indigo
Siasat.pk - Blogger
رسول اللہ سے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ
Abu Yahya
پچھلے دنوں مجھ سے ایک روایت کے متعلق سوال کیا گیا جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہ کو ان کی کبر سنی کی بنا پر طلاق دینا چاہتے تھے۔ جب انہیں یہ معلوم ہوا تو انہوں نے اپنی باری سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو دے کر بنی کریم سے یہ درخواست کی کہ انہیں طلاق نہ دی جائے کیونکہ وہ روز قیامت اس شرف سے محروم نہیں ہونا چاہتیں۔
یہ روایت ہمارے ہاں بہت مشہور ہے۔ امام غزالی نے اسے کیمیائے سعادت میں نقل کردیا ہے۔اس لیے عام واعظین اسے بکثرت اس روایت کو بیان کرتے ہیں۔تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ اخلاق عالیہ کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ متوقع ہے کہ وہ ایک خاتون کو صرف اس وجہ سے طلاق دینا چاہیں گے کہ اس کی عمر زیادہ ہوگئی ہے۔ خاتون بھی وہ جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور اس وقت آپ کے بچوں کو سنبھالا جب ان کی دیکھ بھال کرنے والاکوئی نہیں تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بعض ضعیف روایات میں بیان توہوئی ہے، لیکن صحیح روایات میں اصل معاملہ کی صحیح تصویر سامنے آجاتی ہے ۔ وہ تصویر یہ ہے کہ حضرت سودہ نے اپنی کبر سنی کی بنا پر اپنی باری اپنی خوشی سے حضرت عائشہ کو دی تھی۔ظاہر ہے اپنی خوشی سے اپنی باری چھوڑدینا اعلیٰ درجہ کا ایثار ہے۔ اس کے برعکس ضعیف روایات میں بیان کردہ واقعہ کہ حضور ان کی عمر کی بنا پر انہیں چھوڑنا چاہتے تھے ، شان رسالت کے قطعاً خلاف ہے۔ جن لوگوں کے لیے زیادہ تحقیق کرنا ممکن نہیں وہ ابن کثیر میں سورہ نساء کی آیت 128کی تفسیر میں دونوں طرح کی روایات دیکھ سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے یہی وہ باتیں ہیں جنھیں لے کر مستشرقین پیغمبر اسلام کے خلاف بے ہودہ پروپیگنڈا کرتے ہیں اور آج انٹرنیٹ کے دور میں یہ چیزیں لوگوں تک پہنچ کر شکوک و شبہات کا ذریعہ بن رہی ہیں۔
یہ روایت ہمارے ہاں بہت مشہور ہے۔ امام غزالی نے اسے کیمیائے سعادت میں نقل کردیا ہے۔اس لیے عام واعظین اسے بکثرت اس روایت کو بیان کرتے ہیں۔تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ اخلاق عالیہ کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ متوقع ہے کہ وہ ایک خاتون کو صرف اس وجہ سے طلاق دینا چاہیں گے کہ اس کی عمر زیادہ ہوگئی ہے۔ خاتون بھی وہ جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور اس وقت آپ کے بچوں کو سنبھالا جب ان کی دیکھ بھال کرنے والاکوئی نہیں تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بعض ضعیف روایات میں بیان توہوئی ہے، لیکن صحیح روایات میں اصل معاملہ کی صحیح تصویر سامنے آجاتی ہے ۔ وہ تصویر یہ ہے کہ حضرت سودہ نے اپنی کبر سنی کی بنا پر اپنی باری اپنی خوشی سے حضرت عائشہ کو دی تھی۔ظاہر ہے اپنی خوشی سے اپنی باری چھوڑدینا اعلیٰ درجہ کا ایثار ہے۔ اس کے برعکس ضعیف روایات میں بیان کردہ واقعہ کہ حضور ان کی عمر کی بنا پر انہیں چھوڑنا چاہتے تھے ، شان رسالت کے قطعاً خلاف ہے۔ جن لوگوں کے لیے زیادہ تحقیق کرنا ممکن نہیں وہ ابن کثیر میں سورہ نساء کی آیت 128کی تفسیر میں دونوں طرح کی روایات دیکھ سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے یہی وہ باتیں ہیں جنھیں لے کر مستشرقین پیغمبر اسلام کے خلاف بے ہودہ پروپیگنڈا کرتے ہیں اور آج انٹرنیٹ کے دور میں یہ چیزیں لوگوں تک پہنچ کر شکوک و شبہات کا ذریعہ بن رہی ہیں۔