سربجیت سنگھ دہشت گرد اور قاتل ہے

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
images


لاہور26جون 2012ء:
امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منورحسن نے صدر آصف زرداری کی طرف سے بھارتی دہشتگرد سربجیت سنگھ کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے کے بعد اسے رہا کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر آئین میں صدر کو سزائے موت معاف کرنے کا اختیار ہے بھی تو یہ غیر اسلامی ہے ۔ قاتل کو معاف کرنے کا اختیار صرف مقتول کے ورثا کو ہوتاہے ۔ سربجیت سنگھ بھارتی دہشتگرد ہے اور اس نے پاکستان میں بم دھماکے کر کے 14 پاکستانیوں کو شہید کیاہے ۔ اس کا جرم ثابت ہونے کے بعداسے پھانسی کی سزا ہو چکی تھی ۔ صدر آصف زرداری نے اس کی سزا معاف کر کے چودہ شہدا کے گھرانوں کے جذبات مجروح کیے ہیں ۔ بھارت نے ممبئی حملے کے ملزم اجمل قصاب کو بغیر ثبوت کے پکڑا اور عدالت نے اسے موت کی سزا سنا دی ۔پاکستانی حکومت نے اس کو کوئی قانونی امداد فراہم نہیں کی بلکہ بھارت جانے والی پاکستانی تفتیشی ٹیم کو بھی اجمل قصاب سے نہیں ملنے دیا گیا۔ ادھر بھارت کے لیے ہمارے حکمرانوں کے دلوں میں محبت کے زمزمے پھوٹ رہے ہیں ۔ صدر زرداری کا یہ فعل انتہائی قابل مذمت ہے ، پوری قوم کو اس پر احتجاج کرناچاہیے ۔
سید منورحسن نے کہا ہے کہ اس سے پہلے بھارتی را کے ایجنٹ کشمیر سنگھ کو حکومت رہا کر چکی ہے جس نے بارڈر پار کر تے ہی پاکستان کے منہ پر کالک مل دی کہ وہ جعلی طور پر مسلمان ہوا تھا اور وہ اب بھی را کا ایجنٹ ہے۔سید منورحسن نے کہاکہ بھارت ہندوستان میں ہونے والے دہشتگردی اور تخریب کاری کے واقعہ کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتاہے اور انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں سمیت اقلیتوں کا جینا حرام کر رکھاہے ۔ آئے روز مسلم کش فسادات میں ہزاروں معصوم مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتاہے اور مسلمانوں کو زندہ جلانے کے درجنوں واقعات عالمی میڈیا میں آ چکے ہیں ۔اقلیتوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ۔گوردواروں، گرجاگھروں مسجدوں اور لائبریریوں تک کو نذر آتش کر دیاجاتاہے ۔ بھارت نے نصف صدی سے زائد عرصہ سے کشمیر پر ناجائز قبضہ کر رکھاہے ۔ آٹھ لاکھ قابض بھارتی فو ج نے ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو شہید ، ہزاروں کو زخمی اور لاکھوں کو بے گھر کر دیا ہے ۔ مسلم کشی کے واقعات آئے روز کا معمول ہیں ۔ مسلمان خواتین کی آبروریزی اور نوجوانوں کو بلاوجہ پکڑ پکڑ کر انویسٹی گیشن سینٹروں میں اذیت اور تشدد کا نشانہ بنا کر عمربھر کے لیے معذور کر دیا جاتاہے ۔
سید منور حسن نے کہاکہ حکمران ممبئی حملوں اور سمجھوتہ ایکسپریس کے واقعات کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانے والے بھارت کی بالادستی قبول کر چکے ہیں اور پاکستان کو بھارت کی ایک طفیلی ریاست بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان سے بھارت جانے والے تاجروں اور سیاحوں کو پکڑ کر آئی ایس آئی کے ایجنٹ قرار دے کر سالہا سال بھارتی جیلوں میں بند رکھنے والے بھارت کے دہشتگرد جس نے بم دھماکوں اور چودہ بے گناہ پاکستانیوں کے قتل کا اعتراف کیا، کو معاف کرنا عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے متراد ف ہے ۔





 
Last edited:

