
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے فلسطین کو اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ایک متنازعہ تجویز پیش کی ہے کہ سعودی عرب کو اپنے ملک کے اندر فلسطینی ریاست بنانی چاہیے۔
خبرایجنسی انادولو کے مطابق نیتن یاہو نے اسرائیلی نیوز چینل 14 کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ سعودی حکومت فلسطینیوں کے لیے اپنی سرزمین پر ایک ریاست قائم کر سکتی ہے، کیونکہ ان کے پاس کافی زمین ہے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ آیا سعودی عرب سے تعلقات کے لیے فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے، تو انہوں نے اس امکان کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
نیتن یاہو نے مزید کہا کہ "7 اکتوبر کے بعد فلسطینی ریاست کا کوئی تصور نہیں بنتا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کیا تھا؟ ایک فلسطینی ریاست تھی، جسے غزہ کہا جاتا تھا، جہاں حماس کی حکومت قائم تھی۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔" انہوں نے دوبارہ زور دے کر کہا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے لیے کسی طور قابل قبول نہیں۔
سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بینجمن نیتن یاہو کے اس بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات اسی وقت ممکن ہوں گے جب فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا۔ سعودی حکومت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقوق اور ایک خودمختار ریاست کے قیام کی حمایت کرتی رہے گی۔
نیتن یاہو نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان امن ممکن ہی نہیں، بلکہ یہ جلد ہی حقیقت بننے جا رہا ہے۔" تاہم سعودی عرب کی جانب سے ان کے بیان کو سختی سے مسترد کیے جانے کے بعد اسرائیل کے اس دعوے پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
دوسری جانب، مصر نے بھی اسرائیلی وزیراعظم کے بیان کی شدید مذمت کی ہے اور اسے غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ مصری وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ نیتن یاہو کی یہ تجویز سعودی عرب کی خودمختاری پر براہ راست حملہ ہے اور مصر سعودی عرب کی سلامتی کو اپنی "سرخ لکیر" سمجھتا ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نیتن یاہو امریکہ کے دورے پر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، یہ کسی بھی غیر ملکی رہنما کا سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں پہلا سرکاری دورہ ہے۔ اس دوران نیتن یاہو نے ٹرمپ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی، جہاں ٹرمپ نے غزہ پر اسرائیلی قبضے کے حق میں بیان دیا تھا۔