Raja Farhan Arif
MPA (400+ posts)
آخری وقت اشاعت: منگل 2 جولائ 2013 ,* 12:46 GMT 17:46 PST
شدید ترین درجہ حرارت اور مسموم فضاء میں جب کوئی ذی حیات نہ بچ سکےگا تب بھی یہ زندک بچے رہیں گے
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کرۂ ارض پر سب سے آخر تک زندہ رہنے والے بہت ہی چھوٹے جاندار زمین کی تہہ میں بھی زندہ رہ سکیں گے۔
محقیقین نے اب سے اربوں برس کے بعد کے کرۂ ارض کی تقدیر کا اندازہ لگانے کے لیے کمپیوٹر ماڈل کا استعمال کیا ہے
انہیں معلوم ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ سورج کی تپش اور چمک بڑھتی جائے گی اور اس سخت ترین شمشی تبدیلیوں کو صرف نہایت چھوٹے جاندار برداشت کر پائیں گے۔
سکاٹ لینڈ میں یونیورسٹی آ*ف سینٹ اینڈریو کے جیک او مالے جیمز کا کہنا ہے ’اس وقت آکسیجن زيادہ موجود نہیں ہوگي تو انہیں زير زمین یا بغیر آ کسیجن کے ماحول، بہت زیادہ دباؤ اور سمندروں میں تبخیر کے سبب بہت زيادہ نمک
زدہ ماحول میں زندہ رہنے کے لائق بنانے کی ضرورت ہوگي‘۔
کرۂ ارض پر زندگي کا دار و مدار آفتاب پر منحصر ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ہی ہمارے ستارے زیادہ درخشاں ہوجائیں گے۔ سائنس دانوں نے زمین پر مستقبل کے ماحول کی پیشین گوئي کے لیے اسی حقیقت کا استعمال کیا ہے۔
ان کے مطابق ایک ارب سال بعد سورج کی گرمی اس قدر سخت ہوجائے گي کہ سمندر کا پانی بخارات بن کر اڑنے لگے گا۔
جیمز اس کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں ’جب آپ اس حد تک پہنچیں گے تو آپ کو فضاء میں بہت سارا پانی ملے گا اور چونکہ پانی کی بھاپ گرین ہاؤس گیس ہوتی ہے جو ان کے اثرات مرتب کرتی ہے اور بالآخر اس کا اثر اتنا ہوگا کہ روئے زمین پر درجۂ حرارت 100 ڈگری سیلسیز یا اس سے بھی زيادہ ہوجائے گا‘۔
"ان کے مطابق اس سے آکسیجن کی سطح بہت تیزی سے کم ہوگی جس سے بڑے پیمانے پر پیڑ، پودے اور جانور ختم ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اس کے بعد نہایت چھوٹے جاندار کا ایک گروپ، جسے ’ایکسٹریموفائلز‘ کہا جاتا ہے، وہی زندہ بچ سکے گا۔
نہایت چھوٹے جاندار نامی یہ جرثومے اب بھی پائے جاتے ہیں اور یہی اس وقت کے موسمی ماحول کو جھیلنے کی صلاحیت رکھ سکیں گے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہی وہ ذی حیات ہوگی جو اس وقت کی شدید گرمی اور زمین کے زہر آلود ماحول کو برداشت کر سکےگي۔
محقیقین کا ماننا ہے کہ یہ جرثومے ہی ممکنہ طور پر زمین کی گہرائي میں بچے پانی کے قطروں کے آس پاس چپکے ہوں گے۔
بالآخر جب حالات اور خراب ہوں گے تو وہ بھی فنا ہوجائیں گے اور تقریباً دو ارب اسّی کروڑ سالوں کے بعد کرۂ ارض حیات سے پوری طرح سے خالی ہوجائےگی۔
محقیقن کا کہنا ہے کہ روئے زمین پر حیات کی نشو نما اور اس کے خاتمے سے متعلق مطالعے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کسی دوسرے سیارے پر اس کے بعد زندگی ممکن ہوسکے گی۔

شدید ترین درجہ حرارت اور مسموم فضاء میں جب کوئی ذی حیات نہ بچ سکےگا تب بھی یہ زندک بچے رہیں گے
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کرۂ ارض پر سب سے آخر تک زندہ رہنے والے بہت ہی چھوٹے جاندار زمین کی تہہ میں بھی زندہ رہ سکیں گے۔
محقیقین نے اب سے اربوں برس کے بعد کے کرۂ ارض کی تقدیر کا اندازہ لگانے کے لیے کمپیوٹر ماڈل کا استعمال کیا ہے
انہیں معلوم ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ سورج کی تپش اور چمک بڑھتی جائے گی اور اس سخت ترین شمشی تبدیلیوں کو صرف نہایت چھوٹے جاندار برداشت کر پائیں گے۔
سکاٹ لینڈ میں یونیورسٹی آ*ف سینٹ اینڈریو کے جیک او مالے جیمز کا کہنا ہے ’اس وقت آکسیجن زيادہ موجود نہیں ہوگي تو انہیں زير زمین یا بغیر آ کسیجن کے ماحول، بہت زیادہ دباؤ اور سمندروں میں تبخیر کے سبب بہت زيادہ نمک
زدہ ماحول میں زندہ رہنے کے لائق بنانے کی ضرورت ہوگي‘۔
کرۂ ارض پر زندگي کا دار و مدار آفتاب پر منحصر ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ہی ہمارے ستارے زیادہ درخشاں ہوجائیں گے۔ سائنس دانوں نے زمین پر مستقبل کے ماحول کی پیشین گوئي کے لیے اسی حقیقت کا استعمال کیا ہے۔
ان کے مطابق ایک ارب سال بعد سورج کی گرمی اس قدر سخت ہوجائے گي کہ سمندر کا پانی بخارات بن کر اڑنے لگے گا۔
جیمز اس کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں ’جب آپ اس حد تک پہنچیں گے تو آپ کو فضاء میں بہت سارا پانی ملے گا اور چونکہ پانی کی بھاپ گرین ہاؤس گیس ہوتی ہے جو ان کے اثرات مرتب کرتی ہے اور بالآخر اس کا اثر اتنا ہوگا کہ روئے زمین پر درجۂ حرارت 100 ڈگری سیلسیز یا اس سے بھی زيادہ ہوجائے گا‘۔
"ان کے مطابق اس سے آکسیجن کی سطح بہت تیزی سے کم ہوگی جس سے بڑے پیمانے پر پیڑ، پودے اور جانور ختم ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اس کے بعد نہایت چھوٹے جاندار کا ایک گروپ، جسے ’ایکسٹریموفائلز‘ کہا جاتا ہے، وہی زندہ بچ سکے گا۔
نہایت چھوٹے جاندار نامی یہ جرثومے اب بھی پائے جاتے ہیں اور یہی اس وقت کے موسمی ماحول کو جھیلنے کی صلاحیت رکھ سکیں گے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہی وہ ذی حیات ہوگی جو اس وقت کی شدید گرمی اور زمین کے زہر آلود ماحول کو برداشت کر سکےگي۔
محقیقین کا ماننا ہے کہ یہ جرثومے ہی ممکنہ طور پر زمین کی گہرائي میں بچے پانی کے قطروں کے آس پاس چپکے ہوں گے۔
بالآخر جب حالات اور خراب ہوں گے تو وہ بھی فنا ہوجائیں گے اور تقریباً دو ارب اسّی کروڑ سالوں کے بعد کرۂ ارض حیات سے پوری طرح سے خالی ہوجائےگی۔
محقیقن کا کہنا ہے کہ روئے زمین پر حیات کی نشو نما اور اس کے خاتمے سے متعلق مطالعے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کسی دوسرے سیارے پر اس کے بعد زندگی ممکن ہوسکے گی۔
Last edited: