Sohail Shuja
Chief Minister (5k+ posts)
عمران خان کی سیاست تب شروع ہوئی جب نواز شریف کی حکومت کا ۱۹۹۸ میں آخری دور چل رہا تھا۔ نوازشریف کے ۱۹۹۹ میں جانے کے بعد مشرّف جب آیا تو اس نے بھی عمران خان کے سیاسی جسّے کو بھانپ لیا۔ اس نے اس وقت اسکو بھی عمومی سیاستدان سمجھتے ہوئے اپنی جانب متوجّہ کیا، لیکن خان سر پھرا آدمی، گھر پر آئی کو واپس بھجوا بیٹھا۔ ورنہ شائد ۲۰۰۸ میں مشرّف کو بھی این آر او نہ کرنا پڑتا، اور عمران خان کو وہ پہلے ہی وزیر اعظم بنوا چکا ہوتا۔
لیکن خان کٹھ پتلی نہیں بننا چاہتا تھا۔ وہ دس سال اس نے اپنی ضد کی نظر کر دیئے۔ لیکن پھر سال ۲۰۱۳ تک اسے کچھ لوگوں کی ایسی سپورٹ حاصل ہوگئی جو کہ مشرّف کے ساتھ تھے اور اس کے جانے کے بعد یہ خود کو سیاسی یتیم تصوّر کرنا شروع ہوگئے تھے۔ کچھ لوگ جب ساتھ مل گئے تو پارٹی کا حجم بھی بڑھا، سیٹیں بھی زیادہ ہوگئیں اور آواز بھی بلند ہوگئی۔
لیکن پھر بھی، یہ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ زرداری اور نواز جیسے شاطر ذہنوں اور دہائیوں سے اس سسٹم کو اپنی مرضی کی حساب سے چلانے والوں کے آگے اس دیوانے کا کوئی مستقبل ہوگا۔
مگر دیوانے کے خوابوں کو پھر سے ایک غیبی سہارا مل گیا۔ ۲۰۱۶ میں کائنات نے شریفوں کے خلاف ایک سازش کی، خلائی مخلوق نے اس سازش کے تانے بانے جوڑے اور نواز شریف پنامہ پیپرز کی زد میں ایسا آیا کہ بڑی سے بڑی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اسے نہ بچا سکی۔ ساتھ ہی زرداری کے اوپر بھی نظریں جما دی گئیں۔ لوگ قدرت کی طرف سے کرپشن کے ناسور پر اپنی توّجہ مرکوز کر کے بیٹھ گئے۔ دیوانے کے خواب کو ایک سہارا مل ہی گیا۔
خان کی ۲۰۱۳ کی کامیابیوں کے بعد۔ لوگوں کو یہ اندازہ تو ہوگیا تھا کہ اگلی مرتبہ اگر خان حکومت نہ بھی بنا سکا، تو کم از کم اپوزیشن ضرور اچھی بنالے گا۔ اسلیئے کچھ اور مطلب پرست بھی اس جھنڈے کے سائے تلے جمع ہوگئے۔ خان کی گاڑی کا پیٹرول، اسکے کھانے، رہنے اور چلنے کا بندوبست اپنے مقاصد کے لیئے کرتے گئے۔
لیکن جب عمران خان کی حکومت آخر کار ۲۰۱۸ میں بن ہی گئی، تو اس گروپ نے عمران خان کو اپنی وفاوٗں کے واسطے دیئے، اپنی نیّتوں کا یقین دلایا اور اس کی آنکھ بچا کر اپنے سیاسی کاروبار کی دکان کھول لی۔
ان کے خیال کے مطابق، وہ عمران خان کو سیاست میں کامیابی تک لے کر پہنچے۔ بہت سے لوگ اپنے ایسا سمجھنے میں غلط بھی نہیں۔ اگر انکا پیسہ، تعلقات اور ذہن اسوقت عمران خان کے ساتھ نہ ہوتا، تو بہت سارے کام شاید نہ ہوپاتے۔ لیکن یہی لوگ شائد یہ سمجھ نہیں سکے کہ انھیں خود عمران خان کی اتنی ضرورت ہے جتنی شائد عمران خان کو انکی نہیں۔