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
ایوان صدرکی قلابازی


ایک اور حماقت یا نااہلی …گزشتہ منگل کو ایوان صدرکے ترجمان فرحت اللہ بابر نے تصدیق کی کہ بھارتی دہشت گرد سربجیت سنگھ کی سزائے موت کوعمرقیدمیں تبدیل کردیاگیاہے اورصدر زرداری کی طرف سے اس کی رہائی کے احکامات جاری ہوگئے ہیں۔ اس اثنا میں بھارتی حکام نے بھی اس ’’خیرسگالی‘‘ کاخیرمقدم کیا‘ وزیرخارجہ کرشنانے زرداری کاشکریہ بھی اداکرادیا‘ سربجیت کے گھرمیں شادیانے بجنے لگے۔ ٹی وی چینلزپرمبصرین نے تبصرے شروع کردیے اور سیاستدانوں کے بیانات بھی آنے لگے۔ لیکن رات 12 بجے کے بعد اچانک فرحت اللہ بابرنے قلابازی کھائی اورفرمایا کہ یہ سربجیت نہیں بلکہ سرجیت سنگھ ولدسچا سنگھ ہے جس کو معافی دی گئی ہے۔ یہ 1982ء میں جاسوسی کے الزام میں پکڑاگیاتھا اور 1985ء میں فوجی عدالت نے موت کی سزادی تھی ‘ فوج کے سربراہ نے رحم کی اپیل مستردکردی تھی تاہم 1989ء میں اس وقت کے صدرغلام اسحاق خان نے وزیراعظم بے نظیرکی سفارش پرسزائے موت کو عمرقیدمیں بدل دیاتھا۔ اس کی عمرقیدکی سزامکمل ہوچکی ہے۔ ایوان صدرکے ترجمان نے وضاحت کی کہ اس معاملے سے صدرزرداری کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تاہم جب سرجیت کی عمرقیدکی سزاپوری ہوگئی تو پھرمعافی کس بات کی دی جارہی ہے۔ ایک اخبارکے مطابق فرحت اللہ بابرنے بھارتی میڈیاپر سربجیت سنگھ کی رہائی کی بات کی ہے چنانچہ 7 بجے شام سے یہی خبرچلتی رہی اورپھر5 گھنٹے کے اندراندرمعاملہ متنازع ہوگیا۔ فرحت اللہ بابرکی قلابازی سے پہلے وفاقی سیکرٹری قانون یاسمین عباسی نے بی بی سی سے گفتگوکرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ 14 پاکستانیوں کے قاتل سربجیت سنگھ کو معافی کی سمری وزارت قانون نے ہی بھجوائی تھی جو ایوان صدر سے منظورہوکرآگئی ہے۔ اور یہ عمل درآمد کے لیے وزارت داخلہ کو بھجوادی گئی ہے۔ سربجیت سنگھ کی تمام اپیلیں مستردہونے کے بعد اسے مئی 2008ء میں پھانسی دی جانی تھی لیکن اس وقت پھر پیپلزپارٹی برسراقتدارآچکی تھی چنانچہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 3 مئی کو پھانسی کی سزاپرعمل درآمد رکوادیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ تماشاکیوں ہوا؟کیاوفاقی سیکرٹری قانون یاسمین عباسی کی نظرکمزورہے کہ انہیں سربجیت اور سرجیت کے نام میں فرق نظرنہیں آیا یا بات کچھ اور ہے۔ اگرصرف نام کا ابہام ہوتا تو وزارت قانون رہائی کے لیے سمری نہ بھجواتی کیونکہ سرجیت کی سزاتوگزشتہ ماہ مئی میں پوری ہوگئی تھی اور حکومت پنجاب نے عدالت عالیہ لاہورکو اس سے مطلع بھی کردیاتھا۔ علاوہ ازیں جس قیدی کی سزاپوری ہوجائے اس کی رہائی کے لیے ایوان صدرکو سمری بھجوانا‘ صدرکی منظوری لینا اور پھرسمری پرعمل کے لیے اسے وزارت داخلہ کوبھجوانا ایک احمقانہ حرکت ہی کہی جاسکتی ہے۔ چنانچہ یہ بالکل واضح ہے کہ وزارت قانون نے سرجیت سنگھ نہیں بلکہ سربجیت سنگھ کی رہائی کے لیے سمری تیارکرکے صدرزرداری کی منظوری لی تھی۔ اسی لیے ایک طرف یاسمین عباسی نے اور دوسری طرف صدارتی ترجمان نے اس کا اعلان کردیا۔ پھر صرف 5 گھنٹے بعد سربجیت سرجیت کیسے ہوگیا۔ اس کا جواب صدرزرداری اور ان کے قابل ترجمان فرحت اللہ بابرکسی وجہ سے نہیں دے سکتے تویاسمین عباسی سے ضرورطلب کرناچاہیے۔ بھارتی دہشت گردسربجیت سنگھ کا تعلق امرتسرکے ایک گائوں سے ہے۔ اس سنگین مذاق سے اس کے گھروالوں کو شدید اذیت پہنچائی گئی ہے۔ سربجیت بے شک ایک دہشت گرد اور 14 پاکستانیوں کا قاتل ہے جس کا وہ اعتراف بھی کرچکاہے لیکن اس میں اس لڑکی کا کیا قصورہے جو 1990ء میں اپنے باپ کی گرفتاری کے وقت محض ڈھائی سال کی تھی۔ اس نے تو محلے میں لڈوبھی بانٹ دیے ۔ نئے وزیراعظم راجا پرویزاشرف سے تو یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ جس معاملہ میں ان کی پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کا نام آرہاہو اس کے بارے میں وہ اپنی ماتحت سیکرٹری قانون سے باز پرس کرسکیں لیکن لگتا ایسا ہے کہ ساری تیاریاں دہشت گرد سربجیت سنگھ کی رہائی کے لیے تھیں لیکن جب کئی حلقوں سے بہت سخت ردعمل آیا تو فیصلہ واپس لے لیاگیامگربہت بھونڈے طریقے سے۔ لیکن اس دورحکومت میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ فرحت اللہ بابراوریاسمین عباسی کی سخن طرازی کی وجہ سے بھانڈا پھوٹ گیا ورنہ ممکن تھا کہ سربجیت کو خاموشی سے رہاکردیاجاتا اور وہ واہگہ کی سرحدپارکرکے فاتحانہ نعرہ لگاتا جس طرح بھارتی جاسوس کشمیرسنگھ نے کیاتھا۔ پرویزمشرف دورمیں انصاربرنی کی کوششوں سے اس بھارتی جاسوس کو بے گناہ قراردے کر رہاکرایاگیا تھا اور اس نے بھارت میں داخل ہوتے ہی فخریہ انکشاف کیا کہ ہاں‘ وہ جاسوس تھا اور پھر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتارہا۔ ایک خیال یہ ظاہرکیاجارہاہے کہ جب آصف علی زرداری اجمیرشریف جاتے ہوئے دہلی میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے ملے تھے تو اس وقت سربجیت سنگھ کا معاملہ طے پاگیاتھا۔ چنانچہ بھارتی حکومت نے 80 سالہ ضعیف پاکستانی سائنسدان ڈاکٹرخلیل چشتی کو ضمانت پر رہاکیا‘ اس شرط کے ساتھ کہ وہ پھرعدالت میں حاضری دیں گے۔ یہ معزز شخص جرم بے گناہی میں 20 سال تک بھارتی جیل میں پڑا رہا۔ اس کی ضعیفی پربھی کسی کو رحم نہیں آیا۔ امکان یہ ہے کہ ایوان صدر سے جاری ہونے والی اس غلطی کی جلدہی کوئی تاویل پیش کردی جائے گی۔ اعتبار اور اعتماد کی اس حکومت کو کوئی پروا بھی نہیں۔ سربراہ حکومت کی حیثیت سے کیا راجا صاحب اس پورے معاملے پر روشنی ڈالیں گے؟ بھارتی حکومت تو اب بھی اپنے دہشت گردکی رہائی کا مطالبہ کررہی ہے۔ دوسری طرف ابوجندل کے حوالے سے پاکستانی ریاست کو ممبئی حملے میں ملوث کیاجارہاہے۔ کیا یہی ہے امن کی نام نہاد آشا۔


 

Back
Top