Pakistani1947
Chief Minister (5k+ posts)
یہ ایک بہت اہم سورت ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے متعلق کچھ واقعات کے حوالہ سے گہری اہمیت کے سوالوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تسلسل کے ساتھ آیات پڑھیں اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب تفسیر سنیں انشاء اللہ آپ معنی سمجھیں گے۔ ان آیات کو سمجھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان آیات کی غلط تشریح کر کے مسلمانوں سے ایک دھڑا الگ ہو گیا۔
(Qur'an 66:1) يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(Qur'an 66:1) اے پیغمبر جو چیز خدا نے تمہارے لئے جائز کی ہے تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو؟ (کیا اس سے) اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو؟ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
(Qur'an 66:2) قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ ۚ وَاللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
(Qur'an 66:2) خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ہے۔ اور خدا ہی تمہارا کارساز ہے۔ اور وہ دانا (اور) حکمت والا ہے
(Qur'an 66:3) وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَـٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ
(Qur'an 66:3) اور (یاد کرو) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی تو (اس نے دوسری کو بتا دی) ۔ جب اس نے اس کو افشاء کیا اور خدا نے اس (حال) سے پیغمبر کو آگاہ کردیا تو پیغمبر نے ان (بی بی کو وہ بات) کچھ تو بتائی اور کچھ نہ بتائی۔ تو جب وہ ان کو جتائی تو پوچھنے لگیں کہ آپ کو کس نے بتایا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اس نے بتایا ہے جو جاننے والا خبردار ہے
(Qur'an 66:4) إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ
(Qur'an 66:4) اگر تم دونوں خدا کے آگے توبہ کرو (تو بہتر ہے کیونکہ) تمہارے دل مائل ہوگئے ہیں۔ اور اگر پیغمبر (کی ایذا) پر باہم اعانت کرو گی تو خدا اور جبریل اور نیک کردار مسلمان ان کے حامی (اور دوستدار) ہیں۔ اور ان کے علاوہ (اور) فرشتے بھی مددگار ہیں
(Qur'an 66:5) عَسَىٰ رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا
(Qur'an 66:5) اگر پیغمبر تم کو طلاق دے دیں تو عجب نہیں کہ ان کا پروردگار تمہارے بدلے ان کو تم سے بہتر بیبیاں دے دے۔ مسلمان، صاحب ایمان فرمانبردار توبہ کرنے والیاں عبادت گذار روزہ رکھنے والیاں بن شوہر اور کنواریاں
اس سورت میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ حلال و حرام ، جائز اور حرام کی حدود کو طے کرنے کے اختیارات مکمل طور پر اور قطعی طور پر اللہ کے ہاتھ میں ہیں حتہ کہ اللہ کے نبی ﷺ کو بھی نہیں دیا گیا ، کسی دوسرے آدمی کی کیا بات کریں۔ اس طرح نبی ﷺ کسی چیز کو حلال یا حرام کا اعلان صرف اس صورت میں کرسکتا ہے جب اسے اللہ کی طرف سے ایسا کرنے کا الہام ملتا ہے چاہے وہ الہام قرآن مجید میں کی آیات کی صورت میں ، یا انہیں غیبی طور پر اس جانب راغب کیاجاتا ہے۔ تاہم ، یہاں تک کہ ﷺ کو بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی بھی چیز کو جو اللہ نے جائز قرار دے ہو خود پر حرام قرار دے دیں ، کسی دوسرے آدمی کے بارے میں کیا کہنا۔
ایک اور نکتہ جس سے ہم اس گفتگو سے سیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ خود رسول اکرم ﷺ کے بارے میں ، جن کی تعظیم اور احترام اللہ نے خود اپنے بندوں کے ایمان کا ایک لازمی حصہ قرار دیا ہے ، اس سورت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ اپنی مقدس زندگی کے دوران انہوں نے اللہ کی حلال کردہ چیز کو صرف اپنی بیویوں کو خوش کرنے کے لئے ، اپنے اوپر حرام کرنے کا قصد کیا۔ تب اللہ نے ان کی بیویوں کی غلطی پر سختی سے سرزنش کی ، جن کو خود اللہ نے مومنین کی ماں اور سب سے زیادہ عزت و وقار کے لائق قرار دیا ہے ِ
