ضمیردنیا میں سب سے قیمتی چیز
مظفر اعجاز
ٹی وی اورانٹرنیٹ کے اشتہاروں سے پتا چل رہاہے کہ کوئی ایسی جگہ ہے جہاں سب کچھ بکتاہے۔ جولوگ انٹرنیٹ سے واقف نہیں وہ تو اس جگہ کا پتا پوچھتے پھررہے ہیں لیکن جولوگ جانتے ہیں وہ مطلوبہ شے کی خریداری اورقیمتی چیزکی فروخت کے چکرمیں ہیں۔ پاکستان میں سرکاراورکارسرکارمیں مداخلت ایساجرم ہے کہ اس کوکوئی معاف نہیں کرتا۔ خواہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں۔ لہٰذا ہم بھی کسی کو نہیں چھیڑتے ۔ بس جوں ہی سربجیت سنگھ کی سزائے موت ختم کرنے اور رہائی کے حکم کی خبرسامنے آئی تو بے اختیاریہ خیال آیا کہ اسلام آباد ہی او ایل ایکسہےجہاں ہرچیزبک جاتی ہے۔ قائد اعظم نے کسی زمانے میں سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ ’’آپ کاضمیردنیا میں سب سے قیمتی چیزہے‘‘۔ چنانچہ سرکاری ملازمین اورافسران نے کم تنخواہ اور زیادہ اختیارات کے مخمصے میں پھنس کر اپنی ضروریات کو عیاشی بناکریاعیاشی کو ضرورت بناکر ضمیربیچ ڈالا وہ دن اورآج کا دن اب تک سرکاری ملازمت حکومت‘ اسمبلیوں اور راہداریوںاقتدارکی غلام گردشوں میںگردش کرنے والے تمام لوگوں نے ضمیرکاسوداکرنا شروع کردیا۔ پتا نہیں اخبارات اوربڑھ بڑھ کر بریکنگ نیوز دینے والے ٹی وی چینلزدرست کہہ رہے تھے یاکئی گھنٹے بعد جاری کی جانے والی وضاحت درست تھی جو صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابرنے جاری کی اس سوال کو بھی اٹھارکھتے ہیں کہ 5 گھنٹے بعد سربجیت‘ سرجیت کیسے ہوگیا ۔ لیکن پاکستان کی حکومت نے جس طرح سرعام قتل کرنے والے ریمنڈڈیوس کو امریکا کے حوالے کیا اس کے علاوہ غیرقانونی طورپر پاکستان میں مقیم کئی امریکیوںکو بڑی آسانی کے ساتھ جانے دیاگیا ایبٹ آبادکے واقعہ پر چپ سادھ لی گئی اور سلالہ پرہنگامہ کھڑاکردیاگیا۔ امریکا نے ایک کے بعد دوسرا ڈرون بھیجنا شروع کردیا اور ڈرون حملوں کی قطارلگادی۔ سینکڑوں بے گناہ پاکستانی شہیدکردیے گئے۔ لیکن پتا نہیں کیا چیز بیچ دی گئی کہ ڈرون حملوں پرخاموش ہے اورسلالہ پرہنگامہ۔ منگل کو جب سربجیت کی رہائی کی خبرنشرہوئی تو جیو ٹی وی سے سربجیت سنگھ کے گھروالوں اس کی بہن کا انٹرویونشرکیاجانے لگا تھا۔ سربجیت نہیں تھا تو بھارت میں اس کی بہن سے جیو کا رابطہ اور اس کے تاثرات لینے کاکیاجوازتھا۔ اگرتاثرات لیے ہی جارہے تھے تو اس دھماکے کے متاثرین سے بھی لیے جاتے جس کا الزام سربجیت سنگھ پرہے۔ یہ پوچھا جاتا کہ فلاں صاحب آپ کے والد اس دھماکے میں شہیدہوئے تھے آپ کے کیا تاثرات ہیں اس کی رہائی پر یہ بھی پوچھا جاتاکہ جس شخص کے جوان بیٹے یا بھائی کو اس دھماکے میں شہیدکردیاگیااب اس کے لواحقین کس حال میں ہیں اور یہ خبرسن کرکیا گزری ہے۔ مگرایسا لگ رہاتھا کہ جیسے امن کی آشا پوری ہوگئی اورنراشاختم ہوئی۔ اچھا اسے بھی چھوڑیں سرجیت نے سزا مکمل کرلی اس لیے اسے رہاکردیاگیا۔ پھر معاملہ کواتنا اچھالنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جن لوگوں کی سزا مکمل ہوجاتی ہے وہ رہا ہوہی جاتے ہیں۔ یہ توبین الاقوامی معاملات تھے۔ اسمبلیوںکی رکنیت جعلی ڈگریاں وزارتوں کا حصول‘ سینیٹ کی رکنیت کے لیے الیکشن‘ سیٹوںکی جوڑ توڑ ‘ وزیراعظم کی حمایت امیدواربننا امیدواربٹھاناان سب چیزوں پر بھی توسودے بازی ہوئی ہے۔ اورایسی ہوئی ہے کہ ایک ایک سیٹ کروڑوں میں بکی ہے۔ میڈیا جو سب کی پگڑیاں اچھالتا تھا اس کے بڑے بڑے ناموںکا یہ حال ہواہے کہ کسی نے سب کی قیمت لگادی نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے تحریک انصاف ہے۔ اسے صحافیوں پرکیچڑاچھالنے سے فرصت نہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ پیچھے کون ہے سوال یہ ہے کہ کیا سب کچھ بک گیاہے۔ ہم پاکستان میں ہیں یا او ایل ایکس میں۔ کہ پیدا ہونے والابچہ بھی کہتاہے …بیچ دے…