
اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ آصف نے ملک بھر میں قائم بحریہ ٹاؤنز اور ان کے بانی ملک ریاض کے اثاثوں کی قومی سطح پر تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ریاست نے 25 سال بعد ملک ریاض پر ہاتھ ڈال دیا ہے، اور اب ان کے بچنے کے امکانات نہایت محدود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب حالات ایسے بدل چکے ہیں کہ ملک ریاض کے لیے بچنے کا کوئی راستہ نہیں بچا، اور یہ خوش فہمی بھی نہ رکھی جائے کہ مستقبل میں کوئی سیاسی یا قانونی ریلیف حاصل ہوگا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ملک ریاض کے غیر قانونی اثاثوں اور سرگرمیوں پر اب کسی بھی فورم پر ان کے حق میں کوئی فیصلہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ پاکستان کا ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ موجود ہے، اور اس کے تحت ملک ریاض کو پاکستان واپس لا کر ان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ وقت گزر گیا جب ملک ریاض پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جو بھی پاکستانی بحریہ ٹاؤن کے منصوبے میں غیر قانونی طور پر پیسہ لگائے گا، اسے اپنے سرمائے کے ضیاع اور قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے میڈیا اور دیگر اداروں پر بھی شدید تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک ریاض کے جرائم میں میڈیا بھی برابر کا شریک رہا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں میڈیا مالکان اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے بجائے ایسے افراد کے حق میں خاموش رہتے ہیں جو انہیں مالی فائدے پہنچاتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ملک ریاض کے خلاف بات کرنے پر ماضی میں پابندیاں تھیں اور ان کے خلاف بیانات یا رپورٹس کو دبایا جاتا رہا، لیکن اب احتساب کا عمل وہاں تک بھی پہنچ چکا ہے جہاں پہلے کسی کا تصور بھی نہیں تھا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کے تحت ہونے والی ٹرانزیکشنز غیر قانونی ہیں، اور ان منصوبوں میں یتیموں، بیواؤں اور غریبوں کی زمینوں پر قبضے کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ملک ریاض نے اپنے کاروباری اثرورسوخ سے گزشتہ تین دہائیوں میں پورے پاکستان میں زمینیں خریدیں اور ان پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں قائم کیں، لیکن یہ سب کچھ قانونی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہوا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سارے معاملے میں کئی اہم شخصیات کے نام شامل ہیں جو پردے کے پیچھے ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران وزیر دفاع نے ایک پرانی ویڈیو کا ذکر کیا جس میں ملک ریاض کہتے ہیں کہ وہ پاکستان سے باہر کاروبار کرنا حرام سمجھتے ہیں۔ لیکن آج وہ دبئی میں بڑے پروجیکٹس لانچ کرنے پر فخر کرتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ یہ رویہ دولت کی ہوس کا عکاس ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگ اپنے بیانات اور دعووں سے کس طرح مکر جاتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں صحافت آزاد نہیں رہی، اور میڈیا مالکان کسی بھی ایسے کاروباری شخص کے خلاف بیانات نشر نہیں کرتے جن سے ان کے مفادات وابستہ ہوں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ صحافی حضرات پیکا قوانین پر تو احتجاج کرتے ہیں، لیکن میڈیا مالکان کے کردار پر کبھی سوال نہیں اٹھاتے۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو میڈیا میں سافٹ ٹارگٹ بنایا جاتا ہے، لیکن میڈیا مالکان کے مفادات کے خلاف جانے والے بیانات کو سنسر کردیا جاتا ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ملک ریاض کے خلاف موجودہ اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ریاست اب غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف سخت موقف اپنانے پر تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک ریاض کے معاملے پر 25 سال تک خاموشی کیوں رہی، اس پر بھی بحث ہونی چاہیے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ جب ملک ریاض کے غیر قانونی منصوبوں کے بارے میں انہوں نے سوالات اٹھائے تو انہیں سیاسی اور ادارہ جاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
خواجہ آصف نے پریس کانفرنس کے آخر میں اس بات پر زور دیا کہ ملک میں دوغلا پن ختم کیے بغیر جمہوریت اپنی اصل روح کے مطابق بحال نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ سیاست، صحافت اور عدلیہ میں موجود دوہرے معیار کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت تک مثبت تبدیلی ممکن نہیں جب تک ان مسائل کو دیانت داری سے حل نہ کیا جائے۔