سر پھرے نے یہ سودا کر تو لیا تھا، لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ یہ چالاک لوگ خود اسکے جلائے چراغ کے نیچے ہی اندھیرا کرنا شروع کردیں گے۔ سرپھرا تو پھر سر پھرا ہی ہوتا ہے۔ اب ڈنڈا لے کر پہلے اپنی منجی کے نیچے پھیرنا شروع کردی ہے اور یہ تمام چالاک لوگ اب ڈنڈے کھاتے ہی اس کی چارپائی کے پائے ہلانے پر آگئے ہیں۔ یہ ہماری قومی بدقستی ہے کہ جب کوئی ہم سے آگے نکلنے لگتا ہے تو ہم بجائے خود محنت کر کے اس سے آگے نکلنے سے زیادہ دماغ لگا کر اپنے سے آگے جانے والے کی ٹانگ کھینچ کر گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہماری قومی جبّلت اور کردار ہے۔
لیکن یہ چالاک یہ نہیں جانتے کہ یہ چارپائی جس دن گری، تو خان ان کے اوپر ہی آکر گرے گا، یہ خان کے اوپر نہیں گریں گے۔ سرپھرا تو سر پھرا ہے۔ اب جب عوام یہ دیکھ رہی ہے کہ یہ سرپھرا ان کے لیئے اپنی منجی کے نیچے بھی ڈانگ پھیرنے سے گریز نہیں کر رہا، تو یہ عوام بھی سرپھری ہوتی جارہی ہے۔ باقی یہ چالاک پارٹی، ابھی تک سمجھ رہی ہے کہ اگر یہ خان کی گاڑی میں پیٹرول نہیں ڈلوائیں گے تو اگلے الیکشن میں یہ گاڑی نہیں چلے گی۔
لیکن شائد یہ بھول گئے ہیں کہ کائنات کے بھی کچھ اصول ہیں، اور اس کا اپنا ایک پلان ہوتا ہے۔ یہ چالاک بھی ایک ایک کر کے نواز شریف اور زرداری کی طرح لوگوں کی آنکھوں کے آگے ایکسپوز ہوتے جارہے ہیں۔ اب یہ خود دیکھ لیں، کہ اگر یہ خان کو چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی کا رُخ کریں گے تو اپنا حال بھی انھی جیسا پائیں گے۔ اپنا پیسہ، جس سے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے خان کو لیڈر بنایا، یہ اس سے دوگناہ پیسہ بھی لے آئیں تو اگلے الیکشن میں خان کے پائنچے تک بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔
یہ اس بات کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ یہی پیسہ ان سے زیادہ نواز شریف اور زرداری لے کر بیٹھے ہیں، لیکن انکا پھر بھی ان سے برا ہی حال ہے
سر پھرے کا سودا پھر بھی منافع کا سودا ہی رہے گا۔ پہلے تو مجھے خود یہ لگتا تھا کہ اس مہنگائی، کرپشن اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے خان ڈلیور نہیں کرپائے گا اور لوگ اب کی مرتبہ خود سے فوج کی طرف دیکھیں گے یا پھر پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈال دیں گے۔ مگر اب جب سے یہ عمران خان کی اپنی چارپائی کے نیچے سے لوگوں کی چیاوٗں چیاوٗں سنائی دے رہی ہے، لوگوں کی سوچ واپس تبدیل ہونا شروع ہوگئی ہے۔
اگلے الیکشن میں اب یہ بات نظر آرہی ہے کہ عمران خان کی حکومت کو گرانا ان چالاکوں کے لیئے فائدے سے زیادہ نقصان کا سودا ہوگا۔انکا وہ حال ہوگا کہ نوز اور زرداری کی چھتری کے نیچے بھی جگہہ نہیں ملے گی... یہ خود اپنی سیاسی موت ایسے مریں گے کہ ان کی سیاسی قبر پر کوئی فاتحہ پڑھنے والا بھی نہیں ہوگا۔ سرپھرا پھر بھی میدان میں رہے گا۔ قدرت کا کیا معلوم، ایک سازش اور نہ تیّار کر رہی ہو؟
لیکن خان کٹھ پتلی نہیں بننا چاہتا تھا۔ وہ دس سال اس نے اپنی ضد کی نظر کر دیئے۔ لیکن پھر سال ۲۰۱۳ تک اسے کچھ لوگوں کی ایسی سپورٹ حاصل ہوگئی جو کہ مشرّف کے ساتھ تھے اور اس کے جانے کے بعد یہ خود کو سیاسی یتیم تصوّر کرنا شروع ہوگئے تھے۔ کچھ لوگ جب ساتھ مل گئے تو پارٹی کا حجم بھی بڑھا، سیٹیں بھی زیادہ ہوگئیں اور آواز بھی بلند ہوگئی۔
لیکن پھر بھی، یہ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ زرداری اور نواز جیسے شاطر ذہنوں اور دہائیوں سے اس سسٹم کو اپنی مرضی کی حساب سے چلانے والوں کے آگے اس دیوانے کا کوئی مستقبل ہوگا۔
مگر دیوانے کے خوابوں کو پھر سے ایک غیبی سہارا مل گیا۔ ۲۰۱۶ میں کائنات نے شریفوں کے خلاف ایک سازش کی، خلائی مخلوق نے اس سازش کے تانے بانے جوڑے اور نواز شریف پنامہ پیپرز کی زد میں ایسا آیا کہ بڑی سے بڑی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اسے نہ بچا سکی۔ ساتھ ہی زرداری کے اوپر بھی نظریں جما دی گئیں۔ لوگ قدرت کی طرف سے کرپشن کے ناسور پر اپنی توّجہ مرکوز کر کے بیٹھ گئے۔ دیوانے کے خواب کو ایک سہارا مل ہی گیا۔
خان کی ۲۰۱۳ کی کامیابیوں کے بعد۔ لوگوں کو یہ اندازہ تو ہوگیا تھا کہ اگلی مرتبہ اگر خان حکومت نہ بھی بنا سکا، تو کم از کم اپوزیشن ضرور اچھی بنالے گا۔ اسلیئے کچھ اور مطلب پرست بھی اس جھنڈے کے سائے تلے جمع ہوگئے۔ خان کی گاڑی کا پیٹرول، اسکے کھانے، رہنے اور چلنے کا بندوبست اپنے مقاصد کے لیئے کرتے گئے۔
لیکن جب عمران خان کی حکومت آخر کار ۲۰۱۸ میں بن ہی گئی، تو اس گروپ نے عمران خان کو اپنی وفاوٗں کے واسطے دیئے، اپنی نیّتوں کا یقین دلایا اور اس کی آنکھ بچا کر اپنے سیاسی کاروبار کی دکان کھول لی۔
ان کے خیال کے مطابق، وہ عمران خان کو سیاست میں کامیابی تک لے کر پہنچے۔ بہت سے لوگ اپنے ایسا سمجھنے میں غلط بھی نہیں۔ اگر انکا پیسہ، تعلقات اور ذہن اسوقت عمران خان کے ساتھ نہ ہوتا، تو بہت سارے کام شاید نہ ہوپاتے۔ لیکن یہی لوگ شائد یہ سمجھ نہیں سکے کہ انھیں خود عمران خان کی اتنی ضرورت ہے جتنی شائد عمران خان کو انکی نہیں۔
سر پھرے نے یہ سودا کر تو لیا تھا، لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ یہ چالاک لوگ خود اسکے جلائے چراغ کے نیچے ہی اندھیرا کرنا شروع کردیں گے۔ سرپھرا تو پھر سر پھرا ہی ہوتا ہے۔ اب ڈنڈا لے کر پہلے اپنی منجی کے نیچے پھیرنا شروع کردی ہے اور یہ تمام چالاک لوگ اب ڈنڈے کھاتے ہی اس کی چارپائی کے پائے ہلانے پر آگئے ہیں۔ یہ ہماری قومی بدقستی ہے کہ جب کوئی ہم سے آگے نکلنے لگتا ہے تو ہم بجائے خود محنت کر کے اس سے آگے نکلنے سے زیادہ دماغ لگا کر اپنے سے آگے جانے والے کی ٹانگ کھینچ کر گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہماری قومی جبّلت اور کردار ہے۔
لیکن یہ چالاک یہ نہیں جانتے کہ یہ چارپائی جس دن گری، تو خان ان کے اوپر ہی آکر گرے گا، یہ خان کے اوپر نہیں گریں گے۔ سرپھرا تو سر پھرا ہے۔ اب جب عوام یہ دیکھ رہی ہے کہ یہ سرپھرا ان کے لیئے اپنی منجی کے نیچے بھی ڈانگ پھیرنے سے گریز نہیں کر رہا، تو یہ عوام بھی سرپھری ہوتی جارہی ہے۔ باقی یہ چالاک پارٹی، ابھی تک سمجھ رہی ہے کہ اگر یہ خان کی گاڑی میں پیٹرول نہیں ڈلوائیں گے تو اگلے الیکشن میں یہ گاڑی نہیں چلے گی۔
لیکن شائد یہ بھول گئے ہیں کہ کائنات کے بھی کچھ اصول ہیں، اور اس کا اپنا ایک پلان ہوتا ہے۔ یہ چالاک بھی ایک ایک کر کے نواز شریف اور زرداری کی طرح لوگوں کی آنکھوں کے آگے ایکسپوز ہوتے جارہے ہیں۔ اب یہ خود دیکھ لیں، کہ اگر یہ خان کو چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی کا رُخ کریں گے تو اپنا حال بھی انھی جیسا پائیں گے۔ اپنا پیسہ، جس سے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے خان کو لیڈر بنایا، یہ اس سے دوگناہ پیسہ بھی لے آئیں تو اگلے الیکشن میں خان کے پائنچے تک بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔
یہ اس بات کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ یہی پیسہ ان سے زیادہ نواز شریف اور زرداری لے کر بیٹھے ہیں، لیکن انکا پھر بھی ان سے برا ہی حال ہے
سر پھرے کا سودا پھر بھی منافع کا سودا ہی رہے گا۔ پہلے تو مجھے خود یہ لگتا تھا کہ اس مہنگائی، کرپشن اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے خان ڈلیور نہیں کرپائے گا اور لوگ اب کی مرتبہ خود سے فوج کی طرف دیکھیں گے یا پھر پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈال دیں گے۔ مگر اب جب سے یہ عمران خان کی اپنی چارپائی کے نیچے سے لوگوں کی چیاوٗں چیاوٗں سنائی دے رہی ہے، لوگوں کی سوچ واپس تبدیل ہونا شروع ہوگئی ہے۔
اگلے الیکشن میں اب یہ بات نظر آرہی ہے کہ عمران خان کی حکومت کو گرانا ان چالاکوں کے لیئے فائدے سے زیادہ نقصان کا سودا ہوگا۔انکا وہ حال ہوگا کہ نوز اور زرداری کی چھتری کے نیچے بھی جگہہ نہیں ملے گی... یہ خود اپنی سیاسی موت ایسے مریں گے کہ ان کی سیاسی قبر پر کوئی فاتحہ پڑھنے والا بھی نہیں ہوگا۔ سرپھرا پھر بھی میدان میں رہے گا۔ قدرت کا کیا معلوم، ایک سازش اور نہ تیّار کر رہی ہو؟
Last edited: