
امریکا جو دنیا کے مختلف ممالک کو ملین ڈالرز کی امداد اور قرض دیتا ہے اور بظاہر عالمی مالیاتی ادارے بھی اسی کے کنٹرول میں نظر آتے ہیں مگر یہ عقدہ اب کھلا ہے کہ پہلی بار امریکا کے قومی قرضے 300 کھرب ڈالر سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ جس کے باعث امریکا کے مستقبل کے مالی استحکام کے حوالے سے خدشات سراٹھانے لگے ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کی یومیہ بنیاد پر جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق سپر پاور کے ذمے واجب الادا قرضوں کا حجم پیر کے روز 300 کھرب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ ان قرضوں میں 235 کھرب ڈالر سرکاری اور 65 کھرب کے قرضے بین الحکومتی ہولڈنگز کے ذمے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں امریکا بہادر کے قومی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا جس کی بڑی وجہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ٹیکسوں میں کی جانے والی بڑی کٹوتیاں اور کورونا وبا پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر کیے جانے والے حکومتی اقدامات ہیں۔
پیٹرجی پیٹرسن فاؤنڈیشن کے سی ای او مائیکل اے پیٹرسن کا کہنا ہے کہ قرضوں کا 300 کھرب ڈالر سے بھی تجاوز کرنا امریکا کی مستقبل کی معاشی صورتحال، جنسی مساوات اور دنیا میں اس کے کردار کے بارے میں ایک خطرے کی نشانی ہے۔ اس صورتحال تک ہم کیسے پہنچے؟ یہ دونوں اطراف سے بار بار دہرائے جانے والے مالیاتی غیرذمے دارانہ ابواب کی ایک طویل داستان ہے۔
پیٹرسن کا کہنا تھا کہ واشنگٹن میں رہنماؤں نے کئی دہائیوں کے دوران غلط فیصلے کیے ہیں، وقتاْ فوقتاْ اجتماعی مستقبل کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی پسند کی نئی ٹیکس کٹوتیاں کی گئیں یا اخراجاتی پروگرام لائے گئے۔ مگر یاد رکھیں کہ قرضوں کی موجودہ رفتار پر قومی قرض پر سود بڑھ کر 2050 میں جمع ہونے والے ہر ٹیکس ڈالر کے تقریباْ 50 سینٹ کھا جائے گا۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/usa-debt11.jpg
Last edited by a moderator: