اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق کیسز میں دیئے گئے ریمارکس اور فیصلوں کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ اب چونکہ ایف آئی اے نے تحریری طور پر سینیٹر سیف اللہ کی گرفتاری کی تردید کر دی ہے تو جس نے بھی انہیں گرفتار یا اغوا کیا ہے اس نے توہین عدالت کی ہے۔
سینئر صحافی اور عدالتی کارروائی کو سمجھنے والے ماہرین کی یہی رائے ہے کہ ایسا عمل توہین عدالت ہوگا۔ ایف آئی اے کی جانب سے تردید آنے کے بعد عادل تنولی نے کہا ہے کہ سیف اللہ نیازی کو غلط جگہ سے گرفتار کر کے ایف آئی اے ایسی بوکھلائی کہ ڈبل بلنڈر کر گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریری طور پر گرفتاری کی تردید جاری کی مگر اُن کے باس وزیر داخلہ نے آن ریکارڈ تصدیق کر دی یہ ایف آئی اے کی ہی کارروائی ہے۔ اللہ اداروں کو نااہل ترجمانوں سے بچائے۔
معید پیرزادہ نے کہا کہ ایف آئی اے کہہ رہی ہے کہ ہم نے سیف اللہ نیازی کو گرفتار نہیں کیا جبکہ وزیرداخلہ گرفتاری کی تصدیق کر چکے تو پھر سیف نیازی کو پارلیمنٹ کی حدود سے کس نے گرفتار کیا۔
اس پر رضوان غلزئی نے کہا کہ اب جب وزیرداخلہ نے آن ریکارڈ تصدیق کردی ہے تو سوال یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایات کی خلاف ورزی کرنے پر ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ اسلام آبادہائیکورٹ نے کونسی ہدایت جاری کر رکھی ہے تو اس کا جواب سہیل راشد نے دیا کہ رکن پارلیمنٹ کی گرفتاری کیلئے چیئرمین سینیٹ یا اسپیکر کو پیشگی اطلاع اور جازت اسلام آباد ہائیکورٹ نے لازم قرار دے رکھی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شیریں مزاری کیس میں ایسا نہ ہونے پر کمیشن بنایا گیا تھا، توقع نہیں ایف آئی اے اس ایس او پی کیخلاف جائے گی، حقائق کی تصدیق چیئرمین سینیٹ ہی کر سکتے ہیں۔