سب کچھ ٹھیک ہے کا حکومتی دعویٰ درست نہیں: کشمیری اسٹوڈنٹ لیڈر

bigfoot

Minister (2k+ posts)
’جواہر لعل نہرو یونیورسٹی‘ کی اسٹوڈنٹ لیڈر اور جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کی رہنما، شہلا رشید نے کہا ہے کہ آئین کی دفعہ 370 کو ہٹا کر جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے حکومتی اقدام کو بھارتی عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا جائے گا۔

بقول ان کے ’’اس اقدام سے کشمیریوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے، جس کا مداوا اسی صورت ہو سکتا ہے جب کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کی جائے‘‘۔

انھوں نے یہ بات منگل کے روز بھارت کے دارالحکومت دہلی سے ’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ ’فیس بک لائیو‘ انٹرویو میں کہی، جس میں کشمیر کی تازہ صورت حال پر گفتگو کی گئی۔

شہلا رشید نے کہا کہ حکومت کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ ’سب کچھ ٹھیک ہے‘ اور ’لوگ خوش ہیں‘ یا پھر یہ کہ اس اقدام کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں سرمایہ کاری ہوگی اور خوش حالی آئے گی۔ بقول ان کے،’’اگر معاملہ اتنا ہی خوش کُن ہے تو اقدام کے نتیجے میں کشمیر بند کیوں پڑا ہے؟ وہاں عید پر بھی ماتمی ماحول کیوں برپہ ہے؟‘‘۔

انھوں نے کہا کہ ’’چار اگست سے کشمیر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، سیاسی قائدین قید کیے گئے ہیں اور مظاہرین کو پیلٹ گن کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کرفیو کس لیے لگایا گیا ہے؟ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون نظام کیوں بند کیا گیا ہے؟‘‘۔

عید کے اجتماعات سے متعلق سوال پر، شہلا رشید نے کہا کہ عید کی نماز کی اجازت صرف چھوٹی مقامی مساجد کی حد تک دی گئی جب کہ کہیں بھی کسی بھی جامع مسجد، مثلاً درگاہ حضرت بل میں نماز عید کی اجازت نہیں تھی۔
protest-demonstrations-held-in-indonesia-against-indian-army-killings-in-occupied-kashmir-1544962745-7153.jpg

اسٹوڈنٹ یونین رہنما نے کہا کہ ’’بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے نہ صرف کشمیریوں کے اعتماد کی دھجیاں اڑائی ہیں بلکہ ہمارے جمہوری اور انسانی حقوق صلب کیے ہیں‘‘۔

اس سوال پر کہ وفاقی اقدام پر کشمیری نوجوانوں کا رد عمل کیا ہے، انھوں نے کہا کہ ’’کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آگے کیا ہوگا، چونکہ سیاسی رہنماؤں کو قید کرکے تشدد اور اشعال انگیزی کو بڑھاوا دیا گیا ہے‘‘۔

بقول ان کے، ’’سیاستدانوں اور سرگرم کارکنان کے لیے صورت حال مشکل ہوتی جا رہی ہے‘‘۔

ایک اور سوال کے جواب میں آیا نوجوان کیا چاہتا ہے، شہلا رشید نے کہا کہ ’’ہم کشمیر کے لیے اپنے خصوصی درجے کی بحالی چاہتے ہیں‘‘۔

لائحہ عمل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’’احتجاج ایک جمہوری حق اور عمل ہے۔ لیکن، ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ نئی دہلی، کرناٹک، کرالہ میں تو احتجاجی مظاہرے ہو سکتے ہیں۔ لیکن، جموں و کشمیر میں احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلتی ہیں، اور پیلٹ گن کے چھَرے برسائے جاتے ہیں‘‘۔

 
Last edited by a moderator:

bigfoot

Minister (2k+ posts)
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی جنگ بندی لائن کے قریبی علاقے نکیال کے رہائشی نعمان نذیر نے بتایا کہ بھارتی کشمیر کی صورت حال کی وجہ سے ہماری عید بھی پریشانی میں گزری۔ اس بار تو لوگوں نے ایک دوسرے کو عید کی مبارک بھی نہیں دی۔
انہوں نے بتایا کہ عید سے ایک روز پہلے گولہ باری ہوئی تھی، جس کی وجہ سے عید کا دن بھی خوف اور پریشانی میں گزرا۔
سرحدی قصبے چکوٹھی کے محمد فاروق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہم خوف اور پریشانی کا شکار ہیں، کیونکہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ہم بنکر نہیں بنا سکے اور نہ حکومت کوئی مدد کر رہی ہے۔ گھر چھوڑ کر کہیں جا بھی نہیں سکتے، کیونکہ مظفرآباد اور ھٹیاں میں کرائے پر مکان لینا مشکل ہے۔
چکوٹھی کے 67 سال تاجر محمد بشیر اعوان کا کہنا ہے کہ صورت حال غیر یقینی ہے۔ کچھ پتا نہیں کہ کیا ہو گا۔
تاہم سرحد کے قریب آباد کئی صاحب حیثیت لوگوں نے خطرے کے پیش نظر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونا شروع کر دیا ہے۔
نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق وادی نیلم سے ہے، جہاں کئی ماہ کے وقفے کے بعد 30 جولائی کو دونوں ممالک کی فورسز کے درمیان گولہ باری کا تبادلہ ہوا تھا۔
اپنا گھر بار چھوڑ کر جانے والوں میں اکثریت ایسے خاندانوں کی ہے جن کے پاس مظفرآباد یا پاکستان کے مختلف شہروں میں ذاتی گھر یا رہائش کا بندوبست موجود ہے۔
وادی نیلم سے اسلام آباد جانے والے ایک خاندان کے سربراہ مدثر محمود نے بتایا کہ 30 جولائی کی گولہ باری سے وادی نیلم میں خطرہ بڑھ گیا ہے۔ جن لوگوں کے پاس دوسرے علاقوں میں گھر ہیں، وہ جا رہے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اس سال فروری میں بھارتی کشمیر کے علاقے پلوامہ میں سیکورٹی فورسز پر خود کش حملے کے بعد صورت حال جنگ کے انتہائی قریب پہنچ گئی تھی اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی سرحد کے اندر جا کر حملے بھی کیے تھے۔
اور اب نئی دہلی کی جانب سے 5 اگست کو کشمیر کی امتیازی حیثیت ختم کرتے ہوئے متنازعہ ریاست کو بھارت کا حصہ بنائے جانے کے بعد ایک بار پھر دونوں ہمسایہ ملکوں کے تعلقات سخت کشیدہ ہیں اور سرحدوں پر تناؤ بڑھ رہا ہے۔
 

bigfoot

Minister (2k+ posts)
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھارت پر زور دیا ہے کہ کشمیر میں کیے گئے اقدامات فوری طور پر واپس لیے جائیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، بھارت کی جانب سے کشمیر کی خودمختاری ختم کرنے کے بعد سے اب تک کشمیری لاک ڈاؤن کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

دوسری جانب حکومتی اتحادی جماعت کے ترجمان نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر میں حالات بہتر ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔

ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خود مختاری ختم کر کے اسے دو حصوں میں تقسیم کیے جانے کے بعد سے کشمیری عوام کو گھروں میں بند کر دیا گیا ہے اور کشمیری قیادت بھی نظر بند ہے۔

بیان کے مطابق، علاقے میں انٹرنیٹ، ٹیلی فون بند ہیں اور عید پر کشمیری مسلمانوں کے لیے مساجد بھی بند رہیں اور ان حالات میں لوگوں کے اپنے اہل خانہ سے رابطے نہیں ہو رہے ہیں جب کہ طبی سہولیات بھی ناکافی ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، بعض صحافیوں نے وادی میں بڑے پیمانے پر جھڑپوں اور مظاہروں کی رپورٹ دی ہے۔ لیکن، حکومت نے اس کی تردید کی ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق، کشمیر میں سرگرم کارکنوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ عوام کو دبانے کی بجائے بھارتی حکام کو انصاف سے کام لیتے ہوئے نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کا احتساب کرنا چاہیے بلکہ انسانیت مخالف قوانین کو ختم کرنا چاہیے۔

بی جے پی کی اتحاد جماعت کے رہنما اور ترجمان اجے کمار نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق پر تماشا کچھ عناصر کی سازش ہے، جو ناکام ہو گی۔

اجے کمار کے مطابق، کشمیر میں حالات بہتر ہونے میں کچھ وقت لگے اور ایسے میں انہوں نے عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔

’’انسانی حقوق کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن کشمیر میں موجودہ حالات کو نارمل ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا۔‘‘

بھارت نے کشمیر کی خودمختار حثیت کو ختم کرنے سے قبل وہاں بڑی تعداد میں فوج تعنیات کر دی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کشیمر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد عوام سے خطاب میں وادی میں عائد پابندیوں کا ذکر کیا تھا اور اس اقدام پر تنقید کرنے والوں سے کہا تھا کہ یہ فیصلہ ملک کے بہترین مفاد میں کیا گیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے بیان کے مطابق، کشمیر کی ملکیت پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع 1947 سے چلا آ رہا ہے اور کشمیر میں پاکستان کی حمایت سے جاری تحریکِ آزادی میں اب تک 50 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ حکام کو چاہیے کہ کشمیری قیادت کو رہا کرے۔ مواصلات پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں اور مبصرین اور صحافیوں کو وہاں رسائی دی جائے اور سیکورٹی حکام کو انسانی حقوق کا احترام کرنے کی ہدایت دی جائے۔
 

stargazer

Chief Minister (5k+ posts)
Stop these international gossip mongers from going to AK. All they will do is spread fear and fake news. Security concerns are high.
 

bigfoot

Minister (2k+ posts)
مقبوضہ کشمیر میں مسلسل نویں روز کرفیو برقرار ہے جہاں گھروں میں محصور کشمیری غذا اور ادویات سے محروم ہیں۔

5 اگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس لینے کے فیصلے کے بعد سے مقبوضہ وادی میں کرفیو لگادیا گیا تھا جس کے بعد سے لینڈ لائن، موبائل فون، انٹرنیٹ اور ٹی وی نشریات بھی بند ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق ہزاروں کشمیریوں نے عید الاضحیٰ کے موقع پر سڑکوں پر احتجاج کیا، مظاہروں کے دوران کشمیری عوام نے بھارت سے مقبوضہ وادی چھوڑنے کا مطالبہ کیا اور آزادی کے نعرے لگائے۔

مقبوضہ کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن کم از کم 15 اگست، بھارت کی آزادی کے دن تک جاری رہے گا۔

مزید پڑھیں: چین کا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور پاک-بھارت بڑھتی کشیدگی پر اظہارتشویش

مقبوضہ کشمیر کو نئی دہلی کے زیر انتظام لانے کے بھارتی اقدام کے بعد مقبوضہ وادی میں اس کی آبادکاری میں تبدیلی اور شناخت کھونے کا خوف پایا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ کشمیر میں دہائیوں سے بھارت کے خلاف بغاوت کی تحریک جاری ہے جس میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد کشمیری فوج ہلاک ہوچکے ہیں۔

بھارت اور پاکستان دونوں ممالک کشمیر کا دعویٰ کرتے ہیں جس کے لیے ان کے درمیان 2 جنگیں بھی لڑی جاچکی ہیں۔

1948 میں لڑی گئی پہلی جنگ کے بعد خطے کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا جبکہ وہاں کی عوام سے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ریفرنڈم کا وعدہ کیا گیا تھا جو کبھی پورا نہیں ہوا۔

اسلام آباد نے بھارت کے حالیہ اقدام کو غیر قانونی قرار دیا ہےا ور بدلے میں نئی دہلی سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع اور تجارت و ٹرین سروسز منسوخ کردی ہیں۔


پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت نے عید الاضحیٰ پر مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں کشمیریوں کی مذہبی آزادی پر قدغن لگائی گئی۔

دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ پابندیوں اور لاکھوں کشمیریوں کے بنیادی مذہبی حقوق پر قدغن سے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی سگین خلاف ورزی کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر میں رابطوں پر پابندی: غلط معلومات کا نیا محاذ کھل گیا

ان کا کہنا تھا کہ 'مقبوضہ وادی فوجی جیل بن گیا ہے جہاں کشمیریوں کو سری نگر کے تاریخی جامعہ مسجد میں عید کی نماز پڑھنے سے روکا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیلی فون، لینڈ لائن اور سیلولر و انٹرنیٹ سروسز کی گزشتہ ایک ہفتے سے بندش سے کشمیریوں سے مذہبی تہوار کے موقع پر اپنے اہلخانہ اور اپنے پیاروں سے بات کرنے کا حق چھینا گیا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے و دیگر متعلقہ اداروں سے مذہب کے خلاف جرائم اور عالمی قوانین کی پاسداری نہ کرنے پر بھارت کا احتساب کرنے کا مطالبہ کرتا ہے'۔
 

Back
Top