہاں سے آیا بس محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر کے فوری انصاف مہیا کیا جاتا ہے جو اب تک کا انتہائی کامیاب طریقہ ہے ریاست کے کن ٹٹوں کو سیدھا کرنے کا اور رعایا پر پولیس کی دھاک بٹھانے کا - یعنی انصاف سے زیادہ موثر ہے کہ افراد کو مثال عبرت بناؤ تا کہ ریاستی اداروں کا نہیں بلکہ عہدداروں کا خوف قائم ہو اور اس سے پہلے کہ قلم اشرافیہ کی شان میں گستاخی کیلئے جنبش پکڑے ایک غیبی آواز سے آپکے ہاتھ تھرتھرا اٹھیں: خبردار بیٹا! جوابی پتھر اٹھایا تو گبھر آ جائے گا
اور اس طرح جاہل عوام قابو میں رہتی ہے کہ ریاست میں تعداد اہم ہوتی ہے نہ کہ افراد- اب نام بوترابی ہو یا سقراط کیا فرق پڑتا ہے
جہاں پناہ! کامیاب ریاست کی تخلیق پر
مبارک ہو - مبارک ہو
سیاست ہے ریاست اپنی پھر بھی لامکاں ٹھہرے
جنبش لب بھی نہیں میسر، ہیں اتنے کڑے پہرے
اس انجمن کے باسیوں کو آپکے ہم بزم کا سلام
میں جانتا ہوں کہ جو کچھ میں آپکے گوش گزار کرنے جا رہا ہوں اس سے آپکی رواں دواں زندگیوں میں نہ تو کوئی انقلاب آنے والا ہے اور نہ ہی کوئی سونامی آپکی عقل سلیم کے ساحل پہ جوار بھاٹا اٹھانے کی سعی لاحاصل میں سر پٹکے گی - کچھ چاہنے والے واہ واہ کریں گے اور کچھ زیر عتاب رہنے والے "راہ لے اور نکل" سے میری تواضح کریں گے مگر
حال دل سوز جگر نہ بن جاۓ اس لئے زیر لب بڑبڑانے سے بہتر کہ الاعلان بھڑاس نکال کر اپنے نکالے جانے کی راہ استوار کر لی جائے
یوں تو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ریاست سیاست پی کے کی نیشنلٹی حاصل کئے ہوئے مگر مسافر کی حیثیت سے میرایہاں آنا جانا کوئی تین برسوں سے ہے- ان تین برسوں میں یہاں کس کس پر کیا کیا بیتا سب نظروں سے گزرا- کون کس کے عتاب کا شکار ہو کر فرار ٹھہرا اور کس کس کے دل ناداں کو اس پر قرار ٹھہرا - کس کے طائر لاہوتی کا نشیمن موڈز کا گنبد ہوا اور کون تھا جو جو یہاں راندہ درگاہ ٹھہرا- سب دیکھا مگر کبھی میدان میں کودنے کی ہمت نہ جتا پایا کہ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی اور مجھ میں ابن بطوطہ سا طویل مسافت کا حوصلہ نہ تھا
اس تمہید میں آپکا تفریحی وقت برباد کرنے کا مقصود یہ تھا کہ جو مشاہدات میں آپ کے حضور پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں وہ طویل المدت ہیں
میں اس فورم کو ایک ریاست کی طرح دیکھتا ہوں کہ جہاں جہاں پناہ بھی ہیں پولیس بھی ہے اشرافیہ بھی اور رعایا بھی
جہاں پناہ سے شروع کرتے ہیں ان کی امان کی پناہ مانگتے ہوئے کہ غداری کے الزام میں اپنے پرکھوں کی طرح میں بھی بنا مقدمہ چلائے تہہ تیغ نہ کر دیا جاؤں
جہاں پناہ کی اس ریاست سے بے پناہ محبت کا اندازہ نظم و ضبط کے قیام کیلئے بنائی گئی موڈز کی فوج دیکھ کر کیا جا سکتا ہے کہ ان کی غیرموجودگی میں یہ ریاست ایمازون کے کسی جنگلی قبیلے کا منظر پیش کر رہی ہوتی اور رعایا جینگا لا لا ہش کا راگ الاپتی وہ بھی پتے باندھ کر - یہ جہاں پناہ کی ہی شب و روز کاوشوں کا شاخسانہ ہے کہ ہمیں تہذیب کے دائرہ کار میں رکھنے کیلئے موڈز کو مجسٹریٹ درجہ اول تک کے اختیارات دے رکھے ہیں کہ آن دی سپاٹ جسٹس فراہم کریں اور چونکہ ریاست میں تعداد اہم ہوتی ہے نہ کہ افراد لہذا جہاں پناہ اپنے دل پر پتھر رکھ کر کسی بھاری بھرکم ہتھوڑے کی کاری ضرب سے توڑنے کا کامیاب مظاہرہ تو کر سکتے ہیں مگر کسی ایرے غیرے اور نتھو خیرے کیلئے ریاستی اصولوں کی خلاف ورزی ہرگزھرگز برداشت نہیں کرسکتے- اللہ ان کی اس سوہنی دھرتی کو سلامت رکھے کہ جس کے دم سے اس کے باسیوں کا وجود ہے ورنہ، میرے منہ میں خاک، ہم اس تاروں کے جہاں میں خاک چھانتے پھرتے اور کوئی پرسان حال نہ ہوتا
