
اسلام آباد: سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں سولر پینلز کی درآمد کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کا انکشاف ہوا ہے۔ سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں ایف بی آر نے بتایا کہ 2017 سے 2022 کے دوران سولر پینلز کی اوور انوائسنگ کے ذریعے 69.5 ارب روپے کی رقم غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کی گئی۔
ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سولر پینلز چین سے درآمد کیے گئے، لیکن ان کی ادائیگیاں متحدہ عرب امارات، سنگاپور، سوئٹزرلینڈ، امریکا، آسٹریلیا، جرمنی، کینیڈا، جنوبی کوریا، سری لنکا اور برطانیہ سمیت 10 دیگر ممالک میں کی گئیں۔ حکام کے مطابق، مجموعی طور پر 117 ارب روپے بیرون ملک منتقل کیے گئے، جو کہ منی لانڈرنگ کا بنیادی مقصد تھا۔
ایف بی آر نے بتایا کہ سولر پینلز کی درآمد ڈیوٹی فری تھی، اور اس سلسلے میں 63 امپورٹر کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے، جبکہ 13 ایف آئی آر درج کی جا چکی ہیں۔ حکام نے بتایا کہ برائٹ اسٹار کمپنی نے 42 ارب روپے باہر بھجوائے، جبکہ دیگر ممالک میں 18 ارب روپے سے زائد رقم منتقل کی گئی۔ ایک کمپنی نے 47 ارب روپے کے سولر پینلز درآمد کر کے انہیں 42 ارب روپے میں فروخت کیا۔
کمیٹی کے کنوینئر سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ 20 لاکھ روپے پیڈ اپ کیپٹل والی کمپنی نے 50 ارب روپے کا کاروبار کیسے کیا؟ اور ایک کروڑ پیڈ اپ کیپٹل والی کمپنی نے 40 ارب روپے کا بزنس کیسے کیا؟ انہوں نے بینکوں سے بھی سوال کیا کہ انہوں نے ان کمپنیوں کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کیوں نہیں کی؟
محسن عزیز نے کہا کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور رپورٹ مرتب کی جائے گی، جبکہ اسٹیٹ بینک نے ابھی تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کی ہے۔ اجلاس میں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ بینکوں پر 20 کروڑ روپے سے زائد جرمانہ کیا گیا ہے، لیکن بینکوں کو درآمدی مال کی کوالٹی اور قیمت کا علم نہیں ہوتا، یہ ذمہ داری ایف بی آر کی ہے۔
یہ انکشافات پاکستان کی معیشت اور مالیاتی نظام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں، اور اس معاملے میں مزید تحقیقات سے بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کا پردہ فاش ہونے کا امکان ہے۔
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/dJw203gc/Solar.jpg