Rajarawal111
جانی اور راجہ بھائی صاحبان۔
میں کوئی آپ لوگوں سے زیادہ پڑھا لکھا بندہ نہی ہوں اور نہ ہی یہ پتھر پر لکیر ہے کہ جو میں نے لکھ دیا اس میں غلطی نہ ہو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم لوگوں کی انفارمیشن تک رسائی یا تو میڈیا کی حد تک محدود ہوتی ہے یا پھر نیٹ پر سٹیٹ بنک اور ورلڈ بنک جیسے اداروں اور وزارتوں کی ویب سایٹس وغیرہ سے ملنے والی معلومات تک۔
اسی لئے ایم فائیو اور ایم سِکس پر اٹھنے والے اخراجات میں پہاڑ جیسے بڑے فرق بارے پوسٹ لکھتے ہوئے بھی میں نے کوئی حتمی سٹیٹمنٹ دینے کی بجائے مسلم لیگ ن کے سپورٹرز سے سوال پوچھا ہے کہ یا تو اس پر سوچ بچار کریں یا پھر اس کا جواب دیں کہ یہاں فرق دو چار ارب روپئے کا نہی بلکہ پورے پونےدو ارب ڈالر یعنی ۳۰۰ ارب روپئے کا ہے۔
راجہ صاحب نے اس کی کوئی ٹھوس وجوہات نہی بتائیں لیکن قیاس آرائی کی ہے کہ ہو سکتا ہے سکھر حیدرآباد موٹر وے کی ایکنک سے دو روز قبل منظور ہونے والی قیمت میں زمین کی قیمت شامل نہ کی گئی ہو۔ یا یہ کہ ہو سکتا ہے یہ موٹر وے انتہائی گھٹیا کوالٹی کی بنائی جارہی ہو۔
۔
اب اگر زمین کی قیمت بارے بات کی جائے تو ایسا کبھی ہو نہی سکتا کہ ایکنک ایک پراجیکٹ منظور کرے اور اس کے ایک کمپوننٹ کی قیمت اس ٹوٹل میں شامل نہ ہو۔ اگر کوئی ایسا طریقہ کار موجود ہوتا تو پھر پہلے بننے والی مہنگی موٹر وے ایم فائیو میں بھی لازما اپروول کا وہی طریقہ کار ہونا لازمی ہے۔ لیکن چلیں اگر یہ فرض بھی کر لیں کہ موجودہ حکومت کوئی ڈرامہ بازی کرتے ہوئے زمین کی خریداری کو الگ رکھ رہی ہو تو تب بھی یہ عرض کرتا چلوں کہ سکھر سے حیدرآباد موٹروے کی زمین کی خریداری ہو چکی ہے اور اس کی قیمت اکاون ارب روپئیے سندھ حکومت کو ادا بھی کردی گئی ہے۔ اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ جس گھپلے کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں وہ تین سو ارب روپئیے کا ہے اکاون ارب روپئے کا نہی۔
۔
محترم راجہ صاحب کا دوسرا قیاس کوالٹی پر ہے۔ تو یہاں میری گزارش یہ ہے کہ لاہور سے ملتان ، پنڈٰ بٹھیاں سے عبدالحکیم، اسلام آباد سے ڈیرہ اسماعیل خان، ہزارہ موٹروے، سوات موٹر وے اور کراچی حیدرآباد موٹر وے بھی ان ہی مقامی کمپنیوں نے بنائی ہیں جو کہ اس نئی سکھر حیدرآباد موٹر وے کو بنانے جا رہی ہیں۔ یہاں ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ سکھر حیدرآباد
موٹروے بوٹ یعنی بلڈ آپریٹ اینڈ ٹرانسفر کے تحت پرائیویٹ کمپنیوں کی ۲۵ سالہ ملکیت پر بن رہی ہیں کہ جس میں گورنمنٹ کا حصہ پچاس فیصد تک ہو گا۔ تو عرض ہے کہ پرائیویٹ کمپنیاں ایسے کوالٹی کے گھپلے نہی ہونے دیتیں جو کہ گورنمنٹ کے پراجیکٹس میں ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر کوالٹی میں کمی ہوگی تو اس پرائیویٹ کمپنی ہی کو ۲۵ سال تک مینٹیننس کے اخراجات بھی برداشت کرنے پڑیں گے۔ ویسے بھی پاکستان میں موٹر ویز کے انجنئیرنگ سٹینڈرڈز اب طے ہو چکے ہیں اور ایسا نہی ہے کہ ملک میں یہ پہلی موٹر وے بن رہی ہے۔ اور سوچنے کا مقام یہ بھی ہے کہ ۳۰۰ ارب کوئی کم رقم نہی ہے اس رقم میں ایسی ہی دو مزید موٹر ویز بن سکتی ہیں۔ اب ایسا تو ہو نہی سکتا کہ پی ٹی آئی حکومت کچی زمین پر کالا رنگ کرکے ہمیں بہلانے جا رہی ہو کہ اے لو پھڑو نئے پاکستان کی نئی موٹر وے۔ باقی واللہ و عالم
۔
رہی یہ بات کہ اگر اتنی بڑی کرپشن ہوئی تھی نیب اس پر تفتیش کیوں نہی کرتا تو بہت ہی مودبانہ عرض ہے کہ ۲۰۱۹ میں موجودہ حکومت نے چینی حکومت کے ساتھ سی پیک پراجیکٹس میں سابقہ حکومت اور چینی کمپنیوں کی ملی بھگت سے ہونے والی کرپشن اور غیر معقول معائدوں بارے ایشوز اٹھائے تھے جس پر چینی حکومت کافی حد تک ناراض دکھائی دی تھی اور کچھ عرصہ کے لئے سی پیک کی رفتار بھی کم ہو گئی تھی۔ چینی حکام کسی بھی صورت چینی پراڈکٹس یا پراجیکٹس پر کرپشن کا الزام قبول کرنے کو تیار نہی ہوتے کیونکہ اس سے ان کی انٹرنیشنل ریپوٹیشن کا مسئلہ اٹھتا ہے۔ ہاں صرف ایک کمپنی پر انہوں نے تفتیش کی تھی اور اسے چینی حکومت کی طرف سے سزا بھی دی گئی تھی۔ اس واقع کے بعد ہی چینیوں نے صرف پاکستان آرمی کے ساتھ ڈیل کرنے کا مدعا سنایا تھا اور سلیم باجوہ کو اتھارٹی دلوائی تھی۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنہوں نے سی پیک پراجیکٹس میں گھپلے کر لئے ان کو مکمل ایمونٹی حاصل ہے کہ آرمی کی چینی حکام سے ڈیل کے تحت پاکستان ان پراجیکٹس پر نیب وغیرہ کے ذریعے تحقیق نہی کر سکتا بلکہ جو بھی ایسا مسئلہ ہوگا اسے آرمی ہی چینی حکام کے سامنے اٹھانے کی مجاز ہو گی۔ ویسے بھی سی پیک مکمل طور پر آرمی کے تحت چل رہا ہے۔ حکومت کا اس میں حصہ صرف اتنا ہے کہ نئے پراجیکٹ معائدے حکومت سوچ بچار کر کر سکتی ہے۔ اسی لئے توایم ایل ون ابھی تک لٹکا ہوا ہے کیونکہ حکومتِ پاکستان چینیوں کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز ماننے کو تیار نہی ہے۔
یہ بھی بتا دوں کہ میرے ایک دوست کے حکومتِ پاکستان کے ساتھ تقریبا چھ سو ملین ڈالر کے بائیو ٹیک پراجیکٹس ہیں اور پراجیکٹس میں چینی بھی شامل ہیں۔ اس کے مطابق چینی کمپنیوں کا تین فیصد کرپشن کا ریٹ ایک مسلمہ حقیقت ہے جو کہ کوئی بات کرنے سے پہلے ہی آپ کو معلوم ہوتا ہے بات اس سے زیادہ کی ہو سکتی ہے لیکن کم کی نہی۔