سیاست،مخالفین کو مکمل طور پر ختم کرنے کی جنگ بن چکی،اسد عمر

5cb896e9e5b1d.jpg


جب سیاسی مخالفین ایسے دشمن بن جائیں جنہیں بے رحمی سے کچلنا لازم ہو، تو جمہوریت کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ اسد عمر کا چارٹر آف ڈیموکریسی 2.0 کے عنوان سے آرٹیکل

پاکستان ایک کثیر النسلی ملک ہے جو جمہوری عمل کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ یہ تبھی ترقی کر سکتا ہے جب یہاں ایک مضبوط آئینی جمہوریت ہو۔ آج پاکستان کی صورتحال دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ ہم نہ صرف اس مقصد سے بہت دور ہیں بلکہ وقت کے ساتھ مزید پیچھے جا رہے ہیں۔ اگر ہم نے فوری طور پر درست سمت میں قدم نہ اٹھایا تو قومی مفادات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگرچہ ایسی صورتحال سے نکلنا ممکن ہو سکتا ہے، مگر یہ عمل طویل اور مہنگا ثابت ہوگا۔ ہم پہلے ہی دنیا اور اپنے خطے کے دیگر ممالک سے پیچھے رہ گئے ہیں اور مزید تاخیر یا نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

ہماری بہتری اور بحالی کے لیے کچھ بنیادی اصولوں کی پابندی ضروری ہے۔ جدید کثیر النسلی معاشرے میں، قوم کو ایک متفقہ معاہدے کی ضرورت ہوتی ہے جو یہ طے کرے کہ ہمارا اجتماعی نظام کیسے چلے گا اور ریاست و شہریوں کے حقوق و فرائض کیا ہوں گے۔ یہ معاہدہ ایک متفقہ آئین کی صورت میں طے ہوتا ہے جو عوام کے منتخب نمائندے بناتے اور منظور کرتے ہیں۔ جب ہم آئین سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو شہریوں اور ریاست کے درمیان رشتہ کمزور ہو جاتا ہے کیونکہ ہم ایسے اصولوں کے تحت حکمرانی کی کوشش کرتے ہیں جن پر عوام کی رضا مندی نہیں ہوتی۔

اسی طرح، حکمرانوں کا انتخاب عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ جب غیر آئینی طریقے اختیار کیے جاتے ہیں اور عوام کی حقیقی پسند کے برعکس نمائندے مسلط کیے جاتے ہیں، تو شہریوں اور ریاست کے درمیان اعتماد ٹوٹ جاتا ہے، جو کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ جب عوام کو ان کی مرضی کے خلاف حکمرانی دی جاتی ہے تو وہ احتجاج کرتے ہیں، جس کے جواب میں ریاستی ادارے جبر کا سہارا لیتے ہیں، یوں یہ فاصلہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح کا چکر جاری رہا تو ریاست کے بنیادی ڈھانچے کو سنگین خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ آج ہم خود کو اسی خطرناک چکر میں پھنسا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

ایک آئینی جمہوریت تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب ایگزیکٹو (انتظامیہ) پر چیک اینڈ بیلنس موجود ہو۔ ایک غیر جانبدار اور آزاد عدلیہ کامیاب جمہوریت کے لیے لازمی ہے تاکہ وہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے اور طاقتور طبقے کی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ نہ بنے۔ بدقسمتی سے، ہماری سیاسی قیادت بار بار سیاسی تنازعات کو پارلیمنٹ میں حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ نتیجتاً، تمام پیچیدہ سیاسی معاملات عدالتوں میں لے جائے جاتے ہیں، جس سے عدلیہ کو سیاست میں ملوث کر دیا جاتا ہے اور عدالتی فیصلے بھی سیاسی بنیادوں پر تقسیم نظر آتے ہیں۔ مزید یہ کہ، بار بار فوجی مداخلت اور اسٹیبلشمنٹ کی عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی خواہش نے عدلیہ کو مزید کمزور کیا ہے۔

ایک فعال جمہوریت کے لیے آزادیٔ اظہار بھی بنیادی ضرورت ہے۔ 2000ء کی دہائی کے اوائل میں میڈیا کو کسی حد تک آزادی ملی تھی، لیکن حالیہ برسوں میں یہ آزادی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر آزادیٔ اظہار اور جھوٹی خبروں و بہتان تراشی کے درمیان توازن پیدا کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ہم ایک طرف حقیقی آزادیٔ اظہار کو دبانے میں مصروف ہیں تو دوسری جانب جھوٹی خبروں اور کردار کشی کو روکنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

موجودہ صورتحال کی ایک بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے درمیان تمام سیاسی روایات کا مکمل خاتمہ ہے۔ جمہوری مقابلے کے بجائے، سیاست اب مخالفین کو مکمل طور پر ختم کرنے کی جنگ بن چکی ہے۔ ایک جائز جمہوری مقابلے سے ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو مکمل تباہ کرنے کے درپے ہیں۔جب ہم سیاسی حریفوں کو دشمن سمجھنے لگتے ہیں، جنہیں ہر قیمت پر کچلنا ضروری ہو، تو جمہوریت کا نظام نہیں چل سکتا۔ تمام سیاسی مکالمہ ختم ہو چکا ہے، اور پارلیمان اب وہ فورم نہیں رہا جہاں سیاسی اختلافات کو حل کر کے اتفاقِ رائے پیدا کیا جا سکے۔ اس سیاسی انتشار نے نہ صرف جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اس نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھی سیاست میں مداخلت کا موقع فراہم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے سیاسی عمل اکثر مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں چلا جاتا ہے

یہ صورتحال مزید نہیں چل سکتی۔ تمام لوگ جو آئین اور عوام کی رائے کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، وہ ملکی سیاسی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ اس دلدل سے نکلنے کا راستہ نکالے۔ جب تک فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی اس حل کو قبول نہ کرے، کوئی مستقل حل نہیں نکل سکتا، لیکن قیادت کی ذمہ داری سیاستدانوں پر ہے۔ انہیں تعطل ختم کر کے بیٹھنا ہوگا اور ایک نیا چارٹر آف ڈیموکریسی ترتیب دینا ہوگا، جو ہماری جمہوریت کو لاحق تمام بنیادی مسائل پر بات کرے اور سیاسی تنازعات کو حل کرنے کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کرے۔

موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کے نئے اصول طے کریں اور خاص طور پر احتساب کے معاملے پر اتفاقِ رائے پیدا کریں۔ اس کے ساتھ ہی، فوج کو سیاست سے مستقل طور پر دور رکھنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ جمہوری نظام کسی بیرونی مداخلت کے بغیر چل سکے۔ اس سلسلے میں 26ویں آئینی ترمیم کے اثرات کا بھی تفصیلی جائزہ لیا جانا چاہیے تاکہ عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کی ضرب نہ لگے۔

اسی طرح، اظہارِ رائے کی آزادی کو یقینی بنانا ہوگا، جس میں نہ صرف میڈیا اور عوام کو آزادی حاصل ہو بلکہ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں اور بہتان تراشی کے خلاف بھی متوازن قانون سازی کی ضرورت ہے۔ فوجی عدالتوں کے اختیارات اور ان کے دائرہ کار پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جا سکے اور ان عدالتوں کا استعمال صرف مخصوص حالات تک محدود رہے۔ مزید برآں، سیاسی قیدیوں کے معاملات اور سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مقدمات کے تصفیے کے لیے ایک شفاف طریقہ کار وضع کرنا ہوگا تاکہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔

الیکشن کمیشن کی غیرجانبدار تشکیل اور آئندہ انتخابات کی شفافیت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس پر تمام جماعتوں کو متفق ہونا ہوگا تاکہ انتخابات پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ اس کے ساتھ ہی، 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کے لیے تمام فریقین کو متفقہ طریقہ کار اپنانا ہوگا، تاکہ کسی فریق کے ساتھ زیادتی نہ ہو اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔

جمہوریت کی جڑوں کو مزید مضبوط بنانے کے لیے مقامی حکومتوں کے نظام کو آئینی تحفظ دینا ہوگا تاکہ عوام کو نچلی سطح پر فیصلہ سازی میں حقیقی شرکت حاصل ہو۔ اسی طرح، مشترکہ مفادات کونسل (CCI) کے کردار کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وفاق اور صوبوں کے درمیان بہتر ہم آہنگی پیدا کی جا سکے اور 18ویں آئینی ترمیم کے بعد درپیش مسائل کو بہتر انداز میں حل کیا جا سکے۔

بلوچستان میں عوامی مسائل کو سیکیورٹی اقدامات کے بجائے سیاسی اور انتظامی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا، تاکہ وہاں کے عوام کا احساسِ محرومی کم ہو اور وہ قومی دھارے میں شامل ہوں۔ اسی طرح، فاٹا کے انضمام کے بعد وہاں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کا مکمل جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ ان علاقوں کے عوام کو بھی قومی ترقی میں برابر کا حصہ مل سکے۔

آخر میں، گلگت بلتستان کے عوام کو مزید اختیارات دینا ہوں گے اور ان کے معاملات میں انہیں زیادہ شمولیت دینی ہوگی تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں اور اپنے مستقبل پر اختیار حاصل کر سکیں۔ ان تمام نکات پر قومی سطح پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ اگر آج بھی ہم نے اپنی ذمہ داری نہ نبھائی تو ملکی بقا کو درپیش خطرات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔

یہ صرف چند تجاویز ہیں جو قومی سیاسی اتفاقِ رائے کی متقاضی ہیں۔ جب سیاسی جماعتیں بیٹھیں گی تو وہ ان میں کمی بیشی کر سکتی ہیں، اور کچھ فوری حل طلب مسائل کو پہلے حل کر کے باقی کو بعد میں حل کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔

مجھے معلوم ہے کہ زیادہ تر لوگ کہیں گے کہ یہ سب صرف ایک خواہش ہے جو کبھی حقیقت نہیں بن سکتی۔ لیکن میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر ہم نے مل کر اس پر عمل کرنے کی ہمت نہ کی تو ہم ٹائیٹینک کی طرح برفانی تودے کی طرف جا رہے ہیں۔ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کی خاطر ہمیں اپنی خودغرضی، انا اور محدود سوچ کو ترک کرنا ہوگا اور قوم کی توقعات پر پورا اترنا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کر سکے تو یہ قوم ارشد ندیم کے نیزے کی طرح بلند ہو سکتی ہے، جسے دنیا نے حیرت اور تعریف کے ساتھ دیکھا تھا۔
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
Charter of democracy democracy kaa paas rakhnay waloun sey kiya jata hai choroun, daakoun, rassa geeroun aur jaraim pesha logoun sey nahi.
 

Back
Top