
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں وکلاء نے اہم نکات اٹھادیئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی قانونی ٹیم نے عمران خان کے خلاف قائم سائفر کیس میں اہم قانونی نکات اٹھادیئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں ضمانت کی درخواست میں دلائل دیتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے اہم نکتہ اٹھایا اور کہا کہ حکومت نے ریٹینشن آف سائفر کا مقدمہ بنایا ہے اگر ریٹینشن آف سائفر کا مقدمہ عمران خان صاحب پر بن سکتا ہے تو شہباز شریف پر کیوں نہیں بن سکتا، عمران خان کے پاس سائفر 33 دن کیلئے رہا جبکہ یہی سائفر شہباز شریف کے پاس169 دن رہا، اس دوران قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگز بھی ہوئیں تب سائفر کہاں تھا؟
https://twitter.com/x/status/1712459041900011796
پاکستان تحریک انصاف کی قانونی ٹیم نے سائفر کیس میں دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ غیر قانونی حراست میں دیئے گئے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، الزام ہے کہ سابق وزیر اعظم سائفر کو اپنے ساتھ لے گئے ایسی صورتحال میں تو اس مقدمے کا مدعی اعظم خان کو ہونا چاہئیے تھا، 15 اگست کو وہ ملزم تھے لاپتہ ہوئے پھر یہ بیان آگیا۔
سلمان صفدر نے موقف اپنایا کہ اگر اعظم خان کو اس کرمنل ایکٹ کے حوالے سے علم تھا تو وہ اس کیس میں مدعی کیوں نہیں ہیں، ریکارڈ کی دیکھ بھال ان کے آفس کی ذمہ داری تھی، اعظم خان پر دھمکی اور پریشر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا یہ ڈاکومنٹری ثبوتوں کا کیس ہے، وہ دستاویزات کہاں ہیں۔
پی ٹٰی آئی کے وکیل نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ قانون صرف فوجیوں کے لیے ہے، یہ کیس وزارت خارجہ نے کیوں نہیں کیا،وزارت داخلہ اس کیس میں فریق کیسے ہو سکتا ہے ؟ یہ قانون دشمن کے ساتھ معلومات شیئر کرنے سے متعلق ہے،بدقسمتی سے اس قانون کو سیاسی مخالفین کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چالان کے ساتھ جو ڈاکومنٹ ہیں کیا سائفر کی کاپی اس کے ساتھ منسلک ہے، اسپیشل پراسیکیوٹر نےجواب دیا کہ چالان کے ساتھ سائفر کی کاپی نہیں لگ سکتی، سیکرٹ ڈاکومینٹ ہونے کی وجہ سے سائفر کو چالان کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاسکتا۔
عمران خان کی سائفر میں ضمانت کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے دوسرا اہم ترین نکتہ جو کہ بیرسٹر ابوذر سلمان نیازی کی طرف سے اٹھایا گیا کہ " چیئرمین پی ٹی آئی پر "ریٹینشن آف سائفر کا الزام" قانونی طور پر غلط ہے،کیونکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 میں ترمیم کے بعد اگست 2023 میں لفظ "ریٹینشن" کا اضافہ کیا گیا اور آئین کے آرٹیکل 12 کے پیش نظر یہ مبینہ ایکٹ میں اگست 2023 سے پہلے بنائے گئے کیسز پر لاگو ہی نہیں ہوتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے منسوب سائفر والا واقعہ مارچ-اپریل 2022 میں واقع ہوا۔" اور اگر اس نقطے کو مان لیا جائے تو کیس سرے سے ہی ختم ہو جائے گا۔
https://twitter.com/x/status/1712507229126226173
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/cyph11u1hh2.jpg