
گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے بیان حلفی کیس میں اپنے اوپر عائد فرد جرم چیلنج کر دی ہے۔ رانا شمیم کی جانب سے فرد جرم کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی گئی۔
رانا شمیم کی جانب سے دائر اپیل میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ انصار عباسی کو ٹرائل سے نکال کر کیسے پتا چلے گا انہیں بیان حلفی کیسے ملا؟ جنہوں نے بیان حلفی چھاپا انہیں چھوڑ کر مجھ پر فرد جرم لگانا غیر قانونی ہے، فرد جرم عائد کرنے کا حکم نامہ کالعدم قرار دے کر کیس ختم کیا جائے، کچھ ریکارڈ پر نہیں کہ میں نے کسی کو بیان حلفی چھاپنے کیلئے دیا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 20 جنوری کو حلف نامے کے کیس میں رانا شمیم پر فرد جرم عائد کی تھی، جس میں سابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے ہائیکورٹ کے جج کو ہدایات جاری کی تھیں کہ 2018 کے عام انتخابات تک نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں قید رکھا جائے۔
انہوں نے اس حوالے سے ایک بیان حلفی ریکارڈ کرایا جس کو جنگ گروپ نے اپنے اخبارات میں شائع کیا اور ٹی وی پر نشر کیا لیکن عدالت نے کیس میں نامزد دو صحافیوں انصار عباسی ، عامر غوری اور میر شکیل الرحمان کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ مؤخر کردیا تھا۔
رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کردہ اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ سماعت کے دوران سنگل بینچ کے معزز جج نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہے بلکہ اس کی تحقیقات پر غور کیا جائے گا۔
وکیل نے مزید کہا کہ عدالتی احکامات جاری ہونے کے باوجود سماعت آگے بڑھانے کے بجائے درخواست گزار کے خلاف تحقیقات کے لیے فرد جرم عائد کردی گئی ہے۔ اپیل میں شریک مجرم کے خلاف الزامات مؤخر کرنے کو فوجداری قوانین کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے واضح طور پر کسی بھی فرد کو حلف نامہ دینے کے حوالے سے انکار کیا ہے۔
وکیل لطیف آفریدی نے یہ بھی کہا کہ رانا شمیم کے ریکارڈ میں ایسا کوئی ثبوت نہیں جس سے اخبار میں حلف نامہ سے متعلق خبر شائع ہونے یا اس کے لیک ہونے میں رانا شمیم کی شمولیت کی تصدیق ہوسکے۔ درخواست گزار پر لگائے گئے الزامات مفروضوں پر مبنی ہیں، معزز جج کا مفروضہ ہے کہ درخواست گزار نے حلف نامہ لیک کیا، پبلش کرنے کے لیے بانٹا۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کو نظر انداز کیا کہ خبر کی اشاعت کے لیے درخواست گزار نیت میں کوئی کینہ پروری نہیں تھی۔ رانا شمیم نے عدالت سے استدعاکی ہے کہ فرد جرم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی روکی جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سماعت کے دوران ان پر علیحدہ فرد جرم عائد کرنا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا آئین کے آرٹیکل 10 اے کے خلاف ہے۔ اپیل میں اس سے قبل جاری کیے گئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کا حوالہ دیا گیا جس میں عدالت نے کہا تھا کہ میڈیا کے مؤقف کا حوالہ دیا تھا کہ حلف نامے کی صورت میں دستاویزات شائع کرنا عوامی مفاد میں میڈیا کا فرض ہے چاہے اس کا موادغلط کی کیوں نہ ہو۔
اپیل میں کہا گیا کہ عدالت نے مشاہدہ کیا تھا کہ اگر یہ دلیل قبول کرلی جائے تو فریقین سمیت تمام ملزمان انصاف پر بالواسطہ اثر انداز ہوں گے۔ اپیل میں مزید کہا تھا کہ نیوز رپورٹ میں حلف نامے کے مندرجات شائع کیے گئے ہیں اگر یہ مندرجات شائع نہیں کیے جاتے تو مجھ پر توہین کا کوئی الزام عائد نہیں کیا جاتا۔