ہم ایک معاشرے میں رہنے والے لوگوں میں یکسانیت پیدا نہیں کر سکتے- اسی اصول کے تحت ہمیں چھری تلے آنے کے بعد موڈز کے موڈ کو مورد الزام ٹھہرانے سے قبل ہوش کے ناخن چبانے چاہیں- کیا ہوا جو وہ پولیس میں ہیں --- ہیں تو آخر انسان- کیا ہوا جو انسان ہیں ---- ریاست کے تحفظ اور جہاں پناہ کی محبت میں ڈیولز ایڈووکیٹ کا روپ بھی دھارنا پڑے تو اپنا تن من دھن تیاگ کر مشن امپاسیبل کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر تمغہ شجاعت پاتے ہیں کہ ریاست میں تعداد اہم ہے افراد نہیں
موڈز میں سے بعض تو ایسے مورچہ بند ہیں کہ ریاست یا ریاست کی اشرافیہ کے خلاف بغاوت کی بو سونگھتے ہی انکاونٹر جیسا خطرناک مشن لے کر نکلتے ہیں اور "آو بین کریں" کی شوٹنگ کر کے ہی دم لیتے ہیں- ان کی تعریف کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں - ایسے فرض شناس اور جذبہ ایثار سے لبریز ہیں کہ خود چاہے فاقوں مر جائیں مگر جہاں پناہ کو مکھن کی ترسیل تواتر سے کریں گے اور کیوں نہ کریں کہ خدمت خلق کیلئے درکار طاقت اور اختیار کی راہ انہی کے دم سے ہموار ہے
اب ایسا بھی نہیں کہ موڈز کی مزید اقسام نہیں ہوتی
کچھ ایسے ہیں کہ عوام اور خواص دونوں کو ریاستی اور سیاستی بے رہ روی کا شکار پا کر گوشۂ تنہائی اختیار کرتے ہیں اور لڑی جاؤ تے مری جاؤ کے اصول پر رعایا کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں مگر پھر بھی ہوتے وہ ڈیوٹی پر ہیں
اس ریاست کی اشرافیہ کرۂ انٹرنیٹ پر وہ واحد مخلوق ہے جو اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائز ہے اور کسی بھی شودری مباحثے میں مہمان خصوصی کی نشست کو بھی اپنے لئے قابل توہین گردانتی ہے - ان کے اقوال زریں کم و بیش ہر تھریڈ میں برکت کیلئے شامل ہوتے ہیں تا کہ جاہل، لوزر اور برگر عوام کے نجس و ناپاک خیالات ان کی جدت پسند گنگا میں اشنان کر کے علم کے عرش بریں کی قدم بوسی کے قابل ہو سکیں - مگر عوام اور رعایا تو صاحب شتر بے مہار ہوتی ہے بو ترابی جیسی، تاری جیسی، عاطف جیسی، برسا جیسی، حکایت جنوں جیسی اور مجھ جیسی اجڈھ - سر تسلیم خم کرنے کی بجائےبحث کرنے کی جسارت کرتی ہے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر یقین بھی رکھتی ہے - اب آپ ہی بتائیں کہ کیا یہ اشرف المخلوقات کی توہین نہیں؟ اور کیا یہ قابل گرفت جرم نہیں؟ آن کی آن موڈز اپنی ریاست کے اس اہم ستون کی حفاظت کیلئے نمودار ہوتے ہیں اور----- پھر چراغ کے چراغ گل ہو جاتے ہیں کہ نہ ایف آئی آر کٹتی ہے اور نہ کیس سنا جاتا ہے- نہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ شیرا کس نے لگایا اور ردعمل کہاں سے آیا بس محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر کے فوری انصاف مہیا کیا جاتا ہے جو اب تک کا انتہائی کامیاب طریقہ ہے ریاست کے کن ٹٹوں کو سیدھا کرنے کا اور رعایا پر پولیس کی دھاک بٹھانے کا - یعنی انصاف سے زیادہ موثر ہے کہ افراد کو مثال عبرت بناؤ تا کہ ریاستی اداروں کا نہیں بلکہ عہدداروں کا خوف قائم ہو اور اس سے پہلے کہ قلم اشرافیہ کی شان میں گستاخی کیلئے جنبش پکڑے ایک غیبی آواز سے آپکے ہاتھ تھرتھرا اٹھیں: خبردار بیٹا! جوابی پتھر اٹھایا تو گبھر آ جائے گا
اور اس طرح جاہل عوام قابو میں رہتی ہے کہ ریاست میں تعداد اہم ہوتی ہے نہ کہ افراد- اب نام بوترابی ہو یا سقراط کیا فرق پڑتا ہے
جہاں پناہ! کامیاب ریاست کی تخلیق پر
مبارک ہو - مبارک ہو
سیاست ہے ریاست اپنی پھر بھی لامکاں ٹھہرے
جنبش لب بھی نہیں میسر، ہیں اتنے کڑے پہرے
Last edited: