سکھر ،حیدرآباد موٹروے سمیت اہم ترقیاتی منصوبوں کی منظوری

sindh-motway.jpg


حکومت نے سکھر حیدرآباد موٹروے، راولپنڈی رنگ روڈ اور لئی ایکسپریس وے سمیت متعدد ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دیدی ہے۔

تفصیلات کے مطابق ان منصوبوں کی منظوری قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی (ایکنک) نے دی جس کا اجلاس وزیراعظم عمران خان کے مشیر خزانہ شوکت ترین کی سربراہی میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں دیگر منصوبوں کے منظوری کے علاوہ تھل کینال منصوبے کی منظوری کو ایک بار پھر سے کھٹائی میں ڈال دیا گیاہے اور اس معاملے پر سندھ کی سفارشات کو شامل کرنے، منصوبے کے تکنیکی پہلوؤں پر غور کرنےاور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

جن منصوبوں کی منظوری دی گئی ان میں سب سے اہم سکھر حیدرآباد موٹروے کا منصوبہ ہے جو 306 کلومیٹر چھ رویہ شاہراہ پر مشتمل ہے، اس منظوبے پر 306 ارب روپے سے زائد کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ اسے بلٹ آپریٹ بنیادوں پر مکمل کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

دیگر منصوبوں میں راولپنڈی رنگ روڈ کا منصوبہ شامل ہے جس پر23 ارب60 کروڑ روپے لاگت آئے گی اور 24 ارب96 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہونے والےراولپنڈی لئی ایکسپریس وے منصوبے کی بھی منظوری دی گئی۔

ایکنک نے اجلاس میں جنوبی پنجاب کیلئے غربت مکاؤ منصوبے کی بھی منظوری دی جس میں جنوبی پنجاب کے 10 اضلاع کیلئے 25 ارب24 کروڑ روپے مالیت کے پروگرام کی منظوری دی گئی ہے۔
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
بھئی یہ سکھر حیدر آباد کو اب بنوا بھی دو۔۔ کیا مزاق لگا رکھا ہے۔۔
اور کتنی بار منظوریاں کراوگے​
 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
Yes not only motorways but all expressways, national highways and strategic roads that come under the jurisdiction of NHA
Yes you are right….Here in Canada too, all national and inter-provincial highways are the property of the federal government and only local and provincial roads are the responsibility of the provincial government.
Even some of the provincial roads are partially funded by the federal government if requested by the province.
 

Shahid Abassi

Chief Minister (5k+ posts)
سکھر حیدرآباد موٹر وے چھ لین موٹر وے ہے جس کی لمبائی تین سو چھ کلو میٹر ہے۔ اب مزے کی بات بھی سن لیں۔
اس سیکشن کی قیمت ۵۰۔۱۹۱ ارب روپئے ہے یعنی ۱۰۷۵ ملین ڈالرز۔ یہ بنا ساڑھے تین ملین ڈالر فی کلومیٹر۔
اس سے پہلے ملتان سے سکھر تک ۳۹۲ کلومیٹر ۲۹۵۰ ملین ڈالر کی بنی تھی جو کہ فی کلومیٹر ساڑھے سات ملین ڈالر ہے۔
۔
اب کوئی نونی ہمیں یہ سمجھائے کہ جو موٹر وے اب ساڑھے تین ملین ڈالر فی کلومیٹر سے بن رہی ہے وہی موٹر وے آل شریف نے پانچ سال پہلے ساڑھے سات ملین فی کلومیٹر کے حساب سے کیسے بنائی تھی۔ حالنکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ انفلیشن کی وجہ سے اب فی کلومیٹر قیمت ساڑھے آٹھ ملین فی کلو میٹر تک پہنچ چکی ہوتی لیکن یہ پی ٹی آئی والوں کے پاس کونسی گیدڑ سنگھی ہے کہ یہ وہی چھ لین کی موٹر وے ساڑھے تین ملین فی کلومیٹر پہ بنانے کی منظوری دے رہے ہیں؟؟
کیا کوئی نونی یہ سمجھا سکتا ہے۔ یا پھر یہ بتا دے کہ اس وقت ہر کلومیٹر کے چار ملین ڈالر کس کی جیب میں گئے؟
اس کا بس پورا حساب دے دو کہ شریفوں نے کتنے کھائے، کسی جنرل نے کتنے اور چینیوں نے اس حرام زدگی کا حصہ بننے کے لئے کیا کمیشن لیا؟؟ اگر اب ساڑھے تین ملین میں بن رہی ہے تو پانچ سال قبل تو یہ تین ملین ڈالر فی کلومیٹر میں بننی چاہیئے تھی۔ تو ثابت یہ ہوا کہ فی کلو میٹر ساڑھے چار ملین کھایا گیا جو کہ ۳۹۲ کلومیٹر کا پونے دو ارب ڈالر کا گھپلا بنتا ہے۔
اور یاد رکھیں یہ تین ارب ڈالر کا ٹھیپہ چین سے قرض میں ہم پر موجود ہے، ادائیگی تک سود کے ساتھ یہ چار ارب ڈالر کا ابلتا ہوا آلو قوم کی پچھاڑی پر رکھا جا چکا ہوگا جبکہ ہمارا اصل خرچ صرف سوا ارب کا بنتا تھا۔
 
Last edited:

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
Rajarawal111
راجے اسکا جواب تو دینا۔۔
یا اب بھی روتا رہے گا اس حکومت کی کارگرگی پر۔۔۔
جبکہ اصل تباہیاں پچھلے مچاچکے ہیں۔
یاد رہے یہ پوسٹ شاہد بھائی نے کی ہے ۔۔ کسی للو پنجو نے نہیں۔۔


Shahid Abassi
میری رائے میں اگر آج پانچ سال بعد یہ موٹر وے اسی پرانے ریٹ پر بھی بنتی توبھی سستی تھی۔۔ مگر پرانے کی آدھی قیمت پر وہ بھی پانچ سال بعد ۔۔۔یقینا یہ کسی عجوبے سے کم نہیں۔۔
اللہ ایمانداری کا صلہ ضرور دیتا ہے۔۔ اور بے ایمانوں کو در بہ در ضرور کرتا ہے۔۔۔۔
یہی اسکا قانون ہے۔
سکھر حیدرآباد موٹر وے چھ لین موٹر وے ہے جس کی لمبائی تین سو چھ کلو میٹر ہے۔ اب مزے کی بات بھی سن لیں۔
اس سیکشن کی قیمت ۵۰۔۱۹۱ ارب روپئے ہے یعنی ۱۰۷۵ ملین ڈالرز۔ یہ بنا ساڑھے تین ملین ڈالر فی کلومیٹر۔
اس سے پہلے ملتان سے سکھر تک ۳۹۲ کلومیٹر ۲۹۵۰ ملین ڈالر کی بنی تھی جو کہ فی کلومیٹر ساڑھے سات ملین ڈالر ہے۔
۔
اب کوئی نونی ہمیں یہ سمجھائے کہ جو موٹر وے اب ساڑھے تین ملین ڈالر فی کلومیٹر سے بن رہی ہے وہی موٹر وے آل شریف نے پانچ سال پہلے ساڑھے سات ملین فی کلومیٹر کے حساب سے کیسے بنائی تھی۔ حالنکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ انفلیشن کی وجہ سے اب فی کلومیٹر قیمت ساڑھے آٹھ ملین فی کلو میٹر تک پہنچ چکی ہوتی لیکن یہ پی ٹی آئی والوں کے پاس کونسی گیدڑ سنگھی ہے کہ یہ وہی چھ لین کی موٹر وے ساڑھے تین ملین فی کلومیٹر پہ بنانے کی منظوری دے رہے ہیں؟؟
کیا کوئی نونی یہ سمجھا سکتا ہے۔ یا پھر یہ بتا دے کہ اس وقت ہر کلومیٹر کے چار ملین ڈالر کس کی جیب میں گئے؟
اس کا بس پورا حساب دے دو کہ شریفوں نے کتنے کھائے، کسی جنرل نے کتنے اور چینیوں نے اس حرام زدگی کا حصہ بننے کے لئے کیا کمیشن لیا؟؟ اگر اب ساڑھے تین ملین میں بن رہی ہے تو پانچ سال قبل تو یہ تین ملین ڈالر فی کلومیٹر میں بننی چاہیئے تھی۔ تو ثابت یہ ہوا کہ فی کلو میٹر ساڑھے چار ملین کھایا گیا جو کہ ۳۹۲ کلومیٹر کا پونے دو ارب ڈالر کا گھپلا بنتا ہے۔
اور یاد رکھیں یہ تین ارب ڈالر کا ٹھیپہ چین سے قرض میں ہم پر موجود ہے، ادائیگی تک سود کے ساتھ یہ چار ارب ڈالر کا ابلتا ہوا آلو قوم کی پچھاڑی پر رکھا جا چکا ہوگا جبکہ ہمارا اصل خرچ صرف سوا ارب کا بنتا تھا۔
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
Rajarawal111
راجے اسکا جواب تو دینا۔۔
یا اب بھی روتا رہے گا اس حکومت کی کارگرگی پر۔۔۔
جبکہ اصل تباہیاں پچھلے مچاچکے ہیں۔
یاد رہے یہ پوسٹ شاہد بھائی نے کی ہے ۔۔ کسی للو پنجو نے نہیں۔۔



Shahid Abassi
میری رائے میں اگر آج پانچ سال بعد یہ موٹر وے اسی پرانے ریٹ پر بھی بنتی توبھی سستی تھی۔۔ مگر پرانے کی آدھی قیمت پر وہ بھی پانچ سال بعد ۔۔۔یقینا یہ کسی عجوبے سے کم نہیں۔۔
اللہ ایمانداری کا صلہ ضرور دیتا ہے۔۔ اور بے ایمانوں کو در بہ در ضرور کرتا ہے۔۔۔۔
یہی اسکا قانون ہے۔
سکھر حیدرآباد موٹر وے چھ لین موٹر وے ہے جس کی لمبائی تین سو چھ کلو میٹر ہے۔ اب مزے کی بات بھی سن لیں۔
اس سیکشن کی قیمت ۵۰۔۱۹۱ ارب روپئے ہے یعنی ۱۰۷۵ ملین ڈالرز۔ یہ بنا ساڑھے تین ملین ڈالر فی کلومیٹر۔
اس سے پہلے ملتان سے سکھر تک ۳۹۲ کلومیٹر ۲۹۵۰ ملین ڈالر کی بنی تھی جو کہ فی کلومیٹر ساڑھے سات ملین ڈالر ہے۔
۔
اب کوئی نونی ہمیں یہ سمجھائے کہ جو موٹر وے اب ساڑھے تین ملین ڈالر فی کلومیٹر سے بن رہی ہے وہی موٹر وے آل شریف نے پانچ سال پہلے ساڑھے سات ملین فی کلومیٹر کے حساب سے کیسے بنائی تھی۔ حالنکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ انفلیشن کی وجہ سے اب فی کلومیٹر قیمت ساڑھے آٹھ ملین فی کلو میٹر تک پہنچ چکی ہوتی لیکن یہ پی ٹی آئی والوں کے پاس کونسی گیدڑ سنگھی ہے کہ یہ وہی چھ لین کی موٹر وے ساڑھے تین ملین فی کلومیٹر پہ بنانے کی منظوری دے رہے ہیں؟؟
کیا کوئی نونی یہ سمجھا سکتا ہے۔ یا پھر یہ بتا دے کہ اس وقت ہر کلومیٹر کے چار ملین ڈالر کس کی جیب میں گئے؟
اس کا بس پورا حساب دے دو کہ شریفوں نے کتنے کھائے، کسی جنرل نے کتنے اور چینیوں نے اس حرام زدگی کا حصہ بننے کے لئے کیا کمیشن لیا؟؟ اگر اب ساڑھے تین ملین میں بن رہی ہے تو پانچ سال قبل تو یہ تین ملین ڈالر فی کلومیٹر میں بننی چاہیئے تھی۔ تو ثابت یہ ہوا کہ فی کلو میٹر ساڑھے چار ملین کھایا گیا جو کہ ۳۹۲ کلومیٹر کا پونے دو ارب ڈالر کا گھپلا بنتا ہے۔
اور یاد رکھیں یہ تین ارب ڈالر کا ٹھیپہ چین سے قرض میں ہم پر موجود ہے، ادائیگی تک سود کے ساتھ یہ چار ارب ڈالر کا ابلتا ہوا آلو قوم کی پچھاڑی پر رکھا جا چکا ہوگا جبکہ ہمارا اصل خرچ صرف سوا ارب کا بنتا تھا۔
جانی میں اڈمن کو شرمندہ کرنے کے جرم میں بین ہوا ہوں - یہ تحریر ماڈریٹر کی اپروول کے بعد پوسٹ ہو گی -شاید دو تین دن لگ جایں

بیشک شاہد صاحب اس فورم کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوے ممبر ہیں - میں نے ہمیشہ ان سے بات کر کے کچھ نہ کچھ سکھا ہے - ان کے ان فگرز کو میں کبھی چیلنج نہیں کروں گا - بلکل فی کلو میٹر اخراجات ایسے ہی ہونے ہیں - اور نہ ہی میں یہ کہوں گا کہ کرپشن نہیں ہوئی

لیکن یہ ایک سپرفشل کہانی ہے - اس میں لینڈ اکویزشن کا کوی ذکر نہیں - اور سب سے بڑی بات جگر جانی تمہارے لئے رڑی زمین پر ایشفالٹ کی لیپ ڈال بننے والی چیز سڑک کہلا سکتی ہے - اصل میں موٹر ویز کے کچھ انجینرنگ سپیکس ہوتے ہیں جن کو نکال کر اپ ہر چیز سستی کر سکتے ہو لیکن اس کا خمیازہ بعد میں بھگتنا پڑتا ہے - میں ایک مثال دیتا ہوں

٢٠١٦ میں عمران خان نے پھڑ ماری تھی کہ باب پشاور ہم نے لاہور انٹرچینج سے آدھی (سقیر فٹ) قیمت پر بنایا ہے - میرے کان یہ بات سن کر کھڑے ہو گئے - میں نے سوچا باقی تو عمران خان ہوائی چھوڑتا ہے لیکن اب تو فگر بھی سامنے ہیں - اسے دیکھنا چاہیے - میں نے اپنے ایک سول انجینیر دوست سے دونوں پروجیکٹس کے انجینیرنگ سپکس نکلوانے کو کہا - مجھے یہ ڈاکومینٹس تو نہیں ملے لیکن میرے جگر جانی ٹھیک دو سال بعد باب پشاور میں سٹرکچرل کریکس آ گئے اور اس کو بھاری ٹریفک کے لئے بند کر دیا گیا --- اگر تمہارے پاس اس دوبارہ کہنے کی کوئی خبر ہے تو شیر کرو
تو بھایو ان آدھی معلومات پر بھنگڑے ڈالنے کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے - اگر ملتان سکھر میں کوئی ہینکی پینکی ہوئی ہے تو نیب کو اصلی کیس کرنے سے کس نے روکا ہوا ہے - اصلی بات سامنے آنی چاہئے
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
جانی میں اڈمن کو شرمندہ کرنے کے جرم میں بین ہوا ہوں - یہ تحریر ماڈریٹر کی اپروول کے بعد پوسٹ ہو گی -شاید دو تین دن لگ جایں

بیشک شاہد صاحب اس فورم کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوے ممبر ہیں - میں نے ہمیشہ ان سے بات کر کے کچھ نہ کچھ سکھا ہے - ان کے ان فگرز کو میں کبھی چیلنج نہیں کروں گا - بلکل فی کلو میٹر اخراجات ایسے ہی ہونے ہیں - اور نہ ہی میں یہ کہوں گا کہ کرپشن نہیں ہوئی

لیکن یہ ایک سپرفشل کہانی ہے - اس میں لینڈ اکویزشن کا کوی ذکر نہیں - اور سب سے بڑی بات جگر جانی تمہارے لئے رڑی زمین پر ایشفالٹ کی لیپ ڈال بننے والی چیز سڑک کہلا سکتی ہے - اصل میں موٹر ویز کے کچھ انجینرنگ سپیکس ہوتے ہیں جن کو نکال کر اپ ہر چیز سستی کر سکتے ہو لیکن اس کا خمیازہ بعد میں بھگتنا پڑتا ہے - میں ایک مثال دیتا ہوں

٢٠١٦ میں عمران خان نے پھڑ ماری تھی کہ باب پشاور ہم نے لاہور انٹرچینج سے آدھی (سقیر فٹ) قیمت پر بنایا ہے - میرے کان یہ بات سن کر کھڑے ہو گئے - میں نے سوچا باقی تو عمران خان ہوائی چھوڑتا ہے لیکن اب تو فگر بھی سامنے ہیں - اسے دیکھنا چاہیے - میں نے اپنے ایک سول انجینیر دوست سے دونوں پروجیکٹس کے انجینیرنگ سپکس نکلوانے کو کہا - مجھے یہ ڈاکومینٹس تو نہیں ملے لیکن میرے جگر جانی ٹھیک دو سال بعد باب پشاور میں سٹرکچرل کریکس آ گئے اور اس کو بھاری ٹریفک کے لئے بند کر دیا گیا --- اگر تمہارے پاس اس دوبارہ کہنے کی کوئی خبر ہے تو شیر کرو
تو بھایو ان آدھی معلومات پر بھنگڑے ڈالنے کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے - اگر ملتان سکھر میں کوئی ہینکی پینکی ہوئی ہے تو نیب کو اصلی کیس کرنے سے کس نے روکا ہوا ہے - اصلی بات سامنے آنی چاہئے
Shahid Abassi
یہ راجا کیا کہانی بتارہا ہے ؟
 

Shahid Abassi

Chief Minister (5k+ posts)
Shahid Abassi
یہ راجا کیا کہانی بتارہا ہے ؟
Rajarawal111
جانی اور راجہ بھائی صاحبان۔
میں کوئی آپ لوگوں سے زیادہ پڑھا لکھا بندہ نہی ہوں اور نہ ہی یہ پتھر پر لکیر ہے کہ جو میں نے لکھ دیا اس میں غلطی نہ ہو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم لوگوں کی انفارمیشن تک رسائی یا تو میڈیا کی حد تک محدود ہوتی ہے یا پھر نیٹ پر سٹیٹ بنک اور ورلڈ بنک جیسے اداروں اور وزارتوں کی ویب سایٹس وغیرہ سے ملنے والی معلومات تک۔

اسی لئے ایم فائیو اور ایم سِکس پر اٹھنے والے اخراجات میں پہاڑ جیسے بڑے فرق بارے پوسٹ لکھتے ہوئے بھی میں نے کوئی حتمی سٹیٹمنٹ دینے کی بجائے مسلم لیگ ن کے سپورٹرز سے سوال پوچھا ہے کہ یا تو اس پر سوچ بچار کریں یا پھر اس کا جواب دیں کہ یہاں فرق دو چار ارب روپئے کا نہی بلکہ پورے پونےدو ارب ڈالر یعنی ۳۰۰ ارب روپئے کا ہے۔
راجہ صاحب نے اس کی کوئی ٹھوس وجوہات نہی بتائیں لیکن قیاس آرائی کی ہے کہ ہو سکتا ہے سکھر حیدرآباد موٹر وے کی ایکنک سے دو روز قبل منظور ہونے والی قیمت میں زمین کی قیمت شامل نہ کی گئی ہو۔ یا یہ کہ ہو سکتا ہے یہ موٹر وے انتہائی گھٹیا کوالٹی کی بنائی جارہی ہو۔
۔
اب اگر زمین کی قیمت بارے بات کی جائے تو ایسا کبھی ہو نہی سکتا کہ ایکنک ایک پراجیکٹ منظور کرے اور اس کے ایک کمپوننٹ کی قیمت اس ٹوٹل میں شامل نہ ہو۔ اگر کوئی ایسا طریقہ کار موجود ہوتا تو پھر پہلے بننے والی مہنگی موٹر وے ایم فائیو میں بھی لازما اپروول کا وہی طریقہ کار ہونا لازمی ہے۔ لیکن چلیں اگر یہ فرض بھی کر لیں کہ موجودہ حکومت کوئی ڈرامہ بازی کرتے ہوئے زمین کی خریداری کو الگ رکھ رہی ہو تو تب بھی یہ عرض کرتا چلوں کہ سکھر سے حیدرآباد موٹروے کی زمین کی خریداری ہو چکی ہے اور اس کی قیمت اکاون ارب روپئیے سندھ حکومت کو ادا بھی کردی گئی ہے۔ اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ جس گھپلے کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں وہ تین سو ارب روپئیے کا ہے اکاون ارب روپئے کا نہی۔
۔
محترم راجہ صاحب کا دوسرا قیاس کوالٹی پر ہے۔ تو یہاں میری گزارش یہ ہے کہ لاہور سے ملتان ، پنڈٰ بٹھیاں سے عبدالحکیم، اسلام آباد سے ڈیرہ اسماعیل خان، ہزارہ موٹروے، سوات موٹر وے اور کراچی حیدرآباد موٹر وے بھی ان ہی مقامی کمپنیوں نے بنائی ہیں جو کہ اس نئی سکھر حیدرآباد موٹر وے کو بنانے جا رہی ہیں۔ یہاں ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ سکھر حیدرآباد
موٹروے بوٹ یعنی بلڈ آپریٹ اینڈ ٹرانسفر کے تحت پرائیویٹ کمپنیوں کی ۲۵ سالہ ملکیت پر بن رہی ہیں کہ جس میں گورنمنٹ کا حصہ پچاس فیصد تک ہو گا۔ تو عرض ہے کہ پرائیویٹ کمپنیاں ایسے کوالٹی کے گھپلے نہی ہونے دیتیں جو کہ گورنمنٹ کے پراجیکٹس میں ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر کوالٹی میں کمی ہوگی تو اس پرائیویٹ کمپنی ہی کو ۲۵ سال تک مینٹیننس کے اخراجات بھی برداشت کرنے پڑیں گے۔ ویسے بھی پاکستان میں موٹر ویز کے انجنئیرنگ سٹینڈرڈز اب طے ہو چکے ہیں اور ایسا نہی ہے کہ ملک میں یہ پہلی موٹر وے بن رہی ہے۔ اور سوچنے کا مقام یہ بھی ہے کہ ۳۰۰ ارب کوئی کم رقم نہی ہے اس رقم میں ایسی ہی دو مزید موٹر ویز بن سکتی ہیں۔ اب ایسا تو ہو نہی سکتا کہ پی ٹی آئی حکومت کچی زمین پر کالا رنگ کرکے ہمیں بہلانے جا رہی ہو کہ اے لو پھڑو نئے پاکستان کی نئی موٹر وے۔ باقی واللہ و عالم
۔
رہی یہ بات کہ اگر اتنی بڑی کرپشن ہوئی تھی نیب اس پر تفتیش کیوں نہی کرتا تو بہت ہی مودبانہ عرض ہے کہ ۲۰۱۹ میں موجودہ حکومت نے چینی حکومت کے ساتھ سی پیک پراجیکٹس میں سابقہ حکومت اور چینی کمپنیوں کی ملی بھگت سے ہونے والی کرپشن اور غیر معقول معائدوں بارے ایشوز اٹھائے تھے جس پر چینی حکومت کافی حد تک ناراض دکھائی دی تھی اور کچھ عرصہ کے لئے سی پیک کی رفتار بھی کم ہو گئی تھی۔ چینی حکام کسی بھی صورت چینی پراڈکٹس یا پراجیکٹس پر کرپشن کا الزام قبول کرنے کو تیار نہی ہوتے کیونکہ اس سے ان کی انٹرنیشنل ریپوٹیشن کا مسئلہ اٹھتا ہے۔ ہاں صرف ایک کمپنی پر انہوں نے تفتیش کی تھی اور اسے چینی حکومت کی طرف سے سزا بھی دی گئی تھی۔ اس واقع کے بعد ہی چینیوں نے صرف پاکستان آرمی کے ساتھ ڈیل کرنے کا مدعا سنایا تھا اور سلیم باجوہ کو اتھارٹی دلوائی تھی۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنہوں نے سی پیک پراجیکٹس میں گھپلے کر لئے ان کو مکمل ایمونٹی حاصل ہے کہ آرمی کی چینی حکام سے ڈیل کے تحت پاکستان ان پراجیکٹس پر نیب وغیرہ کے ذریعے تحقیق نہی کر سکتا بلکہ جو بھی ایسا مسئلہ ہوگا اسے آرمی ہی چینی حکام کے سامنے اٹھانے کی مجاز ہو گی۔ ویسے بھی سی پیک مکمل طور پر آرمی کے تحت چل رہا ہے۔ حکومت کا اس میں حصہ صرف اتنا ہے کہ نئے پراجیکٹ معائدے حکومت سوچ بچار کر کر سکتی ہے۔ اسی لئے توایم ایل ون ابھی تک لٹکا ہوا ہے کیونکہ حکومتِ پاکستان چینیوں کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز ماننے کو تیار نہی ہے۔
یہ بھی بتا دوں کہ میرے ایک دوست کے حکومتِ پاکستان کے ساتھ تقریبا چھ سو ملین ڈالر کے بائیو ٹیک پراجیکٹس ہیں اور پراجیکٹس میں چینی بھی شامل ہیں۔ اس کے مطابق چینی کمپنیوں کا تین فیصد کرپشن کا ریٹ ایک مسلمہ حقیقت ہے جو کہ کوئی بات کرنے سے پہلے ہی آپ کو معلوم ہوتا ہے بات اس سے زیادہ کی ہو سکتی ہے لیکن کم کی نہی۔​
 
Last edited:

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
Rajarawal111
جانی اور راجہ بھائی صاحبان۔
میں کوئی آپ لوگوں سے زیادہ پڑھا لکھا بندہ نہی ہوں اور نہ ہی یہ پتھر پر لکیر ہے کہ جو میں نے لکھ دیا اس میں غلطی نہ ہو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم لوگوں کی انفارمیشن تک رسائی یا تو میڈیا کی حد تک محدود ہوتی ہے یا پھر نیٹ پر سٹیٹ بنک اور ورلڈ بنک جیسے اداروں اور وزارتوں کی ویب سایٹس وغیرہ سے ملنے والی معلومات تک۔

اسی لئے ایم فائیو اور ایم سِکس پر اٹھنے والے اخراجات میں پہاڑ جیسے بڑے فرق بارے پوسٹ لکھتے ہوئے بھی میں نے کوئی حتمی سٹیٹمنٹ دینے کی بجائے مسلم لیگ ن کے سپورٹرز سے سوال پوچھا ہے کہ یا تو اس پر سوچ بچار کریں یا پھر اس کا جواب دیں کہ یہاں فرق دو چار ارب روپئے کا نہی بلکہ پورے پونےدو ارب ڈالر یعنی ۳۰۰ ارب روپئے کا ہے۔
راجہ صاحب نے اس کی کوئی ٹھوس وجوہات نہی بتائیں لیکن قیاس آرائی کی ہے کہ ہو سکتا ہے سکھر حیدرآباد موٹر وے کی ایکنک سے دو روز قبل منظور ہونے والی قیمت میں زمین کی قیمت شامل نہ کی گئی ہو۔ یا یہ کہ ہو سکتا ہے یہ موٹر وے انتہائی گھٹیا کوالٹی کی بنائی جارہی ہو۔
۔
اب اگر زمین کی قیمت بارے بات کی جائے تو ایسا کبھی ہو نہی سکتا کہ ایکنک ایک پراجیکٹ منظور کرے اور اس کے ایک کمپوننٹ کی قیمت اس ٹوٹل میں شامل نہ ہو۔ اگر کوئی ایسا طریقہ کار موجود ہوتا تو پھر پہلے بننے والی مہنگی موٹر وے ایم فائیو میں بھی لازما اپروول کا وہی طریقہ کار ہونا لازمی ہے۔ لیکن چلیں اگر یہ فرض بھی کر لیں کہ موجودہ حکومت کوئی ڈرامہ بازی کرتے ہوئے زمین کی خریداری کو الگ رکھ رہی ہو تو تب بھی یہ عرض کرتا چلوں کہ سکھر سے حیدرآباد موٹروے کی زمین کی خریداری ہو چکی ہے اور اس کی قیمت اکاون ارب روپئیے سندھ حکومت کو ادا بھی کردی گئی ہے۔ اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ جس گھپلے کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں وہ تین سو ارب روپئیے کا ہے اکاون ارب روپئے کا نہی۔
۔
محترم راجہ صاحب کا دوسرا قیاس کوالٹی پر ہے۔ تو یہاں میری گزارش یہ ہے کہ لاہور سے ملتان ، پنڈٰ بٹھیاں سے عبدالحکیم، اسلام آباد سے ڈیرہ اسماعیل خان، ہزارہ موٹروے، سوات موٹر وے اور کراچی حیدرآباد موٹر وے بھی ان ہی مقامی کمپنیوں نے بنائی ہیں جو کہ اس نئی سکھر حیدرآباد موٹر وے کو بنانے جا رہی ہیں۔ یہاں ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ سکھر حیدرآباد
موٹروے بوٹ یعنی بلڈ آپریٹ اینڈ ٹرانسفر کے تحت پرائیویٹ کمپنیوں کی ۲۵ سالہ ملکیت پر بن رہی ہیں کہ جس میں گورنمنٹ کا حصہ پچاس فیصد تک ہو گا۔ تو عرض ہے کہ پرائیویٹ کمپنیاں ایسے کوالٹی کے گھپلے نہی ہونے دیتیں جو کہ گورنمنٹ کے پراجیکٹس میں ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر کوالٹی میں کمی ہوگی تو اس پرائیویٹ کمپنی ہی کو ۲۵ سال تک مینٹیننس کے اخراجات بھی برداشت کرنے پڑیں گے۔ ویسے بھی پاکستان میں موٹر ویز کے انجنئیرنگ سٹینڈرڈز اب طے ہو چکے ہیں اور ایسا نہی ہے کہ ملک میں یہ پہلی موٹر وے بن رہی ہے۔ اور سوچنے کا مقام یہ بھی ہے کہ ۳۰۰ ارب کوئی کم رقم نہی ہے اس رقم میں ایسی ہی دو مزید موٹر ویز بن سکتی ہیں۔ اب ایسا تو ہو نہی سکتا کہ پی ٹی آئی حکومت کچی زمین پر کالا رنگ کرکے ہمیں بہلانے جا رہی ہو کہ اے لو پھڑو نئے پاکستان کی نئی موٹر وے۔ باقی واللہ و عالم
۔
رہی یہ بات کہ اگر اتنی بڑی کرپشن ہوئی تھی نیب اس پر تفتیش کیوں نہی کرتا تو بہت ہی مودبانہ عرض ہے کہ ۲۰۱۹ میں موجودہ حکومت نے چینی حکومت کے ساتھ سی پیک پراجیکٹس میں سابقہ حکومت اور چینی کمپنیوں کی ملی بھگت سے ہونے والی کرپشن اور غیر معقول معائدوں بارے ایشوز اٹھائے تھے جس پر چینی حکومت کافی حد تک ناراض دکھائی دی تھی اور کچھ عرصہ کے لئے سی پیک کی رفتار بھی کم ہو گئی تھی۔ چینی حکام کسی بھی صورت چینی پراڈکٹس یا پراجیکٹس پر کرپشن کا الزام قبول کرنے کو تیار نہی ہوتے کیونکہ اس سے ان کی انٹرنیشنل ریپوٹیشن کا مسئلہ اٹھتا ہے۔ ہاں صرف ایک کمپنی پر انہوں نے تفتیش کی تھی اور اسے چینی حکومت کی طرف سے سزا بھی دی گئی تھی۔ اس واقع کے بعد ہی چینیوں نے صرف پاکستان آرمی کے ساتھ ڈیل کرنے کا مدعا سنایا تھا اور سلیم باجوہ کو اتھارٹی دلوائی تھی۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنہوں نے سی پیک پراجیکٹس میں گھپلے کر لئے ان کو مکمل ایمونٹی حاصل ہے کہ آرمی کی چینی حکام سے ڈیل کے تحت پاکستان ان پراجیکٹس پر نیب وغیرہ کے ذریعے تحقیق نہی کر سکتا بلکہ جو بھی ایسا مسئلہ ہوگا اسے آرمی ہی چینی حکام کے سامنے اٹھانے کی مجاز ہو گی۔ ویسے بھی سی پیک مکمل طور پر آرمی کے تحت چل رہا ہے۔ حکومت کا اس میں حصہ صرف اتنا ہے کہ نئے پراجیکٹ معائدے حکومت سوچ بچار کر کر سکتی ہے۔ اسی لئے توایم ایل ون ابھی تک لٹکا ہوا ہے کیونکہ حکومتِ پاکستان چینیوں کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز ماننے کو تیار نہی ہے۔
یہ بھی بتا دوں کہ میرے ایک دوست کے حکومتِ پاکستان کے ساتھ تقریبا چھ سو ملین ڈالر کے بائیو ٹیک پراجیکٹس ہیں اور پراجیکٹس میں چینی بھی شامل ہیں۔ اس کے مطابق چینی کمپنیوں کا تین فیصد کرپشن کا ریٹ ایک مسلمہ حقیقت ہے جو کہ کوئی بات کرنے سے پہلے ہی آپ کو معلوم ہوتا ہے بات اس سے زیادہ کی ہو سکتی ہے لیکن کم کی نہی۔​
Shahid Abassi
یہ راجا کیا کہانی بتارہا ہے ؟

شاہد صاحب اب یہ تو نہ لنگانے والی بات ہوئی نا جناب - نیب تقیقات نہیں کر سکتا کہ جی چینی اور فوج ناراض ہو گی - اور اس فورم پر موجود نونی جواب دیں جن کے پاس خود کوئی اندر کی کہانی نہیں ؟؟
میرا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک عدالت میں کوئی فرد جرم نہیں لگ جاتا اور عدالتی کروائی شروع نہیں ہو جاتی مجھے اس وقت تک کوئی انفورمیشن اتھنٹک لگتی نہیں - کبھی قطر کے ساتھ ایل این جی کنٹریکٹ بقول عمران خان کے مدر اف کرپشن ہوا کرتا تھا - اس پر کیا تحقیقات ہوئی کس کو کیا سزا ملی، اصل مقدمہ کیا تھا - اب کسی کو پتا ہی ہے - کبھی جے آئ ٹی نے ٨ نواجے سے آٹھ بلین ڈالر کی کرپشن کروائی - پھر عمرانی حکومت اور نیب نے انتھونی ایون کی عدالت میں دلیلیں دے دے کر اسے ایک بلین ڈالر کروایا
لیکن میں نے کہا کہ آپ کی بات کو میں چیلنج نہیں کر سکتا - صرف یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ بی آر ٹی کے شروع ہونے پر بھی عمرانیوں اور پٹواریوں میں ایسی ہی بحثیں ھوئی تھیں - شروع میں جتای گئی قیمت اور آخر میں لگی قیمت کو آج لاھور اور پنڈی کی میٹرو سے کمپئر کرنے والا کوئی نہیں
لیکن اس ملک کو اس نہج تک لے کر آنے والے بھی حقیقت ہیں - بس میرے مطابق عمران خان بھی ان میں سے ایک ہے - اس باری قوم کے ساتھ واردات دوسری طرح کی ہوئی ہے
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
راجے نے مان کے نہیں دینا ہے جناب۔۔۔ آپکی ان معلومات کا شکریہ۔۔۔

Rajarawal111
جانی اور راجہ بھائی صاحبان​
میں کوئی آپ لوگوں سے زیادہ پڑھا لکھا بندہ نہی ہوں اور نہ ہی یہ پتھر پر لکیر ہے کہ جو میں نے لکھ دیا اس میں غلطی نہ ہو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم لوگوں کی انفارمیشن تک رسائی یا تو میڈیا کی حد تک محدود ہوتی ہے یا پھر نیٹ پر سٹیٹ بنک اور ورلڈ بنک جیسے اداروں اور وزارتوں کی ویب سایٹس وغیرہ سے ملنے والی معلومات تک۔

اسی لئے ایم فائیو اور ایم سِکس پر اٹھنے والے اخراجات میں پہاڑ جیسے بڑے فرق بارے پوسٹ لکھتے ہوئے بھی میں نے کوئی حتمی سٹیٹمنٹ دینے کی بجائے مسلم لیگ ن کے سپورٹرز سے سوال پوچھا ہے کہ یا تو اس پر سوچ بچار کریں یا پھر اس کا جواب دیں کہ یہاں فرق دو چار ارب روپئے کا نہی بلکہ پورے پونےدو ارب ڈالر یعنی ۳۰۰ ارب روپئے کا ہے۔
راجہ صاحب نے اس کی کوئی ٹھوس وجوہات نہی بتائیں لیکن قیاس آرائی کی ہے کہ ہو سکتا ہے سکھر حیدرآباد موٹر وے کی ایکنک سے دو روز قبل منظور ہونے والی قیمت میں زمین کی قیمت شامل نہ کی گئی ہو۔ یا یہ کہ ہو سکتا ہے یہ موٹر وے انتہائی گھٹیا کوالٹی کی بنائی جارہی ہو۔
۔
اب اگر زمین کی قیمت بارے بات کی جائے تو ایسا کبھی ہو نہی سکتا کہ ایکنک ایک پراجیکٹ منظور کرے اور اس کے ایک کمپوننٹ کی قیمت اس ٹوٹل میں شامل نہ ہو۔ اگر کوئی ایسا طریقہ کار موجود ہوتا تو پھر پہلے بننے والی مہنگی موٹر وے ایم فائیو میں بھی لازما اپروول کا وہی طریقہ کار ہونا لازمی ہے۔ لیکن چلیں اگر یہ فرض بھی کر لیں کہ موجودہ حکومت کوئی ڈرامہ بازی کرتے ہوئے زمین کی خریداری کو الگ رکھ رہی ہو تو تب بھی یہ عرض کرتا چلوں کہ سکھر سے حیدرآباد موٹروے کی زمین کی خریداری ہو چکی ہے اور اس کی قیمت اکاون ارب روپئیے سندھ حکومت کو ادا بھی کردی گئی ہے۔ اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ جس گھپلے کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں وہ تین سو ارب روپئیے کا ہے اکاون ارب روپئے کا نہی۔
۔
محترم راجہ صاحب کا دوسرا قیاس کوالٹی پر ہے۔ تو یہاں میری گزارش یہ ہے کہ لاہور سے ملتان ، پنڈٰ بٹھیاں سے عبدالحکیم، اسلام آباد سے ڈیرہ اسماعیل خان، ہزارہ موٹروے، سوات موٹر وے اور کراچی حیدرآباد موٹر وے بھی ان ہی مقامی کمپنیوں نے بنائی ہیں جو کہ اس نئی سکھر حیدرآباد موٹر وے کو بنانے جا رہی ہیں۔ یہاں ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ سکھر حیدرآباد
موٹروے بوٹ یعنی بلڈ آپریٹ اینڈ ٹرانسفر کے تحت پرائیویٹ کمپنیوں کی ۲۵ سالہ ملکیت پر بن رہی ہیں کہ جس میں گورنمنٹ کا حصہ پچاس فیصد تک ہو گا۔ تو عرض ہے کہ پرائیویٹ کمپنیاں ایسے کوالٹی کے گھپلے نہی ہونے دیتیں جو کہ گورنمنٹ کے پراجیکٹس میں ہوتے ہیں۔ کیونکہ اگر کوالٹی میں کمی ہوگی تو اس پرائیویٹ کمپنی ہی کو ۲۵ سال تک مینٹیننس کے اخراجات بھی برداشت کرنے پڑیں گے۔ ویسے بھی پاکستان میں موٹر ویز کے انجنئیرنگ سٹینڈرڈز اب طے ہو چکے ہیں اور ایسا نہی ہے کہ ملک میں یہ پہلی موٹر وے بن رہی ہے۔ اور سوچنے کا مقام یہ بھی ہے کہ ۳۰۰ ارب کوئی کم رقم نہی ہے اس رقم میں ایسی ہی دو مزید موٹر ویز بن سکتی ہیں۔ اب ایسا تو ہو نہی سکتا کہ پی ٹی آئی حکومت کچی زمین پر کالا رنگ کرکے ہمیں بہلانے جا رہی ہو کہ اے لو پھڑو نئے پاکستان کی نئی موٹر وے۔ باقی واللہ و عالم
۔
رہی یہ بات کہ اگر اتنی بڑی کرپشن ہوئی تھی نیب اس پر تفتیش کیوں نہی کرتا تو بہت ہی مودبانہ عرض ہے کہ ۲۰۱۹ میں موجودہ حکومت نے چینی حکومت کے ساتھ سی پیک پراجیکٹس میں سابقہ حکومت اور چینی کمپنیوں کی ملی بھگت سے ہونے والی کرپشن اور غیر معقول معائدوں بارے ایشوز اٹھائے تھے جس پر چینی حکومت کافی حد تک ناراض دکھائی دی تھی اور کچھ عرصہ کے لئے سی پیک کی رفتار بھی کم ہو گئی تھی۔ چینی حکام کسی بھی صورت چینی پراڈکٹس یا پراجیکٹس پر کرپشن کا الزام قبول کرنے کو تیار نہی ہوتے کیونکہ اس سے ان کی انٹرنیشنل ریپوٹیشن کا مسئلہ اٹھتا ہے۔ ہاں صرف ایک کمپنی پر انہوں نے تفتیش کی تھی اور اسے چینی حکومت کی طرف سے سزا بھی دی گئی تھی۔ اس واقع کے بعد ہی چینیوں نے صرف پاکستان آرمی کے ساتھ ڈیل کرنے کا مدعا سنایا تھا اور سلیم باجوہ کو اتھارٹی دلوائی تھی۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنہوں نے سی پیک پراجیکٹس میں گھپلے کر لئے ان کو مکمل ایمونٹی حاصل ہے کہ آرمی کی چینی حکام سے ڈیل کے تحت پاکستان ان پراجیکٹس پر نیب وغیرہ کے ذریعے تحقیق نہی کر سکتا بلکہ جو بھی ایسا مسئلہ ہوگا اسے آرمی ہی چینی حکام کے سامنے اٹھانے کی مجاز ہو گی۔ ویسے بھی سی پیک مکمل طور پر آرمی کے تحت چل رہا ہے۔ حکومت کا اس میں حصہ صرف اتنا ہے کہ نئے پراجیکٹ معائدے حکومت سوچ بچار کر کر سکتی ہے۔ اسی لئے توایم ایل ون ابھی تک لٹکا ہوا ہے کیونکہ حکومتِ پاکستان چینیوں کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز ماننے کو تیار نہی ہے۔
یہ بھی بتا دوں کہ میرے ایک دوست کے حکومتِ پاکستان کے ساتھ تقریبا چھ سو ملین ڈالر کے بائیو ٹیک پراجیکٹس ہیں اور پراجیکٹس میں چینی بھی شامل ہیں۔ اس کے مطابق چینی کمپنیوں کا تین فیصد کرپشن کا ریٹ ایک مسلمہ حقیقت ہے جو کہ کوئی بات کرنے سے پہلے ہی آپ کو معلوم ہوتا ہے بات اس سے زیادہ کی ہو سکتی ہے لیکن کم کی نہی۔​
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
بھئی جھوٹ کیوں بولتے ہو۔۔۔ جب نواز شریف اور مریم کو سزا ہوئی تھی دو سال کی عدالتی کاروائیوں کے بعد تب تم نے ان کی سپورٹ سے توبہ کی تھی مگر کچھ ہی دن بعد پھر سے ان کی سپورٹ کرنے لگے۔۔



میرا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک عدالت میں کوئی فرد جرم نہیں لگ جاتا اور عدالتی کروائی شروع نہیں ہو جاتی مجھے اس وقت تک کوئی انفورمیشن اتھنٹک لگتی نہیں -
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
بھئی جھوٹ کیوں بولتے ہو۔۔۔ جب نواز شریف اور مریم کو سزا ہوئی تھی دو سال کی عدالتی کاروائیوں کے بعد تب تم نے ان کی سپورٹ سے توبہ کی تھی مگر کچھ ہی دن بعد پھر سے ان کی سپورٹ کرنے لگے۔۔


پتا نہیں کس توبہ کی بات کر رہے ہو جانی - میں نے عدالتی کاروایوں سے ہی اپنا پائنٹ اف ویو بنایا تھا --- کہو تو ڈسکشن ہو سکتی ہے اس پر
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
بھئی جھوٹ کیوں بولتے ہو۔۔۔ جب نواز شریف اور مریم کو سزا ہوئی تھی دو سال کی عدالتی کاروائیوں کے بعد تب تم نے ان کی سپورٹ سے توبہ کی تھی مگر کچھ ہی دن بعد پھر سے ان کی سپورٹ کرنے لگے۔۔


ہاں توبہ میں نے جے آئ ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد کی تھی کیوں کہ میں بھی اس شور کی زد میں آگیا تھا جو اس کے بعد مچایا گیا تھا - پھر عدالتی کروائی میں ہی اس رپورٹ کی کلی کھلی تھی -- وہی رپورٹ جس کو اب نیب اور تمہارا عمران خان جھوٹی رپورٹ ثابت کر چکا ہے (انتھونی ایونز کی عدالت میں ) - میرے جگر جانی آج تو تیرے عمران خان نے بہت آسان کر دیا ہے اس عدالتی کروائی پر بات کرنا
حیران نہ ہونا یہ پڑھ کر --- تم عمرانیوں سے کافی ساری باتیں مخفی رکھی جاتی ہیں تا کہ تم ناچتے ہی رہو
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
بھئی جھوٹ کیوں بولتے ہو۔۔۔ جب نواز شریف اور مریم کو سزا ہوئی تھی دو سال کی عدالتی کاروائیوں کے بعد تب تم نے ان کی سپورٹ سے توبہ کی تھی مگر کچھ ہی دن بعد پھر سے ان کی سپورٹ کرنے لگے۔۔


اصلی بات کیا ہے جانی - سننے کا دل نہیں کر رہا آگے کی کہانی
در ہے کہ کہیں نے کہیں سے کچھ نکال کے لے آؤں گا جو یار طبیت پر گراں گزرے گا ؟؟
میں نے تجھے کہا تھا میں جلے دل والا ہاری ہوں جس کے حریبھرے کھیت میں سور گھس گئے ہیں - میرا نام پٹواری تو تم نے رکھا ہے
 

Back
Top