
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق کیسز میں دیئے گئے ریمارکس اور فیصلوں کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ اب چونکہ ایف آئی اے نے تحریری طور پر سینیٹر سیف اللہ کی گرفتاری کی تردید کر دی ہے تو جس نے بھی انہیں گرفتار یا اغوا کیا ہے اس نے توہین عدالت کی ہے۔
سینئر صحافی اور عدالتی کارروائی کو سمجھنے والے ماہرین کی یہی رائے ہے کہ ایسا عمل توہین عدالت ہوگا۔ ایف آئی اے کی جانب سے تردید آنے کے بعد عادل تنولی نے کہا ہے کہ سیف اللہ نیازی کو غلط جگہ سے گرفتار کر کے ایف آئی اے ایسی بوکھلائی کہ ڈبل بلنڈر کر گئے۔
https://twitter.com/x/status/1578332339343863808
ان کا کہنا تھا کہ تحریری طور پر گرفتاری کی تردید جاری کی مگر اُن کے باس وزیر داخلہ نے آن ریکارڈ تصدیق کر دی یہ ایف آئی اے کی ہی کارروائی ہے۔ اللہ اداروں کو نااہل ترجمانوں سے بچائے۔
https://twitter.com/x/status/1578309199229906944
معید پیرزادہ نے کہا کہ ایف آئی اے کہہ رہی ہے کہ ہم نے سیف اللہ نیازی کو گرفتار نہیں کیا جبکہ وزیرداخلہ گرفتاری کی تصدیق کر چکے تو پھر سیف نیازی کو پارلیمنٹ کی حدود سے کس نے گرفتار کیا۔
https://twitter.com/x/status/1578356205080449024
اس پر رضوان غلزئی نے کہا کہ اب جب وزیرداخلہ نے آن ریکارڈ تصدیق کردی ہے تو سوال یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایات کی خلاف ورزی کرنے پر ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے؟
https://twitter.com/x/status/1578336081992638464
سوال یہ بھی ہے کہ اسلام آبادہائیکورٹ نے کونسی ہدایت جاری کر رکھی ہے تو اس کا جواب سہیل راشد نے دیا کہ رکن پارلیمنٹ کی گرفتاری کیلئے چیئرمین سینیٹ یا اسپیکر کو پیشگی اطلاع اور جازت اسلام آباد ہائیکورٹ نے لازم قرار دے رکھی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1578333828304621570
انہوں نے بتایا کہ شیریں مزاری کیس میں ایسا نہ ہونے پر کمیشن بنایا گیا تھا، توقع نہیں ایف آئی اے اس ایس او پی کیخلاف جائے گی، حقائق کی تصدیق چیئرمین سینیٹ ہی کر سکتے ہیں۔