
سینئر صحافی وتجزیہ کار مظہر عباس نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں چیف الیکشن کمشنر کے عام انتخابات کے حوالے سے بیان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا اگر سکندر سلطان کہہ رہے ہیں کہ وہ الیکشن 2024ء کرانے میں ناکام رہا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں۔
سکندر سلطان نے اگر اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا ہے تو انہیں استعفیٰ دے دینا چاہیے، خود کہہ رہے ہیں 2 انتخابات انتظامیہ کے انڈر ہوئے اور ناکام ہوئے۔
https://twitter.com/x/status/1799484374661955884
انہوں نے کہا کہ انتخابات کروانے کے زمہ دار آپ تھے تو ناکامی کی ذمہ داری بھی انہیں اٹھانی چاہیے، عدلیہ نے کیا کیا؟ انتظامیہ نے کیا کیا؟ یہ سب کچھ ان کا اعتراف ہے۔ 1977ء میں جو انتخابات ہوئے تو محرکات کچھ اور تھے، اس زمانے میں قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک دن نہیں ہوتے تھے، اس کے بعد بہت معاملات بہتر ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ پہلا فیصلہ یہ کیا گیا کہ انتخابات ایک ہی دن کروائے جائیں، پھر فیصلہ کیا گیا کہ انتخابات عبوری حکومت کروائے کیونکہ اس وقت حکومت نے خود انتخابات کروائے تھے۔ 11 سال تک پھر مارشل لاء رہا جن کا اپنا انٹرسٹ تھا کہ پیپلزپارٹی کا انتخابی نشان لے لیا جائے اور ایسا کیا گیا، بعد میں 2002ء کے بعد جب پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے میثاق جمہوریت کیا تو معاملات بہتر کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد سے جو بھی الیکشن کمشنر آئے ہیں اس کے ذمہ دار اپوزیشن اور حکومت دونوں ہیں کیونکہ قانون کے مطابق یہ ان کی مرضی سے آتے ہیں ۔ سکندر سلطان راجہ کی طرف سے انتخابات کروانے میں ناکامی کا مطلب ہے کہ حکومت اور اپوزیشن بھی ناکام ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اپنا سٹاف ہونا چاہیے، جب الیکشن کمیشن حکومت یا انتظامیہ پر منحصر کر رہی ہو گی تو انتخابات میں بیوروکریسی ڈائریکٹلی یا ان ڈائریکٹلی متحرک رہے گی۔ آسان حل یہ ہے کہ الیکشن ٹربیونلز سٹنگ ججز ہوں جو اپنے وقت پر فیصلے دیں، مسئلہ یہ ہے کہ 4 مہینے تک ٹربیونلز کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے مگر ایک کے بعد دوسرے انتخابات آ جاتے ہیں فیصلہ نہیں ہو پاتا۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/14bababbshehjhjshshjd.png