نبی ﷺ کے احترام کا حکم اس لئے نہیں دیا گیا ہے کہ وہ غلطی کی صلاحیت سے پاک تھے بلکہ اس لئے کہ وہ خدائی رضا کے کامل نمائندے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی کسی غلطی کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس سے ہمیں یہ اطمینان ملتا ہے کہ نبی نے پوری طرح سے زندگی کا جو نمونہ چھوڑا ہے وہ اللہ کی مرضی کی پوری نمائندگی کرتا ہے۔ اسی طرح ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، انسان تھے ، فرشتہ یا سپر مرد نہیں۔ وہ غلطیاں کرسکتے تھے۔ انہوں نے جو بھی صفات حاصل کیں وہ اس لئے ہی ممکن ہوئیں کیونکہ اللہ کی عطا کردہ ہدایت اور اللہ کے رسول کی تربیت نے انہیں بہترین نمونوں میں ڈھال دیا تھا۔ جو بھی عزت و احترام ان کے مستحق ہے وہ اسی بنیاد پر ہے نہ کہ اس قیاس پر کہ وہ غلطی کی صلاحیت سے پاک تھے۔ اس وجہ سے ، جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس زندگی میں صحابہ یا مقدس ازواج مطہرات انسانی کمزوری کی وجہ سے غلطی کا ارتکاب کرتی تھیں تو ان کی جانچ پڑتال کی جاتی تھی۔ ان کی کچھ غلطیاں حضور ﷺ نے اصلاح کی تھیں ، جیسا کہ حدیث میں بہت سے مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ کچھ دوسری غلطیوں کا تذکرہ قرآن میں کیا گیا تھا اور اللہ نے خود ان کی اصلاح کی تھی تاکہ مسلمان اپنے بزرگوں اور بزرگوں کے احترام و تکریم کے بارے میں کوئی مبالغہ آمیز تصور نہ بنائیں ، جس سے وہ انسانیت سے دیوتاؤں اور دیویوں کے منصب پر فائز ہوسکیں۔
یہ ساری مثالیں قرآن مجید میں ہی ملتی ہیں ، اسی قرآن میں ، جس میں اللہ تعالیٰ نے خود صحابہ کرام اور قابل احترام ازواج مطہرات کو ان کی خوبیوں پر خراج تحسین پیش کیا ہے ، اور انھیں اپنی خوشنودی کی سند عطا کرتے ہوئے کہا ہے: " اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ کے ساتھ۔ "
اس کے علاوہ ، ایک اور سچائی جو ہم اس سورت سے سیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف وہی علم اللہ ہی سے نہیں ملا تھا جو قرآن میں شامل اور درج ہے ، لیکن آپ کو دوسری چیزوں کے بارے میں بھی وحی کے ذریعئے معلومات دی گئی تھیں۔ ، جو قرآن مجید میں درج نہیں ہے۔ اس سے حدیث کے منکروں کے اس دعوے کی تردید کی گئی ہے ، جو یہ دعوی کرتا ہے کہ قرآن مجید کے علاوہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کچھ بھی نہیں اترا گیا ہے۔
اگرچہ قرآن میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ وہ چیز کیا تھی جسے حضور ؐ نے اپنے اوپر حرام کیا تھا، لیکن محدثین و مفسرین نے اس سلسلے میں جس واقعہ کا ذکر کیا ہے جو اِس آیت کےنزُول کا سبب بنا وہ واقعہ بخاری، مسلم ، ابو داوداؤد، نسائی اور دوسری متعدد کتبِ حدیث میں خود حضرت عائشہ سے جس طرح نقل ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم ہر روز عصر کے بعد تمام ازواج مطہرات کے ہاں چکر لگاتے تھے۔ ایک موقع پر ایسا ہو ا کہ آپ حضرت زینبؓ بنتِ جحش کے ہاں جا کر زیادہ دیر تک بیٹھنے لگے، کیونکہ ان کے ہاں کہیں سے شہد آیا ہوا تھا، اور حضورؐ کو شیرینی بہت پسند تھی، اس لیے آپؐ ان کے ہاں شہد کا شربت نوش فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ مجھ کو اس پر رشک لاحق کے ہوا اور میں نے حضرت َحفصؓؓہ، حضرت سَودہؓ، اور حضرت َصفیہَؓؓ سے مل کر یہ طے کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس آپؐ آئیں وہ آپؐ سے کہیں کہ آپؐ کے منہ سے مغافیر کی بُو آتی ہے۔ مغافیر ایک قسم کا پھول ہوتا ہے جس میں کچھ بساند ہوتی ہے اور اگر شہد کی مکھی اس سے شہد حاصل کرے تو اس کے اندر بھی اس بساند کا اثر آجاتا ہے۔ یہ بات سب کو معلوم تھی کہ حضور ؐ نہایت نفاست پسند ہیں اور آپ ؐ کو اِس سے سخت نفرت ہے کہ آپ ؐ کے اندر کسی قسم کو بدبُو پائی جائے ۔ اس لیے آپ کو حضرت زینب ؓ کے ہاں ٹھیرنے سے روکنے کی خاطر یہ تدبیر کی گئی اور یہ کار گر ہوئی۔ جب متعدد بیویوں نے آپؐ سے کہا کہ منہ سے مغافیر کی بُو آتی ہے تو آپؐ نے عہد کر لیا کہ اب یہ شہد استعمال نہیں فرمائیں گے- صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے الفاظ نیچے درج ہیں۔
عبید بن عمیر نے خبر دی کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ، وہ بتا رہی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہرتے اور ان کے پاس سے شہد نوش فرماتے تھے : کہا : میں اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے اتفاق کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ( پہلے ) تشریف لائیں ، وہ کہے : مجھے آپ سے مغافیر کی بو محسوس ہو رہی ہے ۔ کیا آپ نے مغافیر کھائی ہے؟آپ ان میں سے ایک کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کے سامنے یہی بات کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلکہ میں نے زینب بنت حجش کے ہاں سے شہد پیا ہے ۔ اور آئندہ ہرگز نہیں پیوں گا ۔ اس پر ( قرآن ) نازل ہوا : آپ کیوں حرام ٹھہراتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے اس فرمان تک : اگر تم دونوں توبہ کرو ۔ ۔ ۔ یہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما کے لیے کہا گیا ۔ ۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی سے راز کی بات کہی اس سے مراد ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ) ہے : بلکہ میں نے شہد پیا ہے ۔
Sahih Muslim - 3678-Islam360
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ام المؤمنین ) زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں رکتے تھے اور شہد پیتے تھے۔ پھر میں نے اور ( ام المؤمنین ) حفصہ ( رضی اللہ عنہا ) نے عہد کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئیں تو وہ کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے، آپ نے مغافیر تو نہیں کھائی ہے؟ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک کے یہاں تشریف لائے تو انہوں نے یہی بات آپ سے پوچھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں نے شہد پیا ہے زینب بنت جحش کے یہاں اور اب کبھی نہیں پیوں گا۔ ( کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین ہو گیا کہ واقعی اس میں مغافیر کی بو آتی ہے ) اس پر یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك» ”اے نبی! آپ ایسی چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے۔“ «إن تتوبا إلى الله» میں عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ ہے اور «وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا» سے اشارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی طرف ہے کہ ”نہیں“ میں نے شہد پیا ہے۔“ اور مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے ہشام سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اب کبھی میں شہد نہیں پیوں گا میں نے قسم کھا لی ہے تم اس کی کسی کو خبر نہ کرنا ( پھر آپ نے اس قسم کو توڑ دیا ) ۔
Sahih Bukhari – 6691-Islam360
knowledge88 , Dr Adam , Citizen X, Rambler, karachiwalaKaash ke tum ne Surah e Tehreem ki pehli paanch aayaat perh li hoti izdawaj e Rasool ko Ahlulbayt s.a. mai shamil kerne se pe.
How can Allah purify those two wives who did not have anyo of the qualities of a good wife mentioned in the verse 5 of the Surah. Here read the translation in urdu and see with your own eyes what was lacking in those "TWO WIVES" of Rasool Allah saww in the words of Allah the Almighty and Omniscient.
![]()
Btw! Who were those wives who were:
1- Not good wives, (because, read below)
2- They were not obedient (they fought with Rasool Allah saww and did zabandarazi with Rasool Allah saww)
3- they were not believing (they were not Momina since they had no respect for Rasook Allah saww)
4- They were not well-mannered (How could they be when they did badtameezi with Rasool Allah saww)
5- They did not do tobah (They used to do all of the above and never did tobah)
6- They were not devout in worship (all they did was fight and do badtameezi with Rasool Allah saww)
7- They did not Fast (well, that's self-explanatory)
All those are the qualities that Allah mentioned in the verse # 5 that were missing from "THOSE TWO WIVES".
Can you please be a good muslim and not a munafiq and "MENTION THE NAMES OF THOSE TWO WIVES AND THEIR FATHERS WHO BROUGHT THEM UP IN A MANNER THAT THOSE TWO WOMEN COMPLETELY LACKED THE QUALITIES OF MOMINAAT?" That goes to show the eeman of the fathers of two wives....
Name those two wives of Rasool Allah saww who you lovingly call "Ammi" and then we will talk about who should be in Ahlulbait s.a. and who not.
Now read the urdu translation of the first 4 verses of Surah e Tehreem
![]()
1-
![]()
2-
![]()
3-
![]()
4-
![]()
Kuch sharam karo, kuch haya karo....besharmi aur munafiqat tumharay khoon aur gosht mai is terha rach bas gayee hai jese abu sufyan aur aal e abu sufyan ke.
Last